اپنے نفس کو آداب و اخلاق حسنہ کا خوگر کیسے بنائیں؟

﴿وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۝۷ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۝۸ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾ (الشمس:7۔9)
’’اور نفس کی قسم! اور اس کی جس نے اس کو بتایا۔ پھر اس کی نافرمانی اور اس پر ہیز گاری اس کے دل میں ڈال دی۔ یقینًا وہ کامیاب ہو گیا جس نے اسے پاک کر لیا۔ اور یقینًا نامراد ہو گیا جس نے اسے مٹی میں دبا دیا۔‘‘
قرآن و حدیث کی روشنی میں اخلاق و آداب کی اہمیت جاننے کے بعد گذشتہ جمعے انسان کی متعدد فطری اخلاقی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری بخل کا ذکر ہوا، کہ انسان فطرتا بڑا بخیل اور تنگ دل ہے۔ انسان میں یہ کمزوری کسی درجے اور کسی حد تک ہے، اس کی شدت کا اندازہ کیجئے ، اللہ فرماتے ہیں:
﴿قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ الْاِنْفَاقِ ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠۝۱۰۰﴾ (الاسراء:100)
’’اے پیغمبر سے ہم کہہ دیجئے، اگر کہیں میرے رب کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضے میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے اندیشے سے ضرور ان کو روک لیتے ، واقعی انسان بڑا تنگ دل واقع ہوا ہے۔‘‘
اللہ کی رحمت کے خزانے یقینًا نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں مگر انسان کے دل میں فطرتا جو ایک کمی اور نقصان کا ڈر رہتا ہے اس کی بنا پر وہ اللہ تعالی کے نہ ختم ہونے والے خزانوں کو کھلے دل سے خرچ کرتا ہوا ڈرتا ہے۔
تو بحیثیت انسان ہر انسان کی فطرت میں یہ خامی اور کمزوری موجود ہے الا یہ کہ اللہ تعالی نے کسی کا سینہ کشادہ کر رکھا ہو کہ وہ کھلے دل سے خرچ کرتا ہو۔
چنانچہ یہ خامیاں اور کمزوریاں جو امتحان اور آزمائش کی غرض سے انسان کی فطرت میں رکھی گئی ہیں، ان کی اصلاح اور تزکیہ مطلوب و مقصود ہے اور یہ انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کے لیے لازمی اور ضروری ہے، اللہ تعالی نے اس حقیقت کو خوب کھول کر بیان کر دیا ہے:
﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ۝۹ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۝۱۰﴾ (الشمس:7۔9)
’’یقینًا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا۔‘‘
لہذا ہمیں اپنی اخلاقی کمزوریوں کی اصلاح اور تزکیۂ نفس کی فکر کرنی چاہیے اور اس کی طرف توجہ دینی چاہیے، اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اصلاح نفس آسان کام نہیں ہے اور اس حقیقت کو سامنے رکھنا اس لیے ضروری ہے تا کہ کہیں ہمت نہ ہار جائیں۔ کوئی عام کی عادت انسان کو اگر پڑ جائے تو اس کا چھوٹنا مشکل ہو جاتا ہے، چہ جائیکہ ایک ایسی عادت جو اس کی سرشت میں ہو اسے آسانی سے ختم کیسے کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ کسی بری عادت کو ترک کرنا، کسی بری خصلت کو اچھی صفت میں تبدیل کرنا بہت مشکل کام ہے، جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔
اگر انسان واقعی کسی بری عادت کو ترک کرنے کی خواہش رکھتا ہو تو اسے چند باتوں کا خیال رکھنا ہوگا، ایک تو یہ کہ اس کے لیے بلند ہمتی درکار ہے، مضبوط، پختہ اور مصمم ارادہ چاہیے، ماحول سازگار ہو اور دیگر اسباب دستیاب ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ نفس انسانی کا مزاج بچوں کی نفسیات اور ان کے طرز عمل کی مانند ہے، یعنی جس طرح بچہ کسی عادت کو آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اگر اسے کوئی عادت چھڑانے کی کوشش کی جائے تو وہ روتا اور چین و چلاتا ہے، لیکن اگر ایک بار چھوٹ جائے تو پھر اسے چھوڑے رکھنے کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ بچہ دودھ پینے کا شوقین اور عادی ہوتا ہے اور اُس کے بغیر وہ زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہوتا، چنانچہ جب اسے دودھ چھڑایا جاتا ہے تو وہ روتا اور چیختا ہے، مگر جب ایک بار چھوڑ دیتا ہے تو پھر اسے اُس کی کمی محسوس نہیں ہوتی ، چنانچہ شاعر کہتا ہے:
والنَّفْسُ كَالطَّفْلِ إِنْ تُهْمِلَهُ شَبَ عَلَى
حب الرَّضَاعِ ، وَإِنْ تُفْطِمُهُ يَنْفَطِمُ
’’نفس انسانی بچے کی مانند ہے کہ اگر اسے نظر انداز کر دیں اور اُس کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ رضاعت کی محبت پر پروان چڑھتا ہے اور اگر اسے چھڑوا دیں تو چھوڑ بھی دیتا ہے۔‘‘
اسی طرح یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ انسان دنیا کی طرف ایک فطری میلان طبع رکھتا ہے، جیسا کہ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((مَثَلُ الطَّبْعِ فِي مَيْلِهِ إِلَى الدُّنْيَا كَالْمَاءِ الْجَارِي، فَإِنَّهُ يَطْلُبُ الهبوط ))
’’انسان کے دنیا کی طرف میلان طبیع کی مثال ایسے ہے جیسے بہتا ہوا پانی، کہ پانی نیچے کی طرف بہتا ہے۔‘‘
((وَإِنَّمَا رَفْعُهُ إِلَى فَوْقَ يَحْتَاجُ إِلَى التَّكَلَّفَ))
’’جبکہ پانی کو اوپر کی طرف اٹھانے کے لیے محنت درکار ہوتی ہے۔‘‘
((فَأَمَّا الطَّبْعُ فَجَوَاذِبُهُ كَثِيرَةٌ))
’’نفس انسانی کو اپنی طرف کھینچنے والی اور مائل کرنے والی چیزیں بے شمار ہیں۔‘‘
((وَلَيْسَ العَجَبُ أَنْ يَغْلِبَ إِنَّمَا العَجَبُ أَنْ يُغْلَبَ)) (صيد الخاطر ، جواذب الطبع كثيرة:25)
’’ نفس کے اُن چیزوں کی طرف مائل ہونے اور کھچے چلے جانے میں تعجب اور حیرانی نہیں، بلکہ حیرانی اس میں ہے کہ نفس مغلوب ہو جائے اور اسے دین کی طرف ڈھال لیا جائے ۔‘‘
اس لیے اپنی کسی بڑی خصلت کو ترک کرنے اور اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش سے پہلے ان حقائق کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے ، تاکہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار ہوں۔ نفس کو دین کی طرف مائل کرنے کے لیے محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے، اور ایسے کام کرنا پڑتے ہیں جو نفس ، طبیعت اور مزاج کو نا پسند ہوں، جو نس پر ناگوار گزرتے ہوں جنہیں وہ نا پسند کرتا ہو، جیسا کہ بایزید بسطامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((مَا زِلْتُ أَسُوقُ نَفْسِي إِلَى اللَّهِ وَهِيَ تَبْكِي))
’’میں مسلسل اپنے نفس کو اللہ تعالی کی طرف دھکیلتا رہا جبکہ دور دوڑتا اور چلاتا رہا۔‘‘
((حَتَّى سُقْتُهَا وَهِيَ تَضْحَكُ)) (المدهش ، الفصل الثالث والثمانون:463)
’’حتی کہ اب میں اسے اللہ کی طرف لے کر چلتا ہوں تو وہ ہنستا اور مسکراتا ہوا جاتا ہے‘‘
تو آئیے ہم بھی اصلاح نفس کے لیے اخلاق رویہ اور صفات ذمیمہ کو ترک کرنے کے لیے کی وجہد کریں، اپنے نفس کو سمجھا ئیں اسے صفات حسنہ اپنانے کے لیے مجبور اور آمادہ کریں۔ یہ دور اخلاق حسنہ اور صفات جمیلہ کے فقدان کا دور ہے یہ دور قحط الرجال کا دور ہے، یہ دور نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی کے الٹ پلٹ اور خلط ملط ہو جانے کا دور ہے، یہ دور معیار اور کسوٹی بدل جانے کا دور ہے اور یہ دور اخلاقی قدریں گر جانے کا دور ہے جیسا کہ احادیث میں علامات قرب قیامت کے حوالے سے بتلا دیا گیا ہے۔
آج اخلاقی قدروں کا جو حال ہے، اُن کی بے قدری کا جو عالم ہے، وہ تو سب کے سامنے ہے مگر آج سے ہزار سال پہلے شاعر ابو العلاء المعری نے یہ سب کچھ بھانپتے ہوئے کیا خوب کہا تھا:
إِذَا عَيَّرَ الطَّائِيَّ بِالْبُخْلِ مَادِرٌ
وعَيَّر قِسًّا بِالْفَهَاهَةِ بَاقِلُ
’’جب حاتم طائی کو مادِر جیسا بخیل شخص بخل کا طعنہ دینے لگے اور قس بن ساعدہ جیسے اخطب العرب کو باقل جیسا گنگ اور کند ذہن آدمی غیر فصیح کہنے لگے۔‘‘
وَقَالَ السُّهَى لِلشَّمْسِ أَنتِ كَسِيفَةٌ
وقَالَ الدُّجٰى لِلْبَدْرِ وَجْهَكَ حَائِلٌ
’’جب سہی تارو جو خود ایک مدہم روشنی والا تا رہ ہے سورج سے کہے کہ تیری روشنی ماند ہے، تو گہن زدہ ہے اور رات کی تاریکی چاند سے کہے کہ تیرا تو چہرہ ہی صاف نہیں ، متغیر ہے ۔‘‘
قيَامَوْتُ زُرْ إِنَّ الحَيَاةَ ذَمِيمَةٌ
و يَا نَفْسُ جِدِّي إِنَّ دَهْرَكِ هَازِلُ
’’تو پھر اسے موت تو ہی ملاقات کے لیے آجا اور اسے نفس تو ہی سنجیدہ ہو جا کہ تیرا یہ دور تو تھے مذاق کا دور ہے ۔‘‘
تو اس دور میں جبکہ اخلاقی قدریں مشتمل ہوتی جارہی ہیں، ہمیں سنجیدگی سے انہیں پھر سے تر و تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
گذشتہ جمعے ایک اخلاقی کمزوری بخل کا ذکر ہوا اور بخل کسی شدت کے ساتھ انسان کی فطرت میں موجود ہے وہ بھی ہم نے جاتا ، اس کمزوری اور خامی کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟
یقینًا اس بری اخلاقی خصلت کو اچھی صفت سخاوت سے بدلا جاسکتا ہے، مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ، اس کے لیے نفس کو رولانا پڑتا ہے، اسے زبر دستی سخاوت پر آمادہ کرنا پڑتا ہے۔
اور اگر قرآن و حدیث میں ذکر کی گئی بخل کی قباحت و شناعت سمجھ میں آجائے اور سخاوت کی فضیلت اور اجر و ثواب معلوم ہو جائے اور مال کی محبت کے دنیا و آخرت میں نقصانات کی حقیقت آدمی پر منکشف ہو جائے تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے اللہ تعالی کے اس فرمان کو سامنے رکھنا ہوگا:
﴿وَمَنْ يُّوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (الحشر:9)
’’جو لوگ اپنے دل کی تھی اور بخل سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
دل کی تنگی اور بخل کے حوالے سے ایک بہت بڑی حقیقت اور قاعدہ بیان کر دیا گیا ہے، کہ بخل اور کنجوس شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی جس کو اس بری صفت سے بچالے بس وہی کامیاب ہے نفس کی حقی، جمع ، لالچ اور بخل کا کیا مطلب ہے؟ آئیے جانتے ہیں نفس کے بخل طمع اور تنگی کا مدار دو چیزوں پر ہے۔
1۔ ایک کسی ایسی چیز میں طمع کرنا، جس میں اس کا حق نہ ہو ۔
2۔ اور دسرے کسی ایسی چیز سے ہاتھ روک لینا، جس کا خرچ اور ادا کرنا اس پر لازم ہو۔
مثلا: جسے اللہ تعالی نے اپنے فضل سے نفس کی تنگی اور بخل سے بچالیا ہو، وہ پوری پوری زکوة ادا کرتا ہے اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے صدقات و خیرات کرتا ہے، تو یوں وہ واجب کو ادا کرنے کے بخل سے بچتا ہے۔ اور جسے اللہ تعالی نے لوگوں کے حقوق تلف کرنے سے بچالیا ہو، وہ ایک ایسی چیز کے بھل سے بچ جاتا ہے جو اس کا حق نہ تھا۔
مال کی شدت محبت انسان کو بغل پر آمادہ کرتی ہے اسے ناجائز طریقوں سے حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور مال کی محبت کے جو دنیا و آخرت میں نقصانات ہیں وہ بہت واضح اور بہت زیادہ ہیں۔
مال کی محبت کے دنیا میں جو نقصانات ہیں انہیں کیا شمار کریں، لوگ انہیں اہمیت نہیں دیتے، کہتے ہیں کوئی بات نہیں پھول کے ساتھ کانٹے تو ہوتے ہی ہیں، مگر حقیقت میں وہ نقصانات کانٹوں کی تکلیف سے مختلف ہیں، کیونکہ کانٹوں کی تکلیف صرف جسم کو سہنا پڑتی ہے، جبکہ مال کی محبت کی تکلیف غم اور پریشانی کی صورت میں ہوتی ہے، دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں ، اضطراب اور بے قراری کا سامنا کرنا پڑتا ہے وغیرہ۔ مگر اصل نقصان آخرت کے حوالے سے ہے، کہ انسان جب مال کی محبت میں کھو جاتا ہے تو پھر اسے آخرت کا دھیان نہیں رہتا اس کی توفیق نہیں ہوتی ، جیسا کہ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے بدوؤں کے عذر کا ذکر کرتے ہوئے اللہ فرماتے ہیں:
﴿ سَیَقُوْلُ لَكَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَاۤ اَمْوَالُنَا وَ اَهْلُوْنَا ﴾ (الفتح:11)
’’اے پیغمبرﷺ جو بدوی لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے، اب وہ آکر ضرور آپ سے کہیں گے کہ ہمیں اپنے اموال اور بال بچوں کی فکر نے مشغول کر رکھا تھا۔‘‘
چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے اہل ایمان کو مال کی محبت میں کھو کر دین سے غافل ہو جانے سے منع فرماتے ہوئے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ ۚ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۝۹﴾(المنافقون:9)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمہارے مال اور تمھاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں، جو لوگ ایسا کریں وہی خسارے میں رہنے والے ہیں ۔‘‘
اور نفس کے بخل اور طمع ولالچ سے بچنے کے لیے اس حقیقت کو ضرور سامنے رکھیں، یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ دنیا کے کسی شخص کو بھی اس کا انکار نہیں، چاہے وہ کسی بھی دین و مذہب اور قوم سے تعلق رکھتا ہو۔
حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((يَتْبَعُ الْمَيْتَ ثَلَاثَةٌ))
’’تین چیزیں میت کا پیچھا کرتی ہیں ۔‘‘
یعنی جب آدمی فوت ہوتا ہے، تو تین چیزیں اس کے ساتھ جاتی ہیں۔
((فيرجعُ اثْنَانِ وَيَبْقَى مَعَهُ وَاحِدٌ))
’’دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک اس کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘
((يتبعه أهله وماله وعمله))
’’اس کے گھر والے، اُس کا مال اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں ۔‘‘
(فيرجع أهله وماله ويبقى عمله))
’’اس کے اہل وعیال رشتہ دار اور دوست و احباب اور اس کا مال و دولت قبرستان سے واپس آجاتے ہیں، اور اس کا عمل اس کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
اس حقیقت سے واقف تو سبھی ہیں ، لیکن بات یقین اور ایمان بن کر اگر دل و دماغ میں اُتر جائے تو مال کی محبت کا فور ہو جاتی ہے اور بخل و کنجوسی کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ بھل کی خدمت قرآن وحدیث میں جابجا بیان ہوئی ہے، مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اس کے شر سے محفوظ فرمائے۔
جب تک مال کی محبت دل میں باقی ہے، بھل بھی کسی نہ کسی حد تک باقی ہے، کلی طور پر تو مال کی محبت سے منع نہیں کیا جاسکتا اور شاید یہ انسان کے لیے ممکن بھی نہیں ہے، البتہ اس کو اسلامی سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اور وہ یوں کہ دنیا کمانے کے لیے اسے ایک مناسب وقت ضرور دیں، مگر آخرت بنانے کے لیے بھی ایک مناسب وقت ہونا چاہیے، اب بارو بارہ گھنٹے دنیا کمانے کے لیے ہوں اور دین کے لیے زیادہ سے زیادہ صرف اڑھائی گھنٹے اور اڑھائی گھنٹے بھی وہ لوگ دیتے ہیں جو نمازی ہوں، نمازی کا مطلب ہے کہ نماز با جماعت کا اہتمام کرتے ہوں ، ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نمازیں پڑھتی ہی نہیں، ایسے لوگوں کے لیے مال تو گویا سراسر تباہی ہے، حدیث میں ہے:
((إِنَّ اللهَ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَزِيٍّ جَوَاظٍ ، سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ))
’’بے شک اللہ تعالی متکبر سخت گیر اور بازاروں میں شور شرابہ کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘
((جِيفَةِ بِاللَّيْلِ ، حِمَارِ بِالنَّهَارِ ، عَالِمِ بِأَمْرِ الدُّنْيَا جَاهِلِ بِأَمْرِ الآخرة)) (ابن حبان:72)
’’رات کو مردار (کی طرح سوتا ہے ) ، دن میں گدھے (کی طرح ہوتا ہے ) دنیاوی معاملات کو جاننے والا اور امور آخرت سے جاہل انسان ہے۔‘‘
دوسری طرف جو شخص دنیا و آخرت کے ساتھ ان کی حقیقت اور قدر و قیمت کے حساب سے معاملہ کرتا ہے ، اس کے لیے مال و دولت کو خوش بختی قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرءِ الصَّالِحِ)) (الأدب المفرد:299)
’’اچھا مال ، اچھے آدمی کے لیے کیا ہی خوب ہے ۔‘‘
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………………