عبادت الہی
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا۲۳ وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ۲۴ رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِكُمْ ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ كَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا ۲۵وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا۲۶ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ؕ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا۲۷ وَ اِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْهُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ لَّهُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا۲۸ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰی عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۲۹ اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۠۳۰ وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍ ؕ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْ ؕ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا۳۱ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا۳۲ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا۳۳ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ ۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا۳۴ وَ اَوْفُوا الْكَیْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَ زِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ؕ ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۳۵ وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا۳۶ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا۳۷ كُلُّ ذٰلِكَ كَانَ سَیِّئُهٗ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوْهًا۳۸ ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤی اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ؕ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا۳۹ اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنَاثًا ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠۴۰﴾ (اسراء : 23-40)
’’پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا۔ نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور محبت و عاجزی کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار! ان پر ویسے ہی رحم کرنا جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تو نیک ہے تو وہ رجوع کرنے والے کو بخشنے والا ہے رشتہ داروں کا مسکینوں کا مسافروں کا حق ادا کرو، اسراف و بے جا خرچی سے بچو۔ بے جا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تجھے ان میں سے منہ پھیر لینا پڑے اپنے رب کی اس رحمت کی جستجو میں جس کی تو امید رکھتا ہے تب بھی تجھے چاہیے کہ عمدگی اور نرمی سے انہیں سمجھا دے۔ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا مت رکھ۔ اور اسے بالکل ہی کھول دیا کر کہ پھر ملامت کیا ہوا اور پچھتایا ہوا بیٹھ جائے گا۔ یقینًا تیرا رب جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی۔ یقینًا وہ اپنے بندوں سے باخبر اور خوب دیکھنے والا ہے۔ مفلسی کے خوف سے تم اپنی اولا دکونہ مارڈالا کرو ان کو اور تم کو ہم بھی روزیاں دیتے ہیں۔ یقینًا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔ اور کسی جان کا جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے هرگز ناحق قتل نہ کرنا اور جو قتل کر دیا جائے مظلوم کی صورت میں۔ ہم نے ان کے وارثوں کو طاقت دے رکھی ہے ہیں۔ پس اسے چاہئے کہ مار ڈالنے میں زیادتی نہ کرے بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔ بجز اس طریقہ کے جو بہت ہی بہتر ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائیں۔ اور وعدے پورے کیا کرو کیونکہ قول وقرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔ اور جب ناپنے لگو بھر پور پیمانے سے ناپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو یہی بہتر ہے اور انجام میں بھی بہت اچھا ہے جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کے بارے میں پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔ زمین میں اکڑ کر نہ چلا کرو نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ ہی پہاڑوں تک پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کی برائی تیرے رب کے نزد یک سخت ناپسند ہے یہ بھی منجملہ اس وحی کے ہے جو تیری جانب تیرے رب نے حکمت سے اتاری ہے۔ تو خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنانا۔ کہ ملامت خوردہ اور راندہ درگاہ ہو کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ کیا بیٹوں کے لئے تو اللہ نے تمہیں چھانٹا اور خود اپنے لئے فرشتوں کو لڑ کیاں بنایا؟ بے شک تم بہت بڑا بول بول رہے ہو۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی نے عبادت الہی اور حقوق انسانی کی تعلیم دی ہے۔ اور یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ۔
(1) اپنے رب کی عبادت کرتے رہنا۔ (2) والدین کی خدمت کرتے رہنا۔
(3) صلہ رحمی کرتے رہنا۔ (4) غربا نوازی کرتے رہنا۔
(5) فضول خرچی سے ہمیشہ بچتے رہنا۔ (6) نہ بخل کرو نہ حد سے زیادہ سخاوت کرو۔
(7) بچوں کو قتل نہ کرو۔ (8) زنا و بد کاری ہرگز نه کرو۔
(9) کسی کو ناحق قتل نہ کرو۔ (10) یتیم کا مال ناجائز طریقے سے نہ لو۔
(11) عہد اور قول و قرار کو پورا کرو۔ (12) ناپ تول کو صحیح اور پورا تولا کرو۔
(13) بغیر علم کے کوئی بات نہ کہو۔ (14) تکبر اور غرور سے مت چلو۔
(15) اللہ تعالی کے ساتھ بھی کسی کو شریک نہ کرو۔
(16) اللہ تعالی کے لئے اولاد تسلیم نہ کرو۔
ان سولہ باتوں کی یہ ایک اجمالی فہرست ہے اب ہر ایک کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔ یہ سب باتیں مکارم اخلاق میں سے ہیں۔
(1) اللہ تعالی کے حقوق میں سے سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اسی کی عبادت کی جائے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کی عبادت پر زور دیا گیا ہے:
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ (الفاتحة: 4)
’’یعنی اے اللہ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
لغت میں عبادت، ذلت اور پستی کو کہتے ہیں طریق معبد اس راستے کو کہتے ہیں جو ذلیل ہو یعنی چلتے چلتے گھس گیا ہو اسی طرح ’’بعیر معبد‘‘ اس اونٹ کو کہتے ہیں جو مطیع وفرمانبردار ہو۔ شریعت میں عبادت محبت، خشوع، خضوع اور خوف کے مجموعے کو کہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی مخصوص عبادت اور فرمانبرداری کی جائے۔ یعنی اے خدا ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے ہی قوانین وضوابطہ کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور تجھ ہی سے عبادت و غیر عبادت میں مدد چاہتے ہیں۔
بعض سلف کا فرمان ہے کہ:
سارے قرآن کا راز سورہ فاتحہ ہے اور پوری سورہ فاتحہ کا راز اسی آیت ’’إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ میں ہے۔ اس آیت کے پہلے حصے میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور توحید کا اقرار ہے یعنی ’’لا اله الا اللہ‘‘ کا مضمون ہے اور دوسرے جملے میں اپنی طاقتوں اور قوتوں کا انکار ہے اور اپنی بے بسی کا اظہار ہے جو ’’لاحول ولا قوة الا بالله‘‘ کا مطلب ہے۔ یعنی اے خدا! بغیر تیری توفیق کے ہم میں کوئی طاقت وقوت نہیں ہے صرف تیری ہی امداد سے اور طاقت وقوت سے دین ودنیا کے کاموں کو انجام دے سکتے ہیں۔ اور اپنے تمام کاموں کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔
اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں۔ ہم چند آیتوں کو بیان کرتے ہیں آپ غور و تو جہ سے سنئے اور عمل کرنے کی کوشش کیجئے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَارَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ (هود: 123)
’’یعنی تم اللہ کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو تمہارے عملوں سے اللہ غافل نہیں ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا﴾ (المزمل: 9)
’’یعنی مشرق و مغرب کا رب اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تم اس کو اپنا کارساز سمجھو۔‘‘
یہی مضمون اس آیت ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحہ:1) میں ہے۔ سورہ فاتحہ کی اس آیت سے پہلی آیتوں میں خطاب نہیں تھا لیکن اس آیت میں اللہ تعالی سے خطاب کیا گیا ہے کہ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں جو نہایت لطیف مناسبت رکھتا ہے کیونکہ جب بندے نے اللہ کی تعریف اور ثناء بیان کی تو گویا قرب خداوندی میں حاضر ہو گیا۔ اور اللہ تعالی کے دربار میں پہنچ گیا اب اس مالک کو مخاطب کر کے اپنی ذلت و مسکینی کا اظہار کرنے لگا کہ خدایا! ہم تیرے ذلیل غلام ہیں اور اپنے تمام کاموں میں تیرے ہی محتاج ہیں۔
اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے تمام جملوں میں خبر تھی اللہ تعالی نے اپنی بہترین صفات پر اپنی ثناء آپ کی تھی اور بندوں کو اپنی ثناء ان ہی کے الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کا ارشاد فرمایا۔ اسی لئے اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو اس سورت کو نماز میں نہیں پڑھتا۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:
’’اس شخص کی نماز جو سورہ فاتحہ کو نہ پڑھے۔‘‘
اور مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو یعنی سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ لیا ہے۔ اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندوں کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے۔‘‘
جب بنده ﴿الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد اور تعریف بیان کی ہے جب بندہ ﴿ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ۲﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثناء کی ہے۔ جب وہ کہتا ہے۔ ﴿ مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ۳﴾ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ جب ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۴﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو مانگے۔ جب وہ آخر سورت تک پڑھتا ہے تو اللہ تعالی یہی فرماتا ہے کہ یہ بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو کچھ مانگے وہ اس کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ﴾ کے یہ معنی ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم خاص تیری ہی توحید مانتے ہیں تجھ ہی سے ڈرتے ہیں اور تیری ہی ذات سے امید رکھتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی نہ ہی تو ہم عبادت کریں، نہ ڈریں اور نہ امید رکھیں اور ﴿ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۴﴾ سے یہ مراد ہے کہ ہم تیری تمام اطاعت پر اور اپنے تمام کاموں میں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاذان، باب وجوب القراءة للامام و الماموم في الصلوة كلها، الحديث (756)
[2] مسلم: كتاب الصلٰوة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة (874)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ تم خالص اس کی عبادت کرو اور اپنے تمام کاموں میں اسی سے مدد مانگھو۔ ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ﴾ پہلے اس لئے لایا گیا ہے کہ اصل مقصود اللہ کی عبادت ہی ہے اور مدد طلب کرنا یہ عبادت کا وسیلہ اہتمام اور اس پختگی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زیادہ اہمیت والی چیز کو پہلے لایا جاتا ہے اور اس سے کم اہمیت والی چیز کو اس کے بعد لایا جاتا ہے۔
علامہ ابراہیم میر سیالکوٹی نے واضح البیان میں لکھا ہے۔
عبادت، عبادت کنندہ کے لحاظ سے تو نہایت درجے کی عاجزی ہوتی ہے لیکن اس میں معبود کی نہایت درجے کی تعظیم بھی ہوتی ہے۔ پس ہر امر اور ہر حالت جس سے یہ مفہوم ظاہر ہو کہ اس میں عابد کی نہایت درجے کی ذلت اور معبود کی نہایت درجے کی عزت و تنظیم پائی جائے وہ عبادت ہے اور یہ تین طرح پر ادا ہو سکتی ہے۔
اول: زبان سے جیسے حمد وثناء اور درود، وظیفہ اور دعاء وغیرہ۔
دوم: بدن سے جیسے سجدہ، نماز، روزہ، حج طواف وغیرہ۔
سوم: مال سے جیسے زکوۃ، صدقہ و خیرات، قربانی، نذرونیاز وغیرہ۔
یہ سب اقسام صرف اللہ تعالی کے لئے یعنی اس کی رضاء اور قربت حاصل کرنے کے لئے ادا کرنی چاہئے۔ ان میں کسی غیر کی شرکت جائز نہیں۔ ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ﴾ میں حصر کا مفاد یہی ہے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس کے یہ معنی منقول ہیں (نَعْبُدُكَ وَلَا نَعْبُدُغَيْرَكَ) یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں تیرے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتے۔
تشہد نماز میں جو وظیفہ آنحضرت ﷺ نے سکھایا ہے اس میں یہ سب اقسام خدائے تعالی نے مخصوص کر دیئے ہیں ’’التحیات‘‘ یعنی جملہ تحیات یعنی زبان کی حمد وثنا اور دردو وظائف ’’للہ‘‘ خاص خدا کے لئے ہیں۔ ’’وَ الصَّلَوات‘‘ اور تمام بدنی عبادت بھی مثلاً: نماز، حج اور سفر زیارت وغیرہ ’’وَالطَّيِّبَات‘‘ اور سب مالی صدقات و خیرات نذر و نیاز قربانی اور چڑھاوے بھی جو پاک مال سے دیئے جائیں اور سب خاص اللہ ہی کے لئے ہیں۔ ﴿وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ اور ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس میں بھی ایاک کو مقدم ذکر کیا کہ عبادت کی طرح استعانت بھی ذات باری سے مختص ثابت ہو اور ایاک کو اس لئے ذکر کیا کہ عبادت و استعانت ہر دو مقصود الذات ظاہر ہوں نیز اس لئے کہ یہ وقت خدا کے سامنے حاضری اور مناجات و خطاب کا ہے اور مقام حضور و مناجات صیغہ خطاب کو مکرر لانے میں متکلم کو لذت حاصل ہوتی ہے اور شوق و ذوق پڑھتا ہے حاصل یہ کہ نہ خدا کے سوا کسی کی عبادت جائز ہے اور نہ ان امور میں جو اس سے مخصوص ہیں کسی اور سے استعانت و استمداد ہی جائز ہے۔
اور عبادت کے بعد استعانت کے ذکر کی دو وجہیں ہیں:
اول یہ کہ مقام عبادت و عبودیت میں قائم ہونا اور اسے کما حقہ انجام دینا اللہ تعالی کی مددو توفیق کے سوا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نعبد کے بعد اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے کے لئے ’’نستعین‘‘ کہا۔
دوم – یہ کہ طلب مدد اور دعا بھی عبادت کی ایک قسم ہے اور امر عبادت میں نہایت مہتم بالشان ہے اس لئے اسے خصوصیت سے ذکر کیا چنانچہ حدیث میں وارد ہے۔ ’’الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ‘‘ یعنی دعا ہی عبادت ہے۔[1]
اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:
﴿ وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِیْنَ۠۶۰﴾ (مومن: 60)
’’تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو۔ قبول کروں گا۔ بے شک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب نہایت ذلت کی حالت میں جہنم میں پڑیں گے۔‘‘
اس آیت میں دعا کو عبادت کہا گیا ہے۔ دعاء کے عبادت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بندے کا تعلق قلبی خدا کے ساتھ اسی وقت درست و مضبوط ہوتا ہے جب وہ اپنی حاجات و مشکلات میں صرف اسی کی طرف رجوع کرے اور ہر نبی کی دعوت تھی۔
﴿يقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَا لَكُمْ مِّنَ اِلٰهٌ غَيْرُهُ﴾ (هود:61)
’’یعنی میرے بھائیو! تم خدا کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی سچا معبود نہیں۔‘‘
نیز تصریحًا فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا نُوْحِيْ إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الأنبياء: 25)
’’یعنی اسے پیغمبر! تجھ سے پیشتر ہم نے جو بھی پیغمبر بھیجا تھا ہم اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے ہیں کہ میرے سوا کوئی بھی معبود برحق نہیں۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: (276/9) ابو داؤد: كتاب الصلٰوة باب الدعاء: (1475)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبّتَّلْ إِلَيْهِ تبْتِيْلًا﴾ کا حکم اسی رابطہ کو قائم کرنے کے لئے ہے۔ یعنی اپنے پر وردگار کے اسم کا ذکر کر اور سب سے رشتہ توڑ کر اسی سے جوڑ۔ اور ﴿فَادْعُو اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ﴾ کی حقیقت یہی ہے یعنی اللہ تعالی سے دعا کرو خالص کرتے ہوئے واسطے اس کے دین۔ اس اختصاص حصر کے لئے کلمہ توحید میں تمام غیر اللہ کی نفی کر کے الوہیت کو صرف خدا کے لئے ثابت رکھا ہے چنانچہ فرمایا:
﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ﴾ ’’یعنی اے پیغمبر! تو یقین کر کہ خدا کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں‘‘
پس جب تک انسان تمام غیر اللہ سے رشتہ توڑ کر مقام الوہیت کو ذات حق سے مخصوص نہ کر دے اور تمام ان امور میں جو مختص بذات باری ہیں استمداد و استعانت اور استفادہ وفریاد خاص خدا تعالی سے نہ کرے وہ خدا کی منشاء کے مطابق خاص اس کا پرستار نہیں کہلا سکتا۔ اور آیت ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ۴﴾ کے دعوے میں سچا نہیں اتر سکتا۔
بعض لوگوں نے فرمایا کہ ﴿ اِیَّاكَ نَعْبُدُ ﴾ میں تواضع اور عاجزی ہے اور اپنی غلامیت کا اظہار ہے۔ عبدیت و غلامیت کا بڑا اونچا ہے۔ اللہ تعالی نے رسولوں کو عبدیت کے لقب سے یاد فرمایا ہے جیسے ﴿اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِيْ انْزَلَ عَلٰى عَبْدِهِ الْكِتَابَ﴾ ’’تعریف اس اللہ کی جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی۔‘‘ ﴿سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرٰى بِعَبْدِهِ﴾ ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کرائی وغیرہ‘‘
اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَقَضَى رَبُّكَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل:23)
’’تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘
اور دوسری آیت میں فرمایا:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۲۱ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً ۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۲۲ ﴾ (البقرة: 21-22)
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا اور آسمان کو چھت، اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی۔ خبر دار! باوجود جاننے کے خدا کے شریک مقرر نہ کرو۔‘‘
ان آیتوں میں اللہ تعالی نے اپنی توحید اور الوہیت کا بیان فرمایا ہے اور اپنے وجود کو بھی مدلل طریقے سے بندوں کے سمجھانے کے لئے ذکر فرمایا ہے کہ تم اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو عدم سے عالم وجود تک پہنچایا۔ اور تم سے پہلے بھی سب لوگوں کو پیدا کیا۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسماں کو چھت بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر ہر قسم کے پھل فروٹ اور کھانے پینے کی چیزیں عطا فرمائیں۔ لہٰذا تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ صرف اس کی عبادت کرو۔
اللہ تعالی کی عبادت عقلی و نقلی ہر حیثیت سے نہایت ضروری ہے کیونکہ ہم سب خدا کے غلام ہیں اور غلام پر فرض ہے کہ اپنے آقا کی خوشنودی کے مطابق اس کا کہا مانے۔ خدا کی عبادت اس لئے ضروری ہے کہ انسان مہد سے لحد تک ہر چیز میں محتاج ہے اور خدا کسی وقت کسی کا کسی چیز میں محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور ہر ضرورت کی چیز بھی پیدا کی کھانے پینے کی بھی، پہننے اوڑھنے کی بھی اور مرنے جینے کی بھی چیز پیدا کی۔ جسم بنایا، جان ڈالی اور شکم مادری سے پرورش شروع کی، پیٹ میں مناسب غذا دیتا رہا۔ پیدائش کے بعد خالص دودھ سے پرورش کرتا رہا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ درجہ کمال تک پہنچا دیا۔ اللہ تعالی نے کیا ہی خوب توجہ دلائی ہے۔
﴿وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ۱۲ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪۱۳ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ۱۴ ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَؕ۱۵ ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۱﴾ (المومنون: 12 تا 14)
’’ یقینًا ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے قطرہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دیدیا۔ پھر ہم نے قطرے کو جما ہوا خون بنا دیا۔ پھر اسے ہم نے گوشت کا ایک لوتھڑا کر دیا پھر اس کو ہم نے ہڈیاں پیدا کر دیں۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا۔ پھر ایک دوسری خلقت میں پیدا کر دیا۔ برکتوں والا ہے وہ خدا جو سب سے اچھی پیدائش کرنے والا ہے اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مر جانے والے ہو۔ پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے۔‘‘
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے اسی مضمون کو اس طرح سے ادا فرمایا ہے:
﴿قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَاۤ اَكْفَرَهٗؕ۱۷ مِنْ اَیِّ شَیْءٍ خَلَقَهٗؕ۱۸ مِنْ نُّطْفَةٍ ؕ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗۙ۱۹ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَهٗۙ۲۰ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ۲۱ ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗؕ۲۲ كَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَاۤ اَمَرَهٗؕ۲۳ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖۤۙ۲۴ اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّاۙ۲۵ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّاۙ۲۶ فَاَنْۢبَتْنَا فِیْهَا حَبًّاۙ۲۷ وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًاۙ۲۸ وَّ زَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاۙ۲۹ وَّ حَدَآىِٕقَ غُلْبًاۙ۳۰ وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ۳۱ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْؕ۳۲﴾ (عبس:17 تا 32)
’’خدا کی مار، انسان بھی کیسا ناشکرا ہے اسے خدا نے کس چیز سے پیدا کیا؟ ایک قطرے سے پیدا کیا۔ پھر اس کی تقدیر مقرر کی۔ پھر اس کے لئے راستہ آسان کر دیا۔ پھر اسے موت دی اور پھر قبر میں دفن کیا۔ پھر جب چاہے گا اسے زندہ کر دے گا ہرگز نہیں۔ اس نے اب تک خدا کے حکم کی بجا آوری نہیں کی۔ انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے کی طرف دیکھ لے کہ ہم نے بارش برسائی پھر زمین کو پھاڑ دیا۔ پھر اس میں سے اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجور اور گنجان باغات اور میوے اور گھاس چارہ بھی اگایا تمہارے استعمال وفائدے کے لئے اور تمہارے چوپاؤں کے لئے۔‘‘
یعنی انسان بڑا ہی ناشکرا ہے وہ اپنی حقیقت پر غور نہیں کرتا کہ وہ کس چیز سے بنا ہے اور نہ اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھتا ہے کہ کسی طرح سے اللہ تعالی نے ان چیزوں کو مہیا کیا ہے۔ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین سے بے شمار چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور ہر چیز سے انسان قائدہ اٹھاتا ہے۔
غذا ہر متنفس کے لئے حیات کا ذریعہ ہے غذا کے حاصل ہونے کے بعد انسان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ غذا کو حلق سے اتار لیں۔ مگر صرف اتنے سے غذا کا مقصد حاصل نہیں ہوتا اس کا ہضم کرنا، اس کا خون بنانا، خون کو گوشت پوست ہڈی پٹھے، بال، ناخن وغیرہ میں تبدیل کرنا اور ہر ایک عضو کو قوت پہنچانا۔ ان میں سے کوئی بھی آدمی کے ارادے سے نہیں ہوتا اور ان کاموں کے بغیر جسم کی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ ارادہ تو ارادہ۔ آدمی کو تو خبر نہیں ہوتی اور اندرونی قوتیں خدا کے حکم سے اپنی اپنی خدمتوں کی بجا آوری کرتی رہتی ہیں یہ تو ایک غذا کا حال ہے کہ قدرتی خدمتگاروں کے کام میں زمین میں بیج ڈالنے سے لے کر پینے تک کتنے آدمی اور کتنے جانور اس کو سر انجام دیتے ہیں تب کہیں جا کر لقمہ آدمی کے حلق تک پہنچتا ہے پھر غذا کے علاوہ اور کتنی ضرورتیں ہیں جو آدمی کے پیچھے لگی ہیں یا اس نے خود تکلف و آرائش کے لئے اپنے پیچھے لگا رکھی ہیں۔ سو فضول اور لایعنی چیزوں کے لئے تو آدمی کو تھوڑے بہت ہاتھ پاؤں ہلانے بھی پڑتے ہیں نہایت ضروری چیزیں خدا نے اپنی قدرت سے مہیا کر دی ہیں۔ مثلاً زندگی کی ضرورتوں میں سب سے ضروری چیز ہوا ہے کہ کوئی جاندار دو منٹ بھی سانس لئے بغیر زندہ نہیں رو سکتا۔ آدمی گھر میں ہو یا بازار میں کھلے میدان میں ہو یا پہاڑ پر، سانس لینے کے لئے ہوا ہر جگہ موجود ہے۔ دوسرے درجہ میں پانی ہے۔ اس لئے دریا اور نہریں ہیں۔ آسمان سے بھی بارش ہوتی ہے اور کہیں بھی زمین کو کھودو تو پانی نکل آتا ہے۔ کھانے کے لئے جنگل میں خود پھل فروٹ کی افراط ہے۔ ہاں پانی کی جگہ شربت کیوڑہ پیو اور پلاؤ زردے کھانا چاہو تو خدا سے یہ توقع نہ رکھو کہ جس طرح موسی علیہ السلام کے عہد میں بنی اسرائیل پر من و سلوٰی اترا کرتا تھا۔ بنا بنایا شربت اور پکا پکایا پلاؤ۔ آسمان سے برسے گا۔ خدا تعالی نے ﴿وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا﴾ سے تمہاری روزی کا ذمہ لے لیا ہے۔ ان تکلفات کا یعنی ضرورت کے لئے نہیں بلکہ تکلف کے لئے کچھ نہ کچھ تکلیف کرنی ہی پڑے گی۔
اے ذوق تکلف میں ہے تکلیف سراسر آرام سے وہ ہے جو تکلف نہیں کرتا
غرضیکہ اللہ تعالی نے آدمی کو ایک خاص طرح کا حاجت مند مخلوق پیدا کیا ہے تو اس کی ضرورتوں کا سامان بھی مہیا کر دیا ہے بہت کچھ اپنی قدرت سے اور کچھ یوں ہی سا برائے نام آدمی کے ابنائے جنس کے ذریعہ سے اسی لئے تو آدمی اپنی طرح کے آدمیوں میں مل کر رہتا ہے کہ لوگ ضرورتوں کو بہم پہنچانے میں اس کی مدد کریں۔ بڑے شہروں میں ہزاروں لاکھوں آدمی بستے ہیں ان میں سے بہتیرے ایسے ہیں کہ بظاہر ایک کو دوسرے سے کوئی تعلق نہیں مگر حقیقتًا وہ سب ایک دوسرے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ بھی خدا ہی ان سے کراتا ہے اور وہی اس کی توفیق دیتا ہے ان کو اس قابل بنایا ہے ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہے آدمی ان باتوں کو سوچے سمجھے تو وہ ضرور محسوس کرے گا کہ آدمی کے تعلقات تو بہت ہیں مگر کوئی تعلق اس تعلق کو نہیں پاتا جو آدمی کو خدا کے ساتھ ہے۔
آدمی کے دوسرے تعلقات عارضی اور چند روزہ ہیں مگر اس کا تعلق خدا کے ساتھ ہر وقت کا ہے اور ابدی ہے۔ ہر ایک تعلق کے دو پہلو ہوتے ہیں حق کا اور ذمہ داری کا۔ بندوں کا کوئی دعوی اور کوئی حق خدا پر نہیں۔ ہاں اس نے از خود روزی کا ذمہ لیا ہے۔ ﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا﴾(هود: 6)
اور مہربانی کا ﴿كَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾ خدا اپنی ذ مہ داریوں کو جو اس نے اپنے اوپر لازم کر لی میں بے طلب بے تقاضا بحسن و خوبی پورا کر رہا ہے رزق کے اعتبار سے وہ ’’خیر الرازقین‘‘ ہے اور مہربانی کے لحاظ سے ’’ارحم الراحمین‘‘ ہے۔
رہے اس کے احسان بندوں پر تو بندوں کو تو اس بات کی طاقت ہی نہیں کہ ان کو گن سکیں۔ ﴿وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوْهَا﴾ (النحل:18) تو جیسے اس کے احسانات بے شمار ہیں ویسے ہی اس کے بے شمار حقوق بھی ہیں اور اس کی نعمتوں کے حقوق کے مقابلہ میں بندوں کے فرائض ہیں ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾
اللہ تعالی کا بڑا احسان ہے جس کی بندگی اور اطاعت اس کی نزدیکی کا سبب ہے اور اس کا شکر ادا کرنے میں نعمت کی زیادتی ہے۔ جو سانس اندر کو جاتا ہے وہ زندگی بڑھانے والا ہوتا ہے اور جب باہر آتا ہے تو خوشی پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر سانس میں دو نعمتیں موجود ہیں اور ہر سانس پر ایک شکر ضروری ہے۔ سچ ہے کس ہاتھ اور زبان سے اس کے شکر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ شکریہ کی توفیق بھی ایک نعمت ہے تو اس نعمت کی بھی شکر گزاری ہے اور یہ انسان کے بس کی بات نہیں لیکن اس کے باوجود اس نے حکم دیا۔ ہے کہ تم شکر کیا کرو۔ میرے شکر گزار بندے بہت کم ہیں۔ وہی بندہ سب سے اچھا ہے جو اپنے قصوروں اور کوتاہیوں کا عذر اللہ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ورنہ کوئی اس لائق نہیں ہے جو اللہ کی کما حقہ شکر گزاری کر سکے اس کی رحمت کی بارش بے حساب ہے جو سب کو پہنچ رہی ہے۔ اور اس کی نعمت کا دستر خوان سب جگہ بچھا ہوا ہے۔ کوئی بندہ اس سے محروم نہیں ہے۔ اللہ تعالی اپنے نے بندوں کی عزت کا پردہ بڑے بڑے گناہوں سے نہیں پھاڑتا ہے اور نہ کسی بڑی سے بڑی غلطی پر مقررہ روزی کے وظیفے بند کرتا ہے۔ بخشنے والا کریم و داتا اپنے غیب کے خزانہ سے آگ پوجنے والوں، تین خدا ماننے والوں، عیسائیوں کو بھی روزی دیتا ہے۔ تو جب اپنے دشمنوں کو روزی کھلاتا ہے۔ تو دوستوں کو کب محروم کرے گا۔ غرض دوست دشمن سبھی کو کھلا پلا رہا ہے اور سب چیزوں کو ان کا خادم بنا رکھا ہے۔
ابروبادو مه و خور شیدو فلک در کارند تاتونا نے بکف آری و بغفلت نخوری
همہ ازبہر تو گشتہ و فرماں بردار شرط انصاف نباشد که تو فرماں نبری۔
ہوا، بادل، چاند، سورج، آسمان سب تمہارے کام میں لگے ہوئے تاکہ تم روزی کما سکو۔ اور اس کو غفلت کے ساتھ نہ کھاؤ سب تمہارے فرماں بردار ہیں تم خدا کے فرماں بردار بن جاؤ یہی انصاف ہے۔ اس سلسلہ کی ایک حدیث اس کی تائید میں سن لیجئے جس کو حضرت امام احمد بن خلیل رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت یحیی علیہ السلام کو پانچ چیزوں کا حکم دیا کہ ان پر عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان پر عمل کرنے کا حکم دو۔ قریب تھا کہ وہ اس میں ڈھیل کریں تو حضرت عیسی علیہ السلام نے انہیں یاد دلایا کہ آپ کو پروردگار عالم کا حکم تھا کہ ان پانچ چیزوں پر خود کار بند ہو اور دوسروں کو بھی حکم دو۔ پس یا تو آپ خود کہہ دیجئے یا میں پہنچا دوں۔ حضرت یحیی علیہ السلام نے فرمایا۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ سبقت کر گئے تو کہیں مجھے عذاب کیا جائے یا زمین میں دھنسا نہ دیا جائے۔ پس حضرت یحیی علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس کی نہ مسجد میں جمع کیا۔ جب مسجد پر ہوگئی تو اونچی جگہ پر بیٹھ گئے اور اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کر کے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ باتوں کا حکم کیا ہے کہ خود عمل کر کے تم سے بھی ان پر عمل کراؤں۔
1۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مخلص خاص اپنے مال سے کسی نظام کو خریدے، غلام کام کاج کرے اور جو کچھ کمائے اسے کسی اور کو دیدے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا غلام ایسا ہو؟ ٹھیک اسی طرح تمہارا پیدا کرنے والا تمہاری روزیاں دینے والا تمہارا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ ہی ہے پس تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
2۔ دوسرے یہ کہ نماز کو ادا کرو۔ اللہ تعالیٰ کا منہ بندے کے منہ کی طرف ہوتا ہے جب تک وہ نماز میں ادھر ادھر التفات نہ کرے جب تم نماز میں ہو تو خبر دار! ادھر ادھر التفات نہ کرنا۔
3۔ تیسرا حکم یہ ہے کہ روزے رکھا کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی شخص کے پاس مشک کی تحصیلی بھری ہوئی ہو جس سے اس کے تمام ساتھیوں کے دماغ معطر رہیں یاد رکھو روزہ دار کے منہ کی خوشبو اللہ تعالی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔
4۔ چوتھا حکم یہ ہے کہ صدقہ دیتے رہا کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی شخص کو دشمنوں نے قید کر لیا اور گردن کے ساتھ اس کے ہاتھ باندھ دیئے اور قتل کرنے کے لئے لے چلے۔ تو وہ کہنے لگا کہ تم مجھے سے فدیہ لے لو اور مجھے چھوڑ دو۔ چنانچہ جو کچھ تھا کم زیادہ دے دلا کر اپنی جان چھٹرا لی۔
5۔ پانچواں حکم اس کا یہ ہے کہ بکثرت اس کے نام کا ورد کرو اس کا ذکر کیا کرو اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کے پیچھے تیزی کے ساتھ دشمن روڑا آتا ہے اور وہ ایک مضبوط قلعہ میں گھس جاتا ہے اور وہاں امن وامان پا لیتا ہے اس طرح اللہ تعالی کے ذکر کے وقت آدمی شیطان سے بچا ہوا ہوتا ہے۔
یہ فرما کر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ اب میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم کرتا ہوں جس کا حکم جناب باری نے مجھے دیا ہے:
مسلمانوں جماعت کو لازم پکڑے رہنا (اللہ اور اس کے رسول اور حاکم وقت کے احکام) سنا اور مانتا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا۔
جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی نکل گیا اس نے اسلام کا پٹا گلے سے اتار پھینکا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ رجوع کر لے۔ جو شخص جاہلیت کی پکار پکارے وہ جہنم کا کوڑا کرکٹ ہے۔ لوگوں نے کہا حضور ﷺ اگر چہ وہ روزے دار اور نمازی ہو؟ فرمایا: اگرچہ نماز پڑھتا ہو اور روزے رکھتا ہو۔ اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو۔ مسلمانوں کو ان کے ناموں سے پکارو جو خود خدا تعالی نے رکھے ہیں مسلمانو، مومنو، اور اللہ کے بندو یہ تمام نام خدا کو بہت پیارے ہیں۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب الامثال، باب ما جاء مثل الصلوة و الصيام و الصدقة (2863)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہی ہے کہ اللہ کی بندگی سب عبادتوں کا لب لباب اور مغز ہے اس آیت میں اللہ تعالی نے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اور سب سے بڑی عبادت اللہ کی توحید ہے یعنی صرف ایک خدا کی عبادت کرنی چاہئیے۔
مولانا حالی نے کیا خوب فرمایا ہے:
کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرمان طاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق
لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ
اس پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اس کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اس کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اس کی طلب میں مرو گر مرو تم
مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی
خرد اور ادراک رنجور ہیں واں مہ و مہرادنی سے مزدور ہیں واں
جہاں دار مغلوب و مقهور ہیں واں نبی اور صدیق مجبور ہیں واں
نہ پرستش ہے رہبان و اخبار کی واں نہ پروا ہے ابرار و احرار کی واں
یہ آیت جامع آیتوں میں سے ہے کہ اس میں عبادت و توحید کا بیان تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے وجود کی دلیل بھی مذکور ہے زمین آسمان کی مختلف شکل وصورت، مختلف رنگ و روپ، مختلف خاصیت و مزاج اور مختلف نفع و نقصان کی موجودات میں سے ہر ایک کا نفع و نقصان والا ہونا اور خاص حکمت سے پیدا ہونا، اللہ تعالی کے وجود کی بین دلیل اور اس کی عظیم الشان قدرت و حکمت اور زبردست سطوت و سلطنت کا پورا پورا ذکر ہے۔ یوں تو ہر چیز خدا کی ہستی کو ثابت کر رہی ہے عقلمندوں کے لئے مصنوعات سے صانع کے وجود پر استدلال کرنا کافی شافی ہے۔ لیکن گنوار اور جاہل بھی خدا کی ہستی کو سمجھتا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ کسی دیہاتی آدمی سے یہ دریافت کیا گیا کہ تم نے اللہ تعالی کو کیسے پہچانا؟ اور اس کے وجود کی کیا دلیل ہے تو اس نے فی الفور کہا۔
يَا سُبْحَانَ اللهِ إِنَّ الْبَعْرَ لَيَدُلُّ عَلَى الْبَعِيرِ وَإِنَّ اَثَرَ الْأَقْدَامِ لَتَدُلُّ عَلَى الْمَسِيرفَسَمَاءُ ذَاتُ أَبْرَاجٍ وَأَرْضُ ذَاتِ فِجَاجٍ وَ بِحَارٌ ذَاتُ أَمْوَاجٍ أَلَا يَدُلُّ ذَلِكَ عَلَى وُجُودِ اللَّطِيفِ الْخَبِير
’’یعنی میگنی سے اونٹ معلوم ہو سکے اور پاؤں کے نشان سے یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی آدمی گیا ہے تو کیا یہ برجوں والا آسمان یہ راستوں والی زمین اور موجیں مارنے والے سمندر اللہ تعالی باریک بیں اور خبر دار کے وجود پر دلیل نہیں بن سکتے؟ ضرور بن سکتے ہیں۔‘‘
امام مالک سے ہارون الرشید نے پو چھا کہ اللہ تعالی کے وجود کی کیا دلیل ہے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا۔ آوازوں کا جدا گانہ ہونا اور بات کرنے کے لہجوں کا الگ الگ ہونا ثابت کرتا ہے کہ خدا تعالی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی یہی سوال ہوتا ہے تو آپ جواب دیتے ہیں کہ:
چھوڑ دیں ابھی میں کسی اور سوچ میں ہوں، لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ایک بہت بڑی کشتی ہے جس میں طرح طرح کی تجارتی چیزیں ہیں، نہ اس کا کوئی نگہبان ہے نہ چلانے والا ہے باوجود اس کے وہ برابر آ جا رہی ہے اور بڑی بڑی موجوں کو خود بخود چیرتی پھاڑتی گزر جاتی ہے۔ ٹھہرنے کی جگہ ٹھہر جاتی ہے۔ چلنے کی جگہ چلتی رہتی ہے اور نہ کوئی ملاح ہے نہ منتظم۔ سوال کرنے والے دہریوں نے کہا: آپ کس سوچ میں پڑ گئے؟ کوئی عاقل ایسی بات کہہ سکتا ہے کہ اتنی بڑی کشتی طلاطک والے سمندر میں آئے جائے اور کوئی اس کا چلانے والا نہ ہو۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ افسوس تمہاری عقلوں پر ایک کشتی تو بغیر چلانے والے کے نہ چل سکے۔ لیکن یہ ساری دنیا یہ آسمان وزمین کی سب چیزیں ٹھیک اپنے کام پر لگی رہیں اور ان کا مالک حاکم اور خالق کوئی نہ ہو۔ یہ جواب سن کر لوگ ہکے بکے رہ گئے اور حق معلوم کر کے مسلمان ہو گئے ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ توت کے پتے ایک ہی ہیں۔ ایک ہی ذائقہ کے ہیں کیڑے، شہد کی مکھی اور گائیں، بکریاں، ہرن وغیرہ سب اس کو کھاتے اور چرتے چکتے ہیں۔ اس کو کھا کر کیڑے میں سے ریشم نکلتا ہے۔ مکھی شہد دیتی ہے۔ ہرن میں مشک پیدا ہوتا ہے اور گائے، بکریاں مینگنیاں دیتی ہیں۔ کیا یہ اس امر کی صاف دلیل نہیں کہ ایک پتے میں یہ مختلف خواص پیدا کرنے والی کوئی ہستی ہے؟ اور اسی کو ہم اللہ تعالی مانتے ہیں۔ وہی موجد اور صانع ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک مرتبہ وجود باری تعالی پر دلیل طلب کی گئی۔ تو آپ نے فرمایا۔ سنو! یہاں ایک نہایت مضبوط قلعہ ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں نہ کوئی راستہ ہے بلکہ سوراخ تک نہیں باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے اور اوپر نیچے دائیں بائیں چاروں طرف سے بالکل بند ہے۔ اس میں ہوا تک نہیں جا سکتی۔ اچانک اس کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا بولتا چلتا خوب صورت پیاری بولی والا چلتا پھرتا نکل آتا ہے۔ کہو اس بند اور محفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی یا نہیں؟ اور وہی ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو جو چاروں طرف سے بند ہے پھر اس سے پروردگار خالق یکتا جاندار بچہ پیدا کر دیتا ہے جو چوزے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ یہی دلیل ہے خدا کے وجود پر اور اس کی توحید پر۔ ابونواس سے جب یہ مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا۔
آسمان سے بارش کا برسنا اور اس سے درختوں کا پیدا ہونا اور ان ہری بھری شاخوں پر خوش ذائقہ میووں کا لگنا ہی اللہ تعالی کے وجود اور اس کی وحدانیت کی کافی دلیل ہے۔
ابن المعتز حمۃ اللہ علیہ کا قول ہے افسوس اللہ تعالی کی نافرمانی اور اس کی ذات کے جھٹلانے پر لوگ کیسی دلیری کر جاتے ہیں حالانکہ ہر ہر چیز اس پروردگار کی ہستی اور لاشریک ہونے پر گواہ ہے۔ اور بزرگوں کا مقولہ ہے آسمان کو دیکھو ان کی بلندی، ان کی وسعت، ان کے چھوٹے بڑے چمکیلے اور روشن ستاروں پر نظر ڈالو ان کے چمکنے دمکتے، ان کے چلنے پھرنے، ظاہر ہونے اور چھپ جانے کا مطالعہ کرو۔ پھر سمندروں کو دیکھو جو موجیں مارتے ہوئے زمین کو گھیرے رہتے ہیں۔ پھر مضبوط پہاڑوں کے نشیب وفراز کو دیکھو جو زمین میں گڑے ہوئے۔ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ جو زمین کو ہلنے نہیں دیتے۔ جن کے رنگ، جن کی صورتیں مختلف ہیں پھر قسم قسم کی اور مخلوقات پر نظر ڈالو پھر ادھر سے ادھر جانے والی کھیتوں، اور باغوں کو شاداب کرنے والی خوشنما نہروں کو دیکھو، کھیتیوں اور باغوں کی سبزیوں اور ان کے طرح طرح کے پھل پھول، مزے مزے کے میووں پر غور کرو، زمین ایک، پانی ایک لیکن شکلیں صورتیں اور خوشبوئیں، رنگت، ذائقہ اور فوائد الگ الگ ہیں۔ کیا یہ تمام مصنوعات تمہیں نہیں بتائیں کہ ان کا صانع کوئی ہے؟ کیا یہ تمام موجودات بآواز بلند نہیں کہہ رہی ہیں کہ ان کا موجد کوئی ہے۔ کیا یہ ساری مخلوق اپنے رب کی ہستی، اس کی ذات، اس کی توحید پر دلالت نہیں کرتی؟
یہ ہیں روزگار دلائل جو اللہ تعالی نے اپنی ذات کو منوانے کے لئے ہر نگاہ کے سامنے کر رکھے ہیں جو اس کی زبردست قدرتوں، اس کی پر زور حکمتوں اس کی لاثانی رحمتوں، اس کے بے نظیر انعاموں اور اس کے لازوال احسانوں پر دلالت کرنے کے لئے کیا کافی وافی نہیں ہیں؟
ہمارا اقرار ہے کہ اس کے سوا پالنے والا، نہ اس کے سوا کوئی پیدا کرنے والا اور حفاظت کرنے والا، نہ اس کے سوا کوئی معبود برحق، نہ اس کے سوا کوئی مسجود لا شک ہے۔ ہاں دنیا کے لوگو! سن رکھو، میرا توکل اور بھروسہ اسی پر ہے میری انابت اور التجا اس کی طرف ہے۔ میرا جھکنا اور پست ہونا اس کے سامنے ہے۔ میری تمنواؤں کا مرکز میری امیدوں کا آسرا، میرا ماوٰی، میرا ملجا وہی ایک ہے۔ اس کے دست رحمت کو تکتا ہوں اور اسی کا نام جپتا ہوں۔
﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (فاتحه:4)
’’اے اللہ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔‘‘
اسی کا قول و قرار، عہد و میثاق روز ازل میں لیا گیا تھا اور اس کی یاد دہانی کے لئے تمام رسولوں اور نبیوں کو دنیا میں بھیجا گیا اور ہر نبی اور ہر رسول نے اپنی امت کو یہی بات بتائی سکھائی اور تاکید کی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ؕ قَالُوْا بَلٰی ۛۚ شَهِدْنَا ۛۚ ﴾ (اعراف:172)
’’اور جب کہ آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی نسلوں کو نکالا اور ان سے خود ان ہی ذاتوں پر اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا: ہاں کیوں نہیں ہم اس کے گواہ ہیں۔‘‘
مسند احمد میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے آیت کریمہ کی تفسیر میں اس طرح مروی ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو قیامت تک پیدا ہونے والی روحیں نکل آئیں تو ان کی الگ الگ جماعتیں مقرر فرما دیں۔ نبیوں کی الگ، ولیوں کی الگ، مسلمانوں کی الگ، کافروں کی الگ، نیکوں کی الگ اور بدوں کی الگ الگ جماعتیں مقرر کر کے ہر ایک کی ویسی ہی صورتیں بنائیں۔ جیسی کہ دنیا میں بنانی منظور تھیں۔ پھر ہر ایک کو بولنے کی قوت اور طاقت دی۔ تب اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں۔‘‘
سب نے کہا۔ ہاں آپ ہمارے رب و مالک مختار کل ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔ ساتوں آسمانوں زمینوں اور تمہارے باپ آدم کو تم پر گواہ بناتا ہوں کہ تم نے میری ربوبیت کا اقرار کر لیا ہے ایسا نہ ہو کہ تم کہنے لگو ہمیں خبر نہیں تھی کہ ہم اس سے ناواقف تھے۔
﴿اِعْلَمُوْا أَنَّهُ لَا إِلٰهَ غَيْرِيْ﴾ ’’یقینا تم جان لو کہ میرے علاوہ کوئی عبادت کا حق نہیں اور نہ میرے علاوہ کوئی رب ہے۔‘‘
اس قول و قرار کو یاد دلانے کے لئے میں نبیوں، رسولوں کو بھیجوں گا اور کتابیں بھی اتاروں گا۔ سب نے اس کا اقرار کیا اور کہا۔ ’’لَا اِلٰهَ لَنَا غَيْرُكَ‘‘آپ کے سوا ہماری عبادت کا مستحق کوئی معبود نہیں۔ اس کلمہ طیبہ کی یاد ہانی کرانے کے لئے اللہ تعالی نے تمام نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا۔[1]
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:
﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۲۵﴾ (انبیاء:25)
’’اور آپ (ﷺ) سے پہلے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کے پاس۔ ’لا الہ الا انا‘‘ کی وحی بھیجتے رہے کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اس لئے میری ہی عبادت کرو۔‘‘
ہر ایک نبی اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کو خدا کی عبادت کے لئے بلاتا رہا۔ حضرت آدم علیہالسلام کو دنیا میں بھیجتے وقت فرمایا کہ تم دنیا میں جاؤ اور لوگوں کو میری وحدانیت کی دعوت دو جیسا کہ خود فرماتا ہے:
﴿فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۳﴾ (البقره: 38)
’’اگر ہماری طرف سے کوئی رسول ہدایت کرنے والا تمہارے پاس پہنچے تو تم اس کی پیروی کرنا جو ہماری راہ پر چلے گا تو ان پر کسی قسم کا خوف نہ ہوگا اور نہ وہ غم اٹھائیں گے۔‘‘
حضرت نوح علیہ اللسام کی نسبت اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِهٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ۵۹﴾ (اعراف: 59)
’’بے شک ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس رسول بنا کر بھیجا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لو گو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے (اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو یقینًا میں تم پر ایک بہت بڑی مصیبت والے دن کے آ جانے کا خوف کرتا ہوں۔)‘‘
حضرت ھود علیہ السلام کی نسبت ارشاد فرمایا: ﴿وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۶۵﴾ (اعراف: 65)
’’قوم عاد کے پاس ان کے بھائی ہود کو رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ کی عبادت کرو اور یقین کر لو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم (شرک سے) نہ بچو گے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابن كثير (263/2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ﴾ (اعراف: 73)
’’اور قوم ثمود کے پاس ان کے بھائی صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ؕ﴾ (اعراف: 85)
’’اور اہل مدین میں ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ تو انہوں نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۶﴾
’’اور ابراہیم علیہ السلام کو ان کی قوم کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا۔ جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا تم اللہ ہی کی عبادت کرو اسی سے ڈرو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
﴿یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُؕ۳۹ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ ؕ ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۴۰﴾ (يوسف: 39 تا 40)
’’اے جیل کے ساتھیو! کیا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا ایک زبردست معبود اچھا ہے اور اسکے علاوہ جن پوجتے ہو وہ نرے نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں اللہ نے تو ان کی پوجا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اتاری۔ صرف اللہ کا حکم واجب العمل ہے اس نے تو صرف یہی حکم دے رکھا ہے کہ اس کے سوا کسی کو نہ ہو جو۔ یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرمایا:
﴿وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْ ؕ ﴾ (مائدة: 72)
’’اور عیسی نے کہا کہ اے بنی اسرائیل تم صرف اللہ کی عبادت کرو۔ جو میرا اور تمہارا رب ہے۔‘‘
ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
1۔ ﴿قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰى إِلَىَّ أَنَّمَا إِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَّاحِدٌ﴾ (كهف:110)
’’اے نبی(ﷺ) آپ فرما دیجئے میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں (صرف اتنا فرق ہے) کہ میرے اوپر خدا کا علم اترتا ہے کہ تمہارا ایک ہی معبود ہے۔‘‘
2۔ ﴿قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ اِنَّنِیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۘ۱۹﴾ (انعام: 19)
’’کہہ دیجئے کہ بس وہ اکیلا ہی معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں تمہارے شریکوں سے بیزار ہوں۔‘‘
3۔ ﴿وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْهِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّهٗ فَاعْبُدْهُ وَ تَوَكَّلْ عَلَیْهِ ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠۱۲۳﴾ (هود:123)
’’زمین و آسمانوں کا علم غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ہر قسم کے تمام کام اسی کی جانب لوٹائے جاتے ہیں۔ تو تم اس کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ تمہارا رب تمہارے عملوں سے غافل نہیں ہے۔‘‘
سورہ رعد میں اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ۳۶﴾ (الرعد:36)
’’تو اعلان کر دے کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ کروں میں اس کی طرف بلا رہا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
یہ عبادت مرتے دم تک کرتے رہو۔ ایسا نہیں کہ مہینہ دو مہینہ کی اور پھر چھوڑ دی۔ خدا کی بندگی رات میں، دن میں، سونے میں، جاگنے میں کرتے رہنا چاہئے۔ نہ کسی کی ملامت کا خیال رکھو نہ تنگ دل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دلجمعی اور اطمینان خاطر کے لئے تہلیلات، تسبیحات اور عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔
سورہ حجر میں فرمایا:
﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ۹۷ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ۹۸ وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰی یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠۹۹﴾ (الحجر: 99۔97)
’’اور ہم یقینًا جانتے ہیں کہ لوگوں کی باتوں سے تم تنگ دل ہو جایا کرتے ہو۔ اسے دور کرنے کے لئے تم اپنے رب کی تسبیح وتحمید بیان کرتے رہو اور سجدے کرتے رہو اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو یہاں تک کہ یقین آجائے۔‘‘
اس آیت میں یقین سے مراد موت ہے یعنی مرتے دم تک عبادت کرتے رہو۔ اور اس سے نہ غافل ہو نہ سستی کرو۔ اور یہ حکم صرف آپ ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ سبھی کے لئے ہے۔
جیسا کہ سورہ حج میں فرمایا:
﴿وَ جَاهِدُوْا فِی اللّٰهِ حَقَّ جِهَادِهٖ ؕ هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ؕ مِلَّةَ اَبِیْكُمْ اِبْرٰهِیْمَ ؕ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِیْنَ ۙ۬﴾ (الحج: 77 تا 78)
’’اے ایمان والو! رکوع سجدے کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت میں لگے رہو اور نیک کام کرتے رہو۔ تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اور راہ خدا میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ تمہارے باپ ابراهیم کا دین، اسی خدا نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔‘‘
اور اسی عبادت کا حکم خصوصیت سے دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ نمل کے آخر میں فرمایا:
﴿اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ ؗ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ۹۱ وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ ۚ فَمَنِ اهْتَدٰی فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖ ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ۹۲ وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا ؕ وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠۹۳﴾ (النمل: 91 تا 93)
’’مجھے بس یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے پروردگار کی عبادت کرتا رہوں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔ جس کی ملکیت ہر چیز پر ہے اور مجھے یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں ہو جاوں۔ اور میں قرآن کی تلاوت کرتار ہوں- جو راہ راست پر آجائے وہ اپنے نفع کے لئے راہ راست پر آئے گا اور جو بہک جائے تو آپ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وہ عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم خود پہچان لوگے جو کچھ تم کرتے ہو اس سے تمہارا رب غافل نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالی اپنے نبی محترم رسول اللہ ﷺ سے فرماتا ہے کہ آپﷺ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کا مامور ہوں۔ جیسے ارشاد ہے کہ اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین میں شک ہے تو ہوا کرے میں تو ان کی عبادت ہرگز نہیں کروں گا جن کی عبادت تم کرتے ہو میں اسی خدا کا عابد ہوں جو تمہاری موت اور زندگی کا مالک ہے۔
یہاں مکہ شریف کی طرف ربوبیت کی اضافت صرف بزرگی اور شرافت کے اظہار کے لئے ہے جیسے فرمایا ﴿فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ﴾ (قریش:3)
’’انہیں چاہئے کہ اس شہر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں اوروں کی بھوک کے وقت آسودہ اور دوسروں کے خوف کے وقت بے خوف کر رکھا ہے۔‘‘
یہاں فرمایا کہ اس شہر کو حرمت و عزت والا اس نے بنایا ہے جیسے صحیحین میں ہے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ والے دن فرمایا کہ یہ شہر اسی وقت سے باحرمت ہے جب سے اللہ تعالی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ یہ خدا کی حرمت دینے سے حرمت والا ہی رہے گا۔ یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔ نہ اس کے کانٹے کاٹے جائیں۔ اس کا شکار خوفزدہ کیا جائے۔ نہ اس میں کسی کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے۔ ہاں جو مالک کے پاس پہنچانے کے خیال سے اٹھائے اس کے لئے جائز ہے۔ اور اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔[1]
یہ حدیث بہت سی کتابوں میں بہت کی سندوں سے مروی ہے جیسے کہ احکام کی کتابوں میں تفصیل موجود ہے۔ پھر اس خاص چیز کی ملکیت ثابت کر کے اپنی عام ملکیت کا ذکر فرماتا ہے کہ ہر چیز کا رب اور مالک وہی ہے اس کے سوا نہ کوئی مالک نہ معبود۔ اور مجھے یہ حکم بھی ملا ہے کہ میں موحد، مخلص، مطیع اور فرمانبردار ہو کر رہوں۔ مجھے یہ بھی حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں کو خدا کا کلام پڑھ کر سناؤں جیسے فرمان ہے کہ ہم یہ آیتیں اور یہ حکمت والا ذکر تیرے سامنے تلاوت کرتے ہیں۔ اور آیت میں ہے ہم تجھے موسیٰ اور فرعون کا صحیح واقعہ سناتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ میں خدائی مبلغ ہوں میں تمہیں جگا رہا ہوں اور تمہیں ڈرا رہا ہوں۔ اگر میری بات مان کر راہ راست پر آؤ گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے اور اگر میری بات نہ مانی تو میں اپنے فرض تبلیغ کو ادا کر کے سبکدوش ہو گیا ہوں۔ اگلے رسولوں نے بس یہی کیا تھا خدا کا کلام پہنچا کر اپنا دامن پاک کر لیا جیسے فرمان ہے: تجھ پر صرف پہنچا دیتا ہے حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اور فرمایا تو صرف ڈرانے والا ہے اور ہر چیز پر وکیل اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالی کے لئے تعریف ہے جو بندہ کی بے خبری میں انہیں عذاب نہیں دیتا بلکہ پہلے اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔ اپنی حجت ختم کرتا ہے۔ بھلا برا سمجھا دیتا ہے ہم تمہیں ایسی آیتیں دکھائیں گے کہ تم خود قائل ہو جاؤ گے جیسے فرمایا:
﴿سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا﴾ ہم انہیں خود ان کے نفسوں میں اور ان کے اردگرد ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ جن سے ان پر حق ظاہر ہو جائے۔ اللہ تمہارے کرتوت سے غافل نہیں بلکہ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب جزاء الصيد، باب لا يحل القتال بمكة (1834) مسلم كتاب الحج، باب تحريم مكة و تحريم صيدها (3302)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئے ہوئے ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہا کرتے تھے جو یا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں یا کسی اور کے:
إِذا ما خَلَوْتَ الدَّهْرُ يَوْمًا فَلَا تَقُلْ خَلَوْتُ وَلٰكِن قُلْ عَلَىَّ رَقِيبٌ
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ يَغْفَلُ سَاعَةً وَلَوْ أَنَّ مَا يَخْفٰى عَلَيْهِ يَغِيْبُ
’’یعنی جب تو کسی وقت بھی خلوت اور تنہائی میں ہو تو اپنے تئیں تنہا اور اکیلا نہ سمجھنا بلکہ اپنے خدا کو وہاں بھی حاضر ناظر جاننا۔ وہ ایک ساعت بھی کسی سے غافل نہیں۔ نہ کوئی مخفی اور پوشیدہ چیز اس کے علم سے باہر ہے۔‘‘
عبادت ہی کے لئے انسانوں اور جنوں کو پیدا کیا ہے اور اس میں اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے اور نصیحت فرمائی ہے جیساکہ سورہ ذاریات کے آخری رکوع میں فرمایا:
﴿وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۵۵ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۵۶ مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ۵۷ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ۵۸﴾ ﴿والذاريات: 55 تا 58)
’’یعنی آپ ان کو نصیحت کرتے رہئے کیونکہ آپ کی نصیحت یقینًا ایمان والوں کو فائدہ پہنچائے گی۔ اور میں نے تو جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے وہ میری عبادت کرتے رہیں۔ نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ اللہ تعالی تو سب ہی کو روزی پہنچانے والا توانائی اور مضبوط قوت والا ہے۔‘‘
وہ سب مخلوق سے بے نیاز ہے نہ اس کو اپنی عبادت کے لئے حاجت ہے اور نہ اس کا وہ محتاج ہی ہے بلکہ اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے تاکہ ان کو نفع پہنچے۔ اور اس کی بندگی نہایت عاجزی اور اخلاص سے کرتے رہیں اس کسی کو شریک نہ کریں۔
سورۃ البینہ میں فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ یُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَ ذٰلِكَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِؕ۵﴾ ( البينة: 5)
’’اور سب کو ہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے لئے دین اور اطاعت کو خالص رکھیں۔ یکطرفہ ہو کر اور نماز پڑھتے رہیں زکوۃ دیتے رہیں یہی درست اور مضبوط دین ہے۔‘‘
سب رسولوں اور نبیوں کو اس بات کی وحی کی گئی تھی کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو جیسا کہ فرمایا۔
﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَی اللّٰهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْهِ الضَّلٰلَةُ ؕ ﴾ (النحل: 36)
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور خدا کے سوا دوسروں کی عبادت سے بچو۔ پس ان سے وہ ہیں جن کو اللہ تعالی نے ہدایت دی اور جن پر گمراہی لازم ہو گئی۔‘‘
اور اسی عبادت کی قسموں میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہمیشہ نماز پڑھتے رہو اور زکوۃ دیتے رہو۔ اللہ تعالی عبادت کا مستحق اس لئے ہے کہ وہ سب کو پالتا پوستا اور کھلاتا پلاتا ہے اور جس کا کھائے اسی کا گائے۔ اللہ تعالی نے قریش مکہ پر اسی احسان کا ذکر کیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍۙ۱ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیْفِۚ۲ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَیْتِۙ۳ الَّذِیْۤ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ۙ۬ وَّ اٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ۠۴﴾(قریش)
قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع کے ساتھ اس باامن شہر میں رہنے کے لئے تھا اور یہ مراد بھی بیان کی گئی ہے کہ یہ قریش جاڑوں اور گرمیوں میں دور دراز کے سفر امن امان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ان کی ہر جگہ عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ جو بھی ہوتا تھا امن وامان سے سفر طے کر لیتا تھا اس طرح سے وطن میں ہر طرح کا امن انہیں حاصل تھا۔
اسی عبادت کا حکم اس آیت کریمہ ﴿وَ قَضٰى رَبُّكَ﴾ میں ہے یہ عبادت و فرمانبرداری خدا کے ہر حکم اور قانون کو شامل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے ہر ہر حکم اور قانون کو تسلیم کرنے کے مطابق اسی عمل کرنے کا نام عبادت ہے۔ ہر قسم کی عبادت کے لائق صرف اللہ ہی ہے اور وہی معبود حقیقی ہے اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ جیسا کہ فرمایا:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ۱ اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ۲ لَمْ یَلِدْ ۙ۬ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ۳ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ۠۴﴾ (اخلاص)
’’کہہ دیجئے کہ وہ اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے۔‘‘
(فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى الْمُرْسَلِينَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔