آزادی اور اس کے تقاضے
اہم عناصر :
❄وطن سے محبت فطرتی چیز ہے ❄آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔۔۔؟
❄آزادی کیسے منائیں۔۔۔؟ ❄آزادی کے تقاضے
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم
وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ [النحل: 114]
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اِک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
ذی وقار سامعین!
ہندووں اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت،افکار و خیالات اور تاریخ سب جداگانہ تھے اور ہیں۔ اس لئے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنے مذہبی عقائد کے حساب سے آزادی سے رہ سکتے۔
ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد تھیں مسلمان اور ہندو ، اس لئے انکے لئے الگ الگ ملک ضروری تھے تاکہ یہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط کے خلاف اپنی سیاسی آواز  بلند کرنا شروع کی اور ان سب کو ایک چھتری تلے قائد اعظم محمد علی جناح نے جمع کیا ، دو قومی نظریے کے پیش نظر اس کے لئے بہت قربانیاں دی گئیں اور مسلمان مرد ، خواتین اور بچوں نے مل کر تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ ایک طویل جہدوجہد کے بعد 14 اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا اور پاکستان وجود میں آیا۔
اسی لئے اگست آزادی کا مہینہ ، خوشیوں بھرا مہینہ ، شکرانے کا مہینہ ، امیدوں اور امنگوں کی ترجمانی کا مہینہ ہے ، کیونکہ اس کی 14 تاریخ کو مسلمانوں نے باطل قوتوں کا پہنایا ہوا طوقِ غلامی اتار پھینکا تھا ، انگریزوں اور ہندؤوں کے پنجہ استبداد سے ایک الگ ریاست حاصل کی تھی۔
اس لئے ہم آج کے خطبہ جمعہ میں  وطن کی محبت ، آزادی اور آزادی کے تقاضوں کے حوالے سے چند باتیں سمجھیں گے۔
وطن سے محبت فطرتی چیز ہے
ہر انسان کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ اسے اپنے وطن ، علاقے اور ملک سے محبت ہوتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وطن سے محبت:
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ملک اور وطن مکہ مکرمہ سے بہت زیادہ محبت تھی اور اسی محبت میں ہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن کے لئے دعائیں مانگیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن بنا کر نازل فرمادیں۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
"اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس (جگہ) کو ایک امن والا شہر بنا دے اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں سے رزق دے، جو ان میں سے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ فرمایا اور جس نے کفر کیا تو میں اسے بھی تھوڑا سا فائدہ دوں گا، پھر اسے آگ کے عذاب کی طرف بے بس کروں گا اور وہ لوٹنے کی بری جگہ ہے۔” [البقرہ: 126]
آقائے کائناتﷺکی وطن سے محبت:
❄عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَّةَ مَا أَطْيَبَكِ مِنْ بَلَدٍ وَأَحَبَّكِ إِلَيَّ وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمِي أَخْرَجُونِي مِنْكِ مَا سَكَنْتُ غَيْرَكِ
ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’ کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا’۔ [ترمذی: 3926 صححہ الالبانی]
❄سیدنا انس فرماتے ہیں؛
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ فَأَبْصَرَ دَرَجَاتِ الْمَدِينَةِ أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَتْ دَابَّةً حَرَّكَهَا
"جب رسول اللہﷺسفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کر دیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔” [صحیح بخاری: 1802]
❄عَنْ أَنَسٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” كَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، فَنَظَرَ إِلَى جُدُرَاتِ الْمَدِينَةِ، أَوْضَعَ نَاقَتَهُ، وَإِنْ كَانَ عَلَى دَابَّةٍ حَرَّكَهَا، مِنْ حُبِّهَا”.
حضرت انس سے مروی ہے کہ نبیﷺجب کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو سواری سے کود پڑتے اور اگر سواری پر رہتے تو اس کی رفتار مدینہ کی محبت میں تیز کردیتے تھے۔ [مسند احمد: 12623 صحیح]
❄سیدنا ابوحمید ساعدی بیان کرتے ہیں کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر نبیﷺنے فرمایا؛
إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ، فَلَمَّا رَأَى أُحُدًا , قَالَ: هَذَا جُبَيْلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ
"میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپﷺنے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپﷺنے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔” [صحیح بخاری: 1481]
سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کی وطن سے محبت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہﷺمدینہ تشریف لائے تو ابوبکر اور بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہو گئے، ابوبکر  جب بخار میں مبتلا ہوئے تو یہ شعر پڑھتے:
كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ
وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ
"ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے۔”
 اور بلال  کا جب بخار اترتا تو آپ بلند آواز سے یہ اشعار پڑھتے:
أَلَا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ
وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ
"کاش! میں ایک رات مکہ کی وادی میں گزار سکتا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (گھاس )ہوتیں۔ کاش! ایک دن میں مجنہ کے پانی پر پہنچتا اور کاش! میں شامہ اور طفیل (پہاڑوں )کو دیکھ سکتا۔”
قَالَ: اللَّهُمَّ الْعَنْ شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، كَمَا أَخْرَجُونَا مِنْ أَرْضِنَا إِلَى أَرْضِ الْوَبَاءِ
” کہا کہ اے میرے اللہ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور امیہ بن خلف مردودوں پر لعنت کر۔ انہوں نے اپنے وطن سے اس وبا کی زمین میں نکالا ہے۔”
رسول اللہﷺنے یہ سن کر فرمایا؛
اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَفِي مُدِّنَا وَصَحِّحْهَا لَنَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ
ترجمہ:” اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ! اے اللہ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کر دے یہاں کے بخار کو جحیفہ میں بھیج دے۔”[صحیح بخاری: 1889]
آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔۔۔؟
آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اتنی بڑی نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کو بنی اسرائیل کے لئے ایک نعمت قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
❄ وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
"اور جب ہم نے تمھیں فرعون کی قوم سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے، تمھارے بیٹوں کو بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔” [ البقرہ: 49]
❄وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
"اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تمھیں فرعون کی آل سے نجات دی، جو تمھیں برا عذاب دیتے تھے اور تمھارے بیٹے بری طرح ذبح کرتے اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔”  [ ابراھیم: 6]
 ان دونوں آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا متبادل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہو سکتی، آزادی کے مقابلہ میں قیمتی سے قیمتی انمول موتی ہیرے اور جواہرات کی کوئی حیثیت اور قدر و منزلت نہیں ، آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو محکوم قوموں سے پوچھیں جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ایک ایک سانس تکلیف و پریشانی ،ذلت و رسوائی میں برسوں کے برابر گزرتا ہے، یہ تو پروردگار عالم اللہ بزرگ و برتر کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ آزادی جیسی گراں قدر اور بیش قیمت دولت محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما دی ہے تو ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرو منزلت کو پہچانیں اور اللہ وحدہُ لاشریک کا شکر ادا کریں، آج جو ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں من مانی اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔
آزادی کیسے منائیں۔۔۔؟
یہ بات ہم نے سمجھ لی کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کی خوشی منانی کس طرح ہے۔۔؟اسلام ایک جامع دین ہے جو ہماری ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے ، اس معاملے میں بھی اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ خوشی کس طرح منانی ہے۔
❄ عَنْ صُهَيْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ
ترجمہ : حضرت صہیب سے روایت ہے ،کہا:رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا؛”مومن کا معاملہ عجیب ہے۔اس کا ہرمعاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہےاور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کومیسر نہیں۔اسے خوشی اور خوشحالی ملے توشکر کرتا ہے۔اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو(اللہ کی رضا کے لیے) صبر کر تا ہے ،یہ(بھی) اس کے لیے بھلائی ہوتی ہے۔” [مسلم: 7500]
❄عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ عَاشُورَاءَ , فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَظْفَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ وَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ ثُمَّ أَمَرَ بِصَوْمِهِ”.
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریمﷺمدینہ تشریف لائے تو آپﷺنے دیکھا کہ یہودی عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس کے متعلق ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر فتح عنایت فرمائی تھی چنانچہ ہم اس دن کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور آپﷺنے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ [صحیح مسلم: 7500]
❄عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, أَنَّهُ كَانَ إِذَا جَاءَهُ أَمْرُ سُرُورٍ، أَوْ بُشِّرَ بِهِ, خَرَّ سَاجِدًا شَاكِرًا لِلَّهِ
ترجمہ: سیدنا ابوبکرہ  بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺکے پاس جب کوئی خوشی کی خبر آتی یا آپ ﷺکو بشارت دی جاتی تو آپﷺاللہ کا شکر کرتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔  [ابوداؤد: 2774 صححہ الالبانی]
ان تمام احادیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کی خوشی منانے کا طریقہ یہ نہیں کہ باجے بجائے جائیں یا آتش بازی کے ذریعے لوگوں کو پریشان کیا جائے ،  کیونکہ سلسلہ صحیحہ میں موجود ہے؛
عَنْ أَنْسِ بْنِ مَالِكٍ مَرفُوعاً: صَوتَانِ مَلْعُونَان ، صَوْتُ مِزْمَار عِنْد نِعمَةٍ ، وَ صَوت وَيْلٍ عِنْد مُصِيْبَة.
انس بن مالك‌ سے مرفوعا مروی ہے كہ: دو آوازیں ملعون ہیں۔ خوشی كے وقت ساز كی آواز اور مصیبت كے وقت نوحے كی آواز۔  [سلسلہ صحیحہ: 3280]
اس لئے اصل طریقہ یہ ہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے اورآزادی ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی شکر کرنے کا ہی حکم دیا ہے۔
 وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
"اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔” [النحل: 114]
اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو زیادہ ملے گا۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ
"اور جب تمھارے رب نے صاف اعلان کردیا کہ بے شک اگر تم شکر کرو گے تو میں ضرور ہی تمھیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب یقیناً بہت سخت ہے۔”[ابراہیم: 7]
آزادی کے تقاضے
1۔ اللہ کا شکر بجا لانا:
آزادی کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَاذْكُرُوا إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
"اور یاد کرو جب تم بہت تھوڑے تھے، زمین میں نہایت کمزور تھے، ڈرتے تھے کہ لوگ تمھیں اچک کرلے جائیں گے تو اس نے تمھیں جگہ دی اور اپنی مدد کے ساتھ تمھیں قوت بخشی اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، تاکہ تم شکر کرو۔”  [الانفال: 26]
2۔ عقیدہ توحید کا نفاذ:
آزادی کا دوسرا اور اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ آزاد ملک ، ریاست اور وطن میں عقیدہ توحید کا نفاذ کیا جائے ، کفر و شرک کا خاتمہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
"اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ضرور ہی جانشین بنائے گا، جس طرح ان لوگوں کو جانشین بنایا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور ہی اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انھیں ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں۔” [النحل: 114]
یہ  آزادی اور آزاد اسلامی ریاست کا اتنا اہم تقاضا ہے کہ نبیﷺنے مدینہ میں اپنی ریاست  قائم کرنے کے بعد شرک کے اڈوں کاخاتمہ اور قلع قمع کیا ہے۔ سیدنا جریر بن عبداللہ کہتے ہیں؛
قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ وَكَانَ بَيْتًا فِي خَثْعَمَ يُسَمَّى كَعْبَةَ الْيَمَانِيَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فِي خَمْسِينَ وَمِائَةِ فَارِسٍ مِنْ أَحْمَسَ وَكَانُوا أَصْحَابَ خَيْلٍ، قَالَ: وَكُنْتُ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ فَضَرَبَ فِي صَدْرِي حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ أَصَابِعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا فَانْطَلَقَ إِلَيْهَا فَكَسَرَهَا وَحَرَّقَهَا، ثُمَّ بَعَثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبِرُهُ، فَقَالَ رَسُولُ جَرِيرٍ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا جِئْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا كَأَنَّهَا جَمَلٌ أَجْوَفُ أَوْ أَجْرَبُ، قَالَ: فَبَارَكَ فِي خَيْلِ أَحْمَسَ وَرِجَالِهَا خَمْسَ مَرَّاتٍ”.
مجھ سے رسول اللہﷺنے فرمایا؛ ”ذوالخلصہ کو (برباد کر کے) مجھے راحت کیوں نہیں دے دیتے۔ یہ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم کا ایک بت خانہ تھا اور اسے كعبة اليمانية کہتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر چلا۔ یہ سب حضرات بڑے اچھے گھوڑ سوار تھے۔ لیکن میں گھوڑے کی سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ آپ ﷺ نے میرے سینے پراپنے ہاتھ سے مارا ‘ میں نے انگشت ہائے مبارک کا نشان اپنے سینے پر دیکھا۔ فرمایا: اے اللہ! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ دکھانے والا اور خود ہدایت یافتہ بنا ‘ اس کے بعد جریر  روانہ ہوئے ‘ اور ذوالخلصہ کی عمارت کو گرا کر اس میں آگ لگا دی۔ پھر رسول اللہﷺکو اس کی خبر بھجوائی۔ جریر کے قاصد (ابو ارطاۃ حصین بن ربیعہ) نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر عرض کیا اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اس وقت تک آپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا ‘ جب تک ہم نے ذوالخلصہ کو ایک خالی پیٹ والے اونٹ کی طرح نہیں بنا دیا ‘ یا (انہوں نے کہا خارش والے اونٹ کی طرح مراد ویرانی سے ہے۔ جریر نے بیان کیا کہ یہ سن کر آپﷺنے قبیلہ احمس کے سواروں اور قبیلوں کے تمام لوگوں کے لیے پانچ مرتبہ برکتوں کی دعا فرمائی۔ [صحیح بخاری: 3020]
3۔ اسلامی قوانین کا نفاذ:
آزادی کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے ملک و وطن میں اسلامی قوانین کا نفاذ کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ
"وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔” [الحج: 41]
4۔ عدل و انصاف کا قیام:
آزادی کا چوتھا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے ملک و وطن میں عدل و انصاف قائم کریں ، لوگوں کو ظلم و ستم اور بے انصافی سے نجات دلائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ
"اے داؤد! بے شک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔” [ص: 26]
اسلامی ریاست میں عدل و انصاف کیسا ہونا چاہئے۔۔۔؟ صرف ایک مثال پیشِ خدمت ہے۔
 عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالَ: وَمَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: وَمَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ ثُمَّ، قَالَ: إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا”.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مخزومیہ خاتون (فاطمہ بنت اسود) جس نے (غزوہ فتح کے موقع پر) چوری کر لی تھی، اس کے معاملہ نے قریش کو فکر میں ڈال دیا۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس معاملہ پر رسول اللہﷺسے گفتگو کون کرے! آخر یہ طے پایا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما آپﷺکو بہت عزیز ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی اس کی ہمت نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اسامہ نے آپﷺسے اس بارے میں کچھ کہا تو آپﷺنے فرمایا۔ اے اسامہ! کیا تو اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں مجھ سے سفارش کرتا ہے؟ پھر آپﷺکھڑے ہوئے اور خطبہ دیا (جس میں) آپﷺنے فرمایا۔ پچھلی بہت سی امتیں اس لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب ان کا کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدﷺبھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ [صحیح بخاری: 3475]
5۔ عاجزی اور انکساری اختیار کرنا:
آزادی کا پانچواں تقاضا یہ ہے کہ آزادی ملنے کے بعد تکبر اور غرور کی بجائے عاجزی اور انکساری اختیار کی جائے ، یہی اسوہ رسول   ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَذَقْنُهُ عَلَى رَحْلِهِ مُتَخَشِّعًا»
"حضرت انس فرماتے ہیں : رسول اللہﷺفتح مکہ کے دن مکۃ المکرمہ میں داخل ہوئے تو عاجزی کی بنیاد پر (اپنا سر انور اس قدرجھکائے ہوئے تھے کہ) آپ کی ٹھوڑی مبارک کجاوہ کے ساتھ لگ رہی تھی۔ [مستدرک حاکم: 7888]
6۔ عفو و درگزر:
آزادی کا چھٹا تقاضا یہ ہے کہ آزادی ملنے کے بعد مار دھاڑ ، قتل و غارت اور بدلہ لینے کے بجائے عفو و درگزر اور معافی سے کام لیا جائے ، آقا علیہ السلام نے جب مکہ فتح کیا تو عفو و درگزر سے کام لیا۔ صحیح بخاری میں موجود ہے کہ جب اسلامی لشکر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا تو سیدنا سعد بن عبادہ   نے سیدنا أبو سفیان  کو کہا؛
يَا أَبَا سُفْيَانَ، الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ، الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْكَعْبَةُ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا عَبَّاسُ، حَبَّذَا يَوْمُ الذِّمَارِ، ثُمَّ جَاءَتْ كَتِيبَةٌ وَهِيَ أَقَلُّ الْكَتَائِبِ فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ وَرَايَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَلَمَّا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: أَلَمْ تَعْلَمْ مَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ؟ قَالَ:” مَا قَالَ؟” قَالَ: كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ:” كَذَبَ سَعْدٌ، وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُ”
ابوسفیان! آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ میں بھی لڑنا درست کر دیا گیا ہے۔ ابوسفیان  اس پر بولے: اے عباس!  قریش کی ہلاکت و بربادی کا دن اچھا آ لگا ہے۔ پھر ایک اور دستہ آیا یہ سب سے چھوٹا دستہ تھا۔ اس میں رسول اللہﷺاور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ نبی کریمﷺکا عَلم زبیر بن العوام  اٹھائے ہوئے تھے۔ جب نبی کریمﷺابوسفیان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے کہا آپ کو معلوم نہیں ‘ سعد بن عبادہ  کیا کہہ گئے ہیں۔ آپﷺنے دریافت فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ تو ابوسفیان نے بتایا کہ یہ یہ کہہ گئے ہیں کہ آپ قریش کا کام تمام کر دیں گے(سب کو قتل کر ڈالیں گے)۔ آپﷺنے فرمایا کہ سعد نے غلط کہا ہے بلکہ آج کا دن وہ ہے جس میں اللہ کعبہ کی عظمت اور زیادہ کر دے گا۔ آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ [صحیح بخاری: 4280]
سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) قریش کے سرداروں اور بڑے بڑے لوگوں نے کعبہ میں پنا لی، رسول اللہﷺتشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا اور ان (۳۶۰) بتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انھیں کمان کے کنارے کے ساتھ ٹھوکا مارتے گئے اور یہ فرماتے گئے ؛
 جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا [بنی اسرائیل: 81]
جب فارغ ہوئے اور نماز پڑھ لی تو آکر دروازے کی چوکھٹ کے دونوں کناروں کو پکڑا، پھر فرمایا؛ ’’اے معشر قریش! (بولو) کیا کہتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہم کہتے ہیں (آپ) رحیم و کریم بھتیجے اور چچا زاد (بھائی) ہیں۔‘‘ آپ نے پھر ان کے سامنے اپنی بات دہرائی، انھوں نے وہی جواب دیا، تو آپ نے فرمایا : ’’پھر میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا؛
 لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ
چنانچہ وہ سب نکل کر آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔
] السنن الکبریٰ للنسائي: ۱۱۲۹۸ [
7۔ اتفاق و اتحاد:
آزادی کا ساتواں تقاضا یہ ہے کہ آپس میں اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم کی جائے ، آقا علیہ السلام اور آپ کے صحابہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ہیں تو نبیﷺنے سب سے پہلا کام یہ کیا ہے کہ انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کروایا ہے ، جسے مؤاخاتِ مدینہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دوسرا خطبہ
آج کے خطبہ جمعہ میں ، ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے سب سے پہلے یہ بات سمجھی ہے کہ وطن سے محبت فطرتی چیز ہے ، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے اپنے علاقوں ، ملکوں اور وطنوں سےبہت زیادہ محبت تھی۔
اس کے بعد یہ بات سمجھی ہے کہ آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی فرعون سے آزادی کو ان کے لئے ایک نعمت قرار دیا ہے۔
اس کے بعد یہ بات سمجھی ہے کہ آزادی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرکے اور روزہ رکھ کے منائی جاتی ہے ، نہ کہ باجے بجا کر اور شور شرابہ کر کے۔
آخر میں یہ بات سمجھی ہے کہ شکرِ الٰہی ، ریاست میں عقیدہ توحید ، عدل و انصاف ، اسلامی قوانین کا نفاذ ، اتفاق و اتحاد اور عاجزی و انکساری اختیار کرنا آزادی کے تقاضے ہیں۔