تبرک کی ناجائز صورتیں

744۔ سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے مکہ فتح کیا تو ہمیں اپنے ساتھ لے کر قبیلہ ہوازن کی طرف نکلے، یہاں تک کہ ہم کفار کی ایک بیری کے پاس سے گزرے، بیری کا ایسا درخت کہ جس کے ارد گرد وہ اعتکاف کیا کرتے تھے، وہ اسے ذات انواط کا نام دے کر پکارتے تھے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک اس طرح کی ذات انواط مقرر کر دیجیے جیسی ان کی ذات انواط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اللَّهُ أَكْبَرُ، إِنَّهَا السَّنَنُ، هٰذَا كَمَا قَالَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلٰهَ ا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ، قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ))

’’اللہ اکبر! بلاشبہ یہی وہ طریقہ ہے، یہ تو وہی بات ہے جو بنی اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہی تھی:  ہمارے لیے (بھی) ایک معبود مقرر کر دیجیے جیسے ان کے لیے معبود ہیں۔ انھوں نے فرمایا: ”یقینا تم ایک ایسی قوم ہو جو جہالت کی مرتکب ہوتی ہو۔‘‘

پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((إِنَّكُمْ لَتَرْكَبُنَ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ)) ((أخرجه أحمد:21897، 21900، والترمذي: 2180، وابن حبان:6702)

’’یقینًا تم لازما اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے اور انداز کو اختیار کرو گے۔‘‘

745۔ معرور بن سوید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ہم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ نکلے۔ راستے میں

ہمارے سامنے ایک مسجد آگئی تو لوگ اس میں نماز پڑھنے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا:

((مَا شَأْنُهُمْ؟)) ’’ان کا کیا معاملہ ہے؟‘‘

انھوں نے جواب دیا! یہ وہ مسجد ہے جس میں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھی تھی۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: ((أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِاتِّبَاعِهِمْ مِثْلَ هٰذَا حَتّٰی أَحْدَثُوهَا بِيَعًا،

فَمَنْ عُرِضَتْ لَهُ فِيهِ صَلَاةٌ فَلْيُصَلِ وَمَنْ لَّمْ تَعْرِضُ لَهُ فِيهِ صَلَاةٌ فَلْيَمْضِ)) (أخرجه عبد الرزاق في مصنفه: 2734، وابن أبي شيبة:151/2، وذكره ابن حجر في الفتح: 569/1)

’’لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اس جیسی چیزوں کی پیروی کرنا شروع ہو گئے، یہاں تک کہ انھوں نے انھیں گرجا گھروں کی شکل دے دی تو جسے اس قسم کے مقام پر نماز کا وقت ہو جائے وہ تو پڑھ لے لیکن جسے یہاں نماز کا وقت تو نہ ہو وہ آگے بڑھے۔‘‘

746۔ نافع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ اس درخت کے پاس آتے ہیں جس کے نیچے آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تھی۔

 ((فَأَمَرَ بِهَا فَقُطِعَتْ))

’’انھوں ( سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس کے بارے میں حکم صادر فرما دیا، لہٰذا اسے کاٹ دیا گیا۔‘‘

توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ اگر کسی جگہ رسول اکرمﷺ نے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے تو وہاں حصول برکت کے لیے نماز پڑھنی جائز ہے۔ جہاں رسول اللہﷺ اتفاقی طور پر ٹھہرے ہیں یا گزرے ہیں اس مقام کو عبادت کے لیے خاص کرنا یا اس جگہ سے تبرک حاصل کرنا درست نہیں۔ اسی طرح مدینے کی مٹی وغیرہ کی صورت میں جو تبرک حاصل کیا جاتا ہے وہ نا جائز ہے۔

((أخرجه ابن أبي شيبة:150/2، وذكره ابن حجر في فتح الباري: 448/7)