باطنی تاویل کا دروازہ کھولنا
صوفیانہ افکار کے عظیم ترین خطرات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کے نصوص کے لئے باطنی تفسیر کا دروازہ کھول دیا۔ چنانچہ مشکل ہی سے کوئی ایسی آیت یا حدیث ملے گی جس کی بد دین اہل تصوف نے خبیث باطنی تاویلات نہ کی ہوں۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”ابو عبدالرحمن سلمی نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں ان (اہل تصوف) کا کلام جو زیادہ تر ناجائز ھذیان ہے تقریباً دو جلدوں میں جمع کیا ہے۔ اور اس کا نام "حقائق التفسیر” رکھا ہے۔ سورہ فاتحہ کے سلسلے میں اس نے ان سے نقل کیا ہے کہ اس کا نام فاتحۃ الکتاب اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہ اول ترین چیز ہے جس سے ہم نے تمہارے ساتھ اپنے خطاب کا دروازہ کھولا ہے۔ اگر تم نے اس کے ادب کو اختیار کیا تو ٹھیک ، ورنہ اس کے مابعد کے لطائف سے تم کو محروم کردیا جائے گا”۔
مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بری بات ہے ۔ کیوں کہ مفسرین کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سورۃ فاتحہ اول اول نازل نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح سورہ فاتحہ کے خاتمے پر جو آمین کہی جاتی ہے اس کی تفسیر کی ہے کہ : ہم تیرا قصد کرتے ہیں”.
مصنف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ بھی بری تفسیر ہے۔ اس لئے کہ یہ اُمّ سے نہیں ہے، جس کے معنی قصد کرنے کے آتے ہیں۔کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو آمین کی میم کو تشدید ہوتی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول : وان یاتوکم اسٰرٰی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ابو عثمان نے کہا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو گناہوں میں غرق ہوں۔ اور واسطی نے کہا کہ جو اپنے افعال کو دیکھنے میں غرق ہوں۔ اور جنید نے کہا کہ جو اسباب دنیا کے اندر قید ہوں۔ اور "تم ان کا فدیہ دیتے ہو” کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ انہیں دنیا سے قطع تعلق کی طرف لے جاتے ہو۔
میں کہتا ہوں کہ یہ آیت بطور انکار کے آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کے طرز عمل پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب تم انہیں قید کرتے ہوتو فدیہ دیتے ہو اور جب ان سے جنگ کرتے ہو تو قتل کرتے ہو(حالانکہ یہ بات تم پر حرام کی گئی ہے) مگر ان اہل تصوف نے اس تفسیر انکار کے بجائے مدح کے طور پر کی ہے۔
محمد بن علی نے یحب التوابین کا معنی بیان کیا ہے کہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنی توبہ سے توبہ کرتے ہیں (یعنی توبہ توڑ دیتے ہیں۔(
اور نوری نے یقبض و یبسط (اللہ روزی تنگ کرتا اور کشادہ کرتا ہے) کی تفسیر یوں کی ہے کہ وہ اپنے ذریعہ قبض کرتا ہے اور اپنے لئے پھیلاتا ہے۔ اور من دخلہ کان آمنا کی تفسیر یہ کی ہے کہ حرم میں داخل ہونے والا اپنے نفس کے خیالات اور شیطان کے وسوسوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ حالانکہ یہ نہایت گندی تفسیر ہے کیوں کہ آیت کا لفظ خبر کا لفظ ہے لیکن معنی امر کا ہے اور مفہوم یہ ہے کہ جو حرم میں داخل ہوجائے اسے امن دے دو۔ لیکن ان حضرات نے اس کی تفسیر خبر سے کی ہے۔ پھر جو تفسیر کی ہے وہ صحیح بھی نہیں۔ کیوں کہ کتنے ہی لوگ ہیں جو حرم میں داخل ہوتے ہیں۔ لیکن نفس کے خیالات اور شیطانی وسوسوں سے محفوظ نہیں رہتے۔
ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ (یعنی اگر تم بڑے بڑےگناہوں سے پرہیز کرلوگے تو ہم معمولی گناہوں کو بخش دیں گے۔ الخ) اس کی تفسیر میں ابوتراب نے کہا کہ کبائر سے مراد فاسد دعوے ہیں۔
والجار ذی القربیٰ (قرابت دار پڑوسی) کی تفسیر میں سہل نے کہا کہ اس سے مراد دل ہے اور الجار الجنب (پہلو کا ساتھی) نفس ہے۔ اور ابن السبیل (راستہ چلنے والا مسافر) اعضاء و جوارح ہیں۔
وھم بھا (یوسف نے اس کا قصد کیا) اس کی تفسیر میں ابوبکر وراق نے کہا کہ دونوں قصد امراۃ العزیز کا تھا۔ یوسف علیہ السلام نے اس کا قصد نہیں کیا تھا میں کہتا ہوں یہ صریح قرآن کے خلاف ہے۔
ما ھذا بشر (یہ بشر نہیں) کی تفسیر محمد بن علی نے یوں کی ہے کہ یہ اس لائق نہیں کہ اس کو مباشرت کے لئے بلایا جائے۔
زنجانی نے کہا کہ رعد(کڑک) فرشتوں کی بیہوشیاں ہیں اور برق (بجلی) ان کے دلوں کی آہیں ہیں۔ اور بارش ان کا آنسو ہے۔
وللہ المکر جمیعا کی تفسیر حسین نے یوں کی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جیسا مکر کرتا ہے اس سے زیادہ واضح مکر کوئی نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اللہ نے ان کے ساتھ یہ وفا کی ہے کہ ان کے لئے اللہ کی جانب ہر حال میں راستہ ہے۔ یا حادث کے لئے قدیم کے ساتھ اتصال ہے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اس کے معنی پر غور کرے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ نرا کفر ہے۔ کیوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کا مکر گویا ٹھٹا اور کھلواڑ ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ حسین وہی ہے جو حلاج کے نام سے مشہور ہے۔ اور وہ اسی لائق ہے۔
لعمرک کی تفسیر میں لکھا ہے کہ تو اپنے راز کو ہمارے مشاہدے کے ذریعہ تعمیر کرتا ہے۔
"میں کہتا ہوں پوری کتاب اسی ڈھنگ کی ہے۔ میں نے سوچا یہاں اس کا کافی حصہ درج کردوں۔ لیکن پھر یہ خیال آیا کہ اس طرح ایک ایسی بات کے لکھنے میں وقت ضائع ہوگا جو یا تو کفر ہے یا خطا یا ھذیان ہے۔ یہ تفسیر اسی ڈھنگ کی ہے جیسی ہم باطنیہ سے نقل کرچکے ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس کتاب کے مشتملات کو جاننا چاہتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہی اس کا نمونہ ہے۔ اور جو شخص مزید جاننا چاہتا ہو، وہ اس کتاب کا مطالعہ کرلے”۔ (تلبیس ابلیس ص 332 و ص 333)
اور یہ جو کچھ امام ابن جوزی نے ذکر کیا ہے یہ اس گروہ کے اوائل سے منقول صوفیانہ تاویلات کا محض نمونہ ہے۔ ورنہ اگر ہم اہل تصوف کے ہاتھوں قرآن و حدیث کی لکھی ہوئی خبیث باطنی تاویلات کا تتبع شروع کردیں تو دسیوں دفتر جمع ہوجائیں گے، جو سب کے سب اسی قسم کے ہذیان ، افتراء اور اللہ پر بلا علم گھڑی ہوئی باتوں سے پر ہوں گے۔ اور اوپر سے یہ زعم بھی ہوگا کہ یہی معنی قرآن کے حقیقی معانی ہیں۔
افسوس ہے کہ قرآن وحدیث کے اس باطنی منہج پر اس گروہ کے پیروکار آج تک کاربند ہیں۔ بلکہ ان صوفیانہ خرافات کی تصدیق میں مبتلا ہونے والوں کے لئے یہ خصوصی نہج اور اسلوب بن چکا ہے۔ تم مصطفیٰ محمود کی کتاب "القرآن محاولۃ لتفسیر عصری” دیکھو یا وہ کتابیں دیکھو جنہیں نام نہاد جمہوری سودانی پارٹی کے لیڈر محمود محمد طہ سودانی نے تالیف کیا ہے تو تمہیں ان عجیب و غریب نمونوں کا علم ہوگا جو صوفیانہ افکار کے زیر اثر وجود میں آکر مسلمانوں کے سامنے قرآن وحدیث کی باطنی تاویلات کے لباس میں ظاہر ہوئے ہیں۔
بعض نمونے پیش خدمت ہیں:المحاولہ العصریہ لتفسیر القرآن (قرآن کریم کی عصری تفسیر کی کوشش) جسے ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے مصری رسالہ صباح الخیر کے صفحات پر قلمبند کیا۔ پھر اسے "القرآن محاولۃ لفھم عصری للقرآن” کے نام سے کتابی شکل میں جمع کیا۔ یہ تفسیر قرآن کی نئی صوفیانہ کاوش ہے۔ اور یہ ڈاکٹر موصوف کے فکری استاذ محمود محمد طہ کے الفاظ میں صوفیانہ افکار کے دائرہ میں ایک وسیع کاوش ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر موصوف اس کی تعریف کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"مجھے اسلامی مفکر محمود طہ کے "الصلاۃ” نامی رسالہ کی ایک نفیس تعبیر بہت ہی پسند آئی۔ موصوف نے لکھا ہے :اللہ نے آدم کو کیچڑ یا گارے سے دھیرے دھیرے وجود میں نکالا۔ ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ہم نے انسان کو مٹی کے گارے سے پیدا کیا۔ یہ مٹی سے درجہ بدرجہ اور قدم بقدم انسان کے پھوٹنے اور وجود میں آنے کی بات ہے۔ یعنی ایلبا سے اسفنج، اس سے نرم حیوانات اور ان سے چھلکے والے حیوانات، اور ان سے ہڈی والے حیوانات، اور ان سے مچھلیاں، مچھلیوں سے زمین پر گھسٹنے والے جانور، اور ان سے چڑیاں اور چڑیوں سے چھاتی والے جانور بنتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ اللہ کے فضل و ہدایت اور رہنمائی سے آدمیت کا اعلیٰ مرتبہ وجود میں آیا۔ (المحاولہ ص 52)
ڈاکٹر مصطفیٰ محمود کا یہ اسلامی مفکر درحقیقت سودان کا ایک زرعی انجینئر ہے جس نے تصوف کا مطالعہ کیا۔ اور اس دعوے تک پہنچا کہ اس سے تمام شرعی احکام ساقط ہوگئے ہیں۔ (اور وہ مکلف نہیں رہ گیاہے) کیوں کہ وہ یقین کے مرحلے تک پہنچ گیا ہے ۔ اس کی کتاب تو وہی نماز کے متعلق ہے جس سے ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے مذکورہ عبارت نقل کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی ایک کتاب ” تفسیر قرآن کی عصری کاوش” کے رد میں بھی ہے۔
اور ڈاکٹر موصوف کو محمود محمد طہ کی کتاب الصلاۃ کی جو بات پسند آئی، اور جسے ہم ابھی نقل کرچکے ہیں، وہ درحقیقت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے معاملے میں ڈارون کے نظریے کو گھسیڑنے کی عجیب و غریب کوشش ہے۔ حالانکہ اب اس نظریہ پر کسی کو یقین نہیں رہ گیا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ہر قسم کے اوٹ پٹانگ خیال کو لے کر اس سے اللہ عزوجل کے کلام کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں یہ بات کشف اور مجاہدہ کے ذریعے معلوم ہوئی ہے۔ حالانکہ وہ محض کافروں اور ملحدوں کے افکار و خیالات کی نقل ہوتی ہے جس پر وہ قرآن کریم کی آیات کا لیبل لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔
باقی رہی یہ بات کہ تفسیر و تعبیر قرآن کی عصری کاوش صوفیانہ افکار کے دائرہ سے اٹھی ہے تو اس کی دلیل قرآن کے متعلق ڈاکٹر مصطفیٰ محمود کی حسب ذیل عبارتیں ہیں:
(الف) ڈاکٹر محمود مصطفیٰ نے "اسماء اللہ” کے عنوان سے پوری ایک فصل قلمبند کی ہے جس میں رب اور اِلٰہ کے معانی کی صحیح اور سالم معرفت وہی قرار دہی ہے جسے اہل تصوف نے دریافت کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:”اہل تصوف کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حددرجہ ظاہر ہونے کے سبب ہم سے پوشیدہ ہے”۔ ص 99اس کے بعد موصوف صوفیانہ فکر کی مدح سرائی میں یوں روان دواں ہیں کہ:” صوفیا اللہ کا قرب محبت کی وجہ سے چاہتے ہیں جہنم کے خوف یا جنت کی طلب کی وجہ سے نہیں۔ اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کائنات سے اس کے بنانے والے کی طرف مسلسل ہجرت میں میں ہیں۔ ص 100پھر لکھتے ہیں کہ : "اہل تصوف کے مختلف اطوار و حالات ہوتے ہیں ۔ اور وہ بڑی دلچسپ رائے کے حامل ہوتے ہیں جو اپنی خاص گہرائی اور معنی رکھتی ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ معصیت کبھی کبھی طاعت سے افضل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بعض معصیتیں اللہ کے خوف اور ذل وانکسار کی طرف لے جاتی ہیں۔ جب کہ بعض طاقتیں تکبر اور فریب نفس میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اور اس طرح فرمانبردار کے مقابل میں نافرمان اللہ تعالیٰ کے کہیں زیادہ قریب اور باادب ہوجاتا ہے”۔ ص 101پھر لکھتے ہیں کہ : ” صوفی اور جوگی اور راہب سب ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔ اور زندگی کے بارے میں سب کی ایک ہی منطق اور ایک ہی اسلوب ہے جس کا نام ہے زھد”۔ ص 101پھر فرماتے ہیں: ” جوگی اور راھب اور مسلمان صوفی سب ایک ہی اسلوب سے اللہ کا قرب اور اس کی بارگاہ تک رسائی چاہتے ہیں یعنی تسبیحات کے ذریعہ۔ چنانچہ اللہ کو یہ لوگ اس کے ناموں سے پکارتے ہیں ۔”وللہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بھا” اور اللہ کے بہترین نام ہیں پس اس کو ان ہی ناموں سے پکارو”۔
"اور تسبیحات (چاپ) کے ذریعہ ایک خاص قسم کا جوگ کیا جاتا ہے جسے منتر یا جوگ کہتے ہیں۔ یہ ھندی (سنسکرت) زبان کے لفظ منترام سے بنا ہے۔ جس کے معنی تسبیح یا چاپ کے ہیں۔ اور سنسکرت کی ایک خاص تسبیح (چاپ) یہ ہے کہ جوگی خشوع کے ساتھ ہزاروں بار "ہری رام” کے الفاظ تلاوت کرتا ہے۔ یہ الفاظ ہمارے ہیں "رحمن و رحیم” کے بالمقابل ہیں۔ اور سنسکرت زبان میں اللہ کا نام ہے۔ اور جوگی اپنی گردن میں ہزار دانے کی ایک لمبی تسبیح لٹکائے رہتا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر مصطفیٰ محمود تصوف کے طریقے اور اہل تصوف کے فہم اسلام کی تعریف کرتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں، اور لکھتے ہیں:
"تصوف در حقیقت بلند مدارک کے ذریعہ ادراک کا نام ہے۔ اور صوفی عارف ہوتا ہے۔ ص 103
پھر ڈاکٹر صاحب موصوف قرآنی آیات کو صوفیوں کی باطنی تفسیر کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے ان کے پیچھے پیچھے دوڑتے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
"داؤد علیہ السلام کے بعض واقعات میں ہے کہ انہوں نے کہا: "اے میرے پروردگار میں تجھے کہاں پاؤں؟ اس نے کہ اپنے آپ کو چھوڑ ، اور آ۔۔۔۔۔۔اپنے آپ سے غائب ہوجا۔ مجھے پاجائے گا۔”
اس سلسلے میں بعض اہل تصوف نے قرآن میں موسیٰ علیہ السلام سے اللہ کی گفتگو کی تفسیر یوں کی ہے کہ : فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس طوی (تم اپنے جوتے اتاردو۔ تم وادی مقدس طوی میں ہو) میں نعلین (دونوں جوتوں) سے مراد نفس اور جسم ہے۔ یا نفس اور لذات جسم میں لہٰذا اللہ سے ملاقات نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسان اپنے دونوں جوتے یعنی نفس اور جسم کو موت یا زھد کے ذریعہ اتار نہ دے”۔ ص 104
پھر ڈاکٹر صاحب مزید آگے بڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"صوفی سوال نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بیمار ہوتا ہے تو اللہ سے شفا نہیں مانگتا۔ بلکہ ادب سے کہتا ہے: میں اللہ کے ارادہ کے بالمقابل اپنے لئے کوئی ارادہ کیوں کر بناسکتا ہوں کہ اس سے ایسی بات کا سوال کروں جسے اس نے نہیں کیا”۔ ص 105
پھر اللہ تعالیٰ کے قول : وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کی تفسیر یہ کی ہے کہ "میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں”
پھر اس صوفیانہ فصل کے خاتمہ پر لکھتے ہیں:
"یہی لوگ اہل اسرار، اصحاب قرب و شہود اور برحق اولیاء صالحین ہیں”۔ ص 109
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس صوفیاء منہج نے جو ڈاکٹر موصوف کا اپنا منتخب کردہ ہے ان پر کیا اثر ڈالتا ہے اور اس فکر کا نتیجہ ڈاکٹر موصوف کے یہاں کیا ہے؟
ڈاکٹر مصطفیٰ محمود نے قرآن مجید کی تاویل و تفسیر کا بیڑہ اٹھایا تو لوگوں کے سامنے کیا چیز لے کر نمودار ہوئے؟ اور رب العالمین سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب کا وہ کیا عصری فہم ہے جو انہوں نے پیش کیا؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب موصوف کے فہم کی رسائی کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:
(الف) ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے حسب ارشاد اس درخت کو پہچاننے کی کوشش کی جس سے کھا کر آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نافرمانی کی ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کا اجتہاد خود ان کے حسب ارشاد یہ ہے:
"جنسی اختلاط ہی وہ ممنوعہ درخت تھا جس سے زندگی نے زندگی کو کھالیا اور وہ عدم کے گھڑے میں جاگری”۔۔۔۔۔۔۔”اور شیطان جانتا تھا کہ نسل کا درخت موت کے آغاز اور دائمی جنت سے نکالے جانے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کے ایک پیغام رساں نے آدم سے یہ جھوٹ کہا کہ بعینہ یہی درخت ہمیشگی کا درخت ہے۔ اور اسے ورغلایا کہ وہ اپنی بیوی سے جسمانی اختلاط کرے”۔ ص 64
"پھر ڈاکٹر صاحب اسی پر اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ وہ یہ بھی یقین کرتے ہیں کہ حواء اسی جنسی اختلاط کے دوران حاملہ ہوگئیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
"پھر ہم دیکھتے ہیں کہ درخت چکھ لینے کے بعد قرآن مجید ان دونوں کو یوں خطاب کرتا ہے کہ وہ جمع ہیں۔ چنانچہ کہتا ہے "اھبطوا بعضکم لبعض عدو” (تم سب اتر جاؤ۔ تم میں کا بعض بعض کا دشمن ہوگا۔) حالانکہ اس غلطی سے قبل انہی آیات میں خطاب مثنیٰ (دو) کو ہوا کرتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس درخت سے کھانا تکاثر کا سبب بنا” ص 62
پھر اس ساری ہذیان کے بعد موصوف فرماتے ہیں:
"ان مسائل میں ہمارے لئے قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔ بلکہ یہ کہنا ضروری ہے کہ وہ درخت اب بھی ایک چیستاں ہے۔ اور پیدائش کا معاملہ اب بھی ایک غیبی معاملہ ہے جس کے بارے میں ہم اجتہاد سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ اللہ اپنی کتاب کو بہتر جانتا ہے۔ اور صرف وہی ہے جو اس کی تاویل سے آگاہ ہے”۔
میں کہتا ہوں کہ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر آپ نے یقین کےساتھ کوئی بات کیسے کہی، اور ابھی ابھی وہ تفسیر کیسے کردی جو آپ کو شیریں لگ رہی تھی۔ اور اللہ پر اور اس کی کتاب پر جو کچھ چاہا بغیر علم و ہدایت کے کیسے کہہ دیا۔ اور معانی قرآن کے سلسلے میں وہ سارے دعوے کیسے ہانک دیئے جو آپ کی خواہش اور رائے کے موافق تھے۔
پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ان سب کے باوجود ڈاکٹر مصطفیٰ محمود خود ہی قرآن کی باطنی تفسیر کرنے والے بہائیوں پر زور شور سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک موقع پر لکھتے ہیں:
"اور یہ بات حروف کے ظاہر اور کلمات و عبارات کے تقاضوں سے ہٹ کر قرآن کی باطنی تفسیر کرنے کی خطرناکی کو واضح کرتی ہے۔ اور بتلاتی ہے کہ اس قسم کی تفسیریں کس طرح دین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر منتج ہوسکتی ہیں۔ یہ بعینہ وہی عمل ہے جسے خوارج ، اثناعشری اور بابی فرقے قرآن مجید کو اپنے اغراض کے سانچے میں ڈھالنے اور ایک دوسرے کا توڑ کرنے کے لئے اختیار کرنے پر مجبور ہوتے تھے”۔
پھر ڈاکٹر صاحب موصوف مزید لکھتے ہیں:
"اور یہ بات ہمیں تفسیر کے سلسلے میں ایک خاص موقف تک لے جاتی ہے جس کا التزام ضروری ہے۔ اور وہ ہے عبارت سے حرف بحرف جڑے رہنا، اور الفاظ کے ظاہر معنی سے چپکے رہنا۔ یعنی ہم کسی باطنی تفسیر کی طرف خود قرآنی الفاظ کے الہام و اشارہ کے بغیر منتقل نہ ہوں۔ اور ظاہراً او باطناً بہر صورت تفسیر، الفاظ کے ظاہری مفہوم سے نہ تو ٹکراتی ہو اور نہ اس کی نفی کرتی ہو”، (المحاولہ ص 122,123)
یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے موصوف نے باطنی تفسیر کی خطرناکی کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے ان سب کے باوجود خود اپنے لئے اس کا دروازہ کھول رکھا ہے، تاکہ اپنی آرزو کے مطابق جو کچھ کہنا چاہیں کہہ سکیں۔ چنانچہ موصوف نے جنت اور جہنم کو حقیقی اور محسوس شئے کے بجائے معنوی عذاب اور نعمت قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ مجھے شہد ناپسند ہے۔ اور جب سے میں نے سنا ہے کہ جنت میں شہد کی نہریں ہوں گی، میری طبیعت کو انقباض ہوگیا ہے۔ اسی طرح موصوف نے باشندگان چین کو یاجوج ماجوج قرار دیا ہے۔ اور حدیث میں جس دجال کا ذکر ہے اس سے مراد موجودہ سائنس قرار دی ہے۔ کیوں کہ یہ سائنس ایک آنکھ سے صرف دنیا کی طرف دیکھتی ہے۔ اس طرح عورتوں کے لئے تیراکی کے لباس کو اللہ کے خلق میں تفکر کا تقاضا اور ضرورت کا لباس قرار دیا ہے۔ یہ ان کی تاویلات کامشتے نمونہ ازخروارے ہے۔
باقی رہا ان کا استاد محمد محمود طہ سودانی، جس کی باتیں موصوف نے نقل کی ہیں تو یہ وہ شخص ہے جسے تاویلات نے اس مقام تک پہنچایا کہ اس نے اپنے اوپر سے شریعت ساقط کرلی ۔ چنانچہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ کیوں کہ وہ اللہ کے مرتبے کو پہنچ گیا ہے۔ اور اسے قرآن میں اشترکیت مل گئی ہے۔ کیوں کہ اللہ فرماتا ہے: "ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو” (لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ آپ کہہ دیں کہ زائد مال) عفو کا مطلب اس شخص کے نزدیک یہ ہے کہ مال اکٹھا کرنا جائز نہیں۔ اور زائد کمائی ساری کی ساری خرچ کردینی ضروری ہے۔
ان ساری خرافات اور لاف و گزاف کے باجود اس قسم کے خیالات کو رواج حاصل ہوا۔ میں نے سودان کی نام نہاد جمہوری پارٹی کے بہت سے افراد سے بحث و گفتگو کی ہے۔ اور قارئین کو تعجب ہوگا کہ اس قسم کے باطنی افکار کو یونیورسٹی کے اساتذہ ، وکلاء ۔ مدرسین اور طلبہ نے اختیار کر رکھا ہے۔ اور ان خیالات کی مدافعت میں عجیب جاں سوزی سے کرتے ہیں۔ پس اس سے بڑھ کر خطرے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟