قبروں میں مسجد بنانے، وہاں یا ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی حرمت کا بیان

441۔ سیدہ عائشہ اور سیدنا  ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہم سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہﷺ  پر مرض الوفات میں نزع کی حالت طاری ہوئی تو آپﷺ نے اپنی چادر کو بار بار اپنے چہرہ اقدس پر ڈالنا شروع کر دیا۔ جب گھٹن محسوس فرماتے تو اسے چہرے سے اتار دیتے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے فرمایا:

((لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ انْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ)) (أَخْرَجَةُ البُخَاري:435، 436،1330، 1390، 3453، 3454، 4442، 5815، 5816، ومسلم:531)

’’یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔‘‘

اس طرح آپ امت کو یہود و نصاری کے (مشرکانہ)  افعال سے خبردار کر رہے تھے۔

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں: اگر آپ کی قبر کو مسجد، یعنی عبادت گاہ بنائے جانے کا خدشہ اور ڈر نہ ہوتا تو اسے ضرور ظاہر کر دیا جاتا۔

442۔  سیدنا عبد اللہ بن مسعود د  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ))(أخرجه أحمد: 3844، 4143)

’’یقینًا لوگوں میں سے بدترین وہ ہیں جن کی زندگی میں قیامت قائم ہوگی۔ اور وہ لوگ جو قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔ ‘‘

443۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ  رضی اللہ تعالی عنہما نے حبشہ میں ایک گرجا دیکھا تھا جس

میں تصویریں تھیں۔ (جب) انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (أخرجه البخاري:427، 3873، و مسلم: 528)

’’ان لوگوں کی عادت تھی کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس مسجد میں ان کی تصویریں بنا دیتے۔ قیامت کے دن یہ لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  قبر پہلے سے موجود ہو تو اس پر مسجد بنانا حرام ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مسجد پہلے موجود ہو اور قبر بعد میں بنے تو ایسی قبر کو وہاں سے ختم کرنا ضروری ہے، لیکن یہ کام حاکم وقت کا ہے تاکہ  فتنہ پیدا نہ ہو۔ لیکن ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ قبر قبلہ رخ نہ ہو اور جہاں تک نبیﷺ کی قبر کا تعلق ہے تو وہ گھر میں تھی، مسجد میں نہیں تھی۔ ضرورت کے تحت آس پاس کے مکانوں کو مسجد میں شامل کیا گیا تو آپﷺ کا گھر بھی اس توسیع میں آگیا۔ نہ قبر مبارک مسجد سے پہلے تھی، نہ بعد میں شامل کی گئی۔ آج تک وہ مکان الگ سے موجود ہے اور مسجد آس پاس وسیع ہو گئی ہے، اس لیے اسے دلیل بنا کر قبروں پر مساجد بنانا صحیح نہیں۔

444۔ سیدنا  ابو مرثد غنوی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ((لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُوْرِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:972 (97))

’’قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف رخ کرکے نماز ہی پڑھو۔“

توضیح و فوائد:  قبروں پر بیٹھنے کے دو معنی ہیں:

 ٭ قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا۔

٭ قبروں کے اوپر بیٹھنا۔

 یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں۔ اسی طرح قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا بھی منع ہے، خواہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کو کیا جائے کیونکہ یہ ذریعہ شرک ہے۔

445۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ  مدینہ طیبہ تشریف لائے اور مسجد بنانے کا حکم دیا۔

آپﷺ نے فرمایا: ((يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي)) (أَخْرَجَهُ البُخَارِي:  428، 1868، 3932، ومسلم: 524)

’’ بنو نجارا تم مجھ سے (مسجد کی) زمین کی قیمت وصول کرو۔‘‘

انھوں نے عرض کی ہم اس کا معاوضہ اللہ تعالی سے وصول کریں گے۔

الغرض آپ نے وہاں مشرکین کی قبریں اکھاڑنے کا حکم دیا تو انھیں کھودا گیا، پھر گڑھوں کو برابر کرنے کا حکم دیا تو انھیں ہموار کر دیا گیا، پھر آپ نے کھجوریں کاٹنے کا حکم دیا تو انھیں کاٹ دیا گیا، پھر ان تنوں کو مسجد کے قبلے کی طرف قطار میں گاڑ دیا گیا۔

توضیح و فوائد:  کسی بے آباد اور پرانے قبرستان کی جگہ مسجد بنانے کی ضرورت ہو جبکہ وہ قبرستان بھی غیر مسلموں کا ہو تو اس قبرستان کی قبریں ڈھا کر اس جگہ مسجد بنائی جا سکتی ہے، تاہم مسلمانوں کے قبرستان میں مسجد نہیں بنائی جاسکتی۔ مسلمانوں کے قبرستان کا احترام ضروری ہے۔

446۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اَلْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ))(أخرجه أحمد:11788، 11789، 11919، و الترمذي: 317، و ابن ماجه: 745، و ابن حبان: 1699)

’’قبرستان اور حمام (غسل خانوں) کے سوا ساری زمین مسجد (جائے نماز) ہے۔‘‘

447۔  سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: ((أَنَّ النَّبِيِّ نَهَى أَنْ يُّصَلّٰى بَيْنَ الْقُبُورِ))(أخرجه ابن  حبان: 1698، 2315، والبزار في مسنده: 441،442، 443)

’’نبی اکرم ﷺ نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘

 توضیح و فوائد:  اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح قبروں پر مسجد بنانا ناجائز ہے، اسی طرح قبرستان میں نماز پڑھنا بھی درست نہیں۔

448۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةٌ الْبَقَرَةِ))(أخرجه مسلم: 780)

’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، یقینًا شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔“

449- سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا))(أخرجه البخاري: 432، 1187، و مسلم: 777)

’’کچھ نماز (نوافل وغیرہ) اپنے گھروں میں ادا کرو، انھیں قبرستان مت بناؤ۔“

توضیح و فوائد:  جب گھروں کو قبرستان بنانا جائز نہیں اور ان میں تلاوت قرآن اور نماز پڑھنے کا حکم ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ قبرستان میں تلاوت قرآن کرنا اور نماز پڑھنا ناجائز ہے۔

450۔  سیدنا بریدہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَّزُورَ فَلْيَزُرْ، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا)) (أَخْرَجَهُ النسائي:2035)

’’میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب جو کوئی ان کی زیارت کرنا چاہے وہ کرے اورکوئی غلط بات نہ کہے۔“