کرسمَس
اللہ تعالٰی کی اولادہونےکاعقیدہ رکھنااور کرسمس تقاریب میں شرکت کرنا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کیسا ہے
25 دسمبر کا دن عیسائیوں کی عید کا دن ہے جسے عیسائی لوگ کرسمس ڈے کے نام سے پکارتے ہیں
عیسائی عقیدہ کے مطابق 25 دسمبر کو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی
اور ان کے عقیدہ کے مطابق (نعوذ باللہ من ذلک) جناب عیسی علیہ السلام، اللہ کے بیٹے ہیں
گویا ان عیسائیوں کے نزدیک 25 دسمبر کو اللہ کے یہاں بیٹا پیدا ہوا
العیاذ باللہ
جبکہ یہ عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی غلط عقیدہ ہے کسی کو اللہ تعالٰی کا بیٹا کہنے سے کفر و شرک لازم آتا ہے اور یہ اللہ تعالٰی کو ناراض کرنے کے لیے سخت ترین کلمہ ہے
لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ بہت سے مسلمان عوام و حکام بھی عیسائیوں کی اس خوشی میں فرحاں وشاداں نظر آتے ہیں بلکہ باقاعدہ ان کے ساتھ ان کی کرسمس تقاریب میں شرکت کرتے ہیں
اسلام دیگر مذاہب کو ان کی عبادات سے جبرا روکتا تو نہیں ہے لیکن اسلامیان کے لیے کسی طور بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایسے پروگراموں میں شرکت کریں
حضرات
آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کیسا ہے کہ( اللہ تعالٰی نے بیٹا جنم دیا )
اور ایسی شرکیہ مجالس، تقاریب اور پروگرامز میں شرکت کرنا کیسا ہے
1⃣ اسلام کے مطابق اللہ تعالٰی کی کوئی اولاد نہیں ہے
اسلام کا واضح حکم ہے
(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ * اللَّهُ الصَّمَدُ * لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ * وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ)
کہہ دیجئے اللَّهُ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے
اس سورۃ میں
نصرانیوں کا رد ہے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں،
یہودیوں کا رد ہے جو عزیر(علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں،
مشرکین عرب کا رد ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں مانتے ہیں،
فلاسفہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ عقول عشرہ اللہ سے نکلی ہیں اور اب کائنات کا نظام وہ چلا رہی ہیں،
ہندوؤں کا رد ہے جو کروڑوں کی تعداد میں مخلوق کو خدا مانتے ہیں
اور ان مسلمان کہلانے والوں کا بھی رد ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ائمہ اہل بیت اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور سے پیدا ہوئے ہیں۔
2⃣ کسی کو اللہ کا بیٹا کہنا اتنی خوفناک بات ہے کہ قریب ہے اس کی وجہ سے زمین و آسمان پھٹتءطنور جائیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا * لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا * تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا * أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَٰنِ وَلَدًا * وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَٰنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا)
اور انھوں نے کہا رحمان نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔
بلاشبہ یقینا تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔
آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں
کہ انھوں نے رحمان کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا
حالانکہ رحمان کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔
سورۃ مریم 88 تا 92
دیکھئیے کس قدر خوفناک عقیدہ ہے کہ اس ایک کلمہ کی وجہ سے دنیا کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے
دوسری آیت میں فرمایا
كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡؕ اِنۡ يَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا كَذِبًا
بولنے میں بڑی ہے، جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے، وہ سراسر جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے۔
الکہف 5
مگر یہ تو اللہ تعالٰی کا صبر، حوصلہ اور انعام ہے اس کے باوجود اللہ تعالٰی زمین و آسمان کو قائم رکھے ہوئے ہیں
حدیث میں آتا ہے
ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( لَیْسَ أَحَدٌ أَصْبَرَ عَلٰی أَذًی سَمِعَہٗ مِنَ اللّٰہِ إِنَّھُمْ لَیَدْعُوْنَ لَہٗ وَلَدًا وَ إِنَّہٗ لَیُعَافِیْھِمْ وَیَرْزُقُھُمْ )
[ بخاری، الأدب، باب الصبر في الأذی : ٦٠٩٩ ]
” اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات پر صبر کرنے والا، جسے وہ سن رہا ہو اور کوئی نہیں۔ لوگ اس کے لیے اولاد بتاتے ہیں اور وہ (اس کے باوجود) انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ “
3⃣ عیسائیوں کے اس عقیدے کی وجہ سے اللہ تعالٰی مسلمانوں کو عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیتے ہیں
(قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ *
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ)
لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو اختیار کرتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھیں کتاب دی گئی ہے، یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔
اور یہودیوں نے کہا عزیر، اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح، اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کا اپنے مونہوں کا کہنا ہے، وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کر رہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ انھیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔
توبہ 29تا30
اس آئت میں اہل کتاب سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے اور اس کی چار وجہیں بیان فرمائی ہیں :
1 ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں ہے۔ رہا ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ تو وہ درست نہیں، کیونکہ وہ اس کے مطابق نہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام رسولوں نے بتایا، بلکہ وہ اللہ پر ایمان کے بجائے اللہ تعالیٰ کی توہین والا عقیدہ رکھتے ہیں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں فرمایا : (وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٣٠ ] ” اور یہودیوں نے کہا عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ “ یعنی یہود و نصاریٰ اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر اسے محتاج ثابت کر رہے ہیں اور اس کی وحدانیت کا انکار کر رہے ہیں۔
2 یوم آخرت پر ان کا ایمان بھی کالعدم ہے
3 وہ ان چیزوں کو حرام نہیں سمجھتے جو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کی ہیں۔
4 وہ دین حق قبول نہیں کرتے، حالانکہ اسے قبول کرنے کے لیے ان کے انبیاء کے صریح احکام موجود ہیں اور اسلام کے حق ہونے کے واضح دلائل ان کے سامنے ہیں۔
( ماخوذ از تفسیر القرآن الکریم از شیخنا المکرم حافظ عبد السلام بن محمد حفظہ اللہ تعالٰی )
4⃣ کسی کو اللہ کا بیٹا کہنا اللہ تعالٰی کو گالی دینے کے مترادف ہے
حدیث میں آتا ہے
ابوہریرہ (رض) عنہمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ وَشَتَمَنِي وَلَمْ يَكُنْ لَهُ ذَلِكَ فَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدَأَنِي وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ وَأَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ فَقَوْلُهُ اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا وَأَنَا الْأَحَدُ الصَّمَدُ لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لِي كُفْئًا أَحَدٌ
” ابن آدم نے مجھے جھٹلا دیا حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی حالانکہ یہ اس کا حق نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا تو اس کا یہ کہنا ہے کہ جس طرح اس نے مجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے دوبارہ نہیں بنائے گا۔ حالانکہ پہلی دفعہ پیدا کرنا مجھے دوبارہ بنانے سے آسان نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ نے اولاد بنئای ہے، حالانکہ میں احد ہوں، صمد ہوں۔ میں نے نہ کسی کو جنا، نہ کسی نے مجھے جنا اور نہ ہی کوئی میرے برابر کا ہے۔ “
(بخاری 4690، التفسیر، سورة (قل ھو اللہ احد)
کیا ہمارے سامنے کوئی شخص اللہ تعالٰی کو گالی دے تو ہم اسے اس عمل پر مبارکباد دیں گے ❓
اگر نہیں تو پھر سوچیں کہ کرسمس ڈے پر عیسائیوں کو مبارکباد پیش کرنے یا میری کرسمس کہنے کا کیا معنی ہے
ہم مسلمان ہیں نا تو ہمیں میری کرسمس کہنا ہے اور نہ ہی مبارکباد دینی ہے
5⃣ عیسی علیہ السلام کے متعلق غلو کی مذمت اور عقیدہ تثلیث کی نفی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ وَلَا تَقُوۡلُوۡا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الۡحَـقَّ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِيۡحُ عِيۡسَى ابۡنُ مَرۡيَمَ رَسُوۡلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ ۚ اَ لۡقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرۡيَمَ وَرُوۡحٌ مِّنۡهُ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ۚ وَلَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَةٌ ؕ اِنْتَهُوۡا خَيۡرًا لَّـكُمۡ ؕ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ ؕ سُبۡحٰنَهٗۤ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِؕ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيۡلًا
اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ تین ہیں، باز آجاؤ، تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بطور وکیل کافی ہے۔
نساء 171
” غلو “ راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط و تفریط (زیادتی اور کمی) دونوں صورتوں میں ہے۔ ایک طرف نصاریٰ نے مسیح (علیہ السلام) کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو اللہ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح (علیہ السلام) سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کردیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نہ تو اللہ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلو سے سختی سے منع فرمایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( لاَ تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنَ مَرْیَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ )
[ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( واذکر فی الکتاب مریم ۔۔ ) : ٣٤٤٥ ]
” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔
6⃣ عیسی علیہ السلام( اللہ) کے بیٹے نہیں ہیں قرآن میں عقلی دلیل سے بھی اس کا رد موجود ہے
اللہ تعالٰی نے فرمایا
مَا الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ مَرۡيَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِهِ الرُّسُلُؕ وَاُمُّهٗ صِدِّيۡقَةٌ ؕ كَانَا يَاۡكُلٰنِ الطَّعَامَؕ اُنْظُرۡ كَيۡفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الۡاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرۡ اَ نّٰى يُؤۡفَكُوۡنَ
نہیں ہے مسیح ابن مریم مگر ایک رسول، یقینا اس سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے اور اس کی ماں صدیقہ ہے، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔ دیکھ ان کے لیے ہم کس طرح کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، پھر دیکھ کس طرح پھیرے جاتے ہیں۔
المائدة 75
یعنی تم جو کچھ کہتے ہو خدا یا خدا کا بیٹا، وہ ہرگز نہیں، وہ تو صرف اللہ کا رسول ہے
اور وہ دونوں عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ مریم علیہا السلام عام انسانوں جیسے انسان تھے، ان میں وہ تمام بشری خصوصیتیں اور ضروریات پائی جاتی تھیں جو دوسرے انسانوں میں ہیں۔
اگر عیسی علیہ السلام اللہ تعالٰی کے بیٹے ہوتے تو پھر تو وہ کھانا کھاتے نہ ہی پانی پیتے
اب کھانا کھانے سے جتنی چیزوں کا انسان محتاج ہوتا ہے ان کے ہوتے ہوئے اسے خدا یا اس کی بیوی یا اس کا بیٹا قرار دینا کتنی بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی حاجت کیا پوری کرے گا ! ؟
توحید کے اتنے صاف بیان اور تثلیث کی اتنی واضح تردید کے باوجود وہ اپنے گروہی تعصب کی بنا پر اپنے غلط عقیدے سے چمٹے رہیں تو چمٹے رہیں، ورنہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جس کے بودے پن کو ” دو اور دو چار “ کی طرح واضح نہ کردیا گیا ہو۔ (ابن کثیر)
اسی طرح فرمایا
اِنَّ مَثَلَ عِيۡسٰى عِنۡدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ خَلَقَهٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ
بیشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے۔
آل عمران 59
عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” بُنُوَّۃ “ (اللہ کا بیٹا ہونے) پر اس سے استدلال کیا کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تردید فرمائی کہ اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا اللہ کا بیٹا ہونے کی دلیل ہوسکتا ہے تو آدم (علیہ السلام) جو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے وہ بالاولیٰ اللہ کا بیٹا کہلانے کے حق دار ہیں، مگر یہ عقیدہ بالکل باطل ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی طرح مسیح (علیہ السلام) کو بھی ” كُن “ سے پیدا کرکے اپنی قدرت کاملہ کو ظاہر فرمایا ہے۔ (ابن کثیر)
7⃣ کسی کو اللہ کا جزء( اولاد )بنانا واضح کفر ہے اور اس کے متعلق اس سے پوچھا جائے گا
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں
(وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ * أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنَاتٍ وَأَصْفَاكُمْ بِالْبَنِينَ * وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ * أَوَمَنْ يُنَشَّأُ فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ * وَجَعَلُوا الْمَلَائِكَةَ الَّذِينَ هُمْ عِبَادُ الرَّحْمَٰنِ إِنَاثًا ۚ أَشَهِدُوا خَلْقَهُمْ ۚ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ)
زخرف 15 تا 19
اور انھوں نے اس کے لیے اس کے بعض بندوں کو جز بنا ڈالا، بیشک انسان یقینا صریح ناشکرا ہے۔
یا اس نے اس (مخلوق) میں سے جسے وہ پیدا کرتا ہے (خود) بیٹیاں رکھ لیں اور تمہیں بیٹوں کے لیے چن لیا ؟
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جائے جس کی اس نے رحمان کے لیے مثال بیان کی ہے تو اس کا منہ سارا دن سیاہ رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔
اور کیا (اس نے اسے رحمان کی اولاد قرار دیا ہے) جس کی پرورش زیور میں کی جاتی ہے اور وہ جھگڑے میں بات واضح کرنے والی نہیں ؟
اور انھوں نے فرشتوں کو، وہ جو رحمان کے بندے ہیں، عورتیں بنادیا، کیا وہ ان کی پیدائش کے وقت حاضر تھے ؟ ان کی گواہی ضرور لکھی جائے گی اور وہ پوچھے جائیں گے۔
جب ایک مسلمان کرسمس پر عیسائیوں کی خوشیوں میں شرکت کرتا ہے یا انہیں مبارک دیتا ہے تو اس کے اس عمل سے عیسائیوں کے اس شرکیہ اور کفریہ عقیدہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ شرک سب سے بڑا ظلم ہے اور ایسا کرنے والے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ اسے احسن طریقہ سے روکاجاتا ہے
حضرات ❗
کیا آپ اس عقیدے کی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی کوئی اولاد ہے❓
کیا آپ کسی ایسی بات کی تائید کرنا پسند کریں گے کہ جس کی وجہ سے قریب ہے کہ زمین و آسمان پھٹ جائیں❓
کیا آپ اللہ تعالٰی کے غیض و غضب اور غصے کا شکار ہونا پسند کرتے ہیں❓
کیا کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کو گالیاں دینے کی تائید کرے❓
کیا آپ چاہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کے غلو کی تائید کریں❓
کیا آپ اس واضح کفر پر پر خوش ہونا اور مبارکباد پیش کرنا درست سمجھتے ہیں❓
اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر آئیے آج سے ہی اس بات کا پختہ عزم کریں کہ کبھی بھی زندگی میں کسی کو
ہیپی کرسمس
میری کرسمس
یا کرسمس مبارک نہیں کہیں گے اور نہ ہی ایسے کسی پروگرام میں شرکت کریں گے
ہم عیسایئوں کو کرسمس کی مبارکباد اسلیے نہیں دیتے کہ ہمیں انکا دل توڑنا مقصود ہو یا انکے جذبات کے بے حرمتی کرنی ہو
ہم ایسا کرکے پورے خلوص و نیک نیتی و اصلاح کے جذبے کے ساتھ انکو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیکھو اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہے اور نہی وہ کسی بھی دن پیدا ہوا ہے
ہمارا کرسمس کی مبارکباد نہ دینا توحید کی دعوت ہے
حضرات ❗
اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ
غیر مسلموں کے ساتھ ضرورت سے زیادہ نرمی، معذرت خواہانہ رویہ، انہیں پروٹوکول دینا، ان کی تہذیب کو اپنانا اور ان کے تہواروں میں شرکت کرنے کے متعلق اسلامی تعلیمات اور مزاج کیا ہے
1⃣ کفار کی مشابہت حرام ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ
جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے
اسی طرح آپ نے فرمایا
غَيِّرُوا الشَّيْبَ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ
”بال کی سفیدی ( خضاب کے ذریعہ ) بدل ڈالو اور یہود کی مشابہت نہ اختیار کرو“
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو کفار کی مشابہت اس قدر ناپسند تھی کہ ان کے ساتھ عبادات میں بھی مشابہت نہیں رکھتے تھے دس محرم کا روزہ چونکہ یہودی بھی رکھتے تھے تو آپ نے فرمایا
«لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ»
اگر میں آنے والے سال تک زندہ رہا تو میں نویں تاریخ کا ضرور روزہ رکھوں گا
مسلم
2⃣ کفار سے محبت اور دوستی حرام ہے
اللہ تعالٰی نے فرمایا
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَةً مِّنۡ دُوۡنِكُمۡ لَا يَاۡلُوۡنَكُمۡ خَبَالًا ؕ وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاهِهِمۡ ۖۚ وَمَا تُخۡفِىۡ صُدُوۡرُهُمۡ اَكۡبَرُؕ قَدۡ بَيَّنَّا لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اپنے سوا کسی کو دلی دوست نہ بناؤ، وہ تمہیں کسی طرح نقصان پہنچانے میں کمی نہیں کرتے، وہ ہر ایسی چیز کو پسند کرتے ہیں جس سے تم مصیبت میں پڑو۔ ان کی شدید دشمنی تو ان کے مونہوں سے ظاہر ہوچکی ہے اور جو کچھ ان کے سینے چھپا رہے ہیں وہ زیادہ بڑا ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لیے آیات کھول کر بیان کردی ہیں، اگر تم سمجھتے ہو۔
آل عمران 118
ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے : ” مسلمانوں میں سے کچھ آدمی یہودیوں سے میل جول اور تعلقات رکھتے تھے۔ کیونکہ اسلام سے پہلے وہ آپس میں ہمسائے اور حلیف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کر کے انھیں اپنے اندرونی راز داں اور دلی دوست بنانے سے منع فرما دیا۔ کیونکہ اس میں ( راز افشا ہونے اور) ان کی طرف سے فتنے کا شدید خطرہ تھا۔ “
3⃣ کفار کو پروٹوکول اور بڑے بڑے عہدے مت دئیے جائیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
لَا تَبْدَءُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى بِالسَّلَامِ وَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي الطَّرِيقِ فَاضْطَرُّوهُمْ إِلَى أَضْيَقِهِ
یہود و نصارٰی کو سلام کہنے میں پہل مت کرو اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستے پر چلنے کی طرف دھکیل دو
ابو داؤد، ترمذی
ابن ابی حاتم میں صحیح سند کے ساتھ ذکر ہے کہ عمر بن خطاب (رض) سے کہا گیا کہ اہل حیرہ سے ایک نوجوان راز محفوظ رکھنے والا، کاتب ہے، آپ اسے کاتب (سیکرٹری) رکھ لیں۔
فرمایا : ” پھر تو میں مومنوں کے سوا ” بطانۃ “ (راز دار) بنانے والا ہوں گا۔ “
[ ابن أبی حاتم : ٣؍١٤٧، ح : ٤٠٨٧ ]
ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں : ” میں نے عمر (رض) سے کہا، میرے پاس ایک نصرانی کاتب ہے۔ “ انھوں نے فرمایا : ” اللہ تجھے مارے، یہ تم نے کیا کیا ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا :
( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ )
[ المائدۃ : ٥١ ]
” تم نے کسی مسلمان کو کیوں نہیں رکھا ؟ “
میں نے عرض کی : ” اے امیر المومنین ! مجھے اس کی کتابت سے غرض ہے، اس کا دین اس کے لیے ہے۔ “
عمر (رض) نے فرمایا : ” جب اللہ نے انھیں رسوا کردیا ہے تو میں ان کی تکریم نہیں کرسکتا، جب اللہ نے انھیں ذلیل کیا ہے تو میں انھیں عزت نہیں دے سکتا، جب اللہ نے انھیں دور کردیا ہے، تو میں انھیں قریب نہیں کرسکتا۔ “
[ السنن الکبریٰ للبیہقی : ١٠؍١٢٧، ح : ٢٠٤٠٩ ]
” اس لیے انتظامی امور میں کسی منافق یا غیر مسلم (ذمی) کو متعین کرنا ممنوع ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کے راز فاش ہونے کا خطرہ ہے
افسوس کہ اس وقت مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے اللہ کے اس حکم کو پس پشت ڈال رکھا ہے اور غیر مسلم ان کے کلیدی عہدوں پر فائز اور تقریباً تمام اہم رازوں سے آگاہ ہیں، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے
إذا نظر إلى نصراني أغمض عينيه، فقيل له في ذلك، فقال- رحمه الله :
لا أقدرُ أن أنظر إلى من افترى على الله وكذب عليه !
کہ جب آپ کسی عیسائی کو دیکھتے تو اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیتے اور کہتے کہ میرے اندر اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ میں ایک ایسے شخص کو دیکھ سکوں جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہو
طبقات الحنابلة (١٢/١ ) –
4⃣ کفار کی عیدوں میں شرکت مت کی جائے
وَالَّذِيۡنَ لَا يَشۡهَدُوۡنَ الزُّوۡرَۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا كِرَامًا
اور وہ جو جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے اور جب بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔
فرقان 72
اس آئت میں( زور )سے مراد کفار کی عیدیں اور مجلسیں بھی ہیں
یعنی مومنین کا وصف ہے کہ وہ باطل کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے، جن میں مشرکین حاضر ہوتے ہیں۔ وہ لہو و لعب، گانے بجانے، غیبت یا بدکاری کی مجلسیں ہوں یا ظلم و زیادتی یا کسی بھی گناہ کی منصوبہ بندی کی مجلسیں، یا کفار کے جشنوں، ان کے کھیل تماشوں کی مجلسیں، غرض ایسی ہر مجلس میں شرکت سے وہ اجتناب کرتے ہیں۔
ابن القيم رحمه الله لکھتے ہیں
کفار کی عید پر انہیں مبارکباد پیش کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی کو صلیب کے آگے سجدہ کرنے پر مبارکباد پیش کرنا!
[ أحكام أهل الذمة : ٢١١/٣ ]
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے
کفار کی عیدوں پر ان کی عبادت گاہوں کا رخ مت کیا کرو ؛ بے شک ان پر اللہ کا غصہ اترتا ہے
مصنف عبد الرزاق : ١٦٠٩
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں
اگر کسی شخص کی بیوی عیسائی ہو تب بھی وہ اس کو عیسائیوں کی عید میں شرکت کی اجازت نہ دے کیونکہ اللہ نے گناہوں پر تعاون کو منع قرار دیا ہے
[ المغني لابن قدامة : ٣٦٤/٩ ]
الغرض عیسائیوں کا کرسمس خالصتاً ایک کافرانہ تہوار ہے۔ یہ اُس کفریہ ملت کی ایک باقاعدہ پہچان اور شعار ہے جو حضرت عیسیٰؑ کو ’خدا کا بیٹا‘ کہہ کر پروردگارِ عالم کے ساتھ شرک کرتی ہے۔ نیز نبی آخر الزمان حضرت محمدٌ رسول اللہﷺ کو مسترد کر کے وقت کی آسمانی رسالت کی منکر اور عذابِ الٰہی کی طلبگار ٹھہرتی ہے۔
’’کرسمس‘‘ کے اِس شرکیہ تہوار کی وجہِ مناسبت ہی یہ ہے کہ ان ظالموں کے بقول اس دن ’خدا کا بیٹا یسوع مسیح پیدا ہوا تھا‘۔
لہذا مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایک ایسی قوم کو جو (معاذ اللہ) ’خدا کے ہاں بیٹے کی پیدائش‘ پر جشن منا رہی ہو مبارکباد پیش کرنے جائے اور اِس ’’خوشی‘‘ میں اُس کے ساتھ کسی بھی انداز اور کسی بھی حیثیت میں شریک ہو۔ یہ عمل بالاتفاق حرام ہے بلکہ توحید کی بنیادوں کو مسمار کر دینے کا موجب۔ ہر مسلمان خبردار ہو، اِس باطل ’’کرسمس‘‘ کی خوشیوں میں کسی بھی طرح کی شمولیت آدمی کے اپنے ایمان کے لیے خطرہ ہے