ارکانِ اسلام

اہم عناصر :

❄ شہادتین کا اقرار کرنا         ❄ نماز ادا کرنا         ❄ زکوٰۃ ادا کرنا

❄ حج ادا کرنا                   ❄رمضان کے روزے رکھنا

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِى السِّلۡمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ‌ اِنَّهٗ لَـکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ [البقرۃ:208]

ذی وقار سامعین!

ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اسے اسلام کی بنیادی چیزوں کا علم ہو ، ان بنیادی چیزوں میں سے اسلام کے ارکان بھی ہیں، یعنی وہ پانچ چیزیں جن پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ارکانِ اسلام پانچ ہیں؛                                                               عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ   بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ [مسلم:113]

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

1۔ شہادتین کا اقرار کرنا

لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰه کا مفہوم اور فضیلت:

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں،اس میں غیر اللہ کی الوہیت (بندگی) کی نفی کی گئی ہے اور اسے صرف اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ثابت کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛ فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللّٰهُ

’’پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘[محمد: 19]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛

مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّةَ  [رواہ البزار ، صححہ الألبانی فی الجامع الصغیر: 6433]

’’جس شخص نے خلوص دل سے لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللّٰهُکہہ دیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

مخلص وہ ہے جو اس کلمۂ توحید کا فہم حاصل کرے اور اس پر عمل پیرا ہو اور اس سے اپنی دعوت کی ابتدا کرے،اس لیے کہ یہ کلمہ ایسی توحید پر مشتمل ہے جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو پیدا کیا۔

 جب رسول اللہ ﷺ کے چچا ابوطالب فوت ہو رہے تھے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:

يَا عَمُّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ

’’چچا جان! لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللّٰهُ کہہ دیجیے۔ اس کلمے کی بنا پر میں آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے سفارش کروں گا۔ لیکن انھوں نے لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللّٰهُکہنے سے انکار کر دیا. [بخاری: 1360 ، مسلم: 24]

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ،وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مَنْ دُونِ اللهِ،حَرُمَ مَالُهُ،وَدَمُهُ،وَحِسَابُهُ عَلَى اللّٰهِ عزوجل[مسلم: 23]

’’جس نے کہہ دیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہر اس چیز کا انکار کیا جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے تو ایسا کرنے سے اس کی جان و مال (کو نقصان پہنچانا) حرام ہو گیا اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه کا مطلب :

اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں،چنانچہ انھوں نے جو کچھ بتایا ہم اس کی تصدیق کریں اور ان کے حکم کی اطاعت کریں اور جس چیز سے انھوں نے منع کیا اسے ترک کر دیں اور ان کی سنت کو اپناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔

2۔ نماز ادا کرنا

نماز کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:

❄وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقرۃ: 43]

"اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔”

❄الٰمّ . ذَلِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ . الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلاَة وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُوْنَ . وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالآخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ . أُولٰئِکَ عَلٰی هُدًی مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ[البقرۃ: 5-1]

"الم یہ کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ، اس میں متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں او رہم نے انھیں جو دیا اس سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ نیز وہ آپ کی طرف نازل شدہ (وحی) پر ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ اپنے رب کی طرف سے (نازل شدہ) ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔”

❄إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [البقرۃ: 277]

"بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ،ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔”

❄وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [البینہ: 5]                                         "اور انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں، اس حال میں کہ اس کے لیے دین کو خالص کرنے والے، ایک طرف ہونے والے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی مضبوط ملت کا دین ہے۔”

❄يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ [البقرۃ: 153]

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو! صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔”

❄اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ  وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ [العنکبوت: 45]

"اس کی تلاوت کر جو کتاب میں سے تیری طرف وحی کی گئی ہے اور نماز قائم کر، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔”

❄ إِلاَّ أَصْحَابَ الْيَمِينِ فِي جَنَّاتٍ يَتَسَاءَلُونَ عَنِ الْمُجْرِمِينَ مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ] المدثر 39 تا  44[

” مگر داہنے والے۔ باغوں میں ہوں گے، پوچھیں گے۔ گناہگاروں سے۔ کس چیز نے تمہیں دوزخ میں ڈالا۔وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے۔ اور نہ ہم مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ "

 

نماز کی اہمیت حدیث کی روشنی میں: 

❄عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ» [بخاری: 524]

ترجمہ: سیدنا جریر بن عبداللہ ﷜ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

❄عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: «الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا» قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «بِرُّ الوَالِدَيْنِ» قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي [بخاری: 5970 ، مسلم: 85]

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود ﷜سے روایت ہے کہ میں نے بنی کریم ﷺ  سے پوچھا اللہ تعالیٰ کے نزدیک کو ن سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا کہ وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا کہ پھر کون سا؟ فرمایا کہ والدین کے سا تھ اچھا سلوک کرنا ، پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عبداللہ ﷜نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ  نے مجھ سے ان کاموں کے متعلق بیان کیا اور اگر میں اسی طرح سوال کرتا رہتا تو آپ جواب دیتے رہتے۔

❄عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ   قَالُوا: لاَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: «فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا» [بخاری: 528]

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔

❄عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلَاةِ [مسلم: 247]

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ آدمی اور شرک و کفر کے درمیان (فاصلہ مٹانے والا عمل) نماز چھوڑنا ہے۔‘‘

❄سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌ﷺنے ایک دن نماز کا ذکر کیا اور فرمایا: جس نے نماز کی اچھی طرح حفاظت کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے روز نور، دلیل اور نجات ہو گی اور جس نے اس کی پوری طرح حفاظت نہ کی تو یہ اس کے لیے قیامت کے دن نہ نور ہو گی، نہ دلیل اور نہ نجات اور ایسا آدمی قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ [مسند احمد: 1090 صححہ الالبانی]

3۔ زکوٰۃ ادا کرنا

زکوٰۃ کی تعریف:

عربی زبان میں لفظ ’’زکوٰۃ‘‘ پاکیزگی ، بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ شریعت میں ’’زکوٰۃ ‘‘ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصے کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔ اور اسے ’’زکوٰۃ‘‘ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور اس کامال پاک اور بابرکت ہو جاتا ہے۔

 زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت:

(1) زکوٰۃ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔

وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْئٍی فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّكَاة[الاعراف: 165]

’’اور میری رحمت تو ہر  چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، پس میں اپنی رحمت ان لوگوں کے نام لکھ دوں گا جو ( گناہ اور شرک سے ) بچے رہتے ہیں اور زکاۃ ادا کرتے ہیں۔‘‘

(2)  زکوٰۃ دینی بھائی چار ے کی شروط میں سے ایک شرط ہے۔

فَإِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلَاةوَآتَوُا الزَّكَاةفَإِخْوَانُکُمْ فِیْ الدِّیْنِ [التوبہ: 11]

’’پس اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز کے پابند ہو جائیں اور زکاۃ دیتے رہیں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔‘‘

(3) مسلم معاشرے میں جن عادات کو عام ہونا چاہئے ان میں سے ایک زکوٰۃ ہے۔

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ یَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةوَیُؤْتُوْنَ الزَّكَاة۔۔۔ الخ [التوبہ: 71]

’’مومن مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار ومعاون )دوست ہیں،وہ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں ، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے اور زکاۃ ادا کرتے ہیں ۔۔۔‘‘

(4) جنت الفردوس کے وارث بننے والے مومنوں کی جو صفات اللہ نے بیان فرمائی ہیں ، ان میں سے ایک زکوٰۃ اداکرنا ہے۔

وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكَاةفَاعِلُوْنَ [المؤمنون: 4]

’’اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔‘‘

(5) حضرت ابو ایوب ﷜ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷜ سے کہا : مجھے ایسا عمل بتائیے جسے کرنے سے میں جنت میں چلا جاؤں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

تَعْبُدُ اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُ بِه شَیْئًا،وَتُقِیْمُ الصَّلَاةالْمَکْتُوْبَة وَتُؤْتِی الزَّكَاۃَ،وَتَصِلُ الرَّحِمَ

’’اللہ ہی کی عبادت کرتے رہو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ۔ فرض نماز پابندی سے ادا کرتے رہو ، زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔‘‘ [بخاری: 5983]

(6) زکوٰۃ کی ادائیگی سے مال بڑھتا اور بابرکت ہو جاتا ہے اور آفتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

وَمَا آتَیْتُمْ مِنْ رِّباً لِّیَرْبُوَ فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْ عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا آتَیْتُمْ مِّنْ زَكَاةتُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ [الروم: 39]

’’اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں اضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ اور جو تم زکاۃ دوگے اللہ کی خوشنودی پانے کی خاطر تو ایسے لوگ ہی کئی گنا زیادہ پانے والے ہیں۔‘‘                                                                                (7) جو شخص اس کی فرضیت سے انکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے کے بعد جن لوگوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا تھا آپ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہوئے فرمایا تھا؛

وَاللّٰهِ لَوْمَنَعُوْنِیْ عِقَالًا كَانُوْا یُؤَدُّوْنَه إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم لَقَاتَلْتُهمْ عَلٰی مَنْعِه[بخاری: 7284،7285 ، مسلم: 20]

’’اللہ کی قسم! جولوگ ایک رسی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے ، اگرمجھے نہیں دیں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘

(8) جو شخص زکوۃ ادا نہیں کرتا اس کا انجام بہت برا ہوگا۔  اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛

وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّة وَلاَ یُنفِقُونَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ. یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْها فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوَی بِهَا جِبَاههُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هـذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَکْنِزُونَ [التوبہ: 35-34]

’’اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے ، جس دن اس خزانے کو آتشِ دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی ( اور ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا ، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔‘‘

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛

مَنْ آتَاہُ اللّٰهُ مَالًا فَلَمْ یُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَة شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِیْبَتَانِ،یُطَوِّقُهُ یَوْمَ الْقِیَامَة یَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَیْهِ یَعْنِی بِشِدْقَیْهِ،ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا مَالُکَ،أَنَا كَنْزُکَ  [بخاری: 1403]

’’اللہ نے جس کو مال سے نوازا ، پھر اس نے زکاۃ ادا نہ کی توقیامت کے دن اس کا مال گنجے سانپ کی شکل میں آئے گا جس کی آنکھوں کے اوپر دو سیاہ نقطے ہونگے ، یہ سانپ اس کے گلے کا طوق ہوگا اور اس کے جبڑوں کو پکڑ کر کہے گا : میں ہوں تیرا مال ،میں ہوں تیرا خزانہ ۔۔۔‘‘

زکوٰۃ کے مصارف:

زکوٰۃ کے مصارف(جن کو زکوٰۃ دینی ہے)آٹھ ہیں. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛                        إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

"صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور ان پر مقرر عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر میں (خرچ کرنے کے لیے ہیں)۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔”

4۔ حج ادا کرنا

حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ لغت میں حج کسی عظمت والی جگہ یا چیز کی طرف بار بار ارادہ کرنے کو کہتے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص وقت میں مخصوص جگہوں پر مخصوص اعمال کرنے کو حج کہتے ہیں۔

حج کی ادائیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے کی جاتی ہے مگر اس کی فرضیت امت محمدیہ کے ساتھ خاص ہے۔ حج زندگی میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان عاقل بالغ صحت مند شخص پر فرض ہے جس کو الله تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ اس کے پاس مکہ مکرمہ آنے جانے اور کھانے پینے و رہائش کا خرچ اور وطن واپسی تک وطن میں موجود اپنے اہل و عیال کا خرچ برداشت کرنے کے لیے مال ہو۔

فرضیت حج​:

ارشاد باری تعالیٰ ہے؛

وَللّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ [آل عمران: 97]

’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو شخص انکار کرے تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’ اے لوگو! تم پر اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج ادا کرو۔‘‘ [مسلم: 3257]

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کا حج کا ارادہ ہو تو وہ جلدی کرے اس لیے کہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا ہے یا کوئی چیز گم ہوجاتی ہے یا کوئی اور ضرورت پیش آ جاتی ہے۔‘‘

[ابن ماجہ: 2883 حسنہ الالبانی]

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔‘‘ حضرت اقرع بن حابس ﷜کھڑے ہوئے اور عرض کیا: ’’یارسول ﷲ!کیا ہر سال فرض ہے؟‘‘ (حضور ﷺ خاموش رہے۔ بعد ازاں) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں میں جواب دے دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ہر سال حج فرض قرار پاتا تو تم میں اس کی ادائیگی کی استطاعت نہ ہوتی۔ حج عمر بھر میں ایک مرتبہ ادا کرنا فرض ہے اور جو ایک سے زائد ادا کرے وہ نفل ہیں۔‘‘ [ابوداؤد: 1721 صححہ الالبانی]

 

فضائل حج​:

1۔ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنا۔ عرض کیا گیا پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا کہ پھر کون سا ہے؟ فرمایا کہ برائیوں سے پاک حج۔ [بخاری: 1447]

2۔ حضرت ابوہریرہ ﷺ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو رضائے الٰہی کے لیے حج کرے کہ جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب، تو وہ ایسے لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔ [بخاری: 1449]

3۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ اپنے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ اور نہیں ہے ۔‘‘ [بخاری: 1683]

’’مَبْرُور‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں مقبول۔ حج مبرور وہ مقبول حج ہے جس میں انسان اپنے تمام گناہوں سے توبہ و ستغفار کرےاور کامل طریقے سے حج ادا کرے، یعنی حج کے فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنن و مستحبات کا خیال رکھے، احرام کی حالت میں ممنوع کردہ چیزوں سے بچے، حج کی ریا کاری اور نمود و نمائش سے دور رہے، حرام مال سے حج نہ کرے ، اپنے کھانے پینے اور دیگر اخراجات حلال مال سے کرے۔ پھر حج کرنے کے بعد جس کی دینی حالت بہتر ہوجائے، تو یہ اس بات کی علامت ہوگی کہ اس کا حج بارگاہ الٰہی میں مبرور اور مقبول ہوچکا ہے۔                                                                                        4۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کیا کرو، کیوں کہ یکے بعد دیگرے حج و عمرہ کرنا فقر اور گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل دور کر دیتی ہے۔‘‘ [ابن ماجہ: 2887 صححہ الالبانی]

5۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔‘‘[بخاری: 1764]

6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے۔‘‘ [ترمذی: 939 صححہ الالبانی]

7۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛

 ’’بیت اللہ شریف کے گرد طواف، نماز کی مثل ہے، سوائے اس کے کہ تم اس میں گفتگو کرتے ہو، پس جو اس میں کلام کرے وہ نیکی ہی کی بات کرے۔‘‘ [ترمذی:960 صححہ الالبانی]

8۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے ساتھ عرفات میں کھڑا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا جس نے اُسے کچل دیا۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو عدد کپڑوں کا کفن دو۔ اسے خوشبو نہ لگانا، اس کا سر نہ چھپانا اور نہ اسے حنوط ملنا کیونکہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تلبیہ کہتا ہوا اٹھائے گا۔‘‘ [بخاری: 1752]

9۔   رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے تو اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت اور مٹی کے ڈھیلے سب تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین ادھر ادھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے۔‘‘ [ترمذی: 828 صححہ الالبانی]

5۔رمضان کے روزے رکھنا

روزوں کی فرضیت:

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزے ہر مکلف مسلمان پر فرض کئے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:

یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ [البقرۃ: 183]

’’اے ایمان والو !تم پر روزے فرض کر دئے گئے ہیں ، ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو۔‘‘

اور فرمایا : فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ [البقرۃ: 185]

’’پس جو شخص بھی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘

روزوں کے فضائل:

١۔ سیدنا ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار ) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گلی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہوناچاہئے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ ) دو مرتبہ (کہہ دے ) اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لی چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری ) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔[بخاری: 1894]

۲۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدی ﷜سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔ [بخاری: 1896]

۳۔ سیدنا ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ روزہ خالص میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ بندہ اپنی شہوت، کھانا پینا میری رضا کے لیے چھوڑتا ہے اور روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے اور ایک خوشی اس وقت جب وہ اپنے رب سے ملتا ہے اور روزہ دار کے منہ کی بو، اللہ کے نزدیک مشک عنبر کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ [بخاری: 7492]

۴۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ [بخاری: 1933]

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہئے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیوں کہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

۵۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ ﷜، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺيَقُولُ: «مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا» [بخاری: 2840]              ترجمہ: سیدنا ابو سعید خدری ﷜سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ‘ آپ فرماتے تھے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ( جہاد کرتے ہوئے ) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال کی مسافت کی دوری تک دور کردے گا۔

۶۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ﷜، عَنِ النَّبِيِّ ﷺقَالَ: «كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ المِسْكِ» [بخاری: 5927]

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ﷜سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ) ابن آدم کا ہر عمل اس کا ہے سو اروزہ کے کہ یہ میرا ہے اورمیں خود اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کے منہ کے خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہے۔

۷۔ حضرت ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا :”اللہ عزوجل نے فر ما یا :ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے، وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا ۔اور روزہ ڈھال ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ اس دن فحش گفتگو نہ کرے اور نہ شور وغل کرے۔اگر کو ئی اسے برا بھلا کہے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے :میں روزہ دار ہوں ،میں روزہ دار ہوں۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جا ن ہے!قیامت کے دن روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہو گی ۔اور روزہ دار کے لیے دوخوشی کے موقع ہیں وہ ان دونوں پر خوش ہو تا ہے:جب وہ(روزہ ) افطار کرتا ہے تو اپنے افطار سے خوش ہو تا ہے اور جب اپنے رب کو ملے گا تو اپنے روزے (کی وجہ ) سے خوش ہو گا۔” [مسلم: 2706]

۸۔ سیدنا ابوہریرہ ﷜سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کا کام سمجھ کر قیام کرے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔[بخاری: 37]

۹۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبریل علیہ السلام آپ سے رمضان میں ملتے، جبریل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب حضرت جبریل آپ سے ملنے لگتے تو آپ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے۔[بخاری: 1902]

١۰۔ عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺإِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتْ الشَّيَاطِينُ [بخاری: 1899]

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔

١١۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قبیلہ بَلِیِّ کے دو آدمیﷺکے پاس (ہجرت کرکے مدینہ) آگئے۔ وہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت (نیکی کے کاموں میں) زیادہ محنت کرنے والا تھا، چنانچہ اس محنت کرنے والے نے جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔ دوسرا آدمی اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، پھر وہ فوت ہو گیا۔ حضرت طلحہ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ اچانک دیکھا کہ وہ دونوں بھی وہاں موجود ہیں۔ جنت سے ایک آدمی باہر آیا اور اس نے بعد میں فوت ہونے والے کو (جنت میں جانے کی) اجازت دے دی۔ (کچھ دیر بعد) وہ پھر نکلا اور شہید ہونے والے کو اجازت دے دی۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا: واپس چلے جاؤ ، ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ صبح ہوئی تو طلحہ نے لوگوں کو خواب سنایا۔ انہیں اس پر تعجب ہوا۔ رسول اللہﷺ کو بھی معلوم ہوا، اور لوگوں نے نبیﷺ کو (تفصیل سے خواب کی) بات سنائی۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کس بات پر تعجب ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دونوں میں یہ شخص زیادہ محنت والا تھا، پھر اسے شہادت بھی نصیب ہوئی لیکن جنت میں دوسرا اس سے پہلے چلا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ (دوسرا) اس (پہلے) کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس میں روزے رکھے اور سال میں اتنی اتنی رکعت نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان دونوں (کے درجات) میں تو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ فرق ہے۔ [ابن ماجہ: 3925 صححہ الالبانی]

سحری و افطاری کے آداب:

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُورٌ

’’جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے کرے،کیونکہ یہ بابرکت چیز ہے،اور اگر کھجور نہ ملے تو پھر پاکیزہ پانی ہی کافی ہے۔‘‘ [ترمذی: 658]

رسول اللہ ﷺ افطاری کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے؛

ذَهبَ الظَّمأُ،وابتلَّتِ العروقُ،وثبتَ الأجرُ إن شاءَ اللّٰهُ[ابوداؤد: 2358,2357]

’’پیاس دور ہو گئی،رگیں تر ہو گئیں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو روزے کا اجر و ثواب ثابت ہوگیا۔‘‘

اور آپ ﷺ نے فرمایا؛

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ [بخاری: 1957 ، مسلم: 1098]

’’لوگ اس وقت تک ہمیشہ بہتری اور بھلائی میں رہیں گے جب تک افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘ (سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر لیں گے)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛

تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً [بخاری: 1923 ، مسلم: 1095]

’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کھانا باعث برکت ہے۔‘‘

❄❄❄❄❄