امانتداری: ایک عظیم وصف

❄ امانتداری کی اہمیت و فضیلت ❄ امانتداری انبیاء کا وصف ہے❄ امانت کی اقسام
❄ خیانت کی مذمت ❄ امانتداری کا صلہ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا [النساء: 58]
ذی وقار سامعین!
اسلام ایک جامع دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ نہ صرف عبادات، بلکہ اخلاقیات، معاشرت، معیشت، اور قانون سازی کے اصول بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کا بنیادی مقصد انسانیت کی بھلائی، عدل و انصاف، اور صلح و محبت کا فروغ ہے۔ قرآن کریم اور حدیث نبویﷺکی تعلیمات انسان کو اپنی زندگی میں صحیح راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ یہ دین انسان کو نہ صرف اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کی تعلیم دیتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کے حقوق، دوسروں کے ساتھ حسن سلوک، اور معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ان ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ترین ذمہ داری ”امانتداری“ ہے ، امانت داری ایک ایسی صفت ہے جو انسان کی شخصیت کی بنیاد بناتی ہے۔ یہ نہ صرف اخلاقی حیثیت رکھتی ہے بلکہ معاشرتی زندگی میں بھی اس کی بڑی اہمیت ہے۔ امانت داری کا مطلب ہے کہ انسان اپنے وعدوں، ذمہ داریوں اور دوسروں کی چیزوں کا خیال رکھے، اور ان کے ساتھ دیانتداری سے پیش آئے۔ امانت داری انسان کو ایک معزز اور قابل اعتماد فرد بناتی ہے، جو کہ نہ صرف اپنی ذات بلکہ اپنے معاشرے کے لئے بھی فائدہ مند ہوتی ہے۔
دنیا میں جہاں بے ایمانی اور دھوکہ دہی بڑھتی جا رہی ہے، وہاں امانت داری کا دامن تھامے رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ لیکن امانت دار لوگ ہمیشہ اپنی سچائی اور ایمانداری کی بنیاد پر کامیاب ہوتے ہیں۔
امام راغب الاصفہانی﷫لکھتے ہیں:
أمن: أصل الأَمْن: طَمَأنِينَةُ النَّفسِ وَزَوَالُ الخَوفِ، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصلِ مَصَادِرُ، وَيُجعَلُ الأَمَانُ تَارَةً اِسمًا لِلحَالَةِ الَّتِي يَكُونُ عَلَيهَا الإِنسَانُ فِي الأَمنِ، وتَارةً اسمًا لِمَا يُؤَمَّنُ عَلَيهِ الإِنسانُ
”امانت‘‘ کا لفظ ہی ’’امن‘‘ سے ہے،اور امن کے معنی نفس کے مطمئن ہونے کے ہیں،اور امین بھی امانت کی ادائیگی میں ہی اطمینان پاتا ہے،اور امین بھی وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں دل مطمئن ہو کہ یہ خیا نت نہیں کرے گا۔’’ امن،امانت اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں۔اور’’ امان‘‘ کے معنی کبھی حالت امن کے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے۔[المفردات فی غريب القرآن: ص90]
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم امانت داری کے حوالے سے چند اہم باتیں سمجھیں گے۔
امانتداری کی اہمیت و فضیلت
❄اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا
”بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔“ [النساء: 58]
❄امانت ہی وہ وصف ہے جس کی بنا پر انسان شریعت کا مکلف اور ذمہ دار ٹھہرا ہے ، اگر اس میں امانت والا وصف نہ ہوتا تو یہ شریعت کا وزن نہ اٹھا سکتا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ ۖ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
”بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے۔“ [الاحزاب72]
اسی لئے آقا  نے ادائے امانت کا حکم دیا ہے۔
❄سیدنا أبو ہریرہ  کہتے ہیں ،نبی مکرمﷺنے فرمایا:
أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ.
”جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے اس کی امانت پوری کی پوری لوٹا دو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔“ [ابوداؤد: 3534 صححہ الالبانی]
❄سیدنا أبو موسیٰ اشعری  کہتے ہیں کہ نبی مکرمﷺنے فرمایا:
الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ
”امانت دار خزانچی جو حکم کے مطابق دلی خوشی سے ٹھیک ٹھیک ادائیگی کرتا ہے وہ صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔ [صحیح بخاری: 2260]
❄حضرت حذیفہ نے بیان کیا کہ ہم سے رسول اللہﷺنے دوحدیثیں ارشاد فرمائیں۔ ایک کا ظہور تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں۔ آنحضرتﷺنے ہم سے فرمایا کہ امانت لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہے۔ پھر قرآن شریف سے۔ پھر حدیث شریف سے اس کی مضبوطی ہوتی جاتی ہے اور آنحضرتﷺنے ہم سے اس کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ” آدمی ایک نیند سوئے گا اور ( اسی میں ) امانت اس کے دل سے ختم ہوئے گی اور اس بے ایمانی کا ہلکا نشان پڑجائے گا۔ پھر ایک اور نیند لے گا اب اس کا نشان چھالے کی طرح ہوجائے گاجیسے تو پاؤں پر ایک چنگاری لڑھکائے تو ظاہر میں ایک چھالا پھول آتا ہے اس کو پھولا دیکھتا ہے ، پر اندر کچھ نہیں ہوتا۔ پھر حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید وفروخت کریں گے اور کوئی شخص امانت دار نہیں ہوگا۔ کہا جائے گا کہ بنی فلاں میں ایک امانت دار شخص ہے ۔ کسی شخص کے متعلق کہا جائے گا کہ کتنا عقل مند ہے، کتنا بلند حوصلہ ہے اور کتنا بہادر ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ( امانت ) نہیں ہوگا ۔ “ ( حضرت حذیفہ  کہتے ہیں ) میں نے ایک ایسا وقت بھی گذارا ہے کہ میں اس کی پروا نہیں کرتا تھاکہ کس سے خرید وفروخت کرتا ہوں۔ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کو اسلام (بے ایمانی سے ) روکتا تھا۔ اگر وہ نصرانی ہوتا تو اس کا مددگار اسے روکتا تھا لیکن اب میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے خرید وفروخت ہی نہیں کرتا۔ [صحیح بخاری: 6497]
❄حضرت عبادۃ  سے مروی ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
اضْمَنُوا لِي سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمْ الْجَنَّةَ: اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ، وَأَوْفُوا إِذَا وَعَدْتُمْ، وَأَدُّوا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ، وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ، وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ .
”مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو،میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں،جب تم بات کرو تو سچ بولو،جب تم وعدہ کرو تو وفا کرو،جب امین بنایا جائے تو اسے ادا کرو،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو،آنکھیں نیچی رکھو اور ہاتھوں کو روکے رکھو،کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو۔“ [مسند احمد: 22757 حسن لغیرہ]
امانتداری انبیاء کا وصف ہے
امانت داری انبیاء کرام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ، چند انبیاء کا تذکرہ یہاں کیا جارہا ہے:
حضرت یوسف :
حضرت یوسف کے بارے میں بادشاہ نے کہا تھا:
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
”اور بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے لیے خاص کرلوں، پھر جب اس نے اس سے بات کی تو کہا بلاشبہ تو آج ہمارے ہاں صاحب اقتدار، امانتدار ہے۔“ [یوسف: 54]
حضرت موسیٰ :
حضرت موسیٰ کے بارے میں لڑکیوں نے کہا تھا:
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
”دونوں میں سے ایک نے کہا اے میرے باپ! اسے اجرت پر رکھ لے، کیونکہ سب سے بہتر شخص جسے تو اجرت پر رکھے طاقتور، امانت دار ہی ہے۔“ [القصص: 26]
حضرت ھود :
حضرت ھود اپنی قوم سے کہتے ہیں:
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ
”میں تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور میں تمھارے لیے ایک امانت دار، خیر خواہ ہوں۔“ [الأعراف:  68]
آقائے رحمتﷺ:
❄ہرقل کے دربار میں سیدنا ابوسفیان اور ہرقل کا مکالمہ ہوا ، ہرقل نے پوچھا کہ وہ نبی محمدﷺکس چیز کی دعوت دیتے ہیں ، تو سیدنا ابوسفیان نے کہا:
يَأْمُرُنَا أَنْ نَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ لاَ نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَيَنْهَانَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا، وَيَأْمُرُنَا بِالصَّلاَةِ، وَالصَّدَقَةِ، وَالعَفَافِ، وَالوَفَاءِ بِالعَهْدِ، وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ
”وہ اس کا حکم دیتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں ، ہ میں ان بتوں کی عبادت سے منع کرتے ہیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کیا کرتے تھے ، نماز ، صدقہ ، پاک بازی و مروت ، وفاءعہد اور امانت کے ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔“ [صحیح بخاری: 2941]
 ❄حضور اکرمﷺکے پاس صحابۂ کرام حتیٰ کہ کفارِ مکہ بھی اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے۔ آپﷺاس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا کرتے تھے، چنانچہ آپ ﷺ کی امانت داری کو دیکھ کر نبوت سے قبل ہی آپ کو امین کے لقب سے نوازا گیا۔ حضور اکرمﷺنے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ ﷺکے پاس لوگوں کی جو امانتیں رکھی ہوئی تھیں، حضرت علی  کو امانت دہندوں تک پہنچانے کی ذمہ داری عطا فرمائی اور مدینہ منورہ کے لیے ہجرت فرما گئے۔
حضرت علی  آپﷺکے بستر پر ہی سوئے، تاکہ صبح آپﷺکی نیابت میں ساری امانتیں لوگو ں کو واپس کردیں اور کسی شخص کو یہ شبہ بھی نہ ہو کہ نعوذ باللہ حضور اکرمﷺامانتیں لے کر چلے گئے ، پھر سیدنا علی تین دن اور تین راتیں مکہ میں ٹھہرے اورلوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ تشریف لے گئے۔ [السنن الکبریٰ للبیھقی: 12698 حسنہ الالبانی]
❄ جب سیدنا علی نے یمن سے رسول اللہ ﷺ کے پاس سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا اور آپ نے وہ چار نو مسلم سرداروں کی دل جوئی کے لیے ان میں تقسیم کر دیا تو بعض لوگوں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا اور اس پر اعتراض کیا۔ آپ ﷺ نے قطعی دلیل کے ذریعے سے لوگوں کو لاجواب کر دیا اور عقل و دانش والوں سے ایک سوال کرتے ہوئے فرمایا:
أَلَا تَأْمَنُوْنِيْ وَ  أَنَا أَمِيْنٌ مَنْ فِيْ السَّمَاءِ، يَأْتِيْنِيْ خَبْرُ السَّمَاءِ صَبَاحاً وّ مَسَاحًا
’’کیا تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے، حالانکہ میں آسمان والے رب کا امین ہوں۔ صبح و شام میرے پاس آسمان کی خبریں آتی ہیں۔‘‘ [صحیح بخاری: 4351]
امانت کی اقسام
1۔ شریعت پر عمل کرنا امانت ہے:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ شریعت پر عمل کرے ، کیونکہ یہ امانت ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو، جبکہ تم جانتے ہو۔“ [الانفال: 27]
اس آیت کے تحت فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام بھٹوی﷫لکھتے ہیں:
”امانتوں میں خیانت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس سے وہ تمام ذمہ داریاں اور عہد معاہدے مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ یا بندوں سے کیے گئے ہوں۔ صلح، جنگ اور نکاح وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں، ایک دوسرے کے ذاتی راز اور فوجی راز بھی امانت ہیں۔“
2۔ عہدہ امانت ہے:
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
”اور وہی جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔“ [المؤمنون: 8]
سیدنا ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپﷺنے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا:
يَا أَبَا ذَرٍّ، إِنَّكَ ضَعِيفٌ، وَإِنَّهَا أَمَانَةُ، وَإِنَّهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ خِزْيٌ وَنَدَامَةٌ، إِلَّا مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا، وَأَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ فِيهَا
”ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے اور قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، مگر وہ شخص جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس میں جو ذمہ داری اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا۔ (وہ شرمندگی اور رسوائی سے مستثنیٰ ہو گا)
[صحیح مسلم: 4719]
سیدنا أبو ہریرہ  کہتے ہیں ،نبی مکرمﷺنے فرمایا:
إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ
”جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ پوچھا یا رسول اللہ ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردئےے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔“  [صحیح بخاری: 6496]
3۔ مجلس کی بات امانت ہے:
جابر بن عبداللہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ الْحَدِيثَ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ
”جب کوئی آدمی تم سے کوئی بات بیان کرے پھر (اسے راز میں رکھنے کے لیے) دائیں بائیں مڑ کر دیکھے تو وہ بات تمہارے پاس امانت ہے۔“  [ترمذی: 1959 صححہ الالبانی]
4۔ مشورہ امانت ہے:
سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ.
”جس سے مشورہ طلب کیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیئے۔“  [ابوداؤد: 5128 صححہ الالبانی]
خیانت کی مذمت
باہمی معاملات اور لین دین میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا اوردیانت داری کادامن تھامے رکھنا شریعت اسلام کی اہم ترین تعلیمات میں سے ہے۔امانت داری صرف اخلاقیات ہی نہیں،بلکہ ایمانیات کا بھی حصہ ہے، جیسا کہ سیدنا انس کہتے ہیں:
قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَ:” لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ، وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ”.
”نبیﷺنے بہت کم ہمیں کوئی خطبہ ایسا دیا ہے جس میں یہ نہ فرمایا ہو کہ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے پاس امانت داری نہ ہو اور اس شخص کا دین نہیں جس کے پاس وعدہ کی پاسداری نہ ہو۔“ [مسند احمد: 12567 حسن]
یعنی اگر کوئی شخص کسی معاملے میں کسی پر بھروسہ کرے اور جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے ایمان میں ابھی نقص ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچا۔ قرآن و حدیث میں خیانت کی بہت زیادہ مذمت بیان ہوئی ہے:
❄ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ
”بے شک اللہ خیانت کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔“ [الانفال: 58]
❄سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُوعِ فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ
”اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بھوک سے ، بیشک یہ بہت بری ہم خواب ہے ۔ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں خیانت سے ، بیشک پوشیدہ خصلتوں میں سے یہ بہت بری خصلت ہے۔“[ابوداؤد: 1547 حسنہ الالبانی]
❄سیدنا ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
  آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
”منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔“ [صحیح بخاری: 33]
❄سیدنا ابوحمید ساعدی کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَا يَغُلُّ أَحَدُكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ إِنْ كَانَ بَعِيرًا جَاءَ بِهِ لَهُ رُغَاءٌ وَإِنْ كَانَتْ بَقَرَةً جَاءَ بِهَا لَهَا خُوَارٌ وَإِنْ كَانَتْ شَاةً جَاءَ بِهَا تَيْعَرُ فَقَدْ بَلَّغْتُ فَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ حَتَّى إِنَّا لَنَنْظُرُ إِلَى عُفْرَةِ إِبْطَيْهِ
”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی بھی اس مال میں سے کچھ بھی خیانت کرے گا تو قیامت کے دن اسے اپنی گردن پر اٹھائے گا۔ اگر اونٹ کی اس نے خیانت کی ہو گی تو اس حال میں لے کر آئے گا کہ آواز نکل رہی ہو گی۔ اگر گائے کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں اسے لے کر آئے گا کہ گائے کی آواز آ رہی ہو گی۔ اگر بکری کی خیانت کی ہو گی تو اس حال میں آئے گا کہ بکری کی آواز آ رہی ہو گی۔ بس میں نے تم تک پہنچا دیا۔ ابوحمید نے بیان کیا کہ پھر نبی کریمﷺنے اپنا ہاتھ اتنی اوپر اٹھایا کہ ہم آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھنے لگے۔“ [صحیح بخاری: 6636]
امانتداری کا صلہ
اب ہم چند واقعات ذکر کریں گے ، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امانتداری کا صلہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی دیتے ہیں:
آزادی مل گئی:
حضرت عبداللہ بن عمر کے غلام حضرت نافع ﷫کابیان ہے کہ ہم حضرت عبداللہ بن عمر کے ہمراہ مدینہ طیبہ سے باہر تھے،ساتھیوں نے کھانا تیار کیادسترخوان پر لگایا،ہم کھانے لگے تو وہاں ایک چرواہا گزرا،اس نے سلام کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے اسے بھی کھانے کی دعوت دی،مگر اس نے کہا :کہ میرا روزہ ہے،حضرت ابن عمر متعجب ہوئے کہ سخت گرمی میں روزہ اور ساتھ بکریاں بھی چرا رہے ہو،تو اس نے کہا: اللہ کی قسم میں اپنے فراغت کے ایام کو غنیمت جانتا ہوں،حضرت عبداللہ بن عمر نے اس کا امتحان لینا چاہا،اس سے فرمایا اپنی بکریوں میں سے ایک بکری ہمیں فروخت کردو،ہم اس کا گوشت بھی تمہیں دیں گے،اس سے تم اپنا روزہ افطار کرلینا۔اس نے کہا اِنّھا لَیسَت لِی غنم اِنّھا غنم سیدییہ بکریاں میری نہیں بلکہ میرے سردار کی ہیں،حضرت ابن عمر  نے فرمایا: امید ہے کہ ایک بکری کے گم ہوجانے کی تمہارا سردار کوئی پرواہ نہیں کرے گا،تو کہہ دینا :بکری بھیڑیالے گیا تھا،اس نے کہا فَأَیْنَ اللّٰہ پھر اللہ کہاں ہے ؟ وہ بلند آواز سے یہ کہتا اور آسمان کی طرف اشارہ کرتا،حضرت ابن عمر جب واپس مدینہ طیبہ آئے،اس چرواہے کے مالک کو ملے،اس سے اسے مع بکریوں کے خرید کر آزاد کردیا اور بکریاں اس کو ہبہ کردیں۔ [شعب الایمان للبیھقی: 5291]
اس نوجوان نے مالک کی بکریوں کو امانت سمجھا ، بہترین آفرز کے باوجود خیانت نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے آزادی جیسی نعمت بھی دے دی اور بکریوں کا ریوڑ بھی عطا کردیا۔
یہ سونا ان دونوں پر خرچ کردو:
سیدنا ابوہریرہ نےبیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا:
اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ وَقَالَ الَّذِي لَهُ الْأَرْضُ إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ أَلَكُمَا وَلَدٌ قَالَ أَحَدُهُمَا لِي غُلَامٌ وَقَالَ الْآخَرُ لِي جَارِيَةٌ قَالَ أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِهِمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا
”ایک شخص نےدوسرے شخص سےمکان خریدا اورمکان کےخریدار کواس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سےوہ مکان اس نےخریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لےجاؤ۔ کیونکہ میں نےتم سے گھر خریدا ہےسونا نہیں خریدا تھا لیکن پہلے مالک نےکہا کہ میں نےگھر کوان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جواس کے اندر موجودہوں ۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کےپاس اپنامقدمہ لےگئے ۔ فیصلہ کرنےوالے نےان سےپوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہاکہ میرا ایک لڑکا ہے اوردوسرے نےکہا میری ایک لڑکی ہے۔فیصلہ کرنے والے نےان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سےنکاح کردو سونا انہیں پرخرچ کردو اورخیرات بھی کردو۔“ [صحیح بخاری: 3472]
زمین خریدنے والے نے اس سونے کے گھڑے کو زمین والے کی امانت سمجھا ، اس میں خیانت نہیں کی تو اللہ تعالیٰ نے بہترین صلے سے نوازا۔
ہار کے مالک بن گئے:
قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی انصاری ﷫کہتے ہیں: میں مکہ مکرمہ میں مقیم تھا۔ ایک دن مجھے سخت بھوک لگی، مجھے کوئی ایسی چیز نہ مل سکی جس سے اپنی شدید بھوک مٹا سکوں ۔ اس دوران مجھے ریشم کی ایک تھیلی گری ہوئی ملی۔ اس کا منہ بھی ریشمی دھاگے سے سلا ہوا تھا ۔میں نے تھیلی لی اور سیدھا اپنے گھر آیا۔جب تھیلی کھولی تو اس کے اندر موتیوں کا ایک نہایت خوبصورت ہار تھا۔ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنا خوبصورت ہار نہیں دیکھا تھا۔تھیلی کو گھر میں رکھا اور باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی پانچ سو دینار ہاتھوں میں لیے اعلان کر رہا تھا: میری ریشمی تھیلی گم ہو گئی ہے جس میں موتیوں کا ہار ہے، جو شخص اسے واپس دے گا، یہ پانچ سو دینار اسے بطور انعام دوں گا ۔ میں نے اس کا اعلان سن کر دل میں کہا؛
میں اسکا ضرورت مند ہوں ، فاقہ کشی ہے ، مگر یہ ہار میرا نہیں ہے ۔ نہ ہی اس پر میرا کوئی حق ہے۔ مجھے ہر حالت میں اسے واپس کر دینا چاہیے ۔ اچانک دل میں خیال آیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی حدیث ہے؛ ”جس نے اللہ کے لیے کوئی چیز چھوڑی اللہ تعالی اس کو اس سے بہتر عطا فرمائیں گے ۔“ [مسند احمد: 21996 صححہ الالبانی]
اس حدیث کو یاد کرنے کے بعد میں نے اپنے عزم کو اور پختہ کیا اور گھر جا کر وہ تھیلی لایا ۔ بوڑھے نے مجھے تھیلی کی علامت، اس کے پھندنے کی علامت اور تھیلی میں موجود ہار میں موتیوں کی لڑیوں کی تعداد بتا دی، نیز جس دھاگے سے تھیلی بندھی ہوئی تھی، اسکی علامت بھی بتا دی۔ میں نے تھیلی بوڑھے کے سپرد کر دی ۔ بوڑھے نے اپنی تھیلی پا کر مجھے پانچ سو دینار دینے کی کوشش کی لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا : اس تھیلی کو اس کے حق تک پہنچانا مجھ پر واجب تھا، اس لئے میں اسکا بدلہ نہیں لے سکتا ۔ بوڑھے نے کہا: نہیں، تمہیں یہ ضرور لینا ہوگا۔پھر اس نے بار بار اصرار کیا لیکن میں نے جب لینے سے انکار کردیا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلتا بنا۔
میرے پاس کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں تھا جس سے میں اپنی زندگی گزارتا ، میں نے ذریعہ معاش کی تلاش میں مکہ مکرمہ سے رخصت سفر باندھا اور سمندر کی طرف روانہ ہو گیا ۔ اتفاق سے میری کشتی ٹوٹ گئی اور لوگ غرقاب ہو گئے ۔ کشتی میں جو کچھ سازو سامان تھا،وہ سب سمندر کی نذر ہو گیا ۔اتفاق سے کشتی کا ایک تختہ میرے ہاتھ لگ گیا، میں اس پر بیٹھ گیا، نہ جانے کب تک سمندر کے تھپیڑوں سے دوچار ہوتا رہا، مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں اور میری منزل کدھر ہے؟ سمندر کے تھپیڑوں نے مجھے ایک ایسے جزیرہ میں لا ڈالا جہاں کچھ لوگ آباد تھے ۔میں جزیرے کے اندر داخل ہوا اور وہاں ایک مسجد میں بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا ۔ جزیرے کے لوگوں نے میری قرات سنی تو بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے: ہمیں اور ہمارے بچوں کو بھی قرآن پڑھنا سکھلاو ۔چنانچہ میں ان لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے لگا ۔انہوں نے میری کافی خاطر مدارات کی ۔
ایک دن میری نگاہ مسجد کے اندر قرآن کریم کے چند اوراق پر پڑی، تو میں انہیں لے کر لکھنے لگ گیا : لوگوں نے پوچھا : کیا تمھیں اچھی طرح لکھنا بھی آتا ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں ۔ ان لوگوں نے مجھ سے درخواست کی : ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھاو ۔ اور میں نے انہیں لکھنے پڑھنے کی تعلیم دینے لگا ۔ اسکی وجہ سے مجھے بہت سا مال بھی حاصل ہو گیا، اور گاؤں میں میری خاص اہمیت بھی ہو گئی ۔ چند دنوں کے بعد ان لوگوں نے مجھ سے کہا: ہمارے ہاں ایک یتیم لڑکی ہے، نیک سیرت اور خوبصورت ہے ۔ اسکے پاس ورثے میں کچھ دولت بھی آئی ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ اس سے تمھاری شادی کر دیں ۔لیکن میں نے شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔ان لوگوں نے کہا: نہیں نہیں! ہم تمھاری شادی کرکے چھوڑیں گے، پھر انہوں نے مجبور کردیا ۔ میں نے کچھ پس و پیش کے بعد ہاں کردی۔
شادی کے بعد جب بیوی سامنے آئی تو میں نے دیکھا کہ بلکل وہی موتیوں کا ہار اسکے گلے کی زینت بنا ہوا ہے جس کو میں نے مکہ مکرمہ میں پایا تھا ۔ میں ٹکٹکی باندھ کر ہار کی جانب دیکھنے لگا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا: بھائی! تم اس یتیم لڑکی کی طرف سے نگاہ پھیر کر اسکے ہار کی طرف دیکھ رہے ہو، تم نے تو اس یتیم کا دل توڑ دیا! میں نے ان لوگوں کو اس ہار کا قصہ تفصیل سے بتایا ۔
ان لوگوں نے میری بات سن کر بلند آواز سے "لا آلہ اللہ و اللہ و اکبر”
کا نعرہ لگایا ۔ میں نے پوچھا: بات کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بوڑھا شخص جس کا ہار تمہیں ملا تھا، اسی یتیم لڑکی کا باپ تھا ۔ وہ بسا اوقات کہا کرتا تھا۔ میں نے پوری دنیا میں صرف ایک ہی کامل مسلمان دیکھا ہے اور وہی ہے ، جس نے موتیوں کا ہار پا کر میرے حوالے کر دیا ۔ نیز وہ برابر اپنی دعا میں کہا کرتا تھا: اے اللہ !!! مجھے اور اس آدمی کو ایک ساتھ اکٹھا کردے تاکہ میں اپنی صاحبزادی کی اس سے شادی کردوں۔ اور اب یقینا اللہ تعالی نے اس کی مراد پوری کردی اور تم خود بخود یہاں آن پہنچے۔
قاضی ابوبکر﷫ کا بیان ہے: پھر میں اس لڑکی کے ساتھ جواب اب میری بیوی تھی ایک زمانے تک زندگی کا سفر طے کیا۔۔۔اس سے دو بچے پیدا ہوئے پھر اس نیک و صالح بیوی کئ وفات ہوگئی وہ ہار مجھے اور بچوں کو وراثت میں ملا پھر کچھ دنوں بعد میرے یہ دونوں بیٹے بھی باری باری اللہ کو پیارے ہوگئے اور یہ ہار میری وراثت میں آگیا ۔ میں نے بعد میں یہ ہار ایک لاکھ دینات میں فروخت کردیا ،یہ جو دولت تم میرے پاس دیکھ رہے ہو یہ اسی ہار کی بدولت ہے۔
[کتاب الذیل علی طبقات الحنابلہ لابن رجب الحنبلی جلد 3 صفحہ 196]
معزز سامعین:
اس واقعہ سے ہمیں کئی باتیں سمجھ جاتی ہیں ، ہمارے موضوع کے متعلقہ بات یہ ہے کہ قاضی ابو بکر محمد بن عبدالباقی انصاری ﷫نے ضرورت کے باوجود جس چیز کو امانت سمجھ کر واپس کردیا تھا ، اللہ نے وہی انکو واپس دلادی۔
میں نے کبھی اس کا پھل چکھا ہی نہیں:
علامہ ذھبی﷫نے امام ابراہیم بن ادھم﷫کے بارے میں نقل کیا ہے،کہ شام میں وہ ایک باغ کی حفاظت پر مامور تھے،ایک روز ان سے کہا گیا: کہ انار لائیں،تو آپ انار لے آئے،مگر وہ ترش نکلے،ان سے کہا گیا: کہ آپ ہمارے باغ کا پھل کھاتے ہیں،مگر تا حال آپ کو یہ معلوم نہیں کہ میٹھے انار کا درخت کونسا ہے اور ترش کا کونسا،امام ابراہیم ﷫ نے فرمایا:
واللّٰہ مَا ذُقتُھا
”اللہ کی قسم میں نے انہیں نہیں چکھا۔“ [سیر اعلام النبلاء: 7/396]
❄❄❄❄❄