اللہ تعالیٰ کی صفت دیکھنا معنی و مفہوم اور حقیقت

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ ۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۝﴾ (آل عمران:77)
دنیا اور آخرت کی کامیابی وکامرانی کے لیے اللہ تعالی پر ایمان لانا لازمی ، ضروری اور ناگزیر ہے، اخروی کامیابی کے لیے اللہ تعالی پر ایمان ہونا ضروری ہے، اس بات کو تو شاید لوگ آسانی سے سمجھ لیتے ہیں، مگر دنیوی کامیابی کے لیے اللہ تعالی پر ایمان ضروری ہے، اس کے سمجھنے میں بہت سے لوگوں کو دشواری ہوتی ہے، جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ اور وہ قو میں جو سرے سے کائنات کے کسی خالق کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتیں، وہ دنیا میں بڑی کامیاب و کامران اور خوشحال بلکہ دنیا پر حکمرانی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، تو پھر انہیں اس حقیقت کے سمجھنےمیں مشکل پیش آتی ہے۔
ان کے اس اشکال کا اصل سبب یہ ہے کہ کامیابی اور ناکامی کا وہ ایک خود ساختہ مفہوم رکھتے ہیں، ان کے ہاں کامیابی و کامرانی دولت و ثروت اور آسائشوں اور سہولتوں کا نام ہے، جبکہ حقیقی کامیابی کچھ اور ہے اس کی تفصیل میں اس وقت نہیں جا سکتے ، وہ ایک مستقل موضوع ہے، جو کسی الگ نشست میں ان شاء اللہ بیان ہوگا۔
تاہم یہ بات بہت سے عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان لانا دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے لازمی اور ضروری ہے، لیکن اس بارے میں ایک اہم بات جو کہ قابل افسوس اور باعث پریشانی بھی ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت ایمان باللہ کےمعنی و مفہوم سے ناواقف ہے، اس کے مطلب سے آگاہ نہیں اس کی تفصیلات سے نابلد و نا آشنا ہے لوگ ایک مجمل ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ئنات کا خالق و مالک ہے، وہی سب کا رازق ہے اسی طرح مزید چند معلومات رکھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں، اس کی صفات کے بارے میں، اس کے اسماء حسنی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، حالانکہ اللہ تعالی کے بارے میں جاننے کے فوائد ہیں اور نہ جاننے کے نقصانات ہیں، جو شخص اللہ تعالی کی صفات سے جتنا زیادہ لاعلم ہو گا وہ اس سے اتنا ہی بے خوف ہوگا اور جو شخص جتنا زیادہ اللہ تعالی کے بارے میں علم رکھتا ہوگا، اسی قدر اسے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہوگا، اس سے محبت ہوگی ، اور اسی قدر اس کے دل میں اللہ تعالی سے امید ورجاء کے ساتھ اس کا ڈر اور خوف اور تقویٰ پیدا ہوگا ۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ؕ﴾(الفاطر:28)
’’اللہ تعالی سے صرف علماء ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
اور ایسے ہی آپ ﷺکا فرمان ہے کہ:
((أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللهِ وَأَشَدُّكُمْ لَهُ خَشْیَةً)) ( فتح الباری، ج:11، ص :313)
’’میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالی کے بارے میں علم رکھتا ہوں ، اور تم سب سے زیادہ سخت اللہ تعالی سے ڈرنے والا ہوں ۔‘‘
تو اللہ تعالی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا مزید کئی پہلوؤں سے ضروری اور مفید ہے۔ مگر اللہ تعالی کے بارے میں جانتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالی کی معرفت کوئی چلے کاٹنے سے یاسنی سنائی باتوں سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالی کی پہچان صرف اور صرف قرآن اور حدیث سے حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی نہایت سخت قواعد وضوابط کی روشنی میں۔
اللہ تعالی نے اپنے بارے میں خود قرآن پاک میں جو فرمایا، یا اپنے پیغمبرﷺ کے ذریعے بتلایا بس وہی اللہ تعالی کی معرفت اس کی پہچان اور اس کا علم ہے۔ اللہ تعالی کی معرفت اور اس کی پہچان کے بغیر اس پر ایمان رکھنے کا دعوی بے بنیاد دعوٰی بھی ہو سکتا ہے، جیسے غیر مسلم اقوام جو اللہ تعالی پر ایمان رکھنے کا دعوی تو کرتی ہیں، جیسے یہودی، عیسائی، سکھ اور ہندو وغیرہ، جو یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اصل میں تمام لوگ ایک ہی خدا کو ماننے والے ہیں۔ بس لوگوں نے اس کے نام الگ الگ رکھ لیے ہیں، کوئی اسے اللہ کہتا ہے، کوئی گاڈ کہتا ہے، کوئی رام کہتا ہے اور کوئی کچھ مگر حقیقت میں وہ ایک ہی ہے۔
اللہ تعالی کی ذات، اس کی صفات اور اس کے ناموں کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ باطل عقیدہ ہے اور یہ ان کی گمراہی کا ایک بنیادی سبب ہے۔
اگر اللہ تعالی کے اپنی مرضی سے نام رکھ کر ، اپنی پسند کی صفات سے اسے متصف کر کے اس پر ایمان لانا قابل قبول ہوتا تو مشرکین مکہ کبھی کافر قرار نہ دیے جاتے ۔ وہ اللہ پر کیسا ایمان رکھتے تھے۔ قرآن بتلاتا ہے:
﴿وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰهُ﴾(الزمر:38)
’’اے پیغمبرﷺ اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ زمین و آسمان کس نے پیدا کیے تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ۔‘‘
مشرکین مکہ توحید ربوبیت کے قائل تھے کہ اللہ ہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے۔ مگر توحید الوہیت میں ڈنڈی مارتے تھے، یعنی اللہ تعالی کے اللہ اور معبود ہونے میں گڑبڑ کر جاتے تھے کہ عبادت میں وہ اپنے خود ساختہ خداؤں کو بھی شریک کر لیتے تھے، جیسے حج کرتے وقت جب وہ تلبیہ پڑھتے کہ: ((لبيك اللهم لبيك ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ))
’’اے اللہ ! میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے،‘‘
جب اتنا کہتے تو آپﷺ فرماتے: ((وَيْلَكُمْ قَدْ قَدْ)) ’’افسوس ہے رک جاؤ رک جاؤ‘‘ یعنی آگے کچھ مت کہو کیونکہ اس کے بعد وہ کہتے ((اِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ، تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ)) (مسلم:1185)
’’ہاں تیرا ایک شریک ہے جس کا تو ہی مالک ہے اور اس کا جو کچھ ہے اس کا بھی تو ہی مالک ہے،‘‘
اسی طرح وہ اللہ تعالی کے ناموں اور اس کی صفات کو بھی نہیں مانتے تھے۔
تو اللہ تعالی پر ایمان لانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی معرفت اور پہچان بھی حاصل ہو، چنانچہ اللہ فرماتے ہیں۔
﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله﴾ (محمد:19)
’’یہ جان لیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالی کی معرفت حاصل کیے بغیر اس پر ایمان کا دعوی خطرے سے خالی نہیں ہے۔
جس طرح مشرکین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
﴿وَ مَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ) (يوسف:106(
’’ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔‘‘
اس طرح اگر ہم بھی اللہ تعالی کی معرفت حاصل کیے بغیر اس پر ایمان کا دعوی کریں گے۔
تو خطرہ ہے کہ کہیں ہم بھی انجانے میں اس آیت کریمہ کے مخاطب نہ بن جائیں۔
اور اللہ تعالی کی پہچان جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ صرف اور صرف قرآن وحدیث کے ذریعے ہو سکتی ہے اور وہ بھی سلف صالحین کے قرآن وحدیث سے اخذ کردہ قواعد وضوابط کی روشنی میں۔
اللہ تعالی کے بارے میں غیر مسلم اقوام کے خیالات و نظریات اور عقائد کو اگر دیکھیں کہ جو کسی اصول اور قاعدے کے پابند نہیں ہیں تو نظر آئے گا کہ انہوں نے جس طرح چاہا اپنے اللہ کے بارے میں ذہن میں تصویر کشی کی، پھر اس کا ڈھانچہ بنایا اور بت بنا کر کھڑا کر دیا۔ اپنے گھروں میں اور عبادت گاہوں میں اس کی تصویر میں آویزاں کر لیں ۔ جو چاہا ان کا نام رکھ لیا، جس طرح چاہا ان سے کچھ صفات منسوب کر دیں۔
مگر اسلام میں اس سے متعلق نہایت سخت اصول وضوابط موجود ہیں۔ اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں اس کی صفات کے بارے میں اور اس کے ناموں کے بارے میں صرف اور صرف وہی بات کہہ سکتے ہیں وہی عقیدہ رکھ سکتے ہیں جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں بتلایا ہے، اپنی مرضی سے کسی نام اور کسی صفت کا اضافہ نہیں کر سکتے ، اور اپنی مرضی سے کوئی نام کم نہیں کر سکتے۔
کیونکہ ان کا تعلق امور غیب سے ہے۔ ان پر ہو بہو ویسے ہی ایمان لانا ہے جیسے بیان کیا گیا ہے، ان کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے ، ان کی مثال نہیں دے سکتے، ان کی تشبیہ نہیں دے سکتے ان کی نفی نہیں کر سکتے ، ان کی تاویل نہیں کر سکتے۔
مثلا: اللہ تعالی نے اپنے لیے دو ہاتھوں کا ذکر کیا ہے۔
﴿بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِ ۙ یُنْفِقُ كَیْفَ یَشَآءُ ؕ﴾ (المائدة:64)
’’بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔‘‘
اب اس پر ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہیں کیونکہ اللہ تعالی کے دو ہاتھ ہونا قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔
لیکن وہ ہاتھ کسی طرح کے ہیں، کتنے بڑے ہیں، کس سے مشابہ ہیں، یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ البَصِيْرُ﴾ (الشوری:11)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع و بصیر ہے۔‘‘
جب اس جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں تو تشبیہ کیسی ؟ اس لیے جتنا اللہ تعالی نے خود بیان کیا ہے، اس سے آگے نہیں جانا، اور اس کا انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالی نے بیان کی ہے۔
اور تاویل بھی نہیں کر سکتے، یہی اہل سنت کا عقیدہ ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ سے جب ﴿الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى) (طہ:5)
’’رحمن عرش پر مستوی ہوا‘‘ کی کیفیت پوچھی گئی کہ اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کیا ہے؟
الإستواء "استواء کا معنی غیر معلوم نہیں ہے یعنی اس کا معنی ہے بلند ہونا ، چڑ ھنا، مستقر ہوتا۔
(والكيف غير معقول ) اور کیفیت عقل کے ذریعے معلوم نہیں کی جاسکتی ، یعنی اس کی صفات منقل سے نہیں جانی جاتیں بلکہ وحی کے ذریعے معلوم کی جاتی ہیں۔
(والإِيمَانُ بِهِ وَاجِبٌ)’’ اللہ تعالی کے مستوی عرش ہونے پر ایمان لانا واجب ہے‘‘ کیونکہ کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
(والسؤال عَنْهُ بِدْعَةٌ)‘‘ (كتاب الاسماء والصفات للبيهقي، ج:2، ص:396، رقم:867)
’’استواء علی العرش‘‘ کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے دور مبارک میں اللہ تعالی کی کسی بھی صفت کی کیفیت سے متعلق کوئی سوال موجود نہ تھا۔
اور پھر امام رحمہ اللہ کے حکم سے اس شخص کو جس نے یہ سوال کیا تھا مسجد سے نکال دیا گیا۔ تاکہ دوسرے لوگوں کے عقیدے میں خرابی کا باعث نہ بنے، اور تاکہ اس کو اور اہل مجلس کو تنبیہ ہو جائے کہ عقیدہ کے لیے یہ کس قدر خطر ناک کا سوال ہے۔
تو اسی طرح قرآن وحدیث میں اللہ تعالی کی جو جو صفات بیان ہوئی ہیں ان پر ایمان لانا واجب ہے، مگر ان کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے ، اس کی مثال نہیں دے سکتے، تشبیہ نہیں دے سکتے ، اس کی نفی نہیں کر سکتے اور اس کی تاویل نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالی کی صفات جو قرآن وحدیث میں بیان ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
اللہ تعالیٰ کا چہر ہ، اللہ تعالی کے ہاتھ، اللہ تعالی کا راضی ہوتا، اللہ تعالی کا ناراض ہونا، اللہ تعالی کا محبت کرنا، اللہ تعالی کا غصہ کرتا، اللہ تعالی کا ہنسنا اور اللہ تعالی کا تعجب کرنا وغیرہ۔ مگر آج کی اس گفتگو میں اللہ تعالی کی جس صفت کا بالخصوص ذکر کرنا مقصود ہے وہ ہے صفت نظر، یعنی اللہ تعالی کا دیکھنا۔
اللہ تعالی اپنی مشئیت سے جب چاہتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں دیکھتے ہیں، اور جس کو نہیں چاہتے نہیں دیکھتے۔ اللہ تعالی کا کسی کی طرف دیکھنا اس کی رضا کی دلیل ہے، اور کسی کی طرف نہ دیکھنا اس پر غضب اور غصے کی علامت ہے۔ اللہ تعالی جس کی طرف دیکھ لیتے ہیں اس پر اللہ تعالی کی رحمت ہو جاتی ہے۔
امام ابو عمران عبد الملک بن حبیب الجونی رحمہ اللہ کبار تابعین میں سے تھے ، فرماتے ہیں:
(لَمْ ينظرِ اللهُ إِلَى إِنْسَانِ قَطُّ إِلَّا رَحِمَهُ)
’’اللہ تعالی جب بھی کسی انسان کی طرف دیکھ لیتے ہیں اس پر ضرور رحم فرماتے ہیں ۔‘‘
اور قسم کھا کر فرمایا کرتے تھے۔
(وَاللهِ لَوْ نَظَرَ اللهُ إِلَى أَهْلِ النَّارِ لَرَحِمَهُمْ)
’’اللہ کی قسم ! اگر اللہ تعالی جہنم والوں کی طرف بھی دیکھ لے تو ان پر بھی رحم فرما دے۔‘‘
((ولكنَّهُ قَضَى إِنَّهُ لَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ)) (حلية الأولياء ، ج:1 ، ص:352)
’’مگر اللہ تعالی فیصلہ فرما چکے ہیں کہ ان کی طرف نہیں دیکھیں گے ۔ ‘‘
قیامت کے دن کتنے ہی ایسے بدنصیب ہوں گے جن کی طرف اللہ تعالیٰ نہیں دیکھیں گے، ان میں سے چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ثلاثة لَا يَنظُرُ اللهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ))
’’تین طرح کے لوگ وہ ہوں گے جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالٰی نظر اٹھا کے نہیں دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
((رَجُلٌ كَانَ لَهُ فَضْلُ مَاءٍ بِالطَّرِيقِ ، فَمَنَعَهُ مِنَ ابْنِ السَّبِيْلِ))
’’ ایک وہ شخص جس کے پاس راستے میں ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور اس نے کسی مسافر کو اس کے استعمال سے روک دیا ہو۔‘‘
((وَرَجُلٌ بَايَعَ إمَامَهُ لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِدُنْيَا، فَإِنْ أَعْطَاهُ مِنْهَا رَضِىَ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ مِنهَا سَخِطَ))
’’دوسرا وہ شخص جس نے کسی حاکم سے بیعت کی صرف دنیا کے لیے، اگر وہ حاکم اسے کچھ دے دے تو وہ راضی رہے اور اگر نہ دے تو خفا ہو جائے ۔‘‘
((وَرَجُلٌ أَقَامَ سِلْعَتَهُ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: وَاللهِ الَّذِي لَا إِلٰهَ غَيْرُهُ لَقَدْ أَعْطَيْتُ بِهَا كَذَا وَكَذَا فَصَدَّقَهُ رَجُلٌ)) (بخاري:2358)
’’تیسرے وہ شخص جو اپنا مال تجارت عصر کے بعد لے کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، مجھے اس سامان کی قیمت اتنی اتنی مل رہی تھی ، اس پر اس شخص نے یقین کر لیا، اسے سچ مان لیا۔‘‘
(( ثُمَّ قَرَأَ ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا﴾
’’پھر آپ ﷺنے یہ آیت تلاوت فرمائی: بے شک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں۔‘‘
﴿ اُولٰٓىِٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﴾
’’ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔‘‘
﴿ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾
’’اللہ تعالی قیامت کے دن ان سے کلام فرمائیں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں ۔‘‘
﴿ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ﴾
’’اور نہ انہیں پاک کریں گے۔‘‘
﴿ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾ (آل عمران:77)
’’اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔‘‘
اس حدیث میں مذکورہ اشخاص کے جرائم کی سنگینی اور گھناؤنا پن دیکھئے کہ ایک شخص اس قدر بخیل اور بد اخلاق ہے کہ اس کے پاس فالتو پانی بھی ہے، اور ایک ضرورت مند جو کہ مسافر بھی ہے، پیاسا بھی ہے اسے پانی دینے کو تیار نہیں۔
دوسرا شخص جو کسی دینی یا سیاسی جماعت میں شامل ہوتا ہے مگر اس کی نیت خالص دنیوی مفاد ہے، اگر اسے کوئی مالی فائدہ ہو یا کوئی عہدہ مل جائے تب تو خوش ہو جاتا ہے ورنہ ناراض ہو جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے جب ناراض ہوتا ہے تو پھر کسی نہ کسی طرح اس کا اظہار بھی کرتا ہے، اس کی خامیاں اچھالنا شروع کر دیتا ہے، یا اس میں ایک فارورڈ گروپ بنا لیتا ہے۔ جو کہ اک فتنے سے کم نہیں ہوتا ۔
اور تیسرا شخص جو تھوڑے سے مالی فائدے کے لیے اللہ تعالی کا نام استعمال کرتا ہے اور جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ تھوڑے سے مالی فائدے کا مطلب دنیا ہے ۔ جھوٹی قسموں کے ذریعے اسے چاہے کتنا ہی فائدہ حاصل ہو جائے وہ آخرت کے مقابلے میں پھر بھی قلیل ہی کہلائے گا۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:
((ثَلاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، قَالَ: فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ: اَبُوْذَرٍّ: خَابُوا وَخَسِرُوا مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمَنَّانُ الَّذِي لَا يُعْطِي شَيْئًا إِلَّا مَنْهُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلْفِ الْكَاذِبِ))(مسلم: 106)
’’تین قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ روز قیامت اللہ تعالی کلام کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انھیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ اسے پڑھا ، ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! تباہ و برباد ہو گئے وہ لوگ کون ہیں وہ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کپڑا لٹکانے والا مرد جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا الگائے، احسان جتلانے والا جو جب بھی کوئی چیز دیتا ہے تو احسان جتلاتا ہے، اور جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کوبیچنے والا ۔‘‘
…………….