بندے کو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے

518۔  سیدنا رفاعہ (بن عرابہ)  جہنی رضی اللہ تعالی عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ اللَّهَ يُمْهِلُ حَتّٰى إِذَا ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ نِصْفُهُ أَوْ ثُلُثَاهُ، قَالَ: لَا يَسْأَلَنَّ عِبَادِي غَيْرِي، مَنْ يَّدْعُنِي أَسْتَجِبْ لَهُ، مَنْ يَسْأَلْنِي أُعْطِهِ، مَنْ يَسْتَغْفِرْنِي أَغْفِرْ لَهُ حَتّٰى يَطْلُعَ الْفَجْرُ)) (أخرجه ابن ماجه: 1367)

’’اللہ تعالی توقف کرتا ہے یہاں تک کہ جب آدھی یا دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو فرماتا ہے: میرے بندوں کو میرے سواکسی سے ہرگز نہیں مانگنا چاہیے۔ جو مجھے پکارے گا، میں اس کی دعا قبول کروں گا۔ جو مجھ سے مانگے گا، میں اسے دوں گا۔ جو مجھ سے بخشش طلب کرے گا، میں اسے بخش دوں گا۔ یہ کیفیت صبح صادق طلوع ہونے تک جاری رہتی ہے۔‘‘

 سیدنا  عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ ﷺنے فرمایا:

((لَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا)) ’’تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا‘‘(أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ: 1043)

 سیدنا عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ اگر ان میں سے کسی کا کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے نہ کہتا کہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دے۔

520۔ سیدنا ثوبان  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((مَنْ تَكَفَّلَ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا، فَأَتَكَفَّلَ لَهُ بِالْجَنَّةِ)) (أخرجه أبوداود: 1643، والنسائي:96/5)

’’جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں ؟‘‘

سیدنا ثوبان  رضی اللہ تعالی عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: میں اس کی ضمانت دیتا ہوں، چنانچہ وہ کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔

توضیح و فوائد:  دنیاوی معاملات میں انسان ایک دوسرے کے کام آتا ہے اور ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ لینے دینے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے بوقت ضرورت اسے ایک دوسرے سے کوئی چیز مستعار لینا جائز ہے۔ کسی دوسرے انسان سے لی ہوئی چیز ہدیے یا ادھار کی صورت میں ہو تو یہ بالکل جائز ہے، اس میں کوئی حرج والی بات نہیں لیکن جب کوئی انسان کسی سے صدقے اور خیرات وغیرہ کی درخواست کرتا ہے تو اگر وہ واقعی محتاج اور مستحق ہے تب بھی یہ عمل محبوب اور پسندیدہ نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت اللہ رب العزت ہی کے سامنے رکھے اور کسی سے سوال وغیرہ نہ کرے۔ اللہ تعالٰی ضرور اس کی حاجت اور ضرورت پوری کر دے گا اور اگر وہ حاجت اور ضرورت کے بغیر کسی سے سوال کرتا ہے تو اس صورت میں وہ سخت گناہ گار ہے۔

521۔  سیدنا عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ نَزَلَ بِهِ حَاجَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ، كَانَ قَمِنًا مِنْ أَنْ لَّا تَسْهُلَ حَاجَتْهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللهِ آتَاهُ اللهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ، أَوْ بِمَوْتِ آجِلٍ)) ( أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ:3696)

’’جس شخص کو کوئی حاجت (فقر وفاقہ)  پیش آجائے اور وہ اپنی حاجت اور ضرورت لوگوں کے سامنے رکھے تو یہ اس لائق ہے کہ اس کی یہ حاجت پوری نہ ہو اور جس نے اپنی حاجت اور ضرورت اللہ کے سامنے رکھی تو اللہ تعالی اسے جلد رزق سے نوازے گا یا پھر اسے موت سے ہمکنار کر دے گا۔ ‘‘

توضیح و فوائد:  انسان کو زندگی بھر طرح طرح کی ضرورتیں پیش آتی ہیں۔ اگر آدمی لوگوں کے سامنے اپنی ضرورتیں رکھے اور انھی سے ضرورتیں پوری ہونے کی توقع رکھے تو یہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں، کبھی پوری نہیں ہوتیں، اس کے برعکس اگر آدمی اللہ کے حضور اپنی حاجت پیش کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت با عزت طریقے سے پوری فرما دیتا ہے۔ اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: اللہ تعالیٰ اس کی روزی کا بندو بست کر دیتا ہے یا اسے موت دے کر پریشانی سے نکال دیتا ہے یا کسی ایسے بندے کو موت سے ہمکنار کر دیتا ہے جس کا وارث بن کر یہ شخص مال دار بن جاتا ہے۔

522۔ سیدنا  ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((سَلُوا اللهَ مَا بَدَا لَكُمْ مِنْ حَوَائِجِكُمْ، حَتّٰى شِسْعَ النَّعْلِ فَإِنَّهُ إِنْ لَمْ يُبَسِّرْهُ لَمْ یَتَیَسَّرْ)) (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان: 1118، وقال: إسناده غير قوي)

’’ تمھیں اپنی ضروریات و حاجات میں سے جو حاجت بھی پیش آئے اس کا سوال اللہ تعالی ہی سے کرد، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ بھی (اس سے مانگو) کیونکہ اگر اللہ تعالی اس (کے حصول) میں آسانی پیدا نہ فرمائے تو آسمانی نہیں ہو سکتی۔ ‘‘

523۔ سیدنا انس بن مالک رضی  اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتّٰى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ)) (أخرجه الترمذي:3604، وقال: هذا حديث غريب، والبزار في مسنده: 3135، وأبو يعلى: 3403، و ابن حبان. 866، 894،895)

’’(لوگو!) تم اپنی تمام ضروریات اپنے رب ہی سے مانگو چتی کہ اگر جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اسی سے مانگو‘‘

524۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ  رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إِنَّ اللهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا: قِيلَ وَقَالَ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّوَالِ)) (أَخْرَجَةُ البُخَارِي: 1477، 6473، 7292، ومُسْلِمٌ: 593)

’’ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے تین چیزیں نا پسند کرتا ہے: ادھر اُدھر کی فضول باتیں کرنا، مال کو ضائع کرنا اور بکثرت سوال کرنا۔‘‘

 توضیح وفوائد:  یہاں ہر طرح کا سوال مراد ہے، احکام و مسائل کے حوالے سے زیادہ سوالات بھی ممنوع ہیں اور ضرورت و حاجت کے لیے سوال کرنا بھی ناگوار بات ہے۔

525۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

((لَا تَزَالُ الْمَسْأَلَةُ بِأَحَدِكُمْ حَتّٰى يَلْقَى اللهَ وَلَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُرْعَةٌ لَحْمٍ)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1040)

’’تم میں سے جو کوئی سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کو جاملتا ہے (تو وہ اس حال میں اللہ کو ملے گا) کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہو گا۔ “

526۔ سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرًا فَلْيَسْتَقِلَّ أَوْ لِيَسْتَكْثِرْ))(أخرجه مسلم: 1041)

’’جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے تو درحقیقت وہ آگ کے انگارے کا سوال کرتا ہے، (اسے اختیار ہے کہ)  وہ کم طلب کرے یا زیادہ طلب کرے۔“

توضیح و فوائد:  یہ مال اکٹھا کرنے کے لیے سوال کرنے کی سزا ہے۔

527۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((لَأَنْ يَحْتَزِمَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةً مِنْ حَطَبٍ، فَيَحْمِلَهَا عَلٰى ظَهْرِهِ فَيَبِيْعَهَا، خَيْرٌ لَّهُ مِنْ أَنْ يَّسْأَلَ رَجُلًا، يُعْطِيْهِ أَوْ يَمْنَعُهُ))(أخرجه مسلم: 1042)

’’تم میں سے ایک شخص لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لاتا ہے اور اسے بیچ کر گزارا کرتا ہے، یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے سوال کرے، وہ چاہے تو اسے کچھ دے یا انکار کر دے۔ “

528۔  سیدنا  سمرہ بن جندب  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ هٰذِهِ الْمَسْأَلَةَ كَدٌّ يَكُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، فَمَنْ شَاءَ أَبْقٰى عَلٰى وَجْهِهِ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَ، إِلَّا أَنْ يَّسْأَلَ رَجُلٌ ذَا سُلْطَانٍ، أَوْ يَنْزِلَ بِهِ أَمْرٌ لَا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا) (أخرجه أحمد: 20219، و أبوداؤد: 1639، والترمذي: 681، و النسائي: 100/5، و ابن حبان: 3386، و 3397، و الطيالسي: 889، و الطبراني في الكبير: 6766، 6767، البيهقي في السنن: 197/4، و في الشعب: 3511)

’’یقینا (لوگوں سے مانگنا اور سوال کرنا تو اپنے آپ کو نوچنا ہے۔ اس کے ذریعے سے آدمی اپنے چہرے کو نوچتا  (یا چھیلتا) ہے۔ اب جو چاہے وہ اپنے چہرے پر (گوشت) باقی رکھے، اور جو چاہے نہ رکھے مگر یہ کہ آدمی کسی بادشاہ یا صاحب اقتدار شخص سے سوال کرے یا پھر اس پر کوئی ایسی آفت یا مصیبت آ پڑے جس سے نکلنے کا مانگنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو۔‘‘

 توضیح و فوائد: حکمرانوں کے لیے تمام رعایا کا خیال رکھنا ضروری ہے، اس لیے اگر کوئی شخص بوقت ضرورت حکومت سے کوئی درخواست کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔