جسمانی صحت و طاقت کی اہمیت (حصہ اول)

﴿ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ﴾(الاسراء:82)
’’اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارتے ہیں جو سراسر شفا ہے اور ایمان والوں کے لیے رحمت ۔‘‘
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اور اس کا موضوع انسان ہے، یعنی انسان کی ہدایت ور ہنمائی سے متعلق ہے اور انسان چونکہ مرکب ہے جسم اور روح سے، لہٰذا اسلام ان دونوں اجزاء کے لیے یکساں طور پر ایک مکمل نظام ہے۔
انسان کو زندگی میں بے شمار مسائل پیش آتے ہیں۔ کچھ روح سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ جسم سے، جیسے عقیدہ و ایمان کا تعلق روح سے ہے، خوشی اور غمی کا تعلق روح سے ہے، اسی طرح نزلہ، زکام، کھانسی اور ان جیسی سینکڑوں بیماریوں کا تعلق جسم سے ہے۔
اس حقیقت سے کسی بھی باشعور انسان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ جس طرح جسم بیمار ہوتے ہیں، اسی طرح روح بھی بیمار ہوتی ہے۔ جسموں کے بیمار ہونے کو تو سبھی جانتے اور سمجھتے ہیں،
اگر چہ وہ جسمانی بیماریوں کا کسی طرح بھی دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں سمجھتے ۔ البتہ روحانی بیماریوں کے متعلق اتنا تو جانتے ہیں کہ روحانی بیماریاں اپنا ایک وجود رکھتی ہیں، مگر وہ کیا ہیں، ان سے کس طرح بچا جا سکتا ہے، اور کسی کو لاحق ہو جائیں تو پھر ان کا علاج کیا ہے، ان چیزوں کے بارے میں اکثر لوگ کچھ جانتے ہیں، نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
روحانی بیماریوں سے متعلق فی الحال اتنی بات ذہن میں رکھیں کہ تمام تر گناہوں کا ارتکاب روحانی بیماریوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور خطبات جمعہ میں روحانی بیماریوں اور ان کے علاج کا ذکر ہی ہوتا ہے۔
مگر آج ہم جسمانی بیماریوں کے حوالے سے بات کریں گے۔ ان شاء اللہ! کیونکہ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ اسلام جسم اور روح دونوں کے لیے رہنمائی اور ہدایات دیتا ہے، اور روح سے متعلق تو خطبات جمعہ میں ہمیشہ بات ہوتی ہے، اس لیے جسم سے متعلق بات کرنا بھی ضروری ہے ، جیسا کہ اس کی اہمیت کے حوالے سے امام غزالی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک مقولہ عوام میں گردش کر رہا ہے کہ:
((صَلَاحُ الْاَبْدَانِ مُقَدَّمٌ عَلٰى صَلَاحِ الْأَدْيَانِ))
’’جسموں کی اصلاح و درستی اور صحت و سلامتی مقدم ہے دین کی صحت و سلامتی پر ۔‘‘
یہ مقولہ جسموں کی صحت و سلامتی کی اہمیت ظاہر کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر جسموں کی صحت و سلامتی کا دین کی صحت و سلامتی پر مقدم ہونا محل نظر ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے تمسک بالدین کو تکلیفوں، مصیبتوں، پریشانیوں اور آزمائشوں پر مقدم رکھا ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث میں بجا طور پر اس کا ذکر ملتا ہے۔
تو گویا کہ اسلام میں جسموں کی صحت و سلامتی اور دیکھ بھال، اور حفظان صحت کا معاملہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیتے ہیں ان میں سے سب سے شریف والطیف اور معزز و محترم پیشہ، حکمت و طبابت اور ڈاکٹری کا پیشہ ہے۔ اگرچہ انسانی معاشرے میں دیگر پیشے بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن کے لیے ضروری اور ناگزیر ہیں اور اپنی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں اور قابل احترام ہیں، مگر جو مقام و مرتبہ اور جو احترام اس پیشے کو حاصل ہے کہ جس سے جسمانی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے کسی اور پیشے کو حاصل نہیں ہے۔
چنانچہ اسی وجہ سے اسلام نے اس کو اہمیت دی ہے اور ویسے بھی مقولہ مشہور ہے کہ (العلم علمان) علوم اصل میں دو ہی ہیں: ((علم الابدان وعلم الأديان)
’’ایک جسموں اور بدنوں کا علم ، اور دوسرا دین کا علم ۔‘‘
یعنی باقی علوم ان کے تابع یا معاون ہیں، ان کا نمبر ان کے بعد آتا ہے ، سب سے افضل واشرف علم یقینًا دین کا علم ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں، اس سے بہتر یا اس کے برابر کوئی اور علم نہیں ہے۔ علی الاطلاق
﴿ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَاۤ اِلَی اللّٰهِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۝﴾ (حم السجدة:33)
’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
چنانچہ اس سب سے اچھی بات کو لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو سونپی۔ اور پھر جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے اس مشن کو آگے لے کر چلے انہیں ((ورثة الأنبياء)) ’’قرار دیا کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
تاہم حکمت و طبابت کا علم اور پیشہ دین کے علم کے بعد تمام علوم سے افضل واشرف ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ تو اس بات پر حسرت و افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان اس علم میں بہت پیچھے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
((ضَيَّعُوا ثلث الْعِلْمِ)) ’’مسلمانوں نے ایک تہائی علم ضائع کر دیا ۔‘‘
((وَوَكَّلُوهُ إلى اليَهُوْدِ وَالنَّصَارَى)) (مناقب الشافعي للبيهقي ، ج:6، ص:116)
’’اور انہوں نے اس کو یہود و نصاری کے سپرد کر دیا۔‘‘
اور ایک جگہ فرماتے ہیں:
((لا أَعْلَمُ عِلْمًا بَعْدَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ أَنْبَلُ مِنَ الطَّب، إِلَّا أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ غَلَبُونَا عَلَيْهِ))(سیر الاعلام للذهبي، ج:10، ص:57)
’’مجھے معلوم نہیں کہ حلال و حرام کے علم کے بعد۔ یعنی شرعی علم کے بعد علم طب سے زیادہ کوئی شریف و کریم علم ہے، مگر اہل کتاب اس میں ہم پر بازی لے گئے ہیں۔‘‘
تو اسلام میں علم طب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، قرآن پاک روحانی اور جسمانی امراض کے لیے سراسر شفا ہے جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۙ وَ لَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا۝﴾(بنی اسرائیل:82)
’’یہ قرآن جو ہم نازل کرتے ہیں، مومنوں کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا ۔‘‘
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ۙ۬ وَ هُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝﴾ (يونس:57)
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے یہ وہ چیز ہے جو ولوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کے مخاطب تمام بنی آدم ہیں، جس میں مسلم اور کافر بھی شامل ہیں۔
چنانچہ قرآن پاک میں تمام دلوں کی تمام امراض کے لیے شفا ہے۔ چاہے وہ امراض جو بھی ہوں: جہالت ہو، کفر اور شرک ہو، نفاق ہو، گھٹیا اخلاق وصفات ہوں جیسے حسد، بغض، کینہ و غیر و ہر مرض کے لیے شفا ہے۔ ایسے ہی قرآن پاک جسمانی بیماریوں کے لیے بھی شفا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
((قَالَ: نَزَلْنَا مَنْزِلًا فَأَتَتْنَا إِمْرَأَةٌ فَقَالَتْ إِنَّ سَيِّدَ الْحَيِّ سُلَيْمٌ لُدِغَ ، فَهَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ))
’’فرماتے ہیں: ایک بار دوران سفر ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ہمارے پاس ایک عورت آئی، اور کہنے لگی کہ اس قبیلے کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے، تم میں کوئی منتر اور دم کرنا جانتا ہے؟‘‘
((فَقَامَ مَعَهَا رَجُلٌ مِنَّا ، مَا كُنَّا نَظُنُّهُ يُحْسِنُ رُقْيَةً))
’’تو ہم میں سے ایک شخص اٹھ کر اس کے ساتھ چل دیا، جس کے بارے ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کوئی اچھی طرح رقیہ اور دم کرنا جانتا ہے ۔‘‘
((فَرقَاهُ بِفَاتِحَةِ الكِتابِ فَبَرأَ))
’’اس نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، اور وہ ٹھیک ہو گیا۔‘‘
((فَأَعْطَوْهُ غَنَمًا))
’’ان لوگوں نے اس کو کچھ بکریاں دیں ۔‘‘
((وَسَقُوْنَا لَبَنًا))
’’اور ہمیں دودھ پلایا۔‘‘
((فَقُلْنَا: أَكُنتَ تُحْسِنُ رُقْيَةً))
’’ہم نے اس سے پوچھا کیا تم دم کرنا جانتے تھے؟‘‘
((فَقاَلَ: مَا رَقَيْتُهُ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ))
’’تو اس نے کہا کہ میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے ۔‘‘
((قَالَ: فَقُلْتُ: لَا تُحَرِّكُوْهَا حَتّٰى نَأْتِيَ النَّبِيَّﷺ))
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ان بکریوں کو یہاں سے مت ہلا نا جب تک ہم نبیﷺ کے پاس نہ جالیں ۔‘‘
((فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ ﷺ فَذَكَرْنَا ذٰلِكَ لَهُ))
’’ہم آپ سے ہم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ﷺسے اس واقعے کا ذکر کیا۔‘‘
((فَقَالَ: مَا كَانَ يُدْرِيْهِ أَنَّهَا رُقْيَةٌ))
’’تو فرمایا۔ اس کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ اور دم ہے۔‘‘
((إِقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْم﷭ مَعَكُمْ))(بخاري:5007،مسلم:2001)
’’پھر فرمایا: ان بکریوں کو بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگاؤ۔‘‘
تو قرآن پاک دلوں کے امراض کے لیے بھی شفا ہے اور جسمانی بیماریوں کے لیے بھی۔ یوں تو پورا قرآن پاک ہی شفا ہے، مگر کچھ سورتوں کے ساتھ خصوصی طور پر دم کرنا ثابت ہے جیسے سورۃ فاتحہ اور سورۃ الفلق اور الناس وغیرہ۔ اور آپﷺ نے ایک فرمان میں خصوصی طور پر دو چیزوں سے شفاء حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا:
((عَلَيْكُمْ بِالشَّفَاءَينِ الْقُرْآنِ وَالْعَسل))
’’قرآن پاک اور شہد ان دونوں کو بیماریوں سے شفا کے لیے اختیار کرو۔‘‘
اور ایک حدیث میں آپﷺ نے عمومی طور پر دواؤں کے ذریعے علاج کروانے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
((فَإِنَّ اللهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً أَوْ دَوَاءً))(ابن ماجة:3452)
’’فرمایا: کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی اللہ تعالی نے دواء اور شفا مقرر نہ فرمائی ہو ۔‘‘
((إِلَّا دَاءً وَاحِدًا))
’’صرف ایک بیماری ایسی ہے جس کی کوئی دوا نہیں رکھی ۔‘‘
((فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هُوَ))
’’لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ وہ کون سی بیماری ہے ؟‘‘
((قَالَ: اَلْهَرَمُ)) (ترمذي:2038)
’’یعنی بڑھاپے کی کوئی دواء کوئی شفا اور کوئی علاج نہیں رکھا۔ ‘‘
اور اس میں بھی یقینًا بہت سی حکمتیں ہوں گی ، جیسا یہ کہ ایک لمبا عرصہ بے راہ روی کی زندگی گزارنے اور بالخصوص جوانی میں رنگا رنگ کے گل کھلانے کے بعد بڑھاپے کی عمر میں ہی تو کچھ اس کی بے اعتدالیوں میں ٹھہراؤ آتا ہے، اور دنیا کی حقیقت اس پر منکشف ہونا شروع ہوتی ہے اور اسے احساس خطا اور احساس زیاں ہونا شروع ہوتا ہے، اور یوں وہ بڑھاپا اس کے لیے گویا رحمت بن کر آتا ہے کہ اس کی تلون مزاجی اور آوارگی کی راہ میں بند باندھ کر اسے تو بہ واستغفار کا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر پھر سے جوانی لوٹ آئے تو اس کی بے پروائی اور لا ابالی پن کے وہ ایام پھر سے لوٹ آئیں گے۔ یہ تو دنیا ہے، وہ اگر آخرت کے مناظر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آجائے تو پھر بھی وہی کچھ کرے گا جو ماضی میں اس کا وتیرہ رہا ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ جب وہ کہے گا:
﴿ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ۝۹۹
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ﴾
’’اے میرے رب مجھے اس دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں،امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۔‘‘
تو جواب ملے گا:
﴿ كَلَّا ؕ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىِٕلُهَا ؕ ﴾ (المومنون:99۔ 100)
’’ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بک رہا ہے۔ ‘‘
تو اس لیے بڑھایا جو کہ اس کے لیے گویا اک نصیحت کا ساماں بن کر آتا ہے اس کا کوئی علاج نہیں رکھا۔
جسمانی صحت و تندرستی کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت ہے اور یہ جو مقولہ مشہور ہے کہ
((صَلَاحُ الأَبْدَانِ مُقَدِّمُ عَلَى صَلَاحِ الْأَدْيَانِ))
’’جسموں کی صحت و سلامتی مقدم ہے دین کی صحت و سلامتی پر ۔‘‘
تو ایک پہلو سے نسبتا بات سچ ہے کیونکہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے تو کچھ اس پیرائے میں یہ مقولہ درست معلوم ہوتا ہے، یعنی اگر جان سلامت ہوگی تو دنیا کے باقی معاملات کی بات ہو سکے گی ورنہ نہیں، اگر آدمی درمانی مریض ہے، اسے جنون اور پاگل پن کا مرض لاحق ہے تو اس پر دین کے احکام لاگو ہی نہیں ہوتے۔ اور اگر اسے کوئی اور بیماری ہے یا ایسی بیماری ہے جس میں اس کے ہوش و حواس قائم نہیں ہیں تو بھی اس وقت تک وہ معذور ہے اور اس پر احکام لاگو نہیں ہوتے جب تک ہوش میں نہیں آجاتا، اسی طرح دیگر بیماریاں ہیں۔ تو جسمانی صحت اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا انعام و احسان ہے بہت بڑی نعمت ہے۔
صحت و تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے، اندازہ کیجیے، حدیث میں ہے آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، آمِنًا فِي سِرْيهِ عِندَهُ قوتُ يَوْمِهِ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا))(ابن ماجه:4141)
’’تم میں سے جس کسی کو جسمانی صحت و تندرستی میسر ہو، گھر میں امن وامان ہو، اور ایک دن کا راشن موجود ہو تو اس کے لیے گویا پوری دنیا سمیٹ کے رکھ دی گئی ہے۔‘‘
اور غالب نے گویا اس کی ترجمانی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
تنگ دستی اگر چہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے ایک اور حدیث سے اس کا اندازہ لگائیے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ یہ روایت کرتے ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ((إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، يَعْنِي الْعَبْدُ مِنَ النَّعِيمِ، أَنْ يُقَالَ لَهُ: أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ، و نُرْوِيْكَ مِنَ الْمَاءِ البارِدِ)) (ترمذي:3358)
’’آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن بندے سے نعمتوں کے بارے میں جو سب سے پہلا سوال ہوگا وہ یہ کہ کیا ہم نے تجھے جسمانی صحت عطا نہیں کی تھی؟ اور کیا ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیر نہیں کروایا تھا ؟‘‘
ملاحظہ کیا آپ نے کہ جسمانی صحت و تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں انسان کو کتنی بڑی بڑی نعمتیں حاصل ہیں۔ دنیا میں انسان کو جتنی بھی نعمتیں حاصل ہیں، کیا جسمانی صحت اور ٹھنڈے پانی کو نعمت کے طور پر بھی کسی نے ذکر کیا۔
یعنی ان چیزوں کو تو نعمتوں میں بھی شمار ہوتے نہیں دیکھا۔ ہاں جسمانی صحت اس وقت آدمی کو تحت نظر آتی ہے جب وہ بیمار ہوتا ہے، جیسا کہ مقولہ مشہور ہے: ((اَلصِّحَةُ تَاجٌ عَلٰى رُؤُوْسُ الأَصِحَّاءِ لَا يُرُاهُا إِلَّا الْمَرْضٰی))
’’ صحت و تندرستی صحت مند لوگوں کے سر کا تاج ہے، مگر اسے صرف بیمار لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
اس لیے اپنی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے، اس کے جہاں بہت سارے دنیوی فوائد ہیں، وہاں سب سے بڑا اور اصل فائدہ یہ ہے کہ آدمی عبادات بجالانے کے قابل ہوتا ہے۔ جسمانی صحت و عافیت کی اہمیت کو ایک اور حدیث کے ذریعے جاننے کی کوشش کرتے ہیں، حدیث میں ہے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ((جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((تَسْأَلُ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَة فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة))
’’ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ کون سی دعاء سب سے افضل ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو و درگزر اور عافیت کا سوال کرے۔‘‘
((ثُمَّ آتَاهُ مِنَ الْغَدِ ))
’’اگلے روز پھر حاضر ہوا:‘‘
((فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ؟‘
’’پھر وہی سوال کیا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ ‘‘
((قَالَ: تَسْأَلُ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ))
’’فرمایا: سب سے افضل دعا یہ ہے کہ تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفوو درگزر اور صحت و عافیت کی دعا کرو۔‘‘
((ثُمَّ آتَاهُ الْيَوْمَ الثَّالِثَ))
’’تیسرے روز پھر حاضر ہوا۔‘‘
((فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الدُّعَاءِ أَفْضَلُ))
’’کہا: اے اللہ کے رسول سے کام کون سی دعا افضل ہے؟‘‘
قَالَ: ((تَسْأَلُ رَبَّكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ .))
’’فرمایا سب سے افضل دعا یہ ہے کہ تم اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفوو درگزر کی دعا کرو۔‘‘
((فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهُمَا فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ أَعْطِيتَهُمَا فِي الْآخِرَةِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ)) ((الصِّحَةُ وَالْفَرَاغُ)) (مسند احمد، ج:3، ص:127 ، رقم:12313)
’’پس اگر یہ دونوں چیزیں تمہیں دنیا میں مل جائیں اور پھر آخرت میں بھی حاصل ہو جائیں تو تم کامیاب ہو گئے ۔‘‘
اسلام میں صحت و تندرستی کی اہمیت تو ہم نے جان لی، مگر یہ جانتا ابھی باقی ہے کہ ہم اس نعمت کی کتنی قدردانی کرتے ہیں۔ تو آئیے یہ بھی سنتے چلیں:
حدیث میں ہے آپ ﷺنے فرمایا:
((نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ))
’’نعمتیں ایسی ہیں کہ ان میں بہت سے لوگ دھو کے، کھانے اور خسارے میں ہیں۔‘‘
اور وہ ہیں:(بخاری:6412)
’’ صحت و تندرستی اور فارغ البالی‘‘
ہم نے جانا کہ جب نعمتوں کا سوال ہوگا تو سب سے پہلا سوال جسمانی صحت کے بارے میں ہوگا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایام صحت کو کسی قدر نظر انداز کرتے ہیں۔حالانکہ انسان کی زندگی کا سب سے بہترین سرمایہ یہی صحت ہی ہے اور اس میں سے بھی بالخصوص جوانی کے دور کی صحت، اس لیے جب عمر کے بارے میں سوال ہوگا تو اس کے ساتھ ایام جوانی کا بالخصوص سوال ہوگا کہ جوانی کیسے گذاری ؟ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم صحت کو غنیمت جانیں اور اسے اپنی آخرت کے لیے استعمال میں لائیں۔

……………