اللہ تعالیٰ پر توکل اور اسباب اختیار کرنے کا بیان

224۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

((اَللّٰهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ. اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَالْجِنِّ وَالْإِنسُ يَمُوتُونَ)) (أخرجه البخاري:7383، ومُسْلِمٌ:2717)

’’اے اللہ! میں نے تیرے حضور اپنا سر جھکا دیا۔ میں تجھی پر ایمان لایا۔ میں نے تجھی پر بھروسا کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا۔ اور تیری ہی مدد سے (کفر کے ساتھ جھگڑا) مول لیا۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا دے تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جسے موت نہیں آسکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔‘‘

توضیح و فوائد:  قرآن مجید میں یہ جملہ 37 مرتبہ آیا ہے کہ ’’اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ توکل کی اساس یہی فرمان الہی ہے۔ اس بات کا جس قدر پختہ یقین ہوگا کہ اللہ تعالی ہی سب کچھ کرنے پر قادر ہے، وہی معبود برحق ہے، اسی قدر اللہ تعالی پر بھروسا زیادہ ہو گا۔

225۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُوْنَ عَلَى اللهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، لَرُزِقُتُمْ كَمَا يُرْزَقُ الطَّيْرُ، تَغْدُو خِمَاصًا، وَتَرُوحُ بِطَانًا)) (أخرجه أحمد: 205، 370، والترمذي: 2344، وابن ماجه:4164)

’’اگر تم لوگ اللہ پر توکل کرتے جیسا کہ توکل کرنے کا حق ہے تو تمھیں بھی اس طرح سے روزی ملتی جیسے پرندوں کو روزی دی جاتی ہے۔ وہ خالی پیٹ صبح نکلتے ہیں اور بھرے پیٹ شام کو واپس آتے ہیں۔‘‘

 جعفر بن عمرو بن امیہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہا: میں اپنی اونٹنی کو آزاد چھوڑ دوں اور توکل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا:

((اَعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ)) ’’(نہیں، پہلے) اسے باندھو اور پھر تو کل کرو۔‘‘

227۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ فتح مکہ کے دن جب مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر خود تھا۔

توضیح و فوائد:  اللہ تعالی نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، یہ خالق حقیقی کا قانون ہے کہ بندہ خیر و بھلائی حاصل کرنے کے لیے اسباب و ذرائع اختیار کرے اور نقصان وہ امور سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر بروئے کار لائے لیکن بندہ مومن اسباب و ذرائع پر کلی اعتماد نہیں کرتا، وہ انھیں آگے بڑھنے کے لیے محض ایک ذریعہ سمجھتا ہے۔ مومن کے نزدیک اصل عطا و مرحمت فرمانے والاء بچانے والا اور حفاظت کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اسباب بھی صرف اللہ تعالی کے حکم سے مؤثر ہوتے ہیں۔

…………………..