ستاروں کے اثر سے بارش کا عقیدہ رکھنا کفر ہے

819۔ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر رات کو ہونے والی بارش کے بعد ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، جب آپ نے ﷺ پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ((هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟))

’’کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے رب نے کیا فرمایا ہے؟‘‘

انھوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جاننے والے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ فَذلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا، فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ)) (أخرجه البخاري: 846، 1038، 4147،7503، ومُسْلِمٌ: 71)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میرے بندوں نے اس حال میں صبح کی کہ کچھ مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور کچھ میرے ساتھ کفر کرنے والے۔ جس نے یہ کہا کہ اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی، تو یہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں (کے تصرف) کا منکر ہے اور جس نے کہا کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش نصیب ہوئی ہے تو یہ میرے ساتھ کفر کرنے والا اور ستارے پر ایمان لانے والا ہے۔‘‘

صحیح بخاری کی ایک روایت میں ((مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ))

’’اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہم پر بارش ہوئی کی بجائے ((مُطِرْنَا بِرَحْمَةِ اللهِ وَ بِرِزْقِ اللهِ))

’’اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اللہ تعالی کے رزق کے باعث ہم پر بارش ہوئی۔‘‘ کے الفاظ منقول ہیں۔‘‘

820۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَلَمْ تَرَوْا إِلٰى مَا قَالَ رَبُّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: مَا أَنْعَمْتُ عَلٰى عِبَادِي مِنْ نِعْمَةٍ إِلَّا أَصْبَحَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِهَا كَافِرِينَ، يَقُولُونَ: الْكَوْكَبُ، وَبِالْكَوَاكِبِ)) (أخرجه مُسْلِمٌ:72)

’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ تمھارے رب عز وجل نے کیا فرمایا؟ اس نے فرمایا ہے: میں اپنے بندوں کو جو نعمت بھی عطا کرتا ہوں تو ان میں سے ایک گروہ اس نعمت کے سبب سے کفر کرنے والا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: فلاں ستارے یا فلاں فلاں ستاروں کے سبب سے (یہ نعمت ملی ہے)۔‘‘

821۔ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَوْ أَمْسَكَ اللهُ الْقَطْرَ عَنِ النَّاسِ سَبْعَ سِنِينَ، ثُمَّ أَرْسَلَهُ، لَأَصْبَحَتْ طَائِفَةٌ بِهِ كَافِرِينَ، يَقُولُونَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ الْمِجْدَحِ)) (أخرجه أحمد: 11042، وابن حيان: 6130)

’’اگر اللہ تعالی لوگوں سے سات سال بارش روک لے اور پھر نازل فرمائے تو ایک گروہ پھر بھی اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا ہوگا، وہ کہے گا: ہمیں مجدح ستارے کے طفیل بارش ملی ہے۔‘‘

822۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں لوگوں کو بارش سے نوازا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

((أَصْبَحَ مِنَ النَّاسِ شَاكِرٌ، وَمِنْهُمْ كَافِرٌ، قَالُوا: هٰذِهِ رَحْمَةُ اللهِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَقَدْ صَدَقَ نَوْءُ كَذَا وَكَذَا))

’’لوگوں میں سے کچھ شکر گزار ہو گئے ہیں اور کچھ کافر ( ناشکرے)۔ (بعض) لوگوں نے کہا: یہ اللہ کی رحمت ہے اور بعض نے کہا: فلاں فلاں نوء (ایک ستارے کا غروب اور اس کے سبب سے دوسرے کی بلندی سچی نکلی۔‘‘

(سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما) فرماتے ہیں: اس پر یہ آیات نازل ہوئیں: (أخرجه مسلم:73)

﴿ فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ۝ وَ اِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌۙ۝ اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ۝فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ۝ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ۝ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝ اَفَبِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ۝ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ۝﴾

(الواقعة:56:  75 تا 82)

’’پھر میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں اور بلاشبہ اگر تمھیں علم ہو تو یقینایہ بہت بڑی قسم ہے۔ که بلاشبہ یہ قرآن نہایت معزز ہے۔ ایک محفوظ کتاب میں۔ اسے تو نہایت پاکیزہ (فرشتے) ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ رب العلمین کی طرف سے نازل کی ہوئی ہے یا پھر تم اس کلام (قرآن) سے بے اعتنائی کرنے والے ہو؟ اور تم اللہ کی اس نعمت میں اپنا حصہ یہ ٹھہراتے ہو کہ بیشک تم (اسے) جھٹلاتے ہو۔‘‘

823۔سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، لَا يَتْرُكُونَهُنَّ: الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ وَالطَعْنُ فِي الْأَنْسَابِ وَالْإِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ)) (أخرجه مسلم:934)

’’جاہلیت کے چار کام ایسے ہیں جنھیں میری امت کے لوگ ترک نہیں کریں گے: حسب و نسب اور خاندانی شرف و فضیلت پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب اور خاندان میں نقص اور عیب نکالنا اور طعنہ زنی کرنا، ستاروں کے اثر سے بارش برسنے کا عقیدہ رکھنا اور نوحہ کرنا۔‘‘

824۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

((مَنْ قَالَ: سَقَانَا اللهُ فَقَدْ آمَنَ بِالله)) (أخرجه البخاري في التاريخ الكبير:301/1)

’’جس نے کہا: ہمیں اللہ نے پلایا، یعنی بارش نازل کی، وہ یقینًا اللہ پر ایمان لایا۔‘‘

825۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((يَكُونُ النَّاسُ مُجْدِبِينَ، فَيُنْزِلُ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى عَلَيْهِمْ رِزْقًا مِنْ رِزْقِهِ فَيُصْبِحُونَ مُشْرِكِينَ)) (أخرجه أحمد:15537، والطيالسي:1262)

’’لوگوں پر قحط سالی آئے گی، پھر اللہ تعالیٰ ان پر اپنے رزق (بارش) میں سے رزق نازل فرمائے گا تو وہ اللہ کے ساتھ شرک کریں گے۔‘‘

عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! وہ کس طرح؟

آپﷺ نے فرمایا: ((يَقُولُونَ: مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا)) .

’’وہ کہیں گے: ہم پر فلاں فلاں ستارے کے طفیل بارش بری ہے۔‘‘

توضیح وفوائد: بارش کے ہونے یا نہ ہونے میں ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ رکھنا شرک ہے کیونکہ صرف اللہ تعالی ہی بارش برساتا ہے۔ ستارے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں جس طرح بارش، چنانچہ ستاروں سے بارش کے برسنے یا نہ برسنے کا عقیدہ رکھنا درست نہیں۔