زکوۃ کی ادائیگی اور غزوہ بدر کا بیان 

الحمد لله دائم الفضل والإحسان، ذي العطاء الواسع والامتنان. أحمده سبحانه على ما أنعم فأغنى وأقنى، وأشكره على آلائه التي تترى، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الإله الحق المعبود، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله صاحب المقام المحمود، اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وآله وصحبه.
سب تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو مسلسل فضل و احسان کرنے والا اور بہت زیادہ دینے والا ہے۔ اس کی گرانقدر اور مسلسل نعمتوں پر میں اس کی حمدہ بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہی معبود برحق اور وحدہ لا شریک ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جن کے لئے اس نے مقام محمود کا وعدہ فرمایا ہے، صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و سلم۔ اما بعد!
مسلمانو! اللہ تعالی سے ڈرو اور اس کے انعامات و عطیات پر زبان اور دل سے اور ارکان اسلام کی تعمیل کر کے شکر ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام فرمایا ہے۔ پاک روزی عطا کی ہے۔ ضرورتیں پوری کی ہیں۔ اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی ذلت سے محفوظ رکھا ہے۔ لہٰذا اس کی قدر و منزلت کو پہچانو اور ان بے پایاں نعمتوں کی شکر گذاری کرو۔ تاکہ ان نعمتوں کو تم پر برقرار رکھے اور مزید فضل و کرم سے نوازے ارشاد ہے:
﴿وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ۝۷﴾ (ابراہیم:7)
’’جب تمہارے پروردگار نے آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو یاد رکھو کہ میراعذاب بھی سخت ہے۔‘‘
اللہ کے بندو! شکر گزاری یہ ہے۔ کہ اللہ کے احکام کی تعمیل اور منہیات سے اجتناب کیا جائے غریبوں، محتاجوں اور ضرورتمندوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان پر شفقت و مہربانی کی جائے۔
برادران اسلام! اللہ تعالیٰ نے ہمیں جتنی بھی نعمتیں عطا کی ہیں۔ ہر نعمت کی شکر گذاری کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔ مال و دولت کی نعمت کی شکر گزاری یہ ہے۔ کہ جس طرح اللہ نے ہمارے ساتھ احسان کیا ہے۔ اسی طرح ہم بھی اللہ کے دوسرے بندوں کے ساتھ احسان کریں اور مال کا واجبی حق دیں، یعنی اس میں سے ضرورت پر خرچ کریں فرض زکوة دیں، تنگدست کی مدد کریں، مصیبت زدہ اور پریشان حال کی پریشانی دور کریں اس راستے میں جو مال خرچ کر دیا جائے وہی در حقیقت اپنا مال ہے۔ اور وہی بھر پور فائدہ دے گا چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(يقول العبد: مالي، مالي، وإنما له من ماله ثلاث: ما أكل فأفنٰي أو ليس فأبلى، أو أعطى فأقنى، وما سوى ذلك فهو ذاهب وتاركه للناس) [صحیح مسلم: کتاب الزھد (2959) ومسند احمد:368/2 (8821)]
’’یعنی انسان کہتا ہے۔ کہ یہ میرا مال ہے۔ یہ میرا مال ہے۔ حالانکہ اس کے حصہ کا مال صرف تین ہے: جو اس نے کھا کر ختم کر دیا گیا پہن کر پرانا کر دیا نیا دوسروں کو دے کر ذخیرہ (آخرت) بنا لیا اس کے علاوہ جو کچھ ہے۔ وہ ختم ہو جانے والا ہے۔ اور خود انسان بھی اسے دوسروں کے لئے چھوڑ کر چلا جانے والا ہے۔
اللہ کے بندو! زکوة دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ۝۵﴾ (البینۃ:5)
’’ان کو حکم میں ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کر میں یکسو ہو کر اور نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں اور یہی سچا دین ہے۔‘‘
زکوة کا فلسفہ یہ ہے۔ کہ اس کے ذریعہ مال کی صفائی ہوتی ہے۔ اس میں نمود برکت پیدا ہوتی ہے۔ وہ ضائع اور برباد ہونے سے محفوظ رہتا ہے، مزید بر آں دل بھی بخل و کنجوسی سے پاک و صاف ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بخل و کنجوسی سے نہایت پر زور انداز میں منع کرتے ہوئے فرمایا:
(إنما هلك من كان قبلكم بالشح، أمرهم بالبخل بالبخل فيخلوا وأمرهم بالقطيعة فقطعوا، وأمرهم بالفُجُورِ فَفَجَرُوا) [سنن ابی داود: کتاب الزكاة، باب في الشح (1489) و مسند احمد 195/2 (6852)]
’’تم سے پہلے لوگوں کو حرص و بخل نے ہلاک کر دیا اس نے انہیں بخیلی کا حکم دیا تو انہوں نے بخیلی کی، قطع رحمی کا حکم دیا تو قطع رحمی کی اور فسق و فجور کا حکم دیا تو فسق و فجور میں بھی مبتلا ہو گئے۔‘‘
اللہ تعالٰی نے مالداروں کے مال میں غریبوں کا حصہ مقرر کیا ہے۔ جسے زکوۃ کہا جاتا ہے۔ یہ اللہ رب العالمین کے یہاں زکوة دینے والے کے حصہ میں ذخیرہ ہے۔ جس میں بہت بڑا اجر و ثواب پوشیدہ ہے۔ ارشاد الہی ہے:
﴿اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ؕ وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌۙ۝۱۷﴾ (التغابن: 17)
’’اگر تم اللہ کو نیک قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دو چند دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور اللہ قدر شناسی اور بردبار ہے۔ زکوۃ کی ادائیگی محبت والفت کا باعث ہے، فقراء مالداروں سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اور ان سے بغض و حسد اور کینہ و رنجش دور ہو کر ان کی جگہ محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ مالدار زکوۃ ادا کر کے اپنا نفس بخل و کنجوسی سے پاک کر لیتا ہے۔ صلہ رحمی کرتا ہے۔ اور مسکینوں ہمسایوں سائلوں اور تنگدستوں کے حقوق پہنچانتا ہے، جس کی بنا پر سارے لوگ اس کے لئے خیر و سعادت کی دعا کرتے ہیں۔ اور اس کے مال ددولت سے اپنے دلوں میں کسی قسم کی تنگی اور رنجش نہیں رکھتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ پورا معاشر و الفت و محبت کا پیکر بن جاتا ہے۔
زکوة دین اسلام کے محاسن میں سے ہے۔ اس کے اندر مالدار کی بھلائی بھی ہے۔ اور غریب کا فائدہ بھی اس کے اندر ہر خاص و عام کا فائدہ پوشیدہ ہے۔ اور اسلام کی راہ میں پیش آنے والی حق کی دشواریوں پر تعاون بھی ملتا ہے۔ ‘ زکوۃ گذشتہ زمانوں میں اسلامی حکومتوں کے لئے سب سے بڑا سارا رہی ہے۔ اس مال کے ذریعہ لشکر اسلام کے لئے سامان جہاد تیار کیا جاتا، قرضوں اور تاوانوں کی ادائیگی ہوتی تالیف قلوب کے لئے کام آتا مسافروں کی مدد ہوتی مرد نہیں آزاد کی جاتیں اور فقراء و مساکین کی ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے زکوۃ ہم پر فرض کی لیکن اس کے مال کی تقسیم کی ذمہ داری خود لی فرمایا:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۶۰﴾ (التوبۃ:60)
’’صدقات (زکوة) مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے۔ اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے) یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں۔ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
اس آیت میں جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور کے لئے زکاۃ کا مال لینا جائز نہیں۔ نہ ہی اس غنی کے لئے یہ مال حلال ہے۔ جس کے پاس ضرورت کے مطابق مال ہو اور نہ اس توانا شخص کے لئے اس کا لینا درست ہے۔ جو بقدر کفاف اپنی روزی کمانے کی طاقت رکھتا ہو۔
لہٰذا رب العالمین کے حکم کی تعمیل میں اور اس کے عذاب سے بچنے کے لئے نیز اپنے مالوں میں اضافہ وبرکت کے لئے مال کی زکوۃ ادا کرو، صحیحین کی روایت ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
(ما من يوم يصبح العباد فيه إلا ملكان ينزلان، فيقول أحدهما: اللهم أعط منفقًا خلفًا، ويقول الآخر: اللهم أعط مُمسكا تلفاً) [صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب قول الله: فأما من أعطى واتقى… (1442) صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب في المنفق والممسك (1010)]
’’کوئی دن ایسا نہیں جس میں بندے صبح کرتے ہوں مگر دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے۔ کہ اے اللہ اخرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا کر اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کو بربادی سے دوچار کر۔‘‘
اللہ کے بندو! وہ سخت تکلیف اور حسرت کا مقام ہوتا ہے۔ جب آدمی اپنے اہل و عیال اور مال و اولاد سے جدا ہوتا ہے۔ اور تن تنہا قبر میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں سوائے عمل کے کوئی مونس و غمخوار اور ہم نشین ورفیق کار نہیں ہوتا اس وقت ندامت کوئی فائدہ دے گی نہ خدم و حشم عذاب الہی سے بچا سکیں گے:
﴿یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ۝۸۸ اِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ۝۸﴾ (الشعراء:88،89)
’’جس دن نہ مال ہی کچھ فائدہ دے سکے گا نہ بیٹے ہاں جو شخص اللہ کے پاس پاک دل لے کر آیا وہ بچ جائے گا)۔‘‘
وفات یافتہ اگر زکٰوۃ نہ دینے والوں میں سے ہے۔ تو اس موقع پر اس کے مال اور درہم و دینار ہی اس کے لئے سب سے زیادہ وبال جان ہوں گے اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں اسے مسلسل ڈستا اور عذاب دیتا رہے گا اور نہایت ہی بھیانک اور بدترین منظر ہو گا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی روایت ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من آتاه الله مالا فلم يود زكاته مثل له يوم القيامة شُجاعًا أقرع له زبيبتان، يطوقه يوم القيامة، ثم يأخذ بلهزميه- يعني: شدقيه – ثم يقول: أنا مالك، أنا كنرك، ثم تلا: ﴿وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ؕ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠۝۱۸۰﴾[صحیح بخاری: کتاب الزكاة، باب اثم مانع الزكاة (1403) و مسند احمد:355/2 (8669)]
’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دولت سے نوازا اور اس نے اس مال کی زکوۃ ادا نہ کی تو اس کا مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور وہ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا پھر اس کے دونوں جبڑے پکڑ کر کے گا میں تمہارا مال ہوں۔ میں تمہارا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ﴿ولا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ﴾ یعنی جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے، بخل کرتے ہیں۔ وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ یہ ان کے لئے برا ہے، قیامت کے دن اسی مال کا طوق بنا کر ان کی گردنوں میں ڈالا جائے گا اور آسمانوں اور زمین کا وارث اللہ ہی ہے۔ اور جو عمل تم کرتے ہو اللہ کو معلوم ہے۔
لہٰا اے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور اس کی شکر گزاری کیلئے نیز اس کے عذاب سے بچنے کے لئے اپنے مال کی زکوۃ ادا کرو۔ یہ زندگی چند روزہ ہے۔ یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔ اور آخرت کے مقابلہ میں دنیاوی مال و متاع کی کوئی حیثیت نہیں۔
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ۝۳۴
یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۝۳۵﴾ (التوبہ:34،35)
’’مومنو! اہل کتاب کے بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور ان کو اللہ کی براہ سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں۔ اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذاب الیم کی خوشخبری سنا دو جس دن وہ مال دوزخ کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے۔ جو تم نے اپنے لئے جمع کیا تھا، سو جو تم جمع کرتے تھے اس کا مزہ چکھو۔‘‘
نفعني الله وإياكم بالقرآن العظيم، وبهدي سيد المرسلين، أقول قولي هذا، وأستغفر الله لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب. فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم
خطبه ثانیه
الحمد لله على نعمه الوافرة، وآلائه المتكاثرة، أحمده سبحانه وأشكره على إحسانه العام، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له الملك العلام، وأشهد أن سيدنا محمداً عبده ورسوله سيد الأنام. اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد وعلى آله وصحبه.
سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ جو اس نے ہمیں بے پایاں اور مسلسل نعمتوں سے نوازا میں اس رب پاک کی حمد و ثنا بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں وہ پوری کائنات کا بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو تمام مخلوق کے سردار ہیں۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ کے آل و اصحاب پر درود و سلام نازل فرما۔ اما بعد!
لوگو! اللہ سے ڈرو اس کی نعمتوں کی شکر گذاری کرو اور ان افضل اوقات اور بابرکت راتوں کو غنیمت جانو رمضان کا آخری عشرہ سایہ فگن ہے۔ اس میں اعمال کا اجر و ثواب بے حساب ہے۔ اس میں رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے ایسے بے شمار بندوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ جو گناہوں میں ہلاکت کے قریب پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ اور کتنے خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں۔ جنہیں رب تعالیٰ کی بخشش و رضا حاصل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس آخری عشرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا میں خوب خوب عمل کرو جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو آپ اس کے لئے پورے طور پر تیار ہو جاتے اور اپنے اہل کو بھی بیدار فرماتے چنانچہ صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
(كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره. وأحيا ليله، وأيقظ أهله) [صحیح بخاری: کتاب فضل ليلة القدر، باب العمل في العشر الأواخر من رمضان (2024) و صحیح مسلم: کتاب الاعتکاف، باب الاجتهاد فی العشر الاواخر (1174)]
’’جب رمضان کا آخری عشرہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے لئے پورے طور پر مستعد ہو جاتے، رات جاگتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ اس لئے اس عشرہ میں خوب خوب تیاری کرو کیونکہ اس کے اندر ایک مبارک رات ہے۔ جسے لیلۃ القدرکہتے ہیں۔ یہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
(مَنْ قَامَ لَيلة القدر إيمانًا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه) [سیوطی نے اس حدیث پر صحت کا نشان لگایا ہے۔ ملاحظہ ہو – فیض القدیر 191/5 نیز یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی مروی ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری کتاب الایمان (25) کتاب الصوم (1901) کتاب فضل ليلة القدر (2014) و صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین (175)]
’’جس نے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے لیلۃ القدر کا قیام کیا (یعنی شب بیداری کی) تو اس کے گذشتہ سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی اللہ تعالی کی اس اہم نشانی اور عظیم ترین نعمت کو یاد کرو جس کے ذریعہ اس نے دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ممنون فرمایا تھا وہ اسی مہینہ کی سترہ تاریخ اور جمعہ کا مبارک دن ہے۔ جس میں غزوہ بدر پیش آیا جسے یوم الفرقان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جب لشکر اسلام اور لشکر کفر کے درمیان مقابلہ ہوا اور اس کے ذریعہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو عزت و سر بلندی عطا کی اور شرک کے پرستاروں کو ذلیل و رسوا کیا۔
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب بدر کی جانب نکلے اور سرداران قریش آپ سے قتال کرنے کے لئے آئے تو آپ نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا اس موقع پر مہاجرین نے مدد کرنے اور ہر طرح سے آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور آپ خاموش رہے، آپ کا اشارہ دراصل انصار کی جانب تھا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ انصار نے صرف اپنے دیار کے اندر مدد کرنے پر بیعت کی ہے۔ چنانچہ آپ کا اشارہ سمجھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ کی مراد انصار میں؟ قسم ہے۔ اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر آپ کا حکم ہو تو ہم سمندرمیں کود پڑیں اور اگر برک غماد تک چلنے کا حکم دیں تو اس کے لئے بھی تیار ہیں۔[دیکھئے صحیح مسلم: کتاب الجہاد، باب غزوة بدر (1779) و مسند احمد: 219/3 (13295)]
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ اے موسیٰ تم اور تمہارا رب جاؤ، دونوں لڑائی کرو ہم تو یہیں بیٹھتے ہیں۔ بلکہ ہم تو وہ ہیں۔ جو آپ کے دائیں ہو کر بھی لڑیں گے اور بائیں ہو کر بھی۔ آپ کے آگے سے بھی لڑیں گے اور پیچھے سے بھی۔
اس جواب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو انتہائی خوشی ہوئی۔[صحیح بخاری، کتاب المغازي، باب قول الله: إذ تستغيثون ربكم – (3952) و مسند احمد 390/1(3698)]

قتال کا عزم مصم فرمایا اور رمضان المبارک کی سترہویں رات جو جمعہ کی رات تھی، قیام و بیداری میں گذاری۔ نماز پڑھتے، اللہ سے روتے، دعا فرماتے دشمنان دین کے خلاف مدد طلب کرتے اور صرف اور صرف اس سے استفادہ و فریاد کرتے رہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین کی جانب سے آسمان سے مدد آئی اور فتح مبین حاصل ہوئی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّیْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ مُرْدِفِیْنَ۝۹ وَ مَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰی وَ لِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ۚ وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ۠۝۱۰﴾ (الانفال: 9،10)
’’جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی کہ ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے اور۔ اس مدد کو اللہ نے محض بشارت بنایا تھا اور تاکہ تمہارے دل اس سے اطمینان حاصل کریں اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے، بیشک اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
دوسری جانب ابلیس مشرکین کی قیادت کر رہا تھا وہ ان سے مدد کا وعدہ کرتا فتح کی امید دلاتا قتال پر ابھارتا اور نور الہی کو بجھانے اور اس کی توحید کو ملیا میٹ کر دینے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا۔ ابلیس مشرکین کے پاس سراقہ بن مالک کی شکل میں حاضر ہوا اس کا ہاتھ حارث بن ہشام کے ہاتھ میں تھا وہ اسے امید دلاتا رہا لیکن جیسے ہی فرشتوں کو دیکھا بھاگ کھڑا ہوا اور سمندر میں کود پڑا۔ روایات سے پتہ چلتا ہے۔ کہ شیطان یوم عرفہ سے زیادہ حقیر و ذلیل کبھی نہیں ہوا مگر اس وقت ہوا جب اس نے مقام بدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فرشتوں کی صف بندی کرتے دیکھا چنانچہ وہ دیکھتے ہی حارث بن ہشام کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر یہ کہتے ہوئے بھاگا کہ مجھے تم لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں، قرآن کریم نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
﴿وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْ ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰی عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ ؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠۝۴۸﴾ (الانفال: 48)
’’جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہ ہو گا اور میں تمہارا رفیق ہوں، لیکن جب دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں تو پسپا ہو کر چل دیا اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں، میں تو ایسی چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔