مشرک سے تحائف کے تبادلے کا جواز

96۔سیدنا عبد الرحمن بن ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم ایک سو تیسں آدمیﷺ کے ہمراہ تھے، نبیﷺ نے دریافت فرمایا: ((هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ))

’’تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے؟“ ایک آدمی کے پاس ایک صاع (تقریباً سوا دو کلو) یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا، اسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے، اپنی بکریاں ہانکتا ہانکتا ادھر آنکلا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ((أَبَيْعٌ أَمْ عَطِيَّةٌ) ’’کیا تو (ان میں سے کوئی بکری) فروحت کرتا یا عطیہ دیتا ہے؟‘‘

یا آپ ﷺ نے فرمایا: ((أمْ هِبَةٌ)) ’’یا تو اسے ہبہ کرتا ہے۔‘‘ اس نے کہا:نہیں، بلکہ بیچتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔(أخرجه البخاري:5382، و مُسلم:2056)

توضیح و فوائد: آپﷺ کا اس مشرک سے پوچھنا کہ ’’یہ ہدیہ اور تحفہ کے طور پر دو گے،‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ مشرک سے تحفہ لیا جاسکتا ہے ورنہ آپ اس سے نہ پوچھتے۔

97۔سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبیﷺ کے پاس (پکا کر) بکری کا گوشت لائی جو زہر آلود تھا۔ آپﷺ نے اس گوشت میں سے کچھ کھایا، بعد ازاں اس یہودیہ کو پکڑ کر لایا گیا تو لوگوں نے کہا:کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا: ((لا)) ’’نہیں قتل نہ کرو۔‘‘ (أَخْرَجَهُ البخاري: 2617)

 سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں زہر کا اثر رسول اللہ علم کے تالوئے مبارک میں دیکھتا رہا ہوں۔ توضیح و فوائد: عنوان مشرکوں کے ہدیے کا ہے جبکہ وہ عورت یہودی تھی، اس کا جواب یہ ہے کہ یہودی اگرچہ موحد ہونے کے دعویدار تھے لیکن عملاً مشرک تھے۔ مزید معلوم ہوا کہ رسول اکرمﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔ ورنہ آپ ﷺ اسے پہلے ہی فرما دیتے کہ تم نے اس میں زہر ملایا ہے۔

98۔سیدنا  علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ دومۃ الجندل کے (حکمران) اکیدر نے نبی ﷺکی خدمت میں ریشم کا ایک کپڑا بطور ہدیہ بھیجا، آپ نے وہ کپڑا سیدنا  علی رضی اللہ تعالی عنہ کو دیا اور فرمایا:

((شَقِّقْهُ خُمْرًا بَيْنَ الْفَوَاطِمِ)). (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:2071)

 اسے کاٹ کر فاطماؤں (فاطمہ بنت رسول الله، فاطمہ بنت اسد، یعنی حضرت علی ہی اللہ کی والدہ اور فاطمہ بنت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہن)  میں (بطور) اوڑھنیاں بانٹ دو۔‘‘

99۔سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ اپنے قرض کا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (مجھ سے)

فرمایا: ((أَلَمْ تَرَ الرَّكَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الْأَرْبَعَ؟)) ’’کیا تو نے چار اونٹنیاں بیٹھی دیکھی ہیں؟“

میں نے کہا:جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ لَكَ رِقَابَهُنَّ، وَمَا عَلَيْهِنَّ فَإِنَّ عَلَيْهِنَّ كِسْوَةً وَطَعَامًا أَهْدَاهُنَّ إِلَىَّ عَظِيمُ فَدَكَ، فَاقْبِضْهُنَّ وَاقْضِ دَيْنَكَ)) (أخرجه أبو داود:3055)، والبيهقي في دلائل النبوة:348/1)

’’یہ اونٹنیاں اور جو کچھ ان پر (لدا ہوا) ہے وہ سب تیرا ہے۔ ان پر کپڑے ہیں اور کھانے کا سامان بھی ہے۔ یہ مجھے فدک کے سردار نے ہدیہ بھیجا ہے۔ یہ سب کچھ لے لے اور اپنا قرضہ ادا کر دے۔‘‘

100۔ سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعے کے دن اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فرما لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا يَلْبَسُ هٰذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ))

’’اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘

اس کے بعد کہیں سے رسول اللہﷺ کے پاس اسی قسم کے ریشی جوڑے آئے۔ ان میں سے ایک جوڑا آپﷺ نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی دیا۔ سیدنا عمر  رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی:اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا

عنایت فرمایا ہے، حالانکہ (اس سے پہلے)  آپ خود ہی حلہ عطارد (ریشمی جوڑے) کے بارے میں کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا))

’’یہ میں نے تمھیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے خود پہنو۔‘‘

 چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔ (أخرجه البخاري:886، و مسلم:2068)

توضیح و فوائد: اس روایت سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کو تحفہ دینا جائز ہے وہاں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کافر و مشرک جب تک کلمہ نہیں پڑھتا اس وقت تک فروعات اسلام کا پابند نہیں ہے۔ ورنہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ اسے تحفہ نہ دیتے، نیز معلوم ہوا کہ ریشم وغیرہ کا کاروبار کیا جاسکتا ہے۔

101۔ سیدنا عیاض بن حمار رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کی خدمت میں ایک اونٹنی بطور ہدیہ پیش کی، آپ نے پوچھا: ((أَسْلَمْتَ؟)) ’’کیا تم اسلام لائے ہو؟‘‘

میں نے کہا:جی نہیں۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبِّدِ الْمُشْرِكِينَ)) ’’مجھے مشرکین سے ہدیہ لینے سے منع کیا گیا ہے۔ ‘‘(أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:17482، وأبو داود:2667، والترمذي:1577)

حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: ((زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ)) کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مشرکین کا عطیہ اور تحفہ۔

102۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جاہلیت کے زمانے میں بھی لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب محمد (ﷺ)  ہی تھے، پھر جب انھوں نے نبوت کا دعوی کیا اور مدینہ چلے گئے تو حکیم بن حزام موسم حج میں مکہ مکرمہ آئے۔ ابھی کافر ہی تھے، انھوں نے ذی یزن کا جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو پچاس دینار میں خرید لیا تاکہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کریں۔ وہ اسے مدینہ لے گئے اور نبی ﷺ سے اسے بطور ہدیہ قبول کرنے کی درخواست کی۔ آپ ﷺنے قبول فرمانے سے انکار کر دیا، راویٔ حدیث عبید اللہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّا لَا نَقْبَلُ شَيْئًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَلَكِنْ إِنْ شِئْتَ أَخَذْنَاهَا بِالثَّمَنِ فَأَعْطَيْتُهُ حِينَ أَبٰي عَلَىَّ الْهَدِيَّةَ)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:15323)

’’ہم مشرکوں سے کوئی شے قبول نہیں کرتے۔ لیکن آپ چاہیں تو ہم اسے پیسوں کے بدلے لے لیتے ہیں۔‘‘ چنانچہ میں نے اسے آپ کو (پیسوں کے عوض) دے دیا۔

103۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھی۔ وہ رسول اللہ کے قریش کے ساتھ معاہدہ صلح کے وقت اپنے والد کے ساتھ مدینہ طیبہ آئی۔ میں نے رسول اللہ سے عرض کی: میری ماں میرے پاس کچھ تعاون کی امید سے آئی ہے۔ کیا میں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کر سکتی ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ((نَعَمْ صلى أُمَّكِ)) ’’ہاں، تم اپنی ماں سے صلہ رحمی کرو۔‘‘ (أخرجه البخاري: 2620، و مسلم: 1003)

 توضیح و فوائد: مشرک اور کافر کا تحفہ قبول کرنے یا ہدیہ دینے کے بارے میں وارد احادیث کی بنا پر علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ تمام دلائل کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چند شرائط کے ساتھ مشرک اور کافر کا تحفہ قبول کرنا جائز ہے: 1۔ تبادلہ تحالف کا مقصد محبت و مودت نہ ہو یا اس بنا پر آدمی کفار سے محبت نہ کرنے لگے کیونکہ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ…..﴾

’’اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے مومنوں کو آپ ایسا نہیں پائیں گے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھنے والوں سے محبت کریں…‘‘ (المجادلة22:58)

2۔ کسی دینی یا دنیادی خرابی کا باعث نہ ہو۔

‎3۔ جس چیز کا ہد یہ لیا یا دیا جا رہا ہو وہ بذات خود حلال اور جائز ہو، مثلاً: گانے بجانے کی چیزیں نہ ہوں۔

4۔ مسلمانوں کے عقائد پر زد نہ پڑتی ہو، مثلاً: صلیب وغیرہ کا ہدیہ قبول کرنا ناجائز ہوگا۔

5۔ہدیہ لینے یا دینے کا مقصد اسلام کی طرف راغب کرنا یا دینی و دنیاوی مصلحت ہو۔

…………………..