ہماری عبادات بے اثر کیوں؟
﴿یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰی كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ﴾ (النحل:111)
گذشتہ جمعے بات ہو رہی تھی کہ ہماری عبادات کا ہماری زندگیوں پر کوئی اثر ظاہر کیوں نہیں ہوتا! یقینًا ہر چیز کا ایک اثر ہوتا ہے، اس کا رنگ اور نتیجہ ہوتا ہے اور سب سے گہرا اثر اور رنگ تو عبادات کا رنگ ہی ہوتا ہے ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿صِبْغَةَ اللّٰهِ ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً ؗ وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ۱۳۸﴾ (البقره:138)
’’اللہ کا رنگ اختیار کردہ اس کے رنگ سے اچھا اور کسی کا رنگ ہو گا ۔‘‘
یہاں اللہ کے رنگ سے مراد اس کا دین ہے اور اس کو رنگ اس لیے کہا کہ ایک مید و ان شخص پر دین اختیار کرنے والے پر اس کا رنگ ضرور چڑھتا ہے۔ تو ہم پر ہماری عبادات کا، ہمارے دین کا اثر کیوں نہیں ہوتا، اس کا رنگ کیوں نہیں چڑھتا، گذشتہ جمعے ہم نے اس کا سبب یہ جانا کہ چونکہ دین ہمارے رگ وپے میں اتر انہیں ہے، ہمارے دل و دماغ میں جاگزیں نہیں ہوا، پیوست نہیں ہوا، اس لیے اس کا رنگ بھی نہیں چڑھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ دین ہمارے دل و دماغ میں جاگزیں نہیں ہوا۔ حالانکہ ہم نے یقینًا اللہ کے فضل سے سچے دل سے کلمہ پڑھا ہے اور صمیم قلب سے اللہ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتے ہیں اور سب مسلمانوں کے بارے میں یہی حسن ظن
رکھتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ دین ہمارے دلوں کی گہرائیوں میں نہیں اترتا۔ الا ماشاء اللہ۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے کہ جو چیز آنکھوں سے اوجھل ہو اس پر توجہ کم ہوتی ہے اور جو چیز آنکھوں کے سامنے ہو سارا میلان اور رجحان اس طرف ہوتا ہے اور اہتمام اس کو دیا جاتا ہے۔
جو چیز دور ہو اس کو زیادہ اہتمام نہیں دیا جاتا اور جو قریب ہو اس کو زیادہ توجہ ملتی ہے۔
لفظ دنیا کا معنی ہے قریب والی ، اور آخرت کا معنی ہے اخیر والی یا بعد والی۔ چنانچہ جن چیزوں کا تعلق دنیا سے اور محسوس چیزوں سے ہوتا ہے، وہ فورا سمجھ میں آجاتی ہیں اور انسان انھیں سمجھنے کی کوشش بھی کرتا ہے، مگر جن چیزوں کا تعلق آخرت سے ہے جیسے: جنت جہنم، پل صراط ، حساب کتاب، جزا اور سزا و غیرہ تو اُن کو سمجھنے کے لیے انسان کو دماغ پر ذرا بوجھ ڈالنا پڑتا ہے، غور و فکر کرنا پڑتا ہے، وقت پیش آتی ہے اور انسان فطرتا سہل پرست ہے لہذا جو چیز آسانی سے حاصل ہو اس کی طرف لپکتا ہے۔ اس بات کو مزید یوں سمجھئے کہ علم منطق کی اصطلاح میں علم کی دو قسمیں ہیں: تصور اور تصدیق ، اور پھر تصور کی دوقسمیں، تصور بدیہی اور تصور نظری۔
تصور بدیہی ایسی چیز کا علم ہے، جو صریح اور واضح ہو، جس کے لیے دلیل کی ضرورت نہ ہو، جیسے: آگ اور پانی ، گرمی اور سردی و غیر ہو۔ یہ الفاظ سن کر آدمی کو ان کے سمجھنے کے لیے غور و فکر نہیں کرنا پڑتا معنی و مفہوم تلاش نہیں کرنا پڑتا ، تعریف معلوم نہیں کرنا پڑتی ، دلیل نہیں ڈھونڈ نا پڑتی، بلکہ فی الفور اور خود بخود معنی سمجھ میں آجاتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس تصور نظری ایسی چیز کا علم ہے جس کو سمجھنے کے لیے آدمی کو سوچ و بچار کرنا پڑتا ہو، اس کی تعریف جاننے کی ضرورت پیش آئے ، دلیل معلوم کرنے کی ضرورت پڑے ، جیسا کہ جن ، فرشتہ ، بھوت وغیرہ۔ تو آخرت کی باتیں سمجھنے کے لیے چونکہ ان کی تعریف اور دلیل کی ضرورت پیش آتی ہے اور انھیں جاننے کے لیے ذرا دماغ پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے اور پھر اس دنیا کی زندگی میں اُن کا کوئی فوری فائدہ بھی نظر نہیں آرہا ہوتا، تو آدمی انھیں بہت زیادہ توجہ نہیں دیتا۔ جیسا کہ جب کسی سے کہا جائے کہ جلدی کرو، بھا گو، گھر میں آگ لگی ہے، تو وہ آدمی بغیر کسی تامل کے فورا اچھل کر بستر سے اٹھے گا اور بھا گتا ہوا باہر نکل جائے گا۔ اگر چہ خبر دینے والا سچا انسان نہ بھی ہو۔
لیکن اس کے برعکس اگر کہا جائے کہ نماز پڑھا کرو، سودی کاروبار سے بچو اور حرام بزنس سے نکل جاؤ، کہ قرآن وحدیث میں ایسے کاموں پر بڑی سخت وعید آئی ہے اور ایسے لوگوں کا بڑا برا انجام بتلایا گیا ہے اور ایسی آگ سے خبردار کیا گیا ہے جو کہ اس دنیا کی آگ سے گنا زیادہ شدید ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا: نَارُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تُو قِدُونَ جُزْءٌ وَاحِدٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزء من حر جهنم))
’’فرمایا: تمھاری دنیا کی یہ آگ جو تم جلاتے ہو، جہنم کی آگ کی گرمی کے ستر حصوں میں سے ایک ہے۔‘‘
((قَالُوا وَاللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةٌ يَا رَسُولَ اللهِ ))
’’صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!اللہ کی قسم یہ بھی کافی تھی۔‘‘
قَالَ: ((فَإِنَّهَا فُضْلَتْ بِتِسْعَةٍ وَسِيِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا )) (صحیح مسلم:2843- ترمذي:2589)
’’فرمایا: مگر اسے69 گنا اس سے بڑھایا گیا ہے، اور اُس کا ہر ہر جزء اور حصہ تمہاری دنیا کی اس آگ جیسا ہی شدید ہے۔‘‘
تو جب کسی کو جہنم کی ایسی آگ سے خبردار کیا جائے تو وہ جواب میں کیا کہتا ہے! اگر آپ نے کبھی کسی کو نصیحت نہیں کی تو شاید آپ کو اس کا اندازہ نہ ہو۔
اس کے جواب میں عجیب و غریب اور تند و تیز جملے سننے کو ملتے ہیں اور اکثر و بیشتر تو ہین آمیز انداز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بڑے ہی غیر معقول Excuses سننے کو ملتے ہیں، خلاصہ یہ کہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ تو چونکہ انھیں جس خطرے سے آگاہ کیا جارہا ہوتا ہے اُس کا ان کی زندگی پر فوری اثر پڑتا نظر نہیں آرہا ہوتا، لہذا وہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ دل سے وہ ان باتوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں، مگر جیسا کہ کہتے ہیں کہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ، جو چیز آنکھ سے پوشیدہ ہو وہ گویا پہاڑ کی اوٹ میں ہوتی ہے، اس لیے ان باتوں کو توجہ نہیں دی جاتی ، جبکہ آخرت کی باتیں سمجھنے کے لیے کامل توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ۳۷﴾(ق:37)
’’اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، جو کان لگا کر یعنی غورسے سنے، اور حاضر ہو۔‘‘
اب یہ تینوں باتیں تو ہر حال میں ہوتی ہی ہوتی ہیں، جب کسی کو نصیحت کی جائے تو وہ کانوں سے سن رہا ہوتا ہے اور زندہ آدمی کا دل بھی حرکت کر رہا ہوتا ہے اور وہ بنفس نفیس سامنے موجود بھی ہوتا ہے۔
تو مطلب یہ ہے کہ پورے انہماک اور توجہ سے سنئے، دل کے ذوق اور شوق اور رغبت کے ساتھ سنے اور حضور قلب بھی حاصل ہو، ورنہ آپ جانتے ہیں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی جسمانی طور پر تو کسی مجلس میں موجود ہوتا ہے، مگر اس کی توجہ وہاں نہیں ہوتی۔ تو دین کے ہمارے دل و دماغ میں سرایت نہ کر پانے کی ایک وجہ تو یہ شہری کہ یہ انسان کی ایک فطری کمزوری ہے کہ وہ ایسی باتوں کو زیادہ توجہ نہیں دیتا جن میں اسے کوئی فوری فائدہ نظر نہ آتا ہو، یا جن پر غور و فکر کرنے کی زحمت اٹھانا پڑے۔ اسی طرح اس کے دیگر متعدد اسباب میں سے ایک سبب یہ ہے کہ دنیا کو انسان کے لیے پرکشش بنا دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ؕ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾ (آل عمران:14)
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں ، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنادی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘
تو دنیا کی کشش اس طرح انسان کی نظروں میں مزین کر دی گئی ہے کہ وہ اس میں سرتا پا کھو جاتا ہے اور اس کی دھن میں ایسا مگن ہو جاتا ہے کہ لب گور تک پہنچ جانے تک غفلت میں پڑا رہتا ہے اور ہوش میں نہیں آپاتا۔
﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ۱
حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۲﴾ (التكاثر:1۔2)
’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ تم لب گور تک پہنچ جاتے ہو۔‘‘
دنیا کی طرف بھیجے چلے جانے کا ایک سبب تو اُس کا پرکشش اور مزین ہونا ہے اور ایک یہ کہ انسان کا دوسرے لوگوں کی شان و شوکت سے متاثر ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَوْ لَاۤ اَنْ یَّكُوْنَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّكْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِهِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّةٍ وَّ مَعَارِجَ عَلَیْهَا یَظْهَرُوْنَۙ۳۳
وَ لِبُیُوْتِهِمْ اَبْوَابًا وَّ سُرُرًا عَلَیْهَا یَتَّكِـُٔوْنَۙ۳۴
وَ زُخْرُفًا ؕ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠﴾ (الزخرف:33۔35)
’’اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے تو اللہ تعالی سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی بیٹریاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے دروازے اور ان کے تخت جن پر تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے ، یہ تو محض حیات دنیا کی متاع ہے اور آخرت تیرے رب کے ہاں صرف متقین کے لئے ۔‘‘
اور ایک مقام پر آپ ﷺکو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ بھی ان کی دنیوی شان و شوکت اور چہل پہل سے متاثر نہ ہونا یہ تو چند روز وہ مصنوعی سی ٹھاٹھ باٹھ ہے۔
﴿لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ﴾(الحجر:88)
’’آپ اس متاع دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا جو ہم نے اُن میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے اور نہ ان کے حال پر اپنا دل گڑھاؤ۔‘‘
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۙ۬ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِ ؕ﴾ (طه:131)
’’یہ تو دنیا کی سرسبزی و شادابی ہے ان کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے‘‘
یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دنیا دار لوگوں کا مال و دولت اور ناٹھ باٹھ سامنے آئے تو آنکھیں بند کرلو، یا اپنا منہ دوسری طرف پھیر او، بلکہ مطلب یہ ہے کہ للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہ دیکھنا ۔
انسان جب متاع دنیا کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے، للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے، ملکی کٹکی باندھ کر دیکھتا ہے تو مطلب ہوتا ہے کہ اس کی چاہت دل میں اتر گئی ہے، اس کا شوق دل میں جاگزیں ہو گیا ہے اور پھر انسان اس کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگتا ہے اپنی تمام صلاحیتیں کھپا دیتا ہے، دن رات محنت کرتا ہے اور حلال اور حرام کی تمیز کھو دیتا ہے۔
تو ہماری عبادات اور ہماری دین داری کا ہماری زندگیوں پر اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ دین ہمارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا اور دین کے دل میں جاگزیں نہ ہونے کے بہت سے اسباب و عوامل میں سے چند ایک اور بھی ہیں۔ ان تمام اسباب و وجوہات کا احاطہ کرنا تو مشکل ہے، اُس کے لیے وقت درکار ہے، اور ویسے بھی احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ سمجھنا اور سمجھانا مقصود ہے۔
اور اگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی عنایت ہو جائے تو کوئی ایک بات بھی حقیقی تبدیلی کے لیے کافی ہوسکتی ہے، اور اگر اللہ تعالی کا فضل شامل حال نہ ہو تو پھر معاذ اللہ انسان اس صورت حال سے دوچار ہو سکتا ہے جس کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا:
((أَنَا آخِدٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنتُمْ تَفَلَّتُونَ مِنْ يَدِي)) (مسلم ، کتاب الفضائل:2285)
’’میں تمھیں تمھارے کمر بند سے پکڑ پکڑ کر تمھیں آگ سے بچانے کے لیے کھینچتا ہوں ، مگر تم چھوٹ چھوٹ جاتے ہو۔‘‘ اعاذنا الله منها۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ
((وَأَنَا فَرَطْكُمْ عَلَى الْحَوْضِ))
’’میں حوض کوثر پر تم سے پہلے وہاں موجود ہوں گا۔‘‘
((فتَرِدُونَ عَلَىَّ مَعًا وَّ أَشْتَاتًا))
’’اور تم میرے پاس اکٹھے اور الگ الگ آؤ گے۔‘‘
((فَأَعْرِفُكُمْ بِسِيمَاكُمْ وَأَسْمَائِكُمْ))
’’میں تمہیں تمہاری علامات سے اور تمہارے ناموں سے پہچانوں گا۔‘‘
((كَمَا يَعْرِفُ الرَّجُلُ الغريبة مِنَ الإِبل فِي ابله))
’’جیسے آدمی اپنے اونٹوں میں کسی اجنبی اونٹ کو پہچانتا ہے۔‘‘
((فَيُؤْخَذُ بِكُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ))
’’اور تمھیں بائیں طرف لے جایا جائے گا، آپ جانتے ہیں کہ بائیں طرف کا کیا مطلب ہے۔‘‘
((فَأَقُولُ: إِلَيَّ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي ))
’’تو میں کہوں گا: میری طرف ، اے میرے رب! میری امت میری امت‘‘
( فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ)) (مسند بزار:204)
’’تو کہا جائے گا: اے محمد (سے)! آپ (س) کو معلوم نہیں ، انھوں نے آپ (ﷺ) کے بعد کیا کیا بدعتیں ایجاد کر رکھی تھیں ۔‘‘
تو اگر تو اللہ تعالی کا فضل شامل حال ہو جائے اور بات سمجھ میں آجائے تو یہ یہ واستغفار کی توفیق نصیب ہو جائے تو یہ سب سے بڑی سعادت ہوگی ، پھر عبادات میں لذت بھی آئے گی سکون بھی ملے گا اور ہماری زندگیوں پر ان کا اثر بھی ظاہر ہونے لگے گا۔ لیکن اگر بات سمجھ میں نہ آئے اور آدمی سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرے بلکہ نصیحت کی بات سے ہو کے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِیْنَۙ۴۹
كَاَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌۙ۵۰
فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍؕ۵۱﴾ (المدثر:49۔51)
’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں، گویا کہ یہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں ۔‘‘
تو حقیقت یہ ہے کہ اگر دل مردو نہ ہو چکے ہوں تو ہر مسلمان پر نصیحت کا اثر ہوتا ہے، چاہے تھوڑی دیر کے لیے ہی ہو، چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (الذاريات:55)
’’نصیحت کیجئے کہ نصیحت اہل ایمان کے لیے نفع مند ہوتی ہے ۔‘‘
لیکن اللہ نہ کرے اگر دل مردہ ہو چکے ہوں تو پھر کوئی نصیحت کام نہیں آتی ، اور بقول شاعر:
لَقَدْ أَسْمَعْتَ لَوْ نَادَيْتَ حَيًّا
ولكن لا حياة لمن تنادي
’’اگر تم نے کسی زندہ کو آواز دی ہوتی تو تم نے اسے آواز سنادی ہوتی لیکن جسے تم آواز دے رہے ہو اس میں زندگی کی رمق باقی نہیں ہے۔‘‘
و نَارٌ لَوْ نَفَخْتَ بِهَا أَضَاءَتْ
ولٰكِنْ أَنْتَ تَنْفُخُ فِي الرَّمَادِ
’’اور آگ میں اگر تم نے پھونک ماری ہوتی تو وہ روشن ہو جاتی مگر تم تو راکھ میں پھونکیں مار رہے ہو ۔‘‘
اللہ نہ کرے کہ ہم میں سے کوئی اس کیفیت میں مبتلا ہو۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ قیامت کے دن جو خطرناک مراحل اور ہولناک مناظر ہوں گے، آپ ان سے واقف ہیں کہ آپ نے بار ہا علماء کرام سے وہ احادیث سن رکھی ہوں گی، ان میں سے ایک منظر یہ ہوگا که قیامت کے دن ایسی نفسا نفسی ہوگی کہ آدمی اپنے حقوق کے لیے اپنے ماں باپ، بین بھائی اور بیوی بچوں کے خلاف بھی اللہ کے حضور درخواست گزار ہو گا اور ان کے حقوق سے بچنے کے لیے اور اس لیے بھی کہ وہ کوئی نیکی نہ مانگ لیں، ان سے دور بھاگے گا۔
﴿یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ﴾(عبس:34۔36)
’’آدمی اس دن اپنے بھائی سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی بیوی اور اپنے بچوں سے بھی بھاگے گا۔‘‘
بلکہ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ خود اپنے خلاف بھی اللہ کے حضور دعوی دائر
کر دے گا۔ قرآن پاک میں ہے؟
﴿يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا﴾ (النحل:111)
’’اس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((مَا تَزَالُ الْخُصُومَهُ بِالنَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى تُخَاصِمَ الرُّوحُ الجسد)) (تفسير القرطبي )
’’قیامت کے دن لوگوں کے درمیان جھگڑے جاری رہیں گے حتی کہ روح جسم سے جھگڑا کرے گی ۔‘‘
لمبی حدیث ہے۔ مختصرً ا ذکر کرتا ہوں:
انسان کی روح اپنے ہی جسم کے خلاف اللہ تعالی کے حضور عرض کرتی ہے ، اے میرے رب اتو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے، میرے پاس تو ہاتھ پاؤں ، آنکھیں اور کان نہیں تھے کہ میں کچھ کرتی ، جو کچھ بھی ہوا اس جسم نے ہی کیا ۔ پس اسے عذاب دے اور مجھے بچائے۔
جسم کہے گا: اے میرے رب! میں تو ایک لکڑی کی مانند تھا ، ہاتھ پاؤں اور آنکھیں اور کان تو تھے مگر حرکت نہیں کر سکتا تھا حتی کہ روح اک شعاع کی طرح میرے اندر داخل ہوئی تو اس سے میری زبان نے بولنا ، آنکھ نے دیکھنا ، پاؤں نے چلنا ، اور کان نے سننا شروع کیا اس لیے جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے ہوا لہذا اسے عذاب دے اور مجھے بچالے ۔
چنانچہ اللہ تعالی نے ان دونوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک نابینا اور ایک معذور کسی باغ میں داخل ہوئے ۔ معذور نے نابینے کو کہا مجھے اُٹھا، میں پھل توڑنا نابینا اور ایک معذور کسی باغ میں داخل ہوئے ۔ معذور نے نابینے کو کہا مجھے اُٹھا، میں پھل توڑتا ہوں خود بھی کھاؤں گا اور تجھے بھی کھلاؤں گا ۔ تو یوں دونوں قصور وار ٹھہرے ۔
تو قیامت کا دن ایسا دن ہے کہ اس روز آدمی اپنے ماں باپ اور بہن بھائی سے تو بھاگے گا ہی بھاگے گا ، وہ اپنے آپ سے بھی کوئی رعایت نہیں کرے گا۔
………………