رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلی اخلاق
اہم عناصر خطبہ:
01.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق پر قرآن مجید اور تورات کی شہادت
02.مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق گواہی
03.اعلی اخلاق کے مختلف پہلو
برادران اسلام!
آج کے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلی اخلاق ‘‘
اور ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہنوں میں یہ بات رہنی چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں بلکہ تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کے امام ہیں ۔ اور رسول کی تربیت خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور اِس انداز سے اس کا تزکیہ کرتا ہے کہ وہ اخلاق وکردار میں سب سے اعلی نمونہ اور سب سے افضل سانچہ بن جاتاہے۔ اور چونکہ رسول کا مربی اللہ تعالیٰ ہوتا ہے اس لیے اس نے قرآن مجید میں دو چیزوں کی قسم کھا کر سیدالرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی گواہی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ ﴿١﴾ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ ﴿٢﴾ وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ﴿٣﴾ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿٤﴾(سورة القلم)
’’ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے ( فرشتے ) لکھتے ہیں۔ آپ اپنے رب کے فضل سے دیوانے نہیں ہیں ۔ اور یقینا آپ کیلیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ اور آپ یقینا عظیم اخلاق والے ہیں۔‘‘
اور چونکہ رسول ہمیشہ وحی کی اتباع کرتا ہے اس لیے وحیِ الٰہی ہی اس کا اخلاق ہوتا ہے۔ اِسی لیے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: (( کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن )) ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن مجید تھا‘‘ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی عملی تصویر تھے۔ یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کی گواہی صرف قرآن مجید میں ہی نہیں بلکہ اس سے پہلی آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ عطاء بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے ان سے سوال کیا کہ مجھے تورات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے بارے میں بتلائیے ۔ انھوں نے فرمایا: ہاں ، اللہ کی قسم تورات میں بھی آپ کی وہ بعض صفات ذکر کی گئی ہیں جو قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴿٤٥﴾ ( سورة الأحزاب: 45 ) ’’ اے نبی! بے شک ہم نے آپ کو گواہ، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘
اسی طرح تورات میں بھی یہ صفات ذکر کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں یہ بھی ہے کہ ’’ آپ عرب لوگوں کے لیے قلعہ ہونگے ، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں ، میں نے آپ کا نام متوکل ( اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا) رکھا ہے ۔‘‘ نیز اس میں آپ کی یہ صفات بھی ہیں: (( ليس بفظ ولا غليظ، ولا سخاب بالأسواق، ولا يدفع السيئة بالسيئة، ولكن يعفو ويصفح ،)) ( صحيح البخاري: 4838 )
’’ آپ نہ بد اخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں۔ اور نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں۔ اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف اور در گذر کردیتے ہیں۔ ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کے بارے میں قرآن کریم اور تورات کی شہادت کے بعد اب آئیے اسی کے متعلق کچھ اور شہادتیں بھی سماعت فرمائیے ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی شہادت!
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ نہایت پریشانی کے عالم میں اپنے گھر پہنچے حتی کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے تو اپنی جان کا بھی خطرہ ہے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے) کہا:
( كَلَّا، أبْشِرْ فَوَاللَّهِ لا يُخْزِيكَ اللَّهُ أبَدًا ، فَوَاللَّهِ إنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وتَصْدُقُ الحَدِيثَ ، وتَحْمِلُ الكَلَّ ، وتَكْسِبُ المَعْدُومَ ، وتَقْرِي الضَّيْفَ ، وتُعِينُ علَى نَوَائِبِ الحَقِّ ، ) ( صحيح البخاري: 4953 )
یعنی ’’ ہرگز نہیں، آپ کو تو بشارت ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا ، اللہ کی قسم! آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں ، بوجھ برداشت کرتے ہیں ، تہی دست کو کما کر دیتے ہیں ، مہمان نواز ہیں اور حق کے واقعات ( تمام خصالِ خیر ) میں مدد کرتے ہیں۔ ‘‘
* کفار قریش کی گواہی
نبوت ملنے سے پہلے ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں ’’ الصادق الأمین ‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ یعنی وہ اس بات کے معترف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور امانت میں خیانت نہیں کرتے۔
پھر نبوت ملنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾( سورة الشعراء: 214 ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر قریش کو پکارا۔ جب وہ آپ کے پاس پہنچ گئے تو آپ نے فرمایا :
’’ اگر میں تمھیں اس بات کی خبر دوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے گھوڑ سواروں کی ایک فوج تم پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے ؟ ‘‘ سب نے بیک آواز کہا: (( ما جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إلَّا صِدْقًا )) ( صحيح البخاري: 4770 ) ’’ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے ہی پایا ہے۔ ‘‘ اور صلح حدیبیہ کے دوران جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہ روم ( ہرقل ) کو ایک خط بھیجا جس میں اسے اسلام قبول کرنے کی طرف دعوت دی گئی تو اس وقت قریش کا ایک قافلہ جس کے سربراہ ابو سفیان بن حرب تھے ‘ روم میں تھا۔ ہرقل نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پڑھنے سے پہلے ابو سفیان اور ان کے قافلے میں دیگر لوگوں کو اپنے دربار میں بلایا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند سوالات کئے۔ ابو سفیان بن حرب اس وقت تک مسلمان نہ تھے لیکن انھوں نے ہرقل کو دیانتداری کے ساتھ جوابات دئے۔ اس کے سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ کیا نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے کبھی تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ ابو سفیان نے کہا: نہیں۔ اس نے کہا: وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو ابو سفیان نے کہا:
(( يقولُ: اعْبُدُوا اللَّهَ وحْدَهُ ولَا تُشْرِكُوا به شيئًا، واتْرُكُوا ما يقولُ آبَاؤُكُمْ، ويَأْمُرُنَا بالصَّلَاةِ والزَّكَاةِ والصِّدْقِ والعَفَافِ والصِّلَةِ )) ( صحيح البخاري: 7 ) ’’ وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ تم اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ۔ اور تم اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو چھوڑ دو۔ نیز وہ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامن رہنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ ‘‘ ہرقل نے تمام سوالات کے جوابات سننے کے بعد ان کی تو جیہات بھی بیان کیں ، چنانچہ اس نے کہا کہ تم نے یہ جو کہا کہ وہ نبوت کا دعوی کرنے سے پہلے جھوٹ نہیں بولتے تھے تو مجھے یقین ہے کہ جب وہ لوگوں پر جھوٹ نہیں گھڑتے تھے تو وہ اللہ پر بھی جھوٹ نہیں گھڑ سکتے۔ اور تم نے یہ جو کہا کہ وہ تمھیں اکیليے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے اور اس کا شریک بنانے سے منع کرتے ہیں۔ نیز وہ تمھیں نماز پڑھنے ، سچ بولنے ، پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں تو تم نے جو کچھ کہا ہے اگر یہ برحق ہے تو عنقریب وہ میرے اس تختِ بادشاہت کے بھی مالک بن جائیں گے۔ اور مجھے یقین تھا کہ وہ تشریف لانے والے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہونگے۔ پس اگر مجھے یقین ہوتا کہ میں آپ تک پہنچ سکوں گا تو میں ضرور آپ سے ملنے کی کوشش کرتا۔ اور اگر میں آپ کے پاس پہنچ جاتا تو میں آپ کے قدم دھوتا۔۔۔‘‘ اسی طرح سائب المخزومی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگ میری تعریفیں کرنے اور میرا ذکر کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِہ )) ’’ میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں ‘‘ میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ نے بالکل سچ فرمایا ۔ آپ ( جاہلیت میں ) میرے ساتھ ( کاروبار ) میں شریک تھے۔ پس آپ بہت اچھے شریک تھے ، آپ میری مخالفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مجھ سے جھگڑا کرتے تھے۔‘‘
امام خطابی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ سائب رضی اللہ عنہ معاملات میں آسانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کو بیان کررہے ہیں۔
* حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی گواہی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ارشاد فرما رہے تھے:
(( أَفْشُوا السلامَ ، و أطْعِمُوا الطعامَ ، وصِلُوا الأرحامَ ، وصَلُّوا بالليلِ والناسُ نِيَامٌ ، تَدْخُلوا الجنةَ بسَلامٍ )) ( صحيح الجامع: 7865 )
’’ تم سلام کو پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ ، رشتہ داروں سے خوشگوار تعلقات قائم کرو اور رات کو اس وقت نماز پڑھا کرو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ اِس طرح تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤگے۔‘‘
* حضرت انس رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت انس رضی اللہ عنہ جوعرصہ دس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے وہ بیان کرتے ہیں کہ
(( لم يكنْ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ سبَّابًا، ولا فحَّاشًا ، ولا لعَّانًا ، وكان يقولُ لأحدِنا عند المَعتِبةِ: ما له، تَرِبَ جَبينُه )) ( المسند لشعيب: 12463 ) ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ برا بھلاکہتے تھے ، نہ بے ہودہ گفتگو کرتے تھے اور نہ لعنت بھیجتے تھے ۔ اور آپ ہم میں سے کسی کو ڈانٹنا چاہتے تو زیادہ سے زیادہ یہی فرماتے: اسے کیا ہو گیا ہے اس کی پیشانی خاک آلود ہو۔‘‘ اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے اچھے اخلاق کے حامل تھے ، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام کیليے بھیجا تو میں نے زبان سے کہا کہ میں نہیں جاؤں گا لیکن میرے دل میں یہ تھا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جاؤنگا۔ چنانچہ میں روانہ ہو گیا ۔ میں کچھ بچوں کے پاس سے گذرا جو بازار میں کھیل رہے تھے ( تومیں بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔ ) اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور میرے پیچھے سے میری گردن کو پکڑ لیا ۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا : (( يا أُنَيْسُ ، أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟ )) ( صحيح مسلم: 2310 ) ’’ اے پیارے انس ! تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے تمھیں جانے کا حکم دیا تھا؟ ‘‘ میں نے کہا: جی اللہ کے رسول ! میں ابھی جا رہا ہوں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی گواہی حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (( لَمْ يَكُنْ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَاحِشًا ولَا مُتَفَحِّشًا ، وإنَّه كانَ يقولُ: إنَّ خِيَارَكُمْ أحَاسِنُكُمْ أخْلَاقًا )) ( صحيح البخاري: 6035 ) ’’ بے ہودہ گفتگو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ عادت تھی اور نہ ہی آپ اس کی کوشش کرتے تھے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق والا ہو۔‘‘ حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کی گواہی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور مومنوں کی ماؤں ( رضی اﷲ عنہا ) میں سے ایک ہیں ۔ آپ فرماتی ہیں کہ (( ما رأيت أحدًا أحسنَ خلُقًا من رسولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم )) ( فتح الباري لابن حجر:665/6 ) ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھے اخلاق والا کوئی نہیں دیکھا۔ ‘‘ قرآن مجید اور تورات کی شہادت کے علاوہ ہم نے جو مختلف لوگوں کی شہادتیں ذکر کی ہیں ان میں آپ کے ماننے والے بھی ہیں اور آپ کے دشمن بھی ہیں ، ان میں آپ کے گھر والے بھی ہیں اور خادم بھی ہیں۔ گویا اپنوں اور غیروں ‘ سب نے یہ گواہی دی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے اعلی منصب پر فائز ہیں۔
* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کے بعض پہلو
01.جود وسخاوت
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (( ما سُئِلَ رَسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ شيئًا قَطُّ ، فَقالَ: لَا )) ( صحيح مسلم: 2311 ) ’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کسی چیز کا سوال کیا گیا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ نے سائل کو’ نہیں ‘ کہا ہو۔‘‘
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام قبول کرنے کی شرط پر جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا آپ عطا کردیتے ، حتی کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتنی زیادہ بکریاں عطا کیں کہ جو دو پہاڑوں کے درمیان خالی جگہ کو بھر سکتی ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا اور اس نے کہا: (( يا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فإنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لا يَخْشَى الفَاقَةَ )) ( صحيح مسلم: 2312 ) ’’ اے میری قوم! تم سب کے سب اسلام قبول کر لو کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا عطا کرتے ہیں کہ جیسے انھیں فقر وفاقہ کا اندیشہ ہی نہیں ہے ۔ ‘‘
٭ اسی طرح ان کا بیان ہے کہ
(( کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا یَسْأَلُ شَیْئًا إِلَّا أَعْطَاہُ إِیَّاہُ أَوْ سَکَتَ )) ( رواہ أحمد وابن حبان وغیرہما وہو صحیح ) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کا سوال کیا جاتا آپ وہ عطا کردیتے یا خاموش ہو جاتے۔‘‘
٭ صحیح مسلم میں ابن شہاب الزہری سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے بعد اپنے ساتھی مسلمانوں کے ہمراہ حنین میں پہنچے جہاں کفار سے جنگ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دین اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرمایا۔ اُس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو ایک سو چوپائے جانور دئیے ، پھر ایک سو دئیے اور پھر ایک سو دئیے۔
ابن شہاب کا بیان ہے کہ انھیں سعید بن المسیب نے بیان کیا ہے کہ صفوان نے کہا:
( لقَدْ أَعْطَانِي رَسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ ما أَعْطَانِي وإنَّه لأَبْغَضُ النَّاسِ إلَيَّ ، فَما بَرِحَ يُعْطِينِي حتَّى إنَّه لأَحَبُّ النَّاسِ إلَيَّ ) ( صحيح مسلم: 2313 )
’’ اللہ کی قسم! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت عطا کیا جو کچھ عطا کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھے ۔ پھر آپ مجھے بار بار دیتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہو گئے۔‘‘
٭ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چادر لے کر آئی اور کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ آپ کے پہننے کیلیے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کر لیا اور چونکہ آپ کو اس کی ضرورت بھی تھی اس لیے آپ نے اسے فورا پہن لیا ۔ اس کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے آپ کو وہ چادر پہنے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ چادر تو بہت اچھی ہے ، یہ آپ مجھے پہنا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ بعد ازاں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے ملامت کی اور کہا: تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔ تمھیں معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس چادر کی ضرورت تھی اور اسی بناء پر آپ نے اسے قبول کیا تھا ، پھر تم نے اس کا سوال کر ڈالا! اور تم یہ بھی جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کا سوال کیا جاتا ہے تو آپ اسے اپنے پاس نہیں رکھتے بلکہ سائل کو دے دیتے ہیں! اس نے کہا: ( رَجَوْتُ بَرَكَتَهَا حِينَ لَبِسَهَا النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، لَعَلِّي أُكَفَّنُ فِيهَا ) ( صحيح البخاري: 6036 ) ’’ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا تھا تو میں نے اس کی برکت کی امید رکھتے ہوئے اس کا سوال کیا تھا ، شاید مجھے اسی میں کفن پہنایا جائے۔‘‘ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ضرورت سے بچی ہوئی چیزیں ہی نہیں بلکہ اپنی ضرورت کی اشیاء بھی دوسرے لوگوں کو عطا کردیتے تھے۔ یہ اخلاق ہے امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ جبکہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ضرورت کی اشیاء تو درکنار ضرورت سے بچی ہوئی چیزیں بھی ہم کسی کو دینے کیلیے تیار نہیں!
02.عاجزی وانکساری
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید البشر اور امام الأنبیاء ہیں۔ لیکن اتنے بڑے مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت منکسر المزاج اور متواضع انسان تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں گھل مل جاتے تھے ، ہمیشہ ان کے قریب رہتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان کوئی نہ تھا کہ جس کے ذریعے وہ آپ تک پہنچتے بلکہ ہر شخص جب چاہتا اور جہاں چاہتا آپ سے ملاقات کر لیتا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران انھوں نے آسمان سے ایک فرشتے کو آتے ہوئے دیکھا ، پھر انھوں نے کہا: یہ فرشتہ جب سے پیدا ہوا ہے اِس سے قبل وہ کبھی نازل نہیں ہوا۔ جب وہ آگیا تو اس نے کہا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ آپ ’ بادشاہ نبی ‘ بننا چاہتے ہیں یا ایک ’ بندہ نبی ‘ بننا چاہتے ہیں ؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: ( تَوَاضَعْ لِرَبِّكَ ) ’’ اپنے رب کیلیے تواضع اختیار کیجئے ۔ ‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( لَا بَلْ عَبْدًا رَسُوْلًا ) ’’ نہیں ، میں بندہ رسول ہی بننا چاہتا ہوں۔ ‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے : (اللهُمَّ أحْيني مِسكينًا، وأمِتْنِي مِسكينًا ، واحْشُرنِي في زُمْرَةِ المساكينِ يومَ القِيامةِ ) (ضعيف الترغيب: 1855) ’’ اے اللہ! مجھے اس حال میں زندہ رکھ کہ میں مسکین رہوں اور اسی حال میں مجھے موت دینا اور قیامت کے روز مجھے مسکینوں کے گروہ میں اٹھانا۔‘‘ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تو کہا: اللہ کے رسول! یہ کیوں؟ توآپ نے فرمایا: (إنَّهمْ يَدخلونَ الجنةَ قبْلَ أغنيائِهمْ بِأربعينَ خرِيفًا) (ضعيف الترغيب:1855) ’’بے شک وہ مالداروں سے چالیس سال قبل جنت میں داخل ہونگے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’عائشہ! مسکین کو خالی نہ لوٹایا کرو اگرچہ آدھی کھجور ہی دو۔ عائشہ! تم مسکینوں سے محبت کرو اور انھیں اپنے قریب کرو، اِس طرح اللہ تمھیں روز قیامت اپنا قرب نصیب کرے گا۔‘‘ اِس بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت متواضع مزاج تھے۔ تو آئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کے چند نمونے دیکھتے ہیں۔
٭حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَأتي ضُعفاءَ المسلمينَ، ويزورُهم، ويعودُ مَرضاهُم، ويَشهدُ جنائزَهم.) (المستدرك على الصحيحين:3781) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کمزور مسلمانوں کے پاس آتے، ان سے ملاقات کرتے، ان میں سے جو بیمار ہوتا اس کی عیادت کرتے اور جو فوت ہو جاتا اس کی نماز جنازہ پڑھاتے اور تدفین میں شرکت کرتے تھے۔‘‘
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب بچوں کے پاس سے گذرتے تو انھیں سلام کہتے اور وہ کہا کرتے تھے:(کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم یَفْعَلُہُ) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔‘‘
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((كان رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يَزورُ الأنصارَ، ويُسَلِّمُ على صِبيانِهم ويمسَحُ برُؤوسِهم،)(الأحاديث المختارة:1602) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار سے ملنے کیليے تشریف لے جاتے تھے، ان کے بچوں کو سلام کہتے اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے تھے۔‘‘
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِن إِمَاءِ المَدِينَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ النبيِّ ﷺ، فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيثُ شَاءَتْ.) (رواه البخاري) ’’مدینہ منورہ کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی آتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی (اور آپ سے گفتگو کرتی۔)‘‘
٭اسی طرح وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت جس کا دماغی توازن درست نہ تھا وہ آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک کام ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(يا أمَّ فُلان انظُري أيَّ السِّكَك شِئتِ، حتى أقضيَ لكِ حاجَتَكِ)(رواه مسلم) ’’اے ام فلان!دیکھو تم جس گلی میں چاہو مجھے لے چلو تاکہ میں تمھاری ضرورت کو پورا کر سکوں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ گئے یہاں تک کہ اس کا کام ہو گیا۔
سنن ابی داؤد میں یہ الفاظ ہیں:
( يا أُمَّ فلانٍ، اجلسي في أيِّ نواحي السِّكَكِ شئتِ حتى أجلسَ إليك.) (صحيح أبي داود:4818) ’’ اے ام فلان! تم گلی کے جس کونے میں بیٹھنا چاہو بیٹھ جاؤ تاکہ میں تمھارے پاس بیٹھ کر تمھاری بات سن سکوں۔‘‘ پھر وہ بیٹھ گئی۔ آپ بھی اس کے ساتھ تشریف فرما ہوئے یہاں تک کہ اس نے اپنی ضرورت کے متعلق آپ کو آگاہ کر دیا۔ غور کیجئے! اس خاتون کا دماغی توازن درست نہ تھا اور ظاہر ہے کہ معاشرے میں اس کی کوئی حیثیت نہ تھی، لیکن اسے جب ضرورت پڑی تو وہ سیدھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، کسی دربان یا سیکرٹری وغیرہ کی منت سماجت کرکے ملاقات کیليے ٹائم ليے بغیر آپ کے پاس جا پہنچی۔ پھرآپ نے اس کا پورا احترام کیا اور اسے’ ام فلان‘ کہہ کر خلوت میں گفتگو کرنے کا پوار موقعہ دیا تاکہ وہ بلا خوف و جھجک اپنی ضرورت کے متعلق آپ کو آگاہ کر سکے۔ یہ ہے تواضع اور عاجزی وانکساری امام الأنبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ جبکہ آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جب کسی معمولی عہدے پر فائز ہو تووہ اپنے اور ضرورتمندوں کے درمیان سیکرٹری وغیرہ کو بٹھا دیتا ہے جو انھیں اس سے ملاقات کا موقعہ ہی نہیں دیتا، یا انھیں گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں تک خوار کرنے کے بعد ملنے کا موقعہ دیتا ہے، اور بسا اوقات رشوت دئیے بغیر’صاحب‘ سے ملنے کی امید ہی نہیں ہوتی۔ضرورتمندوں کی تو بات چھوڑئیے اس کے ماتحت ملازمین بھی اس کے سامنے بات کرنے سے خوف کھاتے ہیں!
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ منورہ کے خادم اپنے برتن لے کر آجاتے جن میں پانی بھرا ہوتا۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر برتن میں(برکت کیليے) اپنا ہاتھ ڈبوتے۔ اور بعض اوقات سردیوں کے موسم میں پانی ٹھنڈا ہوتا، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتنوں میں اپنا ہاتھ ضرور ڈبوتے۔(صحیح مسلم:2324)
٭حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (يَجْلِسُ عَلَى الْأَرْضِ، وَ يَأْكُلُ عَلَى الْأَرْضِ، وَ يَعْتَقِلُ الشَّاةَ ، وَ يُجِيبُ دَعْوَةَ الْمَمْلُوكِ عَلَى خُبْزِ الشَّعِيرِ) (رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر،وصححہ الألبانی فی الصحیحة:2125)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھتے اور زمین پر ہی کھانا کھاتے تھے۔ اور بکری کو باندھتے تھے اور جو کی روٹی پر ایک غلام کی دعوت کو قبول فرماتے تھے۔‘‘
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(لم يكن شخصٌ أحبَّ إليهم من رسولِ اللهِ قال : وكانوا إذا رَأَوْهُ لم يقوموا لما يعلمونَ من كراهتِه لذلك) (مختصر الشمائل:289)
’’صحایۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، اِس کے باوجود وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے تو کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ آپ کو ناپسند ہے۔‘‘ یہ اخلاق ہے سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ آپ کو دیکھ کر لوگوں کا کھڑا ہونا آپ کو ناپسند تھا جبکہ آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں سے کسی افسر کے سامنے اس کے ماتحت ملازمین یا کسی ٹیچر کے سامنے اس کے شاگرد کھڑے نہ ہوں تو ’ صاحب‘ کا مزاج خراب ہو جاتا ہے اور ملازموں اور طالب علموں کی شامت آجاتی ہے! گویا انھیں یہ بات پسند ہوتی ہے کہ انھیں دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جائیں اور سلیوٹ ماریں۔ برا ہو اِس رذیل صفت کا کہ اس نے کتنے لوگوں کے اخلاق کو بگاڑ دیا ہے! جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
(دخَلَ رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مكَّةَ يومَ الفَتحِ وذَقَنُه على رَحْلِه مُتخَشِّعًا) (المستدرك على الصحيحين:4419) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتحِ مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوئے تو عاجزی وانکساری کا عالم یہ تھا کہ (آپ جھکے ہوئے تھے اور سواری پر بیٹھے ہوئے ) آپ کی ٹھوڑی کجاوے کو لگ رہی تھی۔‘‘ یعنی اُس روز آپ متکبرانہ اور فاتحانہ انداز میں نہیں بلکہ نہایت تواضع اور عاجزی کے انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔
03.رحم دلی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل، نرم مزاج اور ترس کھانے والے تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ﴾(سورة آل عمران:159)
’’آپ محض اللہ کی رحمت سے ان کیليے نرم مزاج ہیں۔ اور اگر آپ تند مزاج، سنگدل ہوتے تو وہ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے۔ لہٰذا آپ انھیں معاف کردیجئے، ان کیليے مغفرت طلب کیجئے اور معاملات میں ان سے مشورہ لیجئے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس اخلاق کے بھی متعدد نمونے کتب حدیث میں موجود ہیں۔
٭حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چند ہم عمر نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے بیس راتیں آپ کے پاس قیام کیا۔ پھر آپ کو یہ گمان ہوا کہ جیسے ہم اپنے گھر والوں سے ملنے کا شوق رکھتے ہیں، چنانچہ آپ نے ہم سے ہمارے گھر والوں کے بارے میں معلومات لیں۔ ہم نے آپ کو سب کچھ بتا دیا۔ اور چونکہ آپ بڑے نرم مزاج اور رحم دل تھے اس ليے آپ نے فرمایا:
(ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فَعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ، وصَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، وإذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أحَدُكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أكْبَرُكُمْ) (صحيح البخاري:6008)
’’تم اپنے گھر والوں کی طرف لوٹ جاؤ، پھر انھیں بھی تعلیم دو اور میرے احکامات ان تک پہنچاؤ۔ اور تم نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی شخص اذان کہے، پھر تم میں جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔‘‘
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کرنا شروع کیا تو لوگ اس کی طرف لپکے تاکہ اسے ماریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( دَعُوهُ، وأَهْرِيقُوا علَى بَوْلِهِ ذَنُوبًا مِن مَاءٍ -أوْ سَجْلًا مِن مَاءٍ- فإنَّما بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ ولَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ.) ( صحيح البخاري:6128) ’’اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی کا بہا دو۔ بے شک تمھیں آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجا گیا ہے نہ کہ تنگی پیدا کرنے والے بنا کر۔‘‘
٭نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(إنِّي لأدخلُ في الصَّلاةِ فأريدُ إطالتَها، فأسمعُ بُكاءَ الصَّبيِّ فأتجوَّزُ في صَلاتي، مِمَّا أعلمُ من وَجدِ أمَّهِ من بُكائِهِ)(صحيح ابن خزيمة:3/112) ’’میں نماز کیليے کھڑا ہوتا ہوں اور میری نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اسے لمبا کرونگا لیکن جب کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کردیتا ہوں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے رونے کیوجہ سے اس کی ماں اس پر ترس کھاتی ہے۔‘‘
٭حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں صبح کی نماز کیليے تاخیر سے جاتا ہوں کیونکہ ’ فلاں‘ امام ہمیں بڑی لمبی نماز پڑھاتا ہے۔ تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وعظ ونصیحت میں کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا جتنا اس دن دیکھا۔ آپ نے فرمایا:
( يا أيُّها النَّاسُ، إنَّ مِنكُم مُنَفِّرِينَ، فأيُّكُمْ ما صَلَّى بالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فإنَّ فِيهِمُ المَرِيضَ والكَبِيرَ وذَا الحَاجَةِ)(صحيح البخاري:6110)
’’لوگو! بے شک تم میں کچھ ایسے ہیں جو نفرت دلاتے ہیں، لہٰذا تم میں سے جو شخص نماز پڑھائے وہ اختصار کرے (ہلکی پھلکی نماز پڑھائے) کیونکہ نمازیوں میں عمر رسیدہ بھی ہوتے ہیں، مریض بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں اپنے کام کاج کیليے جلدی جانا ہوتا ہے۔‘‘
٭معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک شخص کو چھینک آئی۔ تو میں نے کہا: (یَرْحَمُكَ اللّٰہُ) اِس پر لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ میں نے کہا: میری ماں مجھے گم پائے! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ مجھے اِس طرح دیکھتے ہو! چنانچہ انھوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردئیے۔ میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں: (ما رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ ولَا بَعْدَهُ أحْسَنَ تَعْلِيمًا منه، فَوَاللَّهِ، ما كَهَرَنِي ولَا ضَرَبَنِي ولَا شَتَمَنِي)(صحيح مسلم:537) میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد آپ سے بہتر تعلیم دینے والا کبھی نہیں دیکھا، اللہ کی قسم! آپ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا اور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إنَّ هذِه الصَّلَاةَ لا يَصْلُحُ فِيهَا شيءٌ مِن كَلَامِ النَّاسِ، إنَّما هو التَّسْبِيحُ والتَّكْبِيرُ وقِرَاءَةُ القُرْآنِ)(صحيح مسلم:537)
’’بے شک یہ نماز ایسی عبادت ہے کہ اس میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔ اس میں تو بس تسبیح وتکبیر اور قراءت ِقرآن ہی ہے۔‘‘
04.عفو ودرگذر اور بردباری
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہایت برد بار اور متحمل مزاج تھے اور کسی شخص سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچتی تو آپ اسے برداشت کرتے اور اذیت پہنچانے والے کو معاف کردیتے۔ اِس کے بھی متعدد نمونے موجود ہیں۔
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا۔ آپ نے ایک نجرانی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کے کنارے موٹے تھے۔ اچانک ایک دیہاتی بدو آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو پکڑ کر اس قدر شدت سے کھینچا کہ میں نے آپ کی گردن پر اس کے نشانات دیکھے۔ پھر اس نے کہا:( يا مُحَمَّدُ مُرْ لي مِن مَالِ اللَّهِ الذي عِنْدَكَ)(صحيح البخاري:6088) ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اس مال میں سے دینے کا حکم دو جو اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات فرمایا، پھر ہنس دئیے اور اسے مال دینے کا حکم جاری کیا۔
٭اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آٹھ سال کی عمر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شروع کی اور دس سال کرتا رہا، اِس دوران آپ نے مجھے میرے ہاتھوں کسی چیز کے تلف ہونے پر کبھی ملامت نہیں کی۔ اور اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ فرماتے: (دعوهُ فإنَّهُ لو قُضِيَ شيءٌ كان) (أخرجه أحمد 13442) ’’اسے چھوڑ دو کیونکہ جس چیز کا فیصلہ ہو چکا وہ ہر حال میں ہونی ہے۔‘‘
٭حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم نجد کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگ کیليے نکلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات ایسی جگہ پر ہوئی جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے اپنی سواری سے اترے اور اپنی تلوار اس کی ایک ٹہنی سے لٹکا کر سو گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اِدھر اُدھر بکھر گئے اور جہاں جس کو سایہ ملا وہ وہیں آرام کرنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان فرمایا کہ (إنَّ رَجُلًا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فأخَذَ السَّيْفَ فَاسْتَيْقَظْتُ وَهو قَائِمٌ علَى رَأْسِي، فَلَمْ أَشْعُرْ إِلَّا وَالسَّيْفُ صَلْتًا في يَدِهِ، فَقالَ لِي: مَن يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قالَ قُلتُ: اللَّهُ، ثُمَّ قالَ في الثَّانِيَةِ: مَن يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قالَ قُلتُ: اللَّهُ، قالَ: فَشَامَ السَّيْفَ فَهَا هو ذَا جَالِسٌ،)) ((ثُمَّ لَمْ یُعَاقِبْہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم))(صحيح مسلم:843)
’’میں جب سویا ہوا تھا تو ایک آدمی میرے پاس آیا اور اس نے میری تلوار اٹھائی، میں بیدار ہوا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا ہے، اس نے مجھ سے کہا: (مَن يَمْنَعُكَ مِنِّي؟)آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ بچائے گا۔ اس نے پھر کہا: (مَن يَمْنَعُكَ مِنِّي؟) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے پھر بھی یہی کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی بچائے گا۔ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ اور دیکھو! یہ ہے وہ شخص۔ ‘‘حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہ دی۔ یعنی اسے معاف کردیا۔
٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے اور کہا: (السَّامُ علَيْكُم) ’’آپ پر موت ہو‘‘ میں ان کے یہ الفاظ سمجھ گئی۔ چنانچہ میں نے کہا: (عَلَيْكُمُ السَّامُ واللَّعْنَةُ) ’’تم پر موت بھی ہو اور لعنت بھی‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَهْلًا يا عَائِشَةُ، فإنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ في الأمْرِ كُلِّهِ) ’’عائشہ! ٹھہر جاؤ (نرم رویہ اختیار کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے سنا نہیں، انھوں نے کیا کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے نہیں سنا کہ میں نے (وعلَيْكُم) کہہ کر ان کی بات کو انہی پر لوٹا دیا ہے۔(صحيح البخاري:6256)
اس حدیث میں غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی بد گوئی کو برداشت کیا اور ان کی بات کا اتنا ہی جواب دیا جتنی انھوں نے کی تھی، اس سے زیادہ ایک لفظ بھی آپ نے نہیں بولا۔ یہ ہے بردباری اور تحمل مزاجی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب یہودیوں کے بارے میں یہ رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو مسلمان بھائی اِس رویہ کے زیادہ مستحق ہیں۔
05.لوگوں کے ساتھ حسن ِتعامل اور خندہ پیشانی
٭حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
( ما حَجَبَنِي النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مُنْذُ أسْلَمْتُ، ولَا رَآنِي إلَّا تَبَسَّمَ في وجْهِي)(صحيح البخاري:3035) ’’میں نے جب سے اسلام قبول کیا ہے تب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے گھر میں آنے سے منع نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا میرے سامنے مسکرا دئیے۔‘‘
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی اِس طرح نہیں دیکھا کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں بات شروع کی ہو اور آپ نے اس کے پیچھے ہٹنے سے پہلے اپنا سر پیچھے ہٹا لیا ہو۔ اور نہ ہی میں نے کبھی یوں دیکھا کہ کسی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا ہو، پھر آپ نے اس کا ہاتھ اُس سے پہلے چھوڑ دیا ہو۔ (سنن أبي داؤد:4794۔ حسنہ الألبانی) یہ انداز تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کے ساتھ میل جول رکھنے اور باہم ملاقات کرنے کا کہ کسی کو آپ اپنے ہاں آنے سے منع نہیں کرتے تھے، اپنے ساتھیوں سے قریب رہتے، بوقت ِملاقات انھیں اپنائیت کا احساس دلاتے اور ان کی ضرورتوں میں ان کا ساتھ دیتے۔
٭حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد (عبد اللہ بن حرام رضی اللہ عنہ) فوت ہوئے تو ان پر بہت زیادہ قرض تھا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ آپ قرض خواہوں سے بات کریں کہ وہ کچھ قرض معاف کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات کی تو انھوں نے قرض معاف کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں کھجور کے باغ میں جاؤں اور پھل اتار کر انواع واقسام کی کھجوروں میں سے ہر قسم کو الگ الگ رکھوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہی کیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا تو آپ تشریف لے آئے، باغ کے درمیان بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: اب تم قرض خواہوں میں سے ہر ایک کو اس کے قرض کے بقدر کھجور کا پھل دینا شروع کرو۔ میں نے انھیں پھل دینا شروع کیا یہاں تک کہ سب کا قرض ادا ہوگیا اور کھجوروں کا پھل اتنا باقی رہ گیا کہ جیسے اس میں سے کچھ لیا ہی نہیں گیا (یا جیسے اس کو ہاتھ ہی نہیں لگایا گیا۔)(صحیح البخاری:2127 ،2405) بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد اُحد کے دن شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ قرض خواہوں نے شدت سے مطالبہ کیا کہ انھیں ان کا حق دیا جائے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور گذارش کی کہ آپ قرض خواہوں سے کہیں کہ وہ میرے باغ کا پھل جتنا ہو اسے قبول کر لیں اور باقی قرض میرے والد کو معاف کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بات کی تو انھوں نے انکار کردیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’تم صبح کو اپنے باغ میں میرا انتظار کرنا‘‘ اگلے دن صبح ہی کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باغ میں تشریف لے گئے، باغ میں ایک چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا کی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد انھوں نے پھل اتارا اور اسے قرض خواہوں میں ان کے قرض کے بقدر تقسیم کیا، اس کے بعد بھی بہت سارا پھل بچ گیا۔(صحیح البخاری:2395)
06.گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر بھی عام لوگوں سے اعلی اخلاق کا مظاہرہ کرتے اور اسی طرح گھر کے اندر بھی اپنے گھر والوں سے بہت اچھا سلوک کرتے۔ ان سے اظہارِ محبت کرتے، ان کے حقوق کا بھرپور خیال رکھتے اور حتی کہ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بھی بٹاتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کرتےتھے؟ تو انھوں نے فرمایا: (كانَ في مِهْنَةِ أهْلِهِ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ إلى الصَّلَاةِ.)(صحيح البخاري:6039) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کی خدمت کرتے تھے۔ پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو آپ اس کیليے کھڑے ہو جاتے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ (كان يَخيطُ ثوبَهُ ، ويخصِفُ نعلَه ، ويعملُ ما يعملُ الرجالُ في بيوتِهم)(صحيح الجامع:4937) ’’آپ اپنا (پھٹا ہوا) کپڑا سیتے تھے، جوتے کو پیوند لگاتے تھے اور ہر وہ کام کرتے تھے جو دوسرے لوگ اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔‘‘
07.خادم کے ساتھ حسن ِسلوک
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (خَدَمْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَما قالَ لِي: أُفٍّ، ولَا: لِمَ صَنَعْتَ؟ ولَا: ألَّا صَنَعْتَ؟)(صحيح البخاري:6038) ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی، اس دوران آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں کیا؟ اور نہ یہ کہ تم نے یہ کیوں نہیں کیا؟‘‘
٭حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ (ما ضَرَبَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ شيئًا قَطُّ بيَدِهِ، وَلَا امْرَأَةً، وَلَا خَادِمًا؛ إلَّا أَنْ يُجَاهِدَ في سَبيلِ اللهِ، وَما نِيلَ منه شَيءٌ قَطُّ، فَيَنْتَقِمَ مِن صَاحِبِهِ؛ إلَّا أَنْ يُنْتَهَكَ شَيءٌ مِن مَحَارِمِ اللهِ، فَيَنْتَقِمَ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ)(صحيح مسلم:2328)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی چیز کو نہیں مارا، نہ کسی عورت کو اور نہ ہی کسی خادم کو مارا۔ الا یہ کہ آپ اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہوں۔ اور آپ کو جب کبھی ایذاء پہنچائی گئی اس پر آپ نے ایذاء پہنچانے والے سے بدلہ نہیں لیا۔ ہاں اگر اللہ کی حرمات میں سے کسی کا ارتکاب کیا گیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ضرور بدلہ لیا۔‘‘
08.بچوں پر شفقت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کیليے نہایت مشفق تھے، ان کے ساتھ بہت پیار کرتے تھے، انھیں اپنی گوزد میں بٹھاتے اور انھیں بوسے دیتے تھے۔
٭حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( ما رأَيْتُ أحَدًا أرحَمَ بالعيالِ مِن رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بچوں پر شفقت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
نیز ان کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم مدینہ منورہ کے ایک محلہ (عوالی) میں کسی عورت کے ہاں دودھ پیتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ملنے کیليے جایا کرتے تھے۔ ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے ۔ دودھ پلانے والی عورت کا خاوند لوہار تھا، اس ليے اس کے گھر میں دھواں رہتا تھا۔ پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں جاتے، بچے کو اٹھاتے، اسے بوسہ دیتے اور پھر واپس لوٹ آتے۔
اور جب وہ فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إنَّ إبْرَاهِيمَ ابْنِي، وإنَّه مَاتَ في الثَّدْيِ، وإنَّ له لَظِئْرَيْنِ تُكَمِّلَانِ رَضَاعَهُ في الجَنَّةِ)) (أخرجه مسلم 2316)
’’ بے شک ابراہیم میرا بیٹا تھا اور وہ مدتِ رضاعت میں فوت ہو گیا ہے۔ اب اس کیليے جنت میں دو دودھ پلانے والیاں ہیں جو اس کی رضاعت مکمل کریں گی۔‘‘
جبکہ صحیحین کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر یوں فرمایا:
((تَدْمَعُ العَيْنُ وَيَحْزَنُ القَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا ما يَرْضَى رَبَّنَا، وَاللَّهِ يا إِبْرَاهِيمُ إنَّا بكَ لَمَحْزُونُونَ)) (صحيح مسلم: 2315)
’’ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور دل غمزدہ ہے۔ پھر بھی ہم صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں جو ہمارے رب کو پسند ہے ۔ اللہ کی قسم! اے ابراہیم ہم تمھاری جدائی پر غمگین ہیں۔‘‘
٭حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپ نے اپنے کندھے پر (اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص کو اٹھا رکھا تھا۔ پھر آپ نے اسی حال میں نماز شروع کردی ، پس جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار کر بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے۔
٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ کے پاس حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا: میرے دس بچے ہیں لیکن میں نے تو ان میں سے کسی کو کبھی بوسہ نہیں دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا:
((مَنْ لَّا یَرْحَمْ لَا یُرْحَمُ)) ’’جو کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (صحیح البخاری 5997، صحیح مسلم :2318)
09.ادائیگیٔ حقوق
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے حقوق انھیں ادا کرتے تھے۔ اگر کسی سے کوئی چیز بطور قرض لیتے تو ادائیگی کے وقت اُس سے بہتر چیز ادا کرتے اور قرض خواہ کے حق میں دعا بھی فرماتے۔ اور بعض اوقات کسی سے کوئی چیز خرید کر اس کی قیمت بھی ادا کردیتے اور وہ چیز بھی اسے واپس کردیتے۔
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا (جو ایک اونٹ تھا) تقاضا کرنے آیا تو اس نے آپ سے سخت کلامی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا:((دَعُوهُ فإنَّ لِصَاحِبِ الحَقِّ مَقَالًا)) (صحيح البخاري: 2306) ’’ اسے چھوڑ دو کیونکہ حق والا (سختی سے) بات کرسکتا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (( أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ)) ’’ اسے اِس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اس سے بہتر اونٹ ہی ملا ہے ، اُس جیسا نہیں ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَعْطُوهُ، فإنَّ مِن خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً)) ’’ اسے وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو ادائیگی میں بہتر ہو۔‘‘
٭ حضرت عبد اللہ بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے قرض لیا جو چالیس ہزار تھا۔ پھر آپ کے پاس مال آیا تو آپ نے مجھے قرض ادا کردیا اور فرمایا: ((بارَكَ اللهُ لكَ في أهلِكَ ومالِكَ، إنَّما جَزاءُ السلَفِ الحَمدُ والأداءُ)) ( تخريج زاد المعاد: 1/159) ’’ اللہ تعالیٰ تمھارے گھر والوں میں اور تمھارے مال میں برکت دے۔ بے شک قرضے کا بدلہ یہ ہے کہ قرض دار قرض دینے والے کا شکر ادا کرے اور قرض واپس کردے۔‘‘
٭حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ واپس لوٹتے ہوئے میں ایک اونٹ پر سوار تھا جو انتہائی تھک چکا تھا ، چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ اسے چھوڑ دوں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پیچھے سے آئے ، میرے ليے دعا فرمائی اور اسے مارا۔ پھر وہ ایسا چلا کہ اُس جیسا کبھی نہ چلا تھا۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اب تمھارا اونٹ کیسا ہے؟ میں نے کہا: اب بخیر ہے اور آپ کی برکت کا اُس پر اثر ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مجھے بیچ دو۔ میں نے کہا: نہیں ، یہ آپ کیليے (ہدیہ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، یہ مجھے بیچ دو۔ میں نے پھر یہی جواب دیا کہ یہ آپ کیليے (ہدیہ) ہے۔ آپ نے تیسری بار پھر فرمایا: نہیں ، یہ مجھے بیچ دو۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ، میں نے ایک آدمی کے چند درہم دینے ہیں وہ آپ اپنے ذمے لے لیں اور یہ اونٹ خرید لیں ، ہاں یہ اونٹ میں آپ کو مدینہ پہنچ کر دونگا۔ آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ مدینہ منورہ میں پہنچے تو میں نے اونٹ آپ کو دے دیا اور آپ نے مجھے اس کی قیمت ادا کردی۔ (مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اسے سونے کا ایک اوقیہ دے دو اور کچھ مزید بھی ، چنانچہ انھوں نے ایک اوقیہ اور ایک قیراط مجھے دے دیا) پھر جب میں چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس بلوا کر فرمایا: ((لكَ الثَّمَنُ، وَلَكَ الجَمَلُ)) (صحيح مسلم: 715 ) ’’ قیمت بھی تمھاری اور اونٹ بھی تمھارا ہے۔‘‘ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ((خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ؛ فَهو لَكَ)) (صحيح مسلم: 715) ’’ اپنا اونٹ بھی لے لو اور درہم بھی لے لو ، دونوں چیزیں تمھاری ہیں۔‘‘
10.مزاح اور خوش طبعی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات خوش طبعی کیليے مزاح بھی کرتے تھے۔
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں (( یَا ذَا الْأُذُنَینِ)) ’’ اے دو کانوں والے ‘‘کہہ کر پکارا۔ یعنی ان سے مزاح کیا۔
٭نیزوہ بیان کرتے ہیں کہ دیہاتی لوگوں میں سے ایک آدمی جس کا نام ’زاہر‘ تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیہات سے کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دیتا تھا اور جب وہ واپس لوٹنے لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کچھ ساز وسامان دے دیا کرتے تھے اور آپ فرماتے تھے: (( إنَّ زاهرًا بادِيتُنا، ونحنُ حاضِرُوه)) (صحيح الجامع: 2087) ’’ بے شک زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محبت تھی حالانکہ وہ پست قامت تھا اور بہت زیادہ خوبصورت نہ تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، وہ اُس وقت آپ کا کچھ سامان بیچ رہا تھا۔ آپ نے اس کے پیچھے سے جا کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑو، یہ کون ہے؟ پھر اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ جب اس نے دیکھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک اس کی پیٹھ کو لگ رہا ہے تو اس نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھڑانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: (( من يشتري هذا العبدَ؟ )) ’’اس غلام کو کون خریدے گا؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! تب تو آپ مجھے بہت سستا پائیں گے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لكن عند اللهِ لستَ بكاسدٍ؟)) ’’ لیکن تم اللہ کے ہاں سستے نہیں ہو‘‘ یا آپ نے فرمایا: ((لکنْ أنت عند اللهِ غالٍ)) ’’لیکن تم اللہ کے ہاں بہت مہنگے ہو۔‘‘(رواہ أحمد وہو صحیح)
٭حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اسے سواری فراہم کی جائے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دونگا۔
اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کرونگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وهل تَلِدُ الإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ)) (سنن أبي داؤد :4998، سنن الترمذی:1991، صححہ الألبانی) ’’اونٹ کو بھی اونٹنی ہی جنم دیتی ہے۔‘‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کے بعض پہلو تھے۔ ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنائیں اور اُن عادات وخصائل ِحمیدہ کو اختیار کریں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔
دوسرا خطبہ
مسلمان پر لازم ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عقائد و اعمال کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار کی پاکیزگی کا بھی اہتمام کرے کیونکہ قیامت کے روز جب انسان کے اعمال کا وزن ہو گا تو ترازو کے نیکیوں والے پلڑے میں سب سے زیادہ وزنی چیز عقیدہ توحید کے بعد حسن اخلاق ہوگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:((إِنَّ أثقَلَ شيءٍ في الميزانِ يومَ القيامَةِ الخلُقُ الحسَنُ)) (رواہ أحمد وابن حبان وہو صحیح) ’’قیامت کے دن ترازو میں سب سے زیادہ بھاری حسن ِ خلق ہوگا۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کو اختیار کرنے کی توفیق دے۔آمین