اختلاف کی مذمت

966۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ نبی سے میں نے وہ آیت اس سے مختلف سنی تھی، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

((كِلَا كُمَا مُحْسِنٌ))

’’تم دونوں کی قراءت ٹھیک ہے۔‘‘

(راوی حدیث) شعبہ نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:

((لَا تَخْتَلِفُوا فَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ اخْتَلَفُوا فَهَلَكُوا))(أخرجه البخاري: 2410، 3476، 5062)

’’اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہو گئے۔‘‘

967۔ سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک روز صبح صبح رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو اتنے

میں آپ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک آیت کے بارے میں اختلاف کر رہے تھے، آپ ﷺنکل کر ہمارے سامنے تشریف لائے، آپ کے چہرہ مبارک پر غصہ (صاف) پہچانا جا رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا:

((إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِاخْتِلَا فِهِمْ فِي الْكِتَابِ))(أخرجه مسلم،2666)

’’جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ کتاب اللہ کے بارے میں اختلاف کرنے کی بنا پر ہلاک ہو گئے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اگر قلتِ علم کے ساتھ ساتھ یہ دعوی بھی ہو کہ مجھے سب کچھ معلوم ہے تو شدید اختلاف پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ جہالت جس قدر زیادہ ہوگی اتناہی اختلاف بھی بڑھے گا اور بغیر دلیل کے بحث کرتا ہی وہ اختلاف ہے جس کی ان احادیث میں مذمت کی گئی ہے۔ بعض اوقات معاملہ حلال و حرام یا جائز یا ناجائز کی بجائے افضل اور غیر افضل کا ہوتا ہے لیکن اس معاملے میں اختلاف حرام کی طرف لے جاتا ہے اور افضل کو ثابت کرنے والا حرام کا مرتکب ہو جاتا ہے، اس لیے بے جا اختلاف سے گریز ضروری ہے، خصوصاً جب وہ اختلاف قرآن کے بارے میں ہو۔ قراءت یا مفہوم کا اختلاف بعض اوقات دونوں معنوں کا متحمل ہوتا ہے، اس لیے اس میں شدت اختیار کرنا ٹھیک نہیں۔

968۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا:

((أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فُرِضَ عَلَيْكُمُ الْحَجُّ، فَحُجُّوا))(أخرجه مسلمٌ:1337)

’’لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا حج کرو۔‘‘

ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال ؟ آپ خاموش رہے حتی کہ اس نے یہ کلمہ تین بار دہرایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَوْ قُلْتُ نعم، لَوَجَبَتْ، وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ))

’’اگر میں کہہ دیتا ہاں تو واجب ہو جاتا اور تم اس کی استطاعت نہ رکھتے۔‘‘

پھر آپﷺ نے فرمایا:

((ذَرُوْنِي مَا تَرَكْتُكُمْ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلٰى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ))

’’تم مجھے اس (بات) پر رہنے دیا کرو جس پر میں تمھیں چھوڑ دوں، تم سے پہلے لوگ کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے زیادہ اختلاف کی بنا پر ہلاک ہوئے، جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو بقدر استطاعت اسے کرو اور جب کسی چیز سے منع کروں تو اسے چھوڑ دو۔‘‘

توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی معاملے کے بارے میں فرمان نبوی آجانے کے بعد مسلمانوں کے اختلافات ختم ہو جانے چاہئیں اور عمل سے فرار کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

969۔ سعید بن ابوبردہ اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا (سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ) سے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے انھیں اور معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمایا:

((يَسِّرا وَلَا تُعَسِّرا، وبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرًا، وَتَطَاوَعا وَلَاتَخْتَلِفَا)).(أخرجه البخاري:2261 و مسلم:1733)

’’تم دونوں لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، لوگوں کو مشکل میں نہ ڈالنا، انھیں خوشخبری دینا، انھیں دین سے دور نہ بھگانا اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا، اختلاف نہ کرنا۔‘‘

توضیح و فوائد: دعوت کے میدان میں علماء کو ایک دوسرے کی تردید کی بجائے اصلاحی پہلو اختیار کرتے چاہیے۔ خصوصاً ان مسائل میں جن میں حلال و حرام کا معاملہ نہ ہو۔ حق بات اور صحیح مسئلہ بتانا یقیناً ضروری ہے ، تاہم دوسرے پر نقد و نظر اور طعن و تشنیع سے پر ہیز کرنا چاہیے۔

970۔ سیدنا جندب بن عبداللہ  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُكُمْ، فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا عَنْهُ)) (أخرجة البخاري:5060، 5061، 7364، 7365)

’’قرآن مجید کی تلاوت اس وقت تک کرو جب تک تمھارے دل اس پر مائل رہیں اور جب تمھیں اختلاف کا اندیشہ ہو (دل اچاٹ ہو جائے) تو پھر اٹھ جاؤ۔‘‘

971۔ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ الشَّيْطَانِ قَد أَيِسَ أَن يَعْبُدَهُ الْمُصَلُّونَ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَلٰكِنْ فِي التَحْرِيْش بَيْنَهُم))(أخرحه مسلم:2812)

’’شیطان اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں گے لیکن وہ ان کے درمیان لڑائی جھگڑے کرانے سے مایوس نہیں ہوا۔‘‘

توضیح و فوائد: مسلمانوں کے بابھی جھگڑے دینی ہوں یا دنیاوی، شیطان ان سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے اور طرح طرح کے فتنے پھیلاتا ہے۔ باہم لڑائی جھگڑے سے اللہ کی رحمت بھی اٹھ جاتی ہے۔ اس لیے جھگڑوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

972۔ سیدنا عبادہ بن صامت  رضی اللہ تعالی عنہ یان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ایک دفعہ شب قدر بتانے کے لیے (اپنے حجرے سے) نکلے، اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑ پڑے۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرْكُمْ بِلَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَإِنَّهُ تَلَاحَى فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَرُفِعَتْ وَعَسٰى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ، الْتَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ وَالتِّسْع وَالْخَمْسِ)) . (أخرجه البخاري:49، 2023، 6049)

’’میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تمھیں شب قدر بتاؤں مگر فلاں فلاں آدمی جھگڑ پڑے، اس لیے وہ (میرے دل سے) اٹھالی گئی اور شاید یہی تمھارے حق میں مفید ہو، اب تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انیسویں اور اکیسویں رات میں تلاش کرو۔‘‘

973۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((لا تَحَاسَدُوا وَلَا تَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلٰى بَيْعِ بعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، اَلْمُسْلِمُ أَخو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا)) (أخرجه مسلم:2564)

’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بعض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے، تقویٰ یہاں ہے۔‘‘

اور آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر فرمایا):

(بِحْسَبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ))

’’کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔‘‘

974۔ سیدنا جریر بن عبد الله رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كَفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَاتِ بَعْضٍ)) (أخرجه البخاري: 121، 4405، ومسلم:65)

’’(اے لوگو!) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارو۔‘‘