پل صراط

﴿وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ۝۷۱
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا۝﴾ (مريم:71، 72)
’’ تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جو پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے پھر ہم ان لوگوں کو بچا ئیں گے جو متقی تھے اور ظالموں کو اس میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ ‘‘
ہر وہ شخص جو کسی بھی دین و مذہب کو ماننے والا ہے، یوم آخرت پر ضرور یقین رکھتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اسلام کے سوا ہر دین کا تصور آخرت اک محدود، ادھورا اور ناقص تصور ہے۔ تاہم وہ کسی ایک ایسے دن پر ضرور یقین رکھتے ہیں جسے یوم آخرت ، یوم حساب یا یوم قیامت کیا جاتا ہے۔
البتہ وہ لوگ جو سیکولر، لادین اور ملحد ہیں جو صرف اس حقیقت کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں جو ان کی عقل پر پوری اترتی ہو۔ وہ کسی خالق و معبود کو مانتے ہیں اور نہ عقیدہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، حالانکہ کائنات کے خالق کا اور آخرت کا انکار از روئے عقل بھی ممکن نہیں۔
آخرت کے وجود پر اصلی اور اساسی دلائل تو نقلی اور سمعی دلائل ہیں۔ یعنی قرآن و حدیث کے دلائل ہیں، لیکن اگر کوئی آخرت کے وجود اور اس کی ضرورت کو منتقل کی کسوٹی پر بھی پرکھنا چاہے تو وہ قرائن پر غور و فکر کر کے آخرت کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے۔ عقل کو دنیا میں عدل و انصاف کے قیام کی ضرورت سےیقینًا انکار نہیں ہو سکتا کہ جس میں اچھے کو اچھائی کا اور برے کو برائی کا صلہ ملے مگر عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے اور نہ ہی دنیا میں حقیقی عدل و انصاف ممکن ہے۔ نیک اور بد ہردور میں موجود رہے ہیں مگر کیا نیکیوں کو ان کی نیکی کا اور بروں کو ان کی برائی کا پورا پورا بدلہ ملا ؟ ہرگز نہیں۔
مثلا پہلی بات تو یہ ہے کہ بہت سے برے لوگ ، بلکہ ظلم و زیادتی کرنے والے، چوری اور بدکاری کرنے والے قتل کرنے والے اکثر لوگ پکڑے ہی نہیں جاتے ۔ اور جو پکڑے جاتے ہیں پھر ان میں سے بہت سے لوگ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے، یا وکلاء کی قدرت کلامی اور چرب زبانی کی وجہ سے، یا بعض رشوت خور ججوں کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔
اور پھر جن کا جرم ثابت ہو جاتا ہے، اور انہیں سزا دے دی جاتی ہے تو کیا وہ ان کے جرم کی پوری پوری سزا ہوتی ہے؟یقینًا نہیں۔ اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں: ایک تو یہ ہے کہ جرم کی سنگینی کا ٹھیک ٹھیک اور پورا پورا علم اللہ تعالی کے سوا کسی کو نہیں ہے، اس طرح سزا کا ٹھیک ٹھیک تعیین بھی کہ جس میں کسی مظلوم کے ساتھ یا کسی مجرم کے ساتھ نا انصافی نہ ہو اللہ تعالی کے سوا کسی کی مجال اور بساط نہیں ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسی سزا کا نفاذ دنیا میں عملاً ممکن ہی نہیں ہے، صرف کاغذوں میں کر سکتے ہیں۔ مثلا: ایک ایسا شخص کہ جس نے سو آدمیوں کو قتل کیا ہو، کوئی عدالت اسے سو آدمیوں کے قتل کی سزا کس طرح دے گی ، ایک آدمی کے قتل کی سزا قتل ہے، تو سو آدمیوں کے قتل کی سزا سو قتل ہونے چاہئیں، مگر عدالت اپنے فیصلے میں کاغذ پر تو لکھ سکتی ہے کہ سو بار سزائے موت مگر عملًا تو ایک بار ہی ہوگی ۔ جبکہ آخرت میں اسے ایسی سزا بھی دی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالی اسے قتل کرے پھر زندہ کرے پھر قتل کرے اور یوں یہ عمل سو بار دہرایا جائے یا ایسی سزا جو اپنی نوعیت میں جو سو بار قتل کے برابر ہو، ایسی سزا کہ جس میں انسان مرے بھی نہ اور زندہ بھی نہ رہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ۝۷۱
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا۝۷﴾ (طه:74)
’’جو اپنے رب کے حضور مجرم کی حیثیت سے پیش ہوگا اس کے لیے جہنم ہے، جس میں وہ مرے گا نہ زندہ ر ہے گا۔‘‘
جب انسان مر جاتا ہے تو ہر قسم کی تکلیف سے راحت پالیتا ہے۔ اور اگر زندہر ہے تو کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی حد تک وہ زندگی سے لطف اندوز ضرور ہوتا ہے، مگر ایک ایسی سزا کہ جس میں انسان مسلسل سزا پاتا رہے اور اسے موت بھی نہ آئے اور زندہ بھی نہ رہے، دنیا میں ایسی سزا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اگر ہلکی سزا دی جائے گی تو وہ کچھ نہ کچھ زندگی بھی انجوائے کرے گا، اور اگر سخت سزا دی جائے گی تو مر جائے گا۔
اور سزا کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
﴿كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُهُمْ بَدَّلْنٰهُمْ جُلُوْدًا غَیْرَهَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَاب﴾ (النساء:56)
’’جب ان کے بدن کی کھال نکل جائے گی تو ان کی کھال تبدیل کردیں گے، اس کی جگہ کی کھال پیدا کر دیں گے تا کہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں ۔‘‘
چونکہ درد کا احساس اصل میں کھال زخمی ہونے یا جلنے سے ہوتا ہے اور کھال اگر گل جل کر ختم ہو جائے گی تو درد بھی ختم ، مگر اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ کافروں کو مسلسل عذاب ہوتا رہے، اس لیے جو نہی جلد گل جائے گی ، اس کی جگہ کی پیدا کر دی جائے گی ۔
اور پھر یہیں بس نہیں بلکہ حدیث میں ہے کہ کافر کی کھال موٹی کر دی جائے گی، فرمایا:
((إِنَّ غِلْظَ جِلْدِ الْكَافِرِ إِثْنَانِ وَأَرْبَعُوْنَ ذِرَاعًا، وَإِنَّ ضِرْسَهُ مِثْلَ أُحُدٍ، وَإِنَّ مَجْلِسَهُ مِنْ جَهَنَّمَ مَا بَيْنَ مَكَةَ وَالْمَدِيْنَةَ))(ترمذی:2577)
’’کافر کی کھال کی موٹائی بیا لیس ہاتھ، تقریبا ساٹھ فٹ ہوگی ، اور اس کی ڈاڑھ احد پہاڑ جیسی ہوگی اور جہنم میں اس کے بیٹھنے کی جگہ مکہ اور مدینہ کے درمیان کی مسافت کے برابر ہوگی ۔‘‘
تو بات یہ ہو رہی تھی کہ جو لوگ یوم آخرت کے وجود اور اس کی ضرورت کا انکار محض اس دلیل سے کرتے ہیں کہ وہ ان کی عقل پر پورا نہیں اترتا، تو اس میں ان کی عقل کا قصور ہے جبکہ عقل سلیم تو یوم آخرت کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہے اور شدت سے اس کی متقاضی ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی نے آخرت کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے انسانی محتمل کو مخاطب کر کے مثالیں دی ہیں کہ یوم الحساب کا واقع ہونا عقلًا بھی ممکن ہے اور کئی ایک اعتبار سے ضروری بھی ہے، جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ جن کا ابھی ذکر ہوا اور ایک یہ کہ ایسا انصاف جس میں ذرہ برابر بھی اونچ نیچ نہ ہو، کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے، یہ قدرت اور کمال صرف اللہ تعالی کو ہی حاصل ہے، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ﴾ (النساء:40)
’’اللہ تعالی ایک ذرے کے برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتے ۔‘‘
اور ایسا انصاف مہیا کرنے کے لیے اللہ تعالی نے ایک دن مقرر کر رکھا ہے جسے ہم آخرت کا نام دیا ہے، اور اس کے علاوہ بھی اس دن کے متعدد نام ہیں جو اس دن کی صفات اور احوال کی مناسبت سے ہیں۔ تو جو لوگ آخرت کی حقیقت کو مانتے ہی نہیں ہیں، ان کے بارے میں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی مت ماری گئی ہے، انہیں اتنی بڑی حقیقت سمجھ نہیں آرہی ۔ مگر جو لوگ یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر بھی اسے نظر انداز کر رکھا ہے، ان کے بارے میں اگر حسن ظن سے کام لیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ شاید وہ یوم آخرت کے احوال اور مناظر سے آگاہ نہیں ہیں۔ مگر یہ اتنی سادہ بات بھی نہیں ہے کہ آدمی اپنے مستقبل کی سب سے اہم اور سب سے
خطر ناک اور خوفناک بات سے لاعلم اور بے خبر رہے یہ طرز عمل حقیقت میں آدمی کی ترجیحات کی نشاندہی کرتا ہے، یہ ممکن نہیں کہ آدمی جس چیز کو تمام کاموں پر ترجیح دیتا ہو اور وہ اس سے نافل رہے، دنیا کہ جس کی انسان اپنی زندگی میں بہت ضرورت محسوس کرتا ہے، اس کے بارے میں کتنا کچھ جانتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ ایک ان پڑھ شخص بھی دنیا کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے اور اس کے نشیب و فراز سے خوب آگاہ ہے، مگر آخرت کے بارے میں کسی پڑھے لکھے انسان کی معلومات بھی صفر ہوتی ہیں، جیسا کہ قرآن کہتا ہے۔
﴿یَعْلَمُوْنَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۖۚ وَ هُمْ عَنِ الْاٰخِرَةِ هُمْ غٰفِلُوْنَ۝﴾ (الروم:7)
’’لوگ دنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں ۔‘‘
یعنی آخرت پر دلالت کرنے والے آثار و شواہد تو بکثرت موجود ہیں، اگر وہ غور ہی نہیں کرتے ، اور نہیں تو اپنے آپ پر ہی غور کر لیا ہوتا،
﴿اَوَ لَمْ یَتَفَكَّرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ﴾ (الروم:30)
’’ کیا انہوں نے بھی اپنے آپ پر غور و فکر نہیں کیا۔‘‘
تو آج کی گفتگو میں قیامت کے دن کے بہت سے مناظر و مواقف اور احوال و احوال میں سے ایک ہولناک منظر کے بارے میں کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں، اور وہ ہے پل صراط کا موقف اور منظر
یوں تو آخرت کے تمام ہی مناظر خوفناک ہیں جن کا ان شاء اللہ بھی تفصیلی ذکر ہوگا، مگر ان میں سے تین مناظر بالخصوص نہایت ہی خوفناک اور ہولناک ہیں، اور ان میں سے ایک پل صراط کا منتظر ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا ۚ كَانَ عَلٰی رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ۝۷۱﴾ (مريم:71)
’’اور تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے ۔‘‘
﴿ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْهَا جِثِیًّا۝﴾(مريم:72)
’’ پھر ہم ان لوگوں کو بچالیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا جہوڑ دیں گے۔‘‘
پل صراط ایک ایسا پل ہے جسے میں جہنم کے اوپر درمیان میں لا کر رکھا جائے گا، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، اور لوگ اس کے اوپر سے گزر کر جنت میں جائیں گے البتہ ان کے گزرنے کی رفتار اعمال کے حساب سے ہوگی۔ چنانچہ کوئی مؤمن تو آنکھ جھپکنے کی طرح گزر جائے گا، کوئی بجلی کی طرح، کوئی ہوا کی طرح، اور کوئی تیز رفتار گھوڑے کی طرح گزر جائے گا۔ پل صراط پر رکاوٹیں بھی ہوں گی، کچھ لوگ تو بسلامت گزر جائیں گے، اور کچھ کو صرف خراشیں آئیں گی اور کچھ اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں گر پڑیں گے۔
جب اللہ تعالی تمام مخلوق کے فیصلوں سے فارغ ہوں گے تب شفاعت کرنے والوں کو سفارش کی اجازت دی جائے گی کہ وہ جہنم میں گرے ہوئے مسلمانوں کی سفارش کر سکیں۔
پل صراط کا منظر کتنا کرب ناک اور خوفناک ہے، اس کی تکلیفی اور ہولنا کی ملاحظہ کیجئے، حدیث میں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا روایت کرتی ہیں کہ ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ ، کہ میں آگ کو یاد کر کے رو پڑی کہ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ((مَا يُبْكِيْكِ)) ’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں کسی چیزنے رلا دیا، کیوں رو رہی ہو؟‘‘ قُلْتُ: ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ ، میں نے عرض کیا: آگ کو یاد کر کے روتی ہوں: فَهَلْ تَذْكُرُونُ أُهْلِيْكُمْ يَوْمُ القِيَامَةِ
کیا آپ اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن یاد رکھیں گے؟
(فَقالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: ((أما فِي ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ فَلَا يَذْكُرُ أَحَدٌ أَحَدًا))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا : البتہ تین موقعوں پر کوئی کسی کو یاد نہ رکھے گا۔‘‘
((عِنْدَ الْمِيْزَانِ، حَتّٰى يَعْلَمَ اَيَخِفُّ مِيْزَانُهَ أَمْ يَثْقُلُ))
’’ ترازو کے وقت، جب تک معلوم نہیں ہو جاتا کہ اس کا پلڑا ہلکا ہوتا ہے یا بھاری؟‘‘
((وَعِنْدَ الصُّحُفِ حَتّٰی يَعْلَمَ أَيَأخُذُ صِحِيْفَتَهُ بِيَمِيْنِهِ أَمْ بِشِمَالِهِ))
’’اعمال نامے دیے جاتے کہے وقت جب تک معلوم نہ ہو جاتا کہ نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا ہے کہ بائیں میں ‘‘
((وَعِنْدَ الصِّرَاطِ حَتّٰى يُجَاوِزَهُ .))
’’اور پل صراط کے وقت جب تک اسے عبور نہیں کر لیتا۔‘‘
ان تین مواقع پر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی نظر نہیں کرے گا، بلکہ اپنی ہی پریشانی میں کم ہوگا، مگر آپ ﷺ امت کے مسائل میں مصروف ہوں گے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں۔
((سَاَلْتُ النبِيَّ أَن يَشْفَعَ لِي يَوْمَ القِيَامة))
’’میں نے آپﷺ سے درخواست کی کہ قیامت کے دن آپ میری شفاعت فرمائیے ۔‘‘
((فَقَالَ: أَنَا فَاعِلٌ))
’’تو آپ سے ﷺ نے فرمایا: کروں گا۔‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ الله فَاَيْنَ أَطْلُبُكَ))
’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ اس دن میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟‘‘
((قَالَ: أُطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ))
’’فرمایا: سب سے پہلے جو تم مجھے تلاش کرو تو پل صراط کے پاس ڈھونڈ نا ۔‘‘
((قَالَ: قُلْتُ: فَإِن لَّمْ اَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ))
’’کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اگر آپ کو پل صراط کے پاس نہ پاؤں تو ۔‘‘
((قَالَ: فَاطْلُبْنِي عِنْدَ المِيْزَانَ))
’’فرمایا: تو پھر میزان کے پاس دیکھنا۔‘‘
((قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ اَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانَ))
’’عرض کیا: اگر میزان کے پاس آپ کو نہ پاؤں تو ۔‘‘
((قَالَ: فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الحَوْضِ))
’’تو فرمایا: پھر حوض کوثر کے پاس تلاش کرتا ۔‘‘
((فَإِنِّي لَا أُخْطِيُّ هَذِهِ الثَّلَاثَةِ الْمَوَاطِنَ))
’’میں ان تین مقامات سے چوک نہیں سکتا ۔‘‘
((فَيُضْرَبُ الصِّرَاطَ بَينَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ))
’’پل صراط میں جہنم کے اوپر نصب کیا جائے گا ۔‘‘
((فَأَكُون أَول مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِه))
’’پس میں سب سے پہلا رسول ہوں گا جو اپنی امت کے ساتھ وہ پل عبور کرے گا۔‘‘
((وَلَا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا الرُّسُلُ))
’’اور اس دن سوائے رسولوں کے کوئی بات نہیں کرے گا۔‘‘
((وكلام الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ اَللّٰهُم سَلِّمَ سَلِّم)) (مسند احمد، ج3، ص:178، رقم:12848)
’’اور اس دن رسولوں کی کلام اَللّٰهُم سَلِّمَ سَلِّم ہوگی ۔‘‘
پل صراط کیسی خطر ناک گزرگاہ ہے۔
حدیث میں ہے۔
قلنا يا رَسُولَ اللهِ ﷺ وَمَا الجسْرُ))
’’ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ وہ پل کیا ہے ؟ جس کا آپ ذکر فرما رہے ہیں ۔‘‘
قَالَ: ((مُدْحِضَةٌ، مَزِلَّةٌ، عَلَيْهِ خَطَاطِيْفُ، وَكَلَالِيْبُ، وَحَسَكَةٌ مُفَلْطَحَةٌ، لَهَا شَوْكَةٌ عَقِيْقةٌ، تَكُونُ بِنجِدٍ يُقالَ لَها السَّعْدَانُ))
’’فرمایا: اس پل پر پھسلن ہوگی، اس میں الٹی سیدھی لوہے کی سلاخیں ہوں گی ، تیز نوک دار کانٹے ہوں گے، یہ کانٹے سر سے مڑے ہوئے ہوں گے، جیسے نجد کے کانٹے ہیں جنہیں سعدان کہتے ہیں۔‘‘
((المؤمن عليها كالطرف وكالبرق، و كالريح و كاأجاويد الخيل والركاب فناجٍ مُسْلِمٍ ، وَنَاجِ مَخْدُوشٌ، وَمَكْدُوشٌ في نار جهنم حتي يمر آخرهم يُسْحَبُ سَحْبًا)) (بخاری:7439، عن أبي سعيد الخدري رضي الله تعالي عنه)
’’اہل ایمان اس پل پر سے مختلف انداز سے گزریں گے، کوئی آنکھ جھپکنے کی طرح، کوئی بجلی کی طرح، کوئی ہوا کی طرح، کوئی تیز رفتار گھوڑوں کی طرح، تاہم بعض اہل ایمان بخیر وعافیت گزر جا ئیں گے، کچھ کو خراشیں آئیں گی لیکن بچاؤ ہو جائے گا، اور کچھ جہنم میں گر جائیں گے۔ حتی کہ آخری آدمی گھستے گھسٹتے پہنچے گا۔‘‘
اور پل صراط سے گزرنے والے آخری شخص کا حال ملاحظہ فرمائیے ، حدیث میں ہے:
وَرَوَى ابنُ مَسعُود أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: آخِرُ مَنْ يَّدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ يَّمْشِي عَلَى الصِّرَاطِ.
فَيَنكَبُّ مَرَّةً، وَيَمْشِى مَرَّةً وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً
فَإِذَا جَاوَزَ الصِّرَاطَ، اِلْتَفَتَ إِلَيْهَا فَقَالَ: تَبارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي الله شَيْئًا، مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِّنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ)) ( مسند أحمد، ج:1، ص:391، رقم: 3714)
’’عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے آخری شخص جو جنت میں داخل ہوگا ، وہ آدمی ہے جو کبھی پل صراط پر چلے گا پھر بھی گرے گا اور بھی جہنم کی آگ اسے جھلسائے گی، پھر جب وہ جہنم سے پار ہو جائے گا تو مڑ کر اس کی طرف دیکھے گا اور کہے گا۔ وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے مجھے تجھ سے نجات دی ہے بلاشبہ یقینًا اللہ تعالی نے مجھے وہ کچھ عطا فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نہ مجھ سے پہلوں اور نہ بعد والوں کو عطا کیا ہے ۔‘‘
پل صراط کی تفصیل ابھی باقی ہے مگر خلاصہ یہی ہے کہ وہ نہایت ہی خوفناک منظر ہوگا کہ انبیاء ورسل بھی اللهم سلم سلم کہہ رہے ہوں گے۔
پل صراط عبور کرنے کے بعد جنت اور جہنم کے درمیان ایک اور پل ہوگا جہاں کچھ لوگوں کو روک لیا جائے گا، تا کہ ظلم و زیادتی کا حساب کتاب ہو۔
((عن ابی سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْلُصُ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ النَّارِ فَيُحْبَسُونَ عَلَى قَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ فَيُقَصُّ لِبَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ كَانَتْ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا حَتَّى إِذَا هُذِّبُوا وَنُقُّوا أُذِنَ لَهُمْ فِي دُخُولِ الْجَنَّةِ فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَأَحَدُهُمْ أَهْدَى بِمَنْزِلِهِ فِي الْجَنَّةِ مِنْهُ بِمَنْزِلِهِ كَانَ فِي الدُّنْيَا))
’’سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ایمان دار جہنم سے چھٹکارا پا جائیں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر دنیا میں جو ایک دوسرے پر ظلم کیا ہوگا اس کا قصاص اور بدلہ لیا جائے گا حتی کہ جب وہ پاک ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں جانے کی اجازت ہوگی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اہل جنت میں سے ہر کوئی اپنا مقام دنیا میں اپنے گھر کی نسبت زیادہ جاننے والا ہوگا۔‘‘
………………..