کسی کو طبیب کہنے کا عدم جواز
663۔ سیدنا ابورمثہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد گرامی کے ساتھ رسول اللہ ﷺکے پاس آیا تو میرے والد گرامی نے آپﷺ کی پشت پر موجود ایک چیز (مہر نبوت) دیکھی۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے لیے اس کا علاج نہ کردوں کیونکہ میں طبیب ہوں؟ آپﷺ نے فرمایا:
(أَنْتَ رَفِيقٌ وَاللَّهُ الطَّبِيبُ)) (أخْرَجَهُ أَحْمَدُ:7110، 17492، والنسائي 53/8، وأبوداؤد: 4207، والشافعي في مسنده:98/2،
والحميدي: 866، والطبراني في الكبير: 715/22، والبيهقي في السنن: 27/7)
’’تو رفیق (مریض پر نرمی کرنے والا) ہے جبکہ طبیب تو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔“
توضیح و فوائد: ’’تو رفیق ہے جبکہ طبیب تو اللہ تعالی ہی ہے‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ تم مریض پر نرمی کرتے اور اس سے لطف وکرم سے پیش آتے ہو لیکن اسے بیماری سے شفا اور عافیت اللہ تعالی ہی دیتا ہے۔ (عون المعبود: 175/6) طبیب اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات میں سے ایک صفت ہے۔ یہ اس کا نام نہیں ہے۔ جس نے اسے نام شمار کیا ہے اس نے یقینًا غلطی کی ہے۔ مخلوق کے کسی فرد کو طبیب کہنا اس وقت جائز ہے جب وہ بیماری ( کی تشخیص) اور دوائی کے نسخے کی مہارت و حذاقت رکھنے والا ہو لیکن حقوق میں سے کسی کو اس معنی میں طبیب کہنا جائز نہیں کہ وہ مریض کو صحت یاب کرنے والا اور عافیت دینے والا ہے کیونکہ شفا بخشنے اور عافیت دینے والی ذات فقط اللہ وحدہ لاشریک کی ہے۔