ضمیروں کے استعمال میں شرک کی وضاحت
644۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیﷺ کے سامنے خطبہ دیا اور (اس میں) کہا: (مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا فَقَدْ غَوٰى)) .
’’جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے تو یقینًا اس نے رشد و ہدایت پالی اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے تو یقینًا وہ بھٹک گیا۔‘‘
اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((بِئْسَ الْخَطِيبُ أَنتَ، قُلْ: وَمَنْ يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:870)
’’تو برا خطیب ہے۔ تم (پہلے حصے کی طرح یوں کہو: جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی (وہ گمراہ ہوا)۔
توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ جس طرح اطاعت کے لیے الگ الگ لفظ استعمال کیا ہے اسی طرح نافرمانی کے لیے بھی یہ کہو: جس نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نا فرمانی کی۔ یوں نہ کہو: ان دونوں کی نافرمانی کی۔
645۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس دن خیبر کی جنگ ہوئی…….تو رسول اللہﷺ
نے ابو طلحہ ﷺ کو حکم دیا اور انھوں نے اعلان کیا:
((إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ فَإِنَّهَا رِجْسٌ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:4199، ومُسْلِمٌ1940)
’’اللہ اور اس کا رسول تمھیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ پلید ہیں۔“
646۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثَلَاثُ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ أَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبُّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلهِ، وَأَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:16، 6941، وَمُسْلِمٌ:43)
’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جن میں وہ ہوں گی وہ ان کی بدولت ایمان کی لذت اور مٹھاس محسوس کرے گا: ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے تمام کائنات سے زیادہ محبوب اور پیارے ہوں۔ اور (دوسری یہ کہ جس شخص سے بھی وہ محبت رکھے محض اللہ کے لیے محبت رکھے۔ اور ( تیسری یہ کہ ) وہ کفر میں لوٹ جانے کو ایسا برا خیال کرے جیسا کہ آگ میں پھینکے جانے کو برا سمجھتا ہے۔‘‘
647۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب ( خطبے میں) تشہد پڑھتے تو کہتے:
((الْحَمْدُ لِلهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَرْسَلَهُ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَّنَذِيرًا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ، مَنْ يُّطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشَدَ، وَمَنْ يَّعْصِهِمَا، فَإِنَّهُ لَا يَضُرُّ إِلَّا نَفْسَهُ، وَلَا يَضُرُّ اللهَ شَيْئًا)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 3720،4115، وأبو داود:1097، 2119، وإسناده ضعيف لانقطاعه، فأبو عبيدة وهو ابن عبدالله بن مسعود رضی الله تعالی عنه لم يسمع من أبيه)
’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ہم اس سے مدد طلب کرتے اور اس سے بخشش مانگتے ہیں۔ اور ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بلا شبہ محمدﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں جنھیں اس نے حق کے ساتھ قیامت سے پہلے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا یقینًا وہ رشد و ہدایت پائے گا اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرے گا تو بلاشبہ وہ اپنے آپ ہی کو آپ ہی کو نقصان پہنچائے گا، اللہ تعالی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘
توضیح و فوائد: باب کی پہلی اور مذکورہ بالا احادیث میں بظاہر تضاد ہے۔ علماء نے ان کے مابین تطبیق کی مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ راجح قول یہ ہے کہ تثنیہ کی ضمیر لانا جائز ہے، جہاں تک آپ کسی نے اس خطیب کو برا خطیب کہا تو آپ ﷺ نے خاص حالات و واقعات کی بنا پر اسے برا قرار دیا کیونکہ اس کا انداز برابری والا تھا۔ آج بھی جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی برابری کا عقیدہ رکھ کر یہ انداز اختیار کرے، اس کے لیے تثنیہ کی ضمیر لانا منع ہے۔