آسمانی کتابوں کا بیان
1111۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ سے ایمان کے بارے میں پوچھا، تو آپ ﷺنے فرمایا:
((أن تَؤْمِنَ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ))(أخرجه مسلم:8)
’’(ایمان) یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور آخری دن (یوم قیامت) پر ایمان رکھو اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لاؤ‘‘
توضیح وفوائدہ: اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء اور رسل بھیجے اور ان انبیاء پر کتابیں اور صحیفے بھی نازل فرمائے تا کہ لوگوں پر حجت تمام ہو جائے۔ اس امر پر ایمان رکھنا ضروری ہے کہ قرآن مجید کی طرح دیگر آسمانی کتا بیں بھی انبیاء پر نازل ہوئیں۔ ان میں تورات، انجیل اور زبور سرفہرست ہیں۔ ان کتابوں کے بارے میں اجمالاً یہ ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں۔ مگر وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ ان کتب میں گاہے گا ہے تغیر و تبدل ہوتا رہا۔ کسی تحریف کا قطعی ثبوت مل جائے تو اس کی تردید ضروری ہے۔ اس طرح ان کتب کے مندرجات میں جو حکم قرآن وسنت کے منائی نہ ہو اسے جھٹلا نا جائز نہیں، تاہم ان کتب کے احکام پر عمل کرنا ممنوع ہے کیونکہ قرآن وسنت نے تمام سابقہ کتب سماویہ کے احکام منسوخ کر دیئے ہیں۔
1112۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيْهِ المَدْحُ مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلْ، مِنْ أَجْلِ اللهَ مَدَحَ نَفْسَهُ. وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللهِ، مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْعَذَرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذٰلِكَ أَنزَلَ الْكِتَابَ وَأَرْسَلَ الرُّسُلَ))
(أخرجه البخاري:4634،4637، 5220، 7403 ومسلم:2760)
"”کوئی نہیں جسے اللہ تعالی سے بڑھ کر طرح پسند ہو، اسی بنا پر اس نے اپنی مدح فرمائی اور کوئی نہیں جو اللہ تعالی سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی بنا پر اس نے تمام فواحش حرام کر دیں اور کوئی نہیں جسے اللہ تعالی سے بڑھ کر بندوں کا اس سے معذرت کرنا پسند ہو، اسی بنا پر اس نے کتاب نازل فرمائی اور پیغمبر بھیجے۔‘‘
1113۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ روز روشن کی طرح حقیقت بن کر سامنے آ جاتا، پھر آپ کو تنہائی محبوب ہوگئی، چنانچہ آپ غار حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی راتیں گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔
آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر تو شہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ ایک روز جبکہ آپ غار حرا میں تھے، (یکا یک) آپ کے پاس حق آگیا اور ایک فرشتے نے آکر آپ سے کہا: ((إقرأ)) ’’پڑھوا‘‘
آپ ﷺنے فرمایا: ((وما أنا بقاریءٍ)) ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔‘‘
آپ ﷺکا فرمان ہے:
(فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الجَهْدَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: {اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ} [العلق: 2))
’’اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبو چا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی، پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو! میں نے پھر کہا: میں پڑھا ہوانہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار مجھے پکڑ کر بھینچا، پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو، اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھوا اور تمھارا رب تو نہایت کریم ہے۔‘‘
پھر رسول اللہﷺان آیات کو لے کر واپس آئے اور آپ کا دل (خوف سے) دھڑک رہا تھا۔
چنانچہ آپ (اپنی بیوی) سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ((زملوني زملوني)) ’’ مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اوڑھا دو۔‘‘
انھوں نے آپ کو چادر اوڑھا دی، یہاں تک کہ آپ سے خوف زدگی کی کیفیت دور ہوگئی، پھر آپ نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا:
((لقد خشيت علي نفسي)) ’’ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔‘‘
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا۔
((كلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ))
’’قطعا نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو بھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ آپ صلہ بھی کرتے ہیں؟ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، فقیروں، محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے سلسلے میں پیش آنے والے مصائب میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہﷺ کو ساتھ لے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزی کے پاس آئیں۔ ورقہ دور جہالت میں عیسائی ہو گئے تھے اور عبرانی زبان لکھنا پڑھنا جانتے تھے، چنانچہ عبرانی زبان میں حسب تولیق الہی انجیل لکھتے تھے۔ اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔ ان سے سید ہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: بھائی جان! اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔
ورقہ نے پو چھا بھتیجے کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا، بیان فرما دیا ۔ اس پر ورقہ نے آپ سے کہا: یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ ) ہے جسے اللہ تعالی نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانہ نبوت میں توانا ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔
رسول اللہ اللہ نے فرمایا:(( أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ)) ’’اچھا تو کیا وہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘
ورقہ نے کہا: ہاں ! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا آپ لائے ہیں تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اور اگر مجھے آپ کا زمانہ نصیب ہوا تو آپ کی بھر پور مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے اور وحی رک گئی۔
توضیح و فوائد: اس حدیث میں نبی ﷺ پر وحی الھی کی ابتدائی کیفیت کا ذکر ہے۔ انبیاء ﷺ کے خواب بھی وحی کا درجہ رکھتے تھے۔
1114۔ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ
سے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((حْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ)) (أخرجه البخاري:2، 3215،، ومسلم:2333)
’’کبھی تو وحی آنے کی کیفیت گھنٹی کی ٹن ٹن کی طرح ہوتی ہے اور یہ کیفیت مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے، پھر جب فرشتے کا پیغام مجھے یاد ہو جاتا ہے تو یہ موقوف ہو جاتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں میرے پاس آکر مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے محفوظ کر لیتا ہوں۔‘‘
سیدہ عائشہ میں فرماتی ہیں: میں نے سخت سردی کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب وحی آتی تو اس کے موقوف ہونے پر آپ کی پیشانی سے پسینا بہہ نکلتا۔
توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا نزول بھی گھنٹی کی جھنکار جیسی صورت میں ہوتا تھا اور ان آوازوں کے الفاظ کا القاءآپ کے قلب مبارک پر کر دیا جاتا تھا۔ وحی کی یہ قسم آپ پر بہت بھاری گزرتی تھی۔ کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آ کر اللہ کا پیغام پہنچا دیتا تھا۔ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی فرشتہ اپنی اصلی شکل میں آپ پر وحی لاتا تھا۔ کبھی وحی کا نزول خواب کی شکل میں ہوتا تھا۔
1115۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلٰى حَرْفٍ ، فَلَمْ أَأَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ حَتّٰى انْتَهٰى إِلٰى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ)) (أخرجه البخاري:3219، 4991، ومسلم:819)
’’مجھے جبرئیل علیہ السلام نے ایک قراءت میں قرآن پڑھایا تھا، پھر میں ان سے مسلسل مزید قراء توں کی خواہش کا اظہار کرتا رہا یہاں تک کہ معاملہ سات قراء توں تک پہنچ گیا۔‘‘
1116۔ سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: اہل کتاب تو رات کو خود عبرانی زبان میں پڑھتے لیکن مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((وَلَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ ، وَقُولُوا ﴿آمَنَّا بِاللهِ وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْنَا﴾(أخرجه البخاري:4484، 7362، 7542)
’’تم اہل کتاب کی تصدیق یا تکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو کہ ’’ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز ہے جو ہماری طرف نازل کی گئی۔‘‘
توضیح و خواند: تصدیق یا تکذیب سے مراد اس کے جزوی احکام ہیں۔ تصدیق اس لیے نہیں کہ ہو سکتا ہے، انھوں نے یہ حکم بدل دیا ہو اور اس میں تحریف کر دی ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ انسان ایسی بات کو اللہ کی طرف منسوب کر بیٹھے گا جو اس نے نہیں فرمائی: تکذیب اس لیے ٹھیک نہیں کہ ہو سکتا۔ وہ حکم اپنے اصل پر موجود ہو اور انسان اس کو مسترد کر کے گناہ گار ٹھہرے، اس لیے یہ کہنا چاہیے کہ ان کتاب میں جو اللہ کا حکم ہے اس پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
1117۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
((خُفِّفَ عَلَى دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام الْقُرْآنُ فَكَانَ يَأْمُرُ بِدَوَابِّهِ فَتُسْرَجُ فَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ تُسْرَجَ دَوَابُّهُ وَلَا يَأْكُلُ إِلَّا مِنْ عَمَلِ يَدِهِ)) (اخرجه البخاري:3417)
’’سیدنا داود علیہ السلام پر زبور کا پڑھنا آسان کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنی سواری کے متعلق حکم دیتے تو اس پر زین کسی جاتی ۔ سواری پر زین کسنے سے پہلے پہلے وہ زیور پڑھ لیتے تھے۔ اور اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھاتے تھے۔‘‘
توضیح و فوائد: یہاں قرآن سے مراد زبور ہے جو داود علم پر نازل ہوئی۔ یہاں اسے بار بار پڑھے جانے کی مناسبت سے قرآن کہہ دیا گیا۔
1118۔ سیدنا وثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
((أُعْطِيتُ مَكَانَ التَّوْرَاةِ السَّبْعَ ، وَأُعْطِیتُ مَكَانَ الرَّبُورِ الْمَئِينَ ، وَأُعْطِيتُ مَكَانَ الإنْجِيْلِ المَثَانِي، وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّل)) (أخرجه أحمد:16982، والطيالسي:1012، والبیهقي في الدلائل:475/5)
’’مجھے تو رات کی جگہ سات لمبی سورتیں، زبور کی جگہ سو آیات والی اور انجیل کی جگہ بار بار پڑھی جانے والی (درمیانی سورتیں) دی گئیں اور مفصل (جن کی آیات چھوٹی ہیں) کے ساتھ مجھے فضیلت دی گئی۔‘‘
توضیح و فوائد: اس سے معلوم ہوا کہ قرآن تمام سابقہ سماوی کتابوں کا مجموعہ ہے اور اس میں تورات و انجیل کے تمام احکام و علوم بدرجہ اتم موجود ہیں۔
1119۔ سیدنا ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا اُبی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا:
((ما تقرأ في الصلاة)) ’’ تم نماز میں کیا پڑھتے ہو؟‘‘
اُبی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے آپ ﷺ پر ام القرآن (سورہ فاتحہ ) کی تلاوت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! مَا أَنْزَلَ اللهُ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزُّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلَهَا ، وَإِنَّهَا للسّبْعُ مِنَ المَثَانِي)) (أخرجه أحمد:8682، 9345)
’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اللہ تعالی نے تورات، انجیل، زیور اور فرقان حمید میں بھی اس جیسی کوئی آیت نازل نہیں فرمائی۔ وہ بار بار دہرائی جانے والی سات آیات ہیں۔‘‘