نظریہ وحدت ادیان اک نامعقول عقیده

﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۝﴾ (آل عمران:85)
گذشتہ خطبہ جمعہ میں وحدت ادیان سے متعلق مختصری گفتگو ہوئی ، میں نے اس پر اکتفا کرنا چاہا، مگر بعض ساتھیوں کی طرف سے خواہش ظاہر کی گئی، کہ اس سے متعلق کچھ مزید معلومات دی جائیں۔
چنانچہ آج کا خطبہ بھی ان شاء اللہ نظریہ وحدت ادیان کے حوالے سے ہی ہوگا۔ نظریہ وحدت ادیان جیسا کہ گذشتہ گفتگو میں عرض کیا گیا کہ اک نامعقول، غیر فطری غیر منطقی اور لادینیت پر مبنی نظریہ ہے، مسلمانوں کو اس سے سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور ہر لحاظ سے بہت سے نقصانات ہیں۔
یہ جاننے کے لیے کہ یہ نظریہ نا معقول کس طرح ہے، غیر فطری کیونکر ہے، غیر منطقی اور لادینیت پر مبنی کیسے ہے اور اس کے کیا کیا نقصانات ہیں، یقیناً متعدد نشستیں درکار ہوں گی، لہٰذا ہم اس تفصیل میں تو نہیں جائیں گے، البتہ آج کی گفتگو میں چند مزید باتیں ضرور ہوں گی، ان شاء اللہ۔
جو لوگ اس نظریے کے خالق ہیں، جنہوں نے یہ نظریہ متعارف کروایا ہے، جو لوگوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں، اس کے پیچھے ان کے مفادات ہیں یا محض اک سازش ہی ہے جس کا مقصد اسلام کو پھیلنے سے روکنا اور مسلمانوں کو دین سے بے زار کرنا ہے؟
جو بھی ہو، مسلمانوں کو اس سے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسلام اور مسلمانوں کے نقطہ نظر سے یہ نظر یہ اک نہایت ہی نا معقول نظر یہ ہے اور وہ یوں کہ اگر انشخصیات کی زندگیوں پر نظر ڈالیں جن کی نسبت سے دنیا میں مذاہب وجود میں آئے، جو لوگوں میں رہبروں اور رہنماؤں کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں، جن کے پیروکاروں کی دنیا میں اک کثیر تعداد پائی جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ ان میں سے صرف تین چار شخصیات کا نام یادداشت میں محفوظ رکھتی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ ان کے حالات زندگی کے بارے
میں بہت ہی کم معلومات ملتی ہیں۔
مثال کے طور پر بدھ ازم کی بات کریں تو اس کے بانی بدھا، کہ جس کے ماننے والے اس وقت دنیا میں تقریبا ساڑھے تین سوملین لوگ پائے جاتے ہیں جو کہ کل آبادی کا تقریبا چھ فیصد ہے اس کے بارے میں ہمیں تاریخ میں چند قصوں اور کہانیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔ اسی طرح زرتشت (زردشت)، ایران کا اک مشہور فلسفی تھا، جو دین آتش پرستی کا بانی ہے، جس کے ماننے والے زرتشتی یا پارسی کہلاتے ہیں، اس کے حالات زندگی کے بارے میں بھی تاریخ خاموش ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے اور ان میں سے سب سے زیادہ جن کا ذکر ملتا ہے، وہ ہیں موسیٰ علیہ السلام۔ مگر ان کی زندگی کے متعلق بھی تو رات کے اوراق میں چند باتوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ تورات میں ان کی زندگی سے متعلق صرف ان کی پیدائش، ان کی جوانی ، ان کی ہجرت اور شادی، ان کی بعثت، ان کا جہاد اور ان کی وفات کا ذکر ملتا ہے اور بس، اس سے زیادہ کچھ نہیں، حالانکہ انہوں نے تقریباً ایک سو بیس (120) سال عمر پائی، مگر ان کی زندگی کے اکثر گوشے تشنۂ تفصیل ہیں۔
اور پھر آخر میں اسلام سے سب سے قریب دور حضرت میسی لینڈ کا ہے کہ جن کے پیروکار اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے حالات زندگی سب سے زیادہ تخلی اور غیر واضح ہیں، تینتیس سالہ زندگی کے ایام انہوں نے کیسے گزارے! انجیل خاموش ہے۔عوام کو رہنمائی کے لیے اپنے لیڈر اور رہنما اور ہادی و مرشد کی زندگی سے کیا درکار ہوتا ہے؟ اس کے اخلاق ، اس کی عادات، اس کا رہن سہن اور اس کی ہدایات اور یہ چیزیں ہمیں صرف اور صرف رسول کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے ملتی ہیں اور بدرجہ اتم ملتی ہیں۔ آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے انسانیت کو زندگی کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک شعبے میں رہنمائی ملتی ہے۔ آپ ﷺکی حیات مبارکہ ایک کھلی کتاب ہے، آپ ﷺ کی زندگی کا کوئی ایک پہلو بھی پوشیدہ نہیں حتی کہ گھریلو زندگی بھی پوشیدہ نہیں، آپ ﷺ کی خلوت اور جلوت کے تمام حالات دنیا کے سامنے ہیں۔
اور آپ ﷺنے اپنی تعلیمات اور عملی نمونے سے دنیا کو مکمل رہنمائی دی اور ہر میدان اور ہر شعبے میں دی، عقائد میں، عبادات میں، معاملات میں، کاروبار میں ، شادی بیاہ میں اور لین دین میں اصول بتلائے اور طریقے سکھلائے۔
اسی طرح کھانے پینے کے اٹھنے بیٹھنے کے، رہنے سہنے کے سونے جاگنے کے، سفر کے حضر کے، معاش کے، معاشرت کے، پڑوسیوں کے، دوستی اور دشمنی کے گفتگو کے، خاموشی کے مسکرانے کے، حکومت کرنے کے، فیصلہ سازی کے، پیدائش کے، وفات سے پہلے کے اور وفات کے بعد کے اور وراثت کے آداب بتلائے، ایک ایک شعبے میں رہنمائی فرمائی اور تفصیل کے ساتھ فرمائی۔
اب آپ خود ہی بتلائیں کہ اس نظریہ وحدت ادیان میں کون سی معقولیت ہے کہ ان نظریات کو جو ناقص، ادھورے، مبہم، منسوخ اور محرف ہیں، انہیں اس کامل اور مکمل دین اور نظام کے مساوی قرار دے کر حق اور باطل کو ، اندھیرے اور اجالے کو، ہدایت اور گمراہی کو یکجا کر دیا جائے۔
یہ سرا سر دھوکہ ہے، یہ ظلم اور زیادتی ہے، اپنے ساتھ بھی اور لوگوں کے ساتھ بھی ، یہ دین میں تحریف ہے، دین کے چہرے کو مسخ کرنا ہے، اس میں بھلا کون سی معقولیت ہے کہ انقوموں کو جو مشرک اور لادین ہیں، جو مغضوب عليهم اور الضالین ہیں، انہیں مسلمانوں کے برابر تصور کر لیں،
﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَؕ۝مَا لَكُمْ ۥ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ﴾ (القلم:35،36)
’’کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کر دیں گے ! تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟‘‘
اور یہ فرق و تمیز صرف آخرت میں ہی نہیں، بلکہ اس دنیا میں بھی اک مسلمان عزت و تکریم میں دوسروں سے زیادہ حق دار ہے۔
حدیث میں ہے، حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں،
((أَنَّهُ جَاءَ يَوْمَ الْفَتْحِ مَعَ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺجَالِسٌ حَوْلَهُ الْمُهَاجِرُونَ وَالْأَنْصَارُ))
’’کہ وہ یعنی عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ ابوسفیان کے ساتھ ، فتح مکہ کے روز آپ سی ایم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ کے اردگرد مهاجرین و انصار صحابہ بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
((فَقَالُوا هٰذَا أَبُو سُفْيَانَ وَعَائِدُ بْنُ عُمْرٍو))
’’لوگوں نے انہیں دیکھ کر کہا: یہ ابو سفیان اور عائد بن عمرو آئے ہیں ۔‘‘
ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ ابھی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، مگر چونکہ وہ قریش کے سردار تھے اور آپ ﷺان کی ہدایت کے بڑے خواہشمند تھے۔ لوگوں نے اس اہمیت کے پیش نظر ابوسفیان کا پہلے ذکر کیا اور حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کا جو کہ مسلمان تھے بعد میں نام لیا۔
((فَقَالَ رَسُولُ اللهِ: هَذَا عَائِدُ بْنُ عَمْرٍو وَ أَبُو سُفْيَانَ))
’’تو آپ ﷺنے صحیح کرتے ہوئے فرمایا: یہ عائد بن عمرو اور ابوسفیان ہیں ۔‘‘
((الإِسْلَامُ أَعْزُّ مِنْ ذٰلِكَ، الْإِسْلامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى)) (إرواء الغليل: 5/106)
’’اور فرمایا، اسلام اس سے زیادہ معزز ہے، بلندی اسلام کو ہے، اسلام پر نہیں ہے۔‘‘
یعنی عزت اور مقام و مرتبہ اسلام کی نسبت سے ہے، یعنی عزت و تکریم چاہے کسی کا نام ذکر کرنے کے لحاظ سے ہی ہو، اسلام کی نسبت سے ہی ہوگی ۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ہمہ دینیت کا نظریہ معقولیت سے عاری ہے اور منطقیت سے خالی ہے۔
اب اس میں کون سی معقولیت ہے کہ ایسے لوگوں کو جو دین میں تحریف کرتے ہیں، جو دین میں نکلو کرتے ہیں، جنہوں نے احبار و رہبان کو اللہ بنا رکھا ہے، جنہوں نے دین میں رہبانیت ایجاد کر رکھی ہے، جو انبیاء علیہ السلام کو قتل کرتے رہے ہیں، جو اہل ایمان سے حسد کرتے ہوئے انہیں دین سے پھیر دینا چاہتے ہیں، جو دین کا مذاق اڑاتے ہیں، جن پر اللہ کا غضب ہوا ہے، جن پر اللہ تعالی کی لعنت کی گئی ہے اور جو مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور بغض رکھتے ہیں ، ان کے ساتھ قربت پیدا کی جائے اور انہیں مسلمانوں جیسا سمجھ لیا جائے! اور پھر جب کہ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع بھی فرما رکھا ہو، جیسا کہ فرمایا:
﴿یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ ﴾(الممتحنه:13)
’’اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ تعالی نے غضب فرمایا ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ؕ﴾ (المائدة:51)
’’اور تم میں سے جو ان سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تمام ادیان باطلہ والوں سے دوستی کرنے ، ان کی مشابہت اور مماثلت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ قربتیں بڑھانے سے جو منع فرمایا ہے تو کسی بغض اور تعصب محض کی بناء پر نہیں بلکہ اس لیے کہ اس کے مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور نفسیاتی نقصانات ہیں ، مثلا نفسیاتی اور اخلاقی اعتبار سے یوں نقصان ہوتا ہے کہ: کسی کی قربت سے بسا اوقات آدمی کے خیالات اور عقائد و نظریات میں قدرے نرمی، ٹیک اور مدانت پیدا ہو جاتی ہے، آدمی اپنے موقف میں ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور ان کے رہن سہن کے انداز اور طور طریقے اپنانے لگ جاتا ہے، اسی طرح اور بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس معاملے میں نہایت سخت موقف اختیار فرماتے ، مثلاً: کسی غیر مسلم کو بغیر کسی شدید مجبوری کے کسی اہم عہدے پر رکھنے سے منع فرماتے، کیونکہ وہ اسے عزت و تکریم دینا شمار کرتے تھے جیسا کہ حضرت ابو موی الا شعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
((قُلْتُ لِعُمَرَ إِنَّ لِي كَاتِبًا نَصْرَانِيًّا))
’’میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ میں نے ایک عیسائی محرر اور منشی رکھا ہوا ہے۔‘‘
((قَالَ: مَالَكَ قَاتَلَكَ اللهُ))
’’تو فرمایا: تعجب ہے، تمہیں کیا ہو گیا ہے؟‘‘
((أَمَا سَمِعْتَ اللهَ يَقُولُ:))
’’کیا تم نے اللہ تعالی کا فرمان نہیں سنا ؟‘‘
﴿ یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوْلِیَآءَ ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ﴾ (المائدة:51)
’’کیا تم نے سنا نہیں؟ اللہ فرماتے ہیں: اے ایمان والو! یہود و نصاری کو دوست نہ بتاؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔‘‘
((أَلَا اتَّخَذْتَ حَنِيفًا ؟)
’’کوئی مسلمان کیوں نہیں رکھا ؟‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لِي كِتَابَتُهُ وَلَهُ دِينَهُ))
’’حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! میرا اس کے کام سے مطلب ہے، وہ جانے اور اس کا دین جانے ۔‘‘
((قَالَ: لَا أُكْرِمُهُمْ إِذْ أَهَانَهُمُ اللهُ ، وَلَا أُعِزُّهُمْ إِذْ أَذَلَّهُمُ اللهُ وَلَا أُدْنِيهِمْ إِذَ أَقْصَاهُمُ اللهُ)) (اقتضاء الصراط المستقيم:1/184)
’’ فرمایا: میں ان کی تکریم نہیں کروں گا جنہیں اللہ تعالی نے رسوا کیا ہو، میں انہیں عزت نہیں دوں گا جب کہ اللہ نے انہیں ذلیل کر رکھا ہو، اور میں انہیں قریب نہیں کروں گا جنہیں اللہ تعالیٰ نے دور کر رکھا ہو۔‘‘
آپ اس واقعہ سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کس قدر سخت احتیاط کرتے تھے کہ کفار کے ساتھ قربتیں نہ ہوں، کیونکہ انہیں عزت دینا، ان کے ساتھ قربتیں بڑھانا، اللہ تعالی کے حکم اور اس کے فیصلوں کے خلاف چلتا ہے اور اس کے علاوہ اس کے دیگر نقصانات بھی ہیں۔
امت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ زیرک اور دور اندیش کون ہو سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، مگر اپنی حیثیت، اپنی پہچان اور اپنا تشخص منفر د رکھنا اور کفار کی مشابہت سے باز رہنا صرف حضرت عمر ہی کی رائے نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے تو قرآن و حدیث اس پر دو ٹوک الفاظ میں اپنا حکم جاری کرتے ہیں اور کفار کی مشابہت سے باز نہ رہنے والوں کو شدید وعید سناتے ہیں اور پھر یہ موقف ایک اجماعی مسئلہ ہے ، اس پر صحابہ کرام اور دیگر سلف صالحین رحمہم اللہ کا اجماع ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں ذمیوں پر جو شرطیں عائد کی جاتی تھیں کہ جن کا وہ عہد کرتے تھے، ان میں سے یہ بھی تھیں، کہ:
((أَنْ تُوَقِّرَ الْمُسْلِمِينَ))
’’ہم مسلمانوں کی تو قیر اور تکریم کریں گے، انہیں عزت دیں گے۔‘‘
((وَأَنْ نَقُومَ لَهُمْ مِنْ مَجَالِسِنَا إِنْ أَرَادُوا الْجُلُوسَ))
’’اور ہم اپنی مجلسوں سے ان کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے ، اگر وہ بیٹھنا چاہیں گے تو۔‘‘
((وَلَا نَتَشَبَّهُ بِهِمْ فِي شَيْءٍ مِنْ مَلَا بِسِهِمْ))
’’اور ہم ان کے لباس میں سے کسی چیز کی ان کے ساتھ مشابہت نہیں کریں گے۔‘‘
((في قلنسوة، ولا عمامة، ولا نعلين، ولا فَرْقِ شَعرٍ))
’’نہ ٹوپی میں، عمامہ میں ، جوتے میں ہتی کہ بالوں میں مانگ نکالنے میں بھی۔‘‘
یعنی وہ ان چیزوں میں مسلمانوں کی مشابہت نہیں کریں گے بلکہ اپنی الگ پہچان رکھیں گے۔
((وَلَا نَكْتَنِي بِكُنَاهُمْ))
’’ان جیسی کنیت نہیں رکھیں گے۔‘‘
((وَلَا نَنْقُشُ خَوَاتِيْمَنَا بِالْعَرْبِيَّةِ))
’’اور ہم اپنی مہروں کو عربی الفاظ میں کرنے نہیں کروا ئیں گے (کھدوائیں گے نہیں) ۔‘‘
((وَلَا نَبِيْعُ الْخُمُورَ)) (تفسير ابن كثير ، سورة التوبة ، آیت:28،29)
’’اور ہم شراب نہیں بیچیں گے۔‘‘
اب انداز ہ کریں، آج امت مسلمہ کی پستی کا کیا عالم ہے، ایک دور تھا جب کافروں سے، ذمیوں سے عہد لیا جاتا تھا کہ وہ شراب نہیں بیچیں گے۔ آج خود مسلمان وہ کام کر رہے ہیں۔ پھر ذلیل و رسوا نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
افسوس کہ آج مجموعی طور پر امت مسلمہ کی یہی روش اور طور طریقہ ہے، اور یہی سب سے بڑا سبب ہے امت مسلمہ کے زوال و انحطاط کا کہ قرآن پاک کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اندلس کی تاریخ کے حوالے سے ایک بات یہ بھی منقول ہے کہ ایک انگریز بادشاہ نے اسلامی ملک پر حملے کا ارادہ ظاہر کیا تو اس کے ایک وزیر نے اسے مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ پہلے آپ وہاں کوئی جاسوس بھیج کر وہاں کے حالات معلوم کر لیں ، وہاں نو جوان نسل کا رحجان اور مزاج کیا ہے۔ ان کی خواہشات کیا ہیں، پھر اس کے بعد اس رپورٹ کے مطابق آپ حملہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں۔
بادشاہ کو یہ تجویز پسند آئی ، اس نے جاسوس بھیجا، اس نے دیکھا کہ ایک نو جوان درخت کے سائے میں بیٹھا رو رہا ہے، سبب پوچھا، اس نے بتایا کہ میں ایک ہی تیر کے ساتھ شکار کرنے میں ناکام رہا ہوں۔
اس نے کہا: یہ کون سی بڑی بات ہے، دوبارہ کوشش کرو، اس نوجوان نے کہا، اصل غم اس بات کا نہیں ہے کہ میں ایک ہی تیر کے ساتھ جانور کا شکار کیوں نہیں کر سکا، بلکہ اصل غم یہ ہے کہ کل کو کیا ہوگا اگر مجھے ایک ہی تیر سے اپنے اور اللہ کے دشمن کو شکار کرنا پڑ جائے تو !
اس جاسوس نے واپس آکر رپورٹ پیش کی تو بادشاہ نے جنگ کا ارادہ ملتوی کر دیا کہ جس نو جوان نسل کے ایسے ارادے ہوں، ان سے جنگ لڑنا آسان نہیں ہوتا۔
پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ حالات جاننے کے لیے آدمی بھیجا، اس نے دیکھا کہ شہر کے کنارے ایک نو جوان بیٹھا رو رہا ہے، پوچھا کیا ہوا؟ رونے کا سبب کیا ہے؟ کہا اس لیے رو رہا ہوں کہ یہاں میری محبوبہ کی انگوٹھی کھو گئی ہے، یہ سن کر بادشاہ نے حملے کا حکم دے دیا۔
آج یوں تو مجموعی طور پر امت مسلمہ کچھ ایسی ہی پستی کا شکار ہے، مگر خصوصی طور پر اگر پاکستان کی نوجوان نسل کے رحجانات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ قوم کس طرف جا رہی ہے۔ آج میری یہ باتیں شاید آپ کو عجیب معلوم ہوتی ہوں ، مگر میں اپنے مشاہدے کی بات کرتا ہوں کہ ہمیں بھی بچپن میں کچھ باتیں ایسے ہی عجیب معلوم ہوتی تھیں، جن کی حقیقت بہت بعد میں منکشف ہوئی۔
غالبا ساٹھ کی دہائی کی بات ہے، ایک مولانا اپنی تقریر میں ترقی کے عنوان سے ایک نظم پڑھا کرتے تھے نظم پنجابی میں تھی ، اس کا ایک ادھورا سا شعر اب بھی یاد ہے، وہ اس نظم میں ترکی برقع پر تنقید کرتے تھے۔
آج کل عورتیں کالے رنگ کا جو برقع پہنتی ہیں ، اسے ترکی برقع کہا جاتا تھا، اس وقت اس کا نیا نیا رواج ہوا تھا، اس سے پہلے ٹوپی والا برقع ہوا کرتا تھا، جو آج بھی کہیں کہیں پایا جاتا ہے۔
تو اس پوری نظم میں سے جو ایک شعر یادرہ گیا وہ یہ ہے کہ: مینوں کہندے نیں چپ کر بولیں نہ ایبہ قوم ترقی نے جا رہی اے
اج برقعہ پایا ترکی اے جیویں ہاتھی سنڈ ہلا رہی اے مینوں کہندے نیں چپ کر بولیں نہ ایہہ قوم ترقی تے جارہی اے
ہمیں یہ بات عجیب معلوم ہوتی تھی کہ برقع تو برقع ہی ہے، ٹوپی والا ہو یا ترکی ہو، پھر یہ تنقید کیوں؟
مگر حقیقت یہ ہے کہ علماء کرام بہت بڑے نباض ہوتے ہیں، قوم کی نبض پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے، قوم میں آنے والی تبدیلی کو قرائن اور دلائل کی روشنی میں اک عرصہ پہلے بھانپ لیتے ہیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ جب دیندار خواتین ترقی کی راہ پر چل پڑی ہیں، برقع میں جدت اختیار کر لی گئی ہے یعنی اگر چہ اس برقعے میں بے پردگی نہیں مگر وہ پہلے والا پر دہ بھی نہیں رہا تو جو عورتیں پہلے سے ترقی یافتہ ہیں ، سر پر صرف دو پٹہ لیتی ہیں، انہیں بھی تو ترقی کرنا ہے۔ وہ ایک قدم اور آگے جائیں گی۔
اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عورتیں جو سر پر دوپٹہ بلکہ چادر اوڑھا کرتی ہیں، اب وہ دو پٹہ گلے میں ڈال کر گھومتی ہیں۔ تو دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ قوم مجموعی طور پر کس طرف جارہی ہے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ ہر قوم اپنی اک پہچان رکھتی ہے جب وہ دوسری قوموں کے ساتھ گھل مل جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اپنی پہچان کھو دیتی ہے۔ پھر اس کا عقید ہو وہ عقیدہ نہیں رہتا، اس کی عبادات محض عادات بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس کے اخلاق بدل جاتے ہیں ، اس کا طرز بود و باش بدل جاتا ہے، اس کی غیرت کا معیار بدل جاتا ہے۔ اس لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو بہت سختی سے غیر اقوام کی مشابہت سے منع کرتا ہے، مگر یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کہیں ان باتوں سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اسلام مذہبی رواداری کا قائل نہیں ہے، اسلام مذہبی رواداری کا سب سے بڑا (Promoter) پروموٹر اور داعی ہے، اسلام مذہبی رواداری ، انسانی ہمدردی ، خیر خواہی اور عدل و انصاف کا بہت بڑا پر چارک ہے، اس کی دسیوں، بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں مثالیں ہیں اور اپنے تو اپنے رہے، اغیار بھی اس کے قائل ہیں۔
حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ تعالی عنہ نے شام فتح کیا ، جزیہ لیا، مگر جب ہر قل نے فوج کشی کی تو جزیہ واپس کر دیا یہ کہ کر کہ معلوم نہیں ہم آپ کی حفاظت کر سکیں کہ نہ کر سکیں ، اگر ہم اللہ کے فضل سے غالب آگئے تو پھر جزیہ لیں گے۔
تاریخ میں کہیں ایسا سنا ہے، عدل و انصاف اور ایمانداری کی ایسی مثالیں کہیں اور ملتی ہیں؟ اللہ تعالی ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے ، اس کی محبت دل میں پید کرے ، اور اس پر ثابت قدمی نصیب فرمائے ۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
……………….