امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمُ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران: 104)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’کہ (تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتی رہے اور نیک کاموں کا حکم کرتی رہے اور بری باتوں سے منع کرتی رہے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘
یعنی کچھ لوگ ایسے کام کے لیے مستعد اور آمادہ رہیں کہ جو لوگوں کو وعظ و نصیحت سناتے رہیں اور نیکیوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے رہیں تاکہ دنیا میں امن وامان رہے او رفتنہ فساد نہ پیدا ہو۔ خدا کی سے فرمانی سے عذاب آتا ہے اور فتنہ وفساد پیدا ہوتا ہے اور نیکی اور اطاعت سے امن وامان رہتا ہے یہ کام دراصل سمجھدار کے لئے ضروری ہے عقلی اور نعلی حیثیت سے اس کی بڑی اہمیت ہے قرآن مجید کی متعدد آیتوں سے اور بہت کی حدیثوں سے اس کی خوبی بیان کی گئی ہے اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة الذاريات:55)
’’یعنی اے نبی! آپ لوگوں کو وعظ و تذکیر کیجئے کیوں کہ نصیحت ایمان والوں کو نفع پہنچاتی ہے۔‘‘
اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر عمل صالح کرتے ہیں اور برائی سے باز رہتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بالله﴾ (آل عمران: 110)
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یعنی تم تمام امتوں میں سب سے افضل ہو اس لیے کہ تم میں یہ تین خوبیاں پائی جاتی ہیں: (1) تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
(2) لوگوں کو بری باتوں سے روکتے ہو۔
(3) نیکیوں کا حکم دیتے ہو۔
اور جن میں یہ تین خوبیاں پائی جائیں گی وہ کبھی نقصان نہیں اٹھا سکتے بلکہ ہمیشہ فائدے میں رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَالْعَصْرِ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ٭ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ وَتَوَاصَوْا
بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورة العصر: 1 تا 3)
’’نماز عصر کی قسم! بیشک و بایقین انسان سراسر نقصان ہی نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور جنہوں نے آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔‘‘
یعنی حق پر قائم رہنے کی ایک دوسرے کو نصیحت کرنے والے اور بری باتوں سے روکنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں بڑے بڑے درجے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ﴾ (حم سجدة: 33)
’’اور اس سے اچھی بات والا کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقینًا مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
اللہ تعالی فرماتا ہے جو خدا کی بندوں کو خدا کی طرف بلائے اور خود بھی نیکی کرے اسلام قبول کرے اس سے زیادہ اچھی بات اور کس کی ہوگی یہ ہے جس نے اپنے آپ کو نفع پہنچے یا اور خلق اللہ کو بھی اپنی ذات سے نفع پہنچایا یہ ان میں سے نہیں جو بڑے باتونی ہوتے ہیں کہتے ہیں مگر خود نہیں کرتے یہ تو خود بھی کرتا اور دوسروں سے بھی کہتا ہے یہ آیت عام ہے رسول اللہﷺ سب سے اولی طور پر اس کے مصداق ہیں اور آپ کے قائم مقام جتنے بھی اعلان کرنے والے ہیں حتی کہ مؤذن جو حَیَّ عَلَی الصَّلوةَ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کہ کر لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور خود بھی نیک عمل کرتا ہے یہ سب اس آیت کریمہ میں داخل ہیں اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ
(مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرٌ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أن ينقص مِنْ أجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلَامِ سُنَةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنقَصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ﴾[1]
’’جو اسلام میں کوئی اچھا کام کرے تو اس کو بھی ثواب ملتا ہے اور اس پر عمل کرنے والے کو بھی ثواب ملتا ہے اور ان کے ثوابوں میں کمی بھی نہیں ہوگی اسی طرح گناہ کا کام ایجاد کرنے والے کو گناہ ملتا ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس کو ہوتا ہے اور عمل کرنے والوں کے گناہوں میں بھی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
لہذا بھلائی اور نیک بات کے بنانے والے اچھے اور کامیاب لوگ ہیں اور ان کی نیکیوں کی وجہ سے یعنی بری باتوں سے منع کرنے اور اچھی باتوں کے حکم کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی عذابوں اور آفتوں کو دور فرما دیتا ہے اور جب اسے چھوڑ دیا جاتا ہے تو انسان مصیبتوں میں گھر جاتا ہے یعنی نیکیوں کے بتانے اور برائیوں کے روکنے سے مصیبت مل جاتی ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے مصیبتیں آجاتی ہیں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ سمجھانے کے لیے نہایت عمدہ مثال بیان فرمائی ہے جو بخاری شریف میں حضرت نعمان بن بشیر سے مروی ہے کہ :
(قَالَ مَثَلُ الْقَائِمِ عَلَى حُدُودِ اللَّهِ وَ الْوَاقِعِ فِيهَا كَمَثَلِ قَوْمِ اسْتَهَمُوْ عَلَى سَفِينَةٍ فَأَصَابَ بَعْضُهُمْ أَعْلَاهَا وَبَعْضُهُمْ أَسْفَلَهَا فَكَانَ الَّذِينَ فِي أَسْفَلِهَا إِذَا اسْتَقَوْا مِنْ الْمَاءِ مَرُّوا عَلَى مَنْ فَوْقَهُمْ فَقَالُوا لَوْ اَنَّا خَرَقْنَا فِي نَصِينَا خَرْفًا وَلَمْ نُوْذِ عَلَى مَنْ فوَقَنَا فَإِن يَتْرُكُوهُمُ مَا أَرَادُوا هَلَكُوْا جَمِيعًا وَإِنْ أَخَذُوا عَلَى أَيْدِيْهِمْ نَجَوْا وَنَجَواجميعًا)[2]
’’فرمایا جو شخص اللہ کی باندھی ہوئی حدوں میں قائم رہے آگے نہ بڑھے اور جو ان میں گھس گیا گناہ میں پڑ گیا دونوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جنہوں نے جہاز میں قرعہ ڈال کر جگہ بانٹ لی کسی نے اوپر کا درجہ لیا کسی نے نیچے کا اب جو لوگ نیچے کے درجے میں رہے وہ پانی کے لیے اوپر کے درجے والوں سے گزرے پھر کہنے لگے ہم نیچے ہی اپنے درجے میں ایک سوراخ کر لیں تو بار بار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح مسلم: 341/2، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة. رقم الحديث:6700-
[2] صحيح بخاري:339/1 كتاب الشركة باب هل يقرع في القسمة والاستهام فيه رقم الحديث: 2493-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنے سے اوپر والوں کو تکلیف نہ دیں گے اگر اوپر والے ان کو چھوڑ دیں اور ایسا کرنے دیں تو سب ڈوب کر تباہ ہوں گے اور اگر ان کو روکیں تو آپ بھی بچیں گے اور دوسرے بھی بچ جائیں گے۔‘‘
حدیث کا مطلب بالکل صاف ہے کہ اگر نافرمانوں کو نافرمانی سے روکا جائے تو سب ڈوبنے سے اور آفتوں سے بچ جائیں گے ورنہ سب پر آفت آئے گی پہلے زمانے میں بہت سے لوگوں کو صرف اس وجہ سے معون قرار دیا گیا کہ وہ نہ برائیوں سے روکتے تھے اور نہ بھلائیوں کا حکم کرتے تھے۔
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ؕ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ۷۸ كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ ؕ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ (المائدة:78)
’’بنی اسرائیل کے کافروں پر حضرت داؤ د اور حضرت عیسی بن مریم کی زبان پر لعنت کی گئی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے آپس میں ایک دوسرے کو برے کاموں سے وہ جو کرتے تھے روکتے نہ تھے جس کو بھی یہ کرتے تھے یقینًا وہ بہت برا تھا –‘‘
یعنی ارشاد ہے کہ بنو اسرائیل کے وہ کافرملعون ہیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت علیہ السسلام کی زبان سے ان ہی کے زمانے میں ملعون قرار پاچکے ہیں کیونکہ وہ خدا کے نافرمان تھے اور مخلوق خدا پر ظالم تھے تو راہ انجیل زبور اور قرآن سب کتابیں ان پر لعنت برساتی آئیں یہ اپنے زمانے میں بھی ایک دوسرے کو برے کاموں پر دیکھتے تھے لیکن خاموش بیٹھے رہتے تھے حرام کاریاں اور گناہ کھلے عام ہوتے تھے اور کوئی کسی کو روکتا نہ تھا یہ تھا ان کا بدترین فعل۔
مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ یا تو تم بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالی تم پر بھی اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے گا تم اس سے دعا ئیں بھی کرو گے لیکن وہ قبول نہیں فرمائے گا ابن ماحبہ میں ہے اچھائی کا حکم دو اور برائی سے مخالفت کرو اس سے پہلے کہ تمہاری دعا میں قبول ہونے سے روک دی جائیں۔ [1]
صحیح حدیث ہے تم میں سے جو شخص خلاف شرع کام دیکھے اس پر فرض ہے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے اور یہ بہت ہی ضعیف ایمان والا ہے۔[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسند احمد: 388/5 و ترمذی:209/3-
[2] صحيح مسلم: 51م1، كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان و ان الإيمان يزيد و ينقص… رقم الحديث: 177
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسند احمد میں ہے کہ اللہ تعالی خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو عذاب نہیں کرتا لیکن اس وقت کہ برائیاں ان میں پھیل جائیں اور وہ باوجود قدرت کے انکار نہ کریں اس وقت عام و خاص کو سب کو اللہ تعالی عذاب میں گھیر لیتا ہے-[1]
ابو داؤد میں ہے کہ جس جگہ خدا کی خطائیں ہونا شروع ہو جا میں جو وہاں ہو اور ان خلاف شرع امور سے ناراض ہو وہ مثال اس کی ہے جو وہاں حاضر ہی نہ ہو اور جوان خطاؤں سے راضی ہو گو وہاں موجود نہ ہو وہ ایسا ہے گویا ان میں حاضر ہے۔[2] ابوداؤد میں ہے لوگوں کے عذر جب تک منقطع نہ ہو جائیں وہ ہلاک نہ ہوں گے۔[3]
ابوداؤد ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ افضل جہاد کلمہ حق ظالم بادشادہ کے سامنے کہتا ہے۔ [4]
ابن ماجہ میں ہے کہ جمرہ ثانیہ کے پاس آنحضرت ﷺ کے سامنے ایک شخص آیا اور آپ سے سوال کیا آپ خاموش ہو رہے جب جمرہ عقبی پر کنکری مار چکے اور سواری پر سوار ہونے کے ارادے سے پاؤں رکاب میں رکھے تو دریافت فرمایا وہ پوچھنے والا کہاں ہے اس نے کہا حضور میں حاضر ہوں فرمایا کلمہ حق ظالم بادشاہ کے سامنے کہہ دینا۔[5]
جب اسے اللہ تلقین حجت کرے گا تو یہ کہے گا کہ تجھ سے تو میں نے امید رکھی اور تو لوگوں سے خوف کھا گیا۔[6]
مسند احمد میں ہے کہ مسلمانوں کو اپنے تئیں ذلیل نہ کرنا چاہیے لوگوں نے پوچھا یہ کیسے فرمایا ان بلاؤں کو سر پر لینا جن کی برداشت کی طاقت نہ ہو۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] كتاب الزهد لابن المبارك ص 476، رقم الحدیث: 1352 و مسند احمد:194/4 و شرح السنة: 346/14، رقم الحديث:4155-
[2] سنن ابی داود: 218/4، کتاب الملاحم باب الأمر والنهي رقم الحديث:4338- و طبرانی کبیر: 139/17 رقم الحديث345-
[3] مسند احمد: 260/4، وابو داود: 218/4، کتاب الملاحم باب الأمر و النهي رقم الحديث 4340-
[4] مسند احمد: 19/3 و ابوداود: 217/4 کتاب الملاحم باب الأمر والنهي رقم الحديث 4337
[5] ابن ماجة كتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف الخ رقم الحديث: 4012، الترغيب: 225/3، سلسلة الصحيحة: 491.
[6] ابن ماجة، كتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف… الخ رقم الحديث: 4017، و مسند احمد: 77،29/3، و مسند حمیدی 739.
[7] جامع الترمذي: 143/3، كتاب الفتن باب في نسخة لا يتعرض من البلاء لما لا يطيق، رقم
الحديث: 2254، ابن ماجه، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف ..الخ، رقم الحديث: 4016، و مسند احمد: 405،5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مذکورہ بالا بیان کی تائید میں سوره اعراف کی یہ آیت ہے:
﴿وَ سْئَلْهُمْ عَنِ الْقَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْ یَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَّ یَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ ۛۚ كَذٰلِكَ ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۱۶۳ وَ اِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْمَا ۙ ِ۟اللّٰهُ مُهْلِكُهُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّكُمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۱۶۴ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۱۶۵ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَّا نُهُوْا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِىِٕیْنَ﴾ (اعراف:163 تا 166)
’’اور آپ ان لوگوں سے اس بستی والوں کا جو کہ دریائے شور کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھئے جب کہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جب کہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہو ہو کر ان کے سامنے آتی تھیں اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے محکمی کیا کرتے تھے اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو نصیحت کیوں کیے جاتے ہو جن کو اللہ تعالی بالکل بلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے رب کے رو برو عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شاید وہ ڈر جائیں سو جب وہ اس امر کے تارک ہی رہے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری بات سے منع کیا کرتے تھے ادان لوگوں کو جو زیادتی کیا کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا بوجہ اس کے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے یعنی جب وہ جس کام سے ان کو منع کیا گیا تھا اس میں حد سے نکل گئے تو ہم نے ان کو کہہ دیا کہ تم بندر ذلیل بن جاؤ۔‘‘
چونکہ یہ لوگ بحیرہ قلزم کے کنارے پر آباد تھے مچھلیوں کا کاروبار کرتے تھے اور اس کی خرید و فروخت میں لگے رہتے تھے ہفتہ کے روز مچھلیوں کا شکار کرنا ان کے لیے حرام کر دیا گیا لیکن جب وہ حیلہ بہانہ کر کے شکار کرنے لگے تو غضب الہی کا دروازہ ان پر کھل گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ ان کے بارے میں فرماتے جیسا کہ ابن کثیر کے پہلے پارے میں ہے کہ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا تھا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کے دن کو رکھا اس دان کی عزت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا ادھر خدا کی آزمائش کی بنا پر ہفتے والے تمام دن مچھلیاں اوپر جایا کرتی تھیں اور کوئی اچھلتی رہتی تھیں۔ اور دنوں نظر بھی نہیں آتی تھیں۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کھیلنے سے رکے رہے ازاں بعد ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن پچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ لیا اتوار کے دن جا کر نکال لیا اور پکا کر کھائی لوگوں نے بھی اس حیلے کو پسند کیا اور اس طرح پاس پاس گڑھے کھود لیے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آجاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن اسے پکڑ لاتے تھے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتے کو شکار نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑ لاتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور ہو گیا جو مصلحت وقت برتنے والے اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ تم اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالی ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے گا اور تم اپنا فرض ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو انہیں چھوڑ دو یہ جواب دیتے کہ ایک تو ہم خدا کے یہاں معذور ہو جائیں گے اور دوسرے اس لیے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں گے اور عذاب خدا سے نجات پا جائیں گے۔
بالاخراس مسلم جماعت نے اس حیلہ جو فرقے کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور ایک دروازہ اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ وحیلہ گر نافرمانوں کے لیے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گذر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا اور نہ ان کی آواز میں آرہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا معاملہ ہے آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں۔ ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر و وکل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئیں ہیں بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں اور عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں۔ اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے اور یہ فلاں عورت ہے اور یہ فلاں بچہ ہے نا فرمانی کرنے والے اور نافرمانی سے منع نہ کرنے والے دونوں عذاب الہی میں گرفتار ہوئے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
(مَا مِنْ رَجُلٍ يَكُونُ فِي قَوْمٍ يَعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُونَ عَلَى أَنْ تُغَيِّرُوا عَلَيْهِ وَلَا يُغَيِّرُونَ إِلَّا أَصَابَهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِ قَبْلَ أَنْ يَمُوتُوا)[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سنن ابی داود: 214/4، كتاب الملاحم باب الأمر و النهي رقم الحديث:4332. و ابن ماجة: كتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر رقم الحديث 4009
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جس بستی اور شہر میں کوئی گناہ کا کام کر رہا ہو اور وہاں کے لوگ اس کو اس گناہ سے روکنے پر قادر ہوں اور پھر بھی اس کو نہیں روکتے اور منع کرتے تو مرنے سے پہلے سب خدائی عذاب میں گرفتار ہوں گے۔‘‘
نیکی کا حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا ضروری ہے خواہ گھر کا آدمی ہو یا پاس پڑوس کا ہوا گر خود نمازی ہے اور گھر والوں یا پاس کے لوگوں کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں کرتا ہے اور ان کو دیگر برائیوں سے نہیں روکتا ہے تو مت کے دن یہ بے نمازی پڑوسی کا دامن پکڑ کر خدا کے سامنے پیش ہو گا اور دو کہے گے خدایا اس نے میری سانت کی ہے اور میری حق تلفی کی ہے یہ نمازی پڑھی اپنی صفائی میں کہے گا کہ خدایا نہ میں نے اس کی خیانت ا ہے اور نہ حق تلفی کی ہے وہ بے نمازی کہے گا کہ خدایا یہ سچ تو کہتا ہے کہ تو کہتا ہے لیکن اس نے مجھے گناہوں سے نہیں کا ہے اس لیے میری خیانت اور حق تلفی کی ہے۔
مومن کی یہی شان ہے کہ وہ نیکیوں کا مجسمہ ہوتا ہے وہ خود بھی بھلائی کرتا ہے اور لوگوں کو بھی بھلائی کا حکم دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے مومن کامل کی یہ نشانی بتائی ہے۔
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَ أُولٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ وَ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ (سورة التوبة:71)
’’مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے محمد معاون اور دوست ہیں بھلائیاں سکھاتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوۃ ادا کرتے ہیں اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ تعالی عزت و غلبے والا حکمت و درست کاری والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالی نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور اسی سورۃ توبہ کے آخر میں ان مومنین کاملین کی یہ توصیف بیان فرمائی ہے:
﴿التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْأَمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ‘‘ (التوبة: 112)
’’وہ ایسے ہیں جو تو بہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے حمد کرنے والے روزہ رکھنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک باتوں صلی اللہ علیہ و سلم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدود کا خیال رکھنے والے اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنادیجئے۔‘‘
یہ آیت پاک ان مومنین کی تعریف میں ہے کہ اللہ نے جن کی جانیں اور جن کے مال ان کی ان صفات جمیلہ کے بدلے میں خرید لیے ہیں۔ وہ تمام گناہوں اور سارے فواحش سے باز رہتے ہیں اور اپنے رب کی عبادت پر قائم ہیں اپنے اقوال و افعال پر بڑی کڑی نظر رکھتے ہیں اقوال میں خاص ترین چیز تو خدا کی حمد ہے اس لیے فرمایا الحامدون اور افعال و اعمال کی رو سے افضل اعمال صیام میں صیام کہتے ہیں کھانے پینے اور جماع سے باز رہنے کو اسی طرح رکوع و سجود سے مراد نماز ہے چنانچہ کہا گیا ﴿الرَّكِعُونَ السَّاجِدُونَ ..﴾ عبادتیں کرکے صرف اپنا ہی فائدہ نہیں کرتے بلکہ اللہ کے دوسرے بندوں کو بھی ہدایت کر کے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو کر فائدہ پہنچاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کون سا کام سزاوار ہے اور کون سے کاموں سے ترک واجب ہے اور علما اور عملا دونوں طرح سے حلال و حرام کے بارے میں خدا کی حدود کی حفاظت پیش نظر رہتی ہے چنانچہ وہ بذات خود عبادت حق اور خیر خواہی خلق دونوں طرح کی عبادت کے علمبردار ہوتے ہیں۔ اس لیے فرمایا پروردگار نے کہ مومنین کو خوشخبری دے دو کیونکہ ایمان ان دونوں کے اجتماع کا نام ہے اور پوری طرح کی سعادت تو اسی کو حاصل ہے جو ان دونوں باتوں سے متصف ہو۔ (تفسیر ابن کثیر)
ان باتوں کی ذمہ داری ہر چھوٹے بڑے پر ہے جو جس درجے و مرتبے کے لائق ہے اس لحاظ سے اسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے۔
اَلَا كُلُّكُمْ رَاع وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ فَالْإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَّعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَّسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)[1]
’’یعنی تم خبر دار ہو تم میں سے ہر ہر شخص شخص چرواہا چرا ہے اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص اور نگرانی کی بابت دریافت کیا جائے گا جو لوگوں کے سردار اور حاکم ہیں وہ لوگوں پر چرواہے ہیں اور ان کے محافظ و نگہبان ہیں اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا اور ہر شخص اپنے گھر والوں کا چرواہا ہے اس سے بھی حساب لیا جائے گا عورت بھی اپنے خاوند کے مال و اولاد کی نگہبان ہے اس ہ شخص سے اس کی ذمہ داری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاری:1057/2 كتاب الاحكام باب قول الله اطيعوا الله …. رقم الحديث:1738-
و صحیح مسلم:122/2، كتاب الامارة باب فضيلة الأمير العادل و عقوبة الجائر …، رقم الحديث: 4724.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سے حساب لیا جائے گا اور غلام بھی اپنے آقا کے مال وغیرہ کا چرواہا اور محافظ ہے اس سے بھی سوال کیا جائے گا لہذا تم میں سے ہر ایک چرواہا ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری اور فرض کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی کام شریعت کے خلاف دیکھے تو اس سے اپنی ہمت کے مطابق رو کے اور منع کرے سب سے زیادہ شریف انسان وہ ہے جو خود بھی بھلائی کرے اور برائیوں سے باز رہے اور دوسرے لوگوں کو بھی اچھی باتوں کی تلقین کرتا رہے اور ناشائستہ حرکات سے منع کرتا رہے یہ بڑی ہمدردی کی بات ہے کہ لوگوں کو بھلائیوں پر آمادہ کرے اور برے کاموں سے بچانے کی کوشش کرے یہی خدمت خلق کی بہترین صورت ہے ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت میں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے والے ہیں ۔ رسول الله ﷺ دعوت الی الحق اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تشریف لائے تو جو تبع رسول ہونے کا مدعی ہے اس کے ذمہ یہ بھی فریضہ ہے اگر اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت اور مداہنت سے کام لے تو وہ آپ کے طریقہ اور روش پر نہیں ہے اس کا ایمان اور اسلام ناقص ہے کیونکہ حق کا اظہار کرنا ایمان کی شرائط میں سے ہے ۔ اللہ کے رسول صل الم نے فرمایا ہے اسلام یہ ہے کہ اللہ کو ایک جانو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نماز پڑھ رمضان کے روزے رکھو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو اور اپنے عیال کو سلام کرو جس نے ان میں سے کسی ایک کام کو نہیں کیا اس کے اسلام کا ایک حصہ ناقص ہے اور جس نے سب کو ترک کر دیا ہے تو اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا۔[1] (حسن ہے )۔
دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسلام آٹھ حصوں کے مجموعہ کا نام ہے اسلام ایک حصہ ہے اور نماز ایک حصہ ہے اور زکوۃ ایک جزو ہے اور روزہ ایک حصہ ہے اور حج ایک حصہ ہے اور امر بالمعروف ایک حصہ جہاد ایک حصہ ہے جس نے ان حصوں کو حاصل نہیں کیا وہ بہت بدقسمت اور محروم ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرنا فتنہ میں مبتلا کرتا ہے[2]
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةٌ لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾ (الانفال:25)
’’اس عذاب اور فتنہ سے ڈرتے اور بچتے رہو جو تم جیسے خاص گنہ گاروں پر ہی نہیں پڑتا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مستدرك: 21/1، كتاب الايمان باب الاسلام ان تعبد الله .
[2] مسند بزار بحواله الترغيب: 232/3، مجمع الزوائد:43/1، باب في بيان فرائض الإسلام ….و 297/1، باب فرض الصلوة-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلکہ دوسرے بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جیسے قحط گرانی، طاعون اور ظالم حاکموں کا مسلط ہونا، ہاں اگر ظالموں کو ظلم اور باغیوں کو سرکشی اور مفسدین کو فساد سے روکتے ہیں تو بس بچتے رہیں گے۔
پہلے زمانے والوں پر ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب آیا کسی پر رات کے وقت اور کسی پر دن کو سوتے وقت اور کسی پر جاگتے ہوئے عذاب آیا اسی طرح موجودہ زمانے میں ہنگاموں اور طوفانی سیلابوں کی صورت میں جو تباہی آرہی ہے وہ بھی عذاب خداوندی کا ایک اونی حصہ ہے اور یہ تباہی صرف اس لیے ہے کہ انسان کی آنکھ کھل جائے اور دنیا والے اپنی سرشی چھوڑ کر سب سے بڑی طاقت والے کے سامنے جھک جائیں ورنہ ان تباہیوں سے اگر ہمیں عبرت حاصل نہ ہوئی تو ہمیں ایک ایسے بڑے عذاب و تباہی کے لیے تیار رہنا چاہیے جس سے پوری دنیا الٹ پلٹ ہو جائے گی پوری انسانیت تباہی کے چکر میں پھنس جائے گی قرآن مجید میں اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَلَنُذِيْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنٰى دُونَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (السجدة: 21)
’’اور ہم ان کو چھوٹے چھوٹے عذاب چکھا ئیں گے سوائے بڑے عذاب کے تاکہ وہ گنا ہوں سے باز آ کر ہماری طرف رجوع کریں۔‘‘
اب بھی موقع ہے کہ اس بحرانی وقت میں صلاح و رشد امن و تقوی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے تیار ہو جا ئیں تا کہ آنے والے ظلم و تعدی اور الحاد ود ہریت کے لشکر سے مقابلہ پر میدان میں آسکیں کتاب وسنت میں جہاد فی سبیل اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور در حقیقت دونوں ایک ہی ہیں صرف لفظوں کا فرق ہے۔
’’جہاد‘‘ جہد سے مشتق ہے جس کے معنی محنت مشقت کوشش اور کسی کام کے لیے سخت تکلیف برداشت کرنے کے ہیں امام راغب نے جہاد کی یہ تعریف کی ہے کہ دشمن کے حملے کے مدافعت میں اپنی پوری کوشش کرتا وہ دشمن ظاہری ہو یا باطنی ۔ (مفردات)
اس ظاہری اور باطنی دشمن کی مدافعت کرنی اور اس کو ظلم و ضلالت سے روکنا اور خیر و صلاح کی طرف بلانا جہاد ہے خواہ زبان و قلم سے ہو خواہ ہاتھ وطاقت اور تلوار سے ہو اور اس کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی کہتے ہیں اس معنی کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر نبی کی امت میں ایسے لوگوں کو پیدا کر دیا تھا جو اپنے نبی کی سنت پر چلتے اور ان کے حکم کی پیروی کرتے تھے ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نبیوں کی پیروی کو چھوڑ دیا ان کا قول ان کے فعل کے اور ان کا فعل ان کے قول کے مخالف تھا جس کام کے کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اسی کو کرتے تھے۔
اور جس کام کے کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ نہیں کرتے تھے اور جو ان سے ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو دل سے جہاد کرے وہ مومن ہے پھر اس کے بعد ایمان کا شائبہ بھی نہیں۔[1]
اسلام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے آیا اور نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ دونوں ایک ہی حکم کے دو نام ہیں پس وہ ہر کوشش جو حق کے لیے ہو اور ہر وہ مال جو سچائی اور نیکی کی خاطر ہو اور ہر وہ محنت اور مشقت جو صداقت کے نام پر ہو ہر وہ تکلیف اور مشقت و مصیبت جو اپنے جسم و جان پر ہو اور وہ راہ حق میں برداشت کی جائے ہر وہ قید خانہ کی زنجیر اور بیڑی جو اعلان حق کی وجہ سے پاؤں میں پڑے ہر وہ پھانسی کا تختہ جس پر جمال حق و صداقت کا عشق لے جا کر کھڑا کر دے غرضیکہ ہر قربانی جو بذریعہ جان و مال اور زبان و قلم کی سچائی اور حق کی راہ میں کی جائے جہاد فی سبیل اللہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔
حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(جَاهِدُوا الْمُشْرِكِينَ بِأَنفُسِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَالْسِنَتِكُمْ)[2]
’’باطل پرستوں کے مقابلہ میں اپنی جان اپنے مال اور اپنی زبان کے ذریعے جہاد کرو۔‘‘
یعنی فرض جہاد کبھی حرب وقتال کی صورت میں کبھی اعلان حق کے لیے مال لٹانے کی صورت میں کبھی زبان سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی شکل میں انجام پاتا ہے (عمل بھی نہایت ضرور ہے) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ خود بھی مومن کامل اور متبع سنت متقی اور پر ہیز گار ہو اور اسلامی احکام کا پورے طور پر پابند ہو اگر وہ نیکی کا حکم کرتا ہے لیکن خود نیکی نہیں کرتا اور برائی سے منع بھی کرتا ہے لیکن خود برائی سے باز نہیں آتا تو وہ خدا کا نا فرمان ہے اور اس کے لیے بھی وعید میں ہیں۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ فرمایا ہے:
﴿اَتَأمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾ (سورة البقرة:44)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]صحیح مسلم: 52/1، كتاب الإيمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان …. رقم
الحديث:179.
[2] سنن ابی داود: 318/2، كتاب الجهاد باب كراهية ترك الغزو، رقم الحديث 2493، و سنن
نسائی: كتاب الجهاد باب وجوب الجهاد رقم الحديث 3098.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلائیوں سے بھلا بیٹھے ہو اور تم قرآن مجید اور کلام الہی کو پڑھتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔‘‘
یعنی لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو تو خود بھی اس کے عامل بن جاؤ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ دوسروں کو کہے اور خود نہ کرے اس آیت میں خود عمل نہ کرنے کی وجہ سے ان کی مذمت کی گئی ہے اچھی بات کہنا تو خود اچھا ہے ہی بلکہ واجب اور فرض ہے لیکن اس کے ساتھ اس پر عمل کرنا بھی چاہیے جیسا کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا:
﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أَنِيْبُ﴾ (سورة هود:88)
’’یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں روکوں اور خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مددت ہے میرا بھروسہ اللہ پر ہے اور میری رغبت اور رجوع بھی اسی کی طرف ہے۔‘‘
پس نیک کاموں کے کرنے کو کہنا بھی واجب اور خود کرنا بھی واجب ایک کے نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دیا جائے یہ نہ چاہیے۔
(رأَيْتُ لَيْلَةً أُسْرِى بِي رِجَالًا تُقْرَضُ شَفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنَ النَّارِ فَقُلْتُ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيْلُ قَالَ الْخُطَبَاءُ مِنْ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا يَعْقِلُونَ)[1]
’’معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں تو جبرائیل امین نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ و عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے باوجود علم کے سمجھ نہیں رکھتے تھے۔‘‘
بخاری و مسلم میں ہے کہ حضرت ابو وائل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہﷺ کو فر ماتے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ ان کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا اور جہنمی اس کے ارد گر و جمع ہو کر پوچھیں گے کہ حضرت آپ تو ہمیں اچھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1]مسند طیالسي ص274، رقم الحديث:2060، و مسند احمد:120، 231، 239، شعب الإيمان للبيهقي:1773.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکھتا تھا۔[1]
اللہ تعالی ہم سب کو دنیا و آ آخرت کے عذابوں سے بچائے اور نیک حملوں کی تو یہ وں کی توفیق بخشے ۔ آمین ۔
(أَقُولُ قَوْلِي هٰذَا وَاسْتَغْفِرُ اللَّهَ لِي وَلَكُمْ وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِينَ وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ – وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وبركاته)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح بخاری:462/1 كتاب بدء الخلق باب صفة النار و انها مخلوقة —- رقم الحديث
3267- صحیح مسلم:412/2، كتاب الزهد باب عقوبة من يامر بالمعروف ولا يفعله …. رقم الحديث7483.