دعوت الی اللہ کے لیے نرمی سے گفتگو کرنی چاہیے۔

83۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:

((إِنَّ الرِّفْقَ لَا يَكُونَ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا يُنْزَعُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ)) (أَخْرَجَهُ مسلم: 2594)

’’نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے زینت بخش دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نرمی نکال دی جاتی ہے اسے بدصورت بنا دیتی ہے۔‘‘

84۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَهَ رَفِيقٌ يُّحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، ومَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ)) (أخرجه مسلم:2593)

’’عائشہ! اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی کی بنا پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سخت اور اکھڑ مزاجی کی بنا پر عطا نہیں فرماتا، وہ نرمی کے علاوہ کسی اور بات پر اس قدر عطا نہیں فرماتا۔ ‘‘

85۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((مَنْ يُحْرَمِ الرِّفْقَ يُحْرَمِ الْخَيْرَ)) (أخرجه مسلم: 2592)

’’جس شخص کو نرمی کی عادت سے محروم کر دیا جا ہے، وہ بھائی سے محروم کر دیا جاتا ہے۔“

توضیح و فوائد: اللہ تعالی کی طرف دعوت دینا انتہائی عظیم الشان فريضہ اور زبردست فضیلت والا عمل ہے، کائنات کی ہر چیز داعی الی اللہ کے لیے دعا کرتی ہے، لیکن یہ جتنا رفیع الشان کام ہے اتنی عظیم ذمہ داری بھی ہے۔ داعی پر فرض ہے کہ وہ لوگوں کی ایذا پر صبر کر کے نرمی کا دامن نہ چھوڑے۔ حکمت و بصیرت کے ساتھ اپنی خواہشات و جذبات کی قربانی دے، ہمیشہ نرمی اور نوازش کا رویہ اختیار کرے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے نبی کو یہ انتہائی قیمتی خوبی عطا کر کے فرمایا کہ یہ نرمی کی برکت ہے کہ لوگ آپ پر اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں۔ اگر آپ سخت مزاج ہوتے تو اتنی قبولیت حاصل نہ کر پاتے۔ اس لیے داعی کو آسانی کرنے والا، درگزر کرنے والا، اپنی تکلیف کی پروا نہ کرنے والا اور ہمیشہ پر امید رہنے والا ہونا چاہیے۔ اس کے ذہن میں یہ حقیقت ہمیشہ تازہ کار رہنی چاہیے کہ اس کا کام دعوت دینا ہے ہدایت دینا اللہ تعالی کی ذمہ داری ہے۔ اسے ہمیشہ گناہ سے نفرت اور گناہ گار کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔ جب کفار کے ساتھ نرمی کا حکم ہے تو گناہ گار مسلمان اس کے بالاولی مستحق ہیں۔ لیکن نرمی اور مراعت کا فرق ہمیشہ ملحوظ نا چاہیے۔ مداہنت یہ ہے کہ احکام الہی کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے یا گناہ کرنے والے کو اس کے گناہ پر قائم رہنے دینا، رضا کا اظہار کرنا اور برا نہ سمجھنا جبکہ نرمی یہ ہے کہ شفقت کے ساتھ اسے گناہ سے نکالنے کی کوشش کرے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الروح میں اس کی مثال یوں دی ہے: ایک آدمی کو پھوڑا نکل آئے، طبیب آہستہ آہستہ اس کا علاج کرے، دوا لگائے اور مسلسل علاج کرتا رہے، یہاں تک کہ پھوڑا ختم ہو جائے، یہ نرمی ہے۔ اور مداہنت یہ ہے کہ ایک شخص آئے اور خطرناک پھوڑے کو دیکھ کر کہے:کوئی بات نہیں، بس اسے لوگوں سے چھپا کر رکھو اور اس کی پروا نہ کرو، اس طرح پھوڑا آہستہ آہستہ خراب سے خراب تر ہو کر اس شخص کو تباہ کر دے گا۔

86۔  سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی نے انھیں اور سیدنا معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کی طرف بھیجا اور فرمايا: ((يَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، وَبَشِّرُوْا وَلا تُنَفِّرُوْا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا)) (أَخْرَجَةُ الْبُخَارِي:3038، ومُسْلِمٌ:1733)

’’لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، مشکل میں نہ ڈالنا، انہیں خوشخبری دینا، نفرت نہ دلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا، اختلاف نہ کرنا۔ ‘‘

87۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((إِنَّ اللهَ تَعَالٰى لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا وَلا مُتَعَنِّتًا، وَلٰكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا)) (أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ:1478)

’’اللہ تعالی نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈ نے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور لوگوں کے لیے آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘

توضیح وفوائد: ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں جہاں تک شریعت اجازت دیتی ہے آسانی اور سہولت پیدا کرنے کی کوشش کریں، نیز داعی ایک دوسرے کے ساتھ بھی نرمی کا برتاؤ کریں۔ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں اور اختلاف برائے اختلاف کو ہوا دے کر لوگوں کو دین سے متنفر نہ کریں۔ ایک داعی اور عالم بات کرے تو دوسرا اس کی تائید کرے اور اگر اس کی بات غلط ہو جب بھی اچھے طریقے سے اس کا رد کرے اور دوسرے کی تنقیص سے بچے۔

88۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا:اللہ کے رسول! کیا آپ پر کبھی احد کے دن سے بھی زیادہ سخت دن آیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

((لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ العَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلاَلٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ، وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ، فَنَادَانِي مَلَكُ الجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ، ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الأَخْشَبَيْنِ؟))(أخرجه البخاري: 3231، ومسلم:1795)

’’مجھے تمھاری قوم سے بہت سی تکالیف پہنچی ہیں اور سب سے زیادہ اذیت ناک تکلیف وہ تھی جو مجھے عقبہ کے دن پہنچی، جب میں ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کے سامنے گیا (اور اسے دعوت اسلام دی) لیکن جو میں چاہتا تھا اس نے میری وہ بات نہ مانی۔ میں وہاں سے رنجیدہ اور غمزدہ (حالت میں) چل پڑا۔ (مجھے ہوش نہیں تھا کہ میں کدھر جا رہا ہوں؟) جب قرن ثعالب پہنچا تو میری حالت کچھ بہتر ہوئی، میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر رکھا ہے، پھر میں نے دیکھا تو اس میں جبریل علیہ السلام نظر آئے، انھوں نے مجھے آواز دی، اور کہا: جو کچھ آپ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا اور جو  انھوں نے آپ کو جواب دیا اللہ عز وجل نے وہ سب کچھ سن لیا ہے، اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ  آپ ان کفار کے بارے میں اسے جو چاہیں حکم دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، سلام کیا اور کہا:اے محمد (ﷺ) اللہ تعالی نے آپ کی قوم کی طرف سے آپ کو دیا گیا جواب سن لیا ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے آپ کے رب نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے کہ آپ مجھے ان کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں، اگر آپ چاہیں تو میں ان دونوں سنگلاخ پہاڑوں کو (اٹھا کر)  ان کے اوپر رکھ دوں (اور انھیں کچل ڈالوں)۔  تو میں نے اس سے کہا: ((بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللهُ مِنْ أَصْلابِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا))

’’(نہیں) بلکہ میں یہ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں (نسلوں) سے ایسے لوگ پیدا فرمائے گا۔ جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔‘‘

 توضیح و فوائد: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف دعوت دینے والے کو منتقم مزاج نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ بدلہ لینے پر قادر ہو تب بھی درگزر سے کام لے۔ اس امید پر کہ شاید اللہ ان کی نسلوں کو سچا مسلمان بنا دے۔

89۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی جانب گھڑ سواروں کا ایک دستہ

بھیجا تو وہ بنو حنیفہ کے ایک آدمی کو پکڑ لائے، اسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا، وہ اہل یمامہ کا سردار تھا، انھوں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا، رسول اللہﷺ (گھرسے) نکلے، اس کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ((مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟)) ’’ثمامہ! کہوں تمھارے پاس کیا (خبر) ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا: اے محمد! (ﷺ) میری بات معقول ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کے خون کا حق مانگا جاتا ہے، اگر احسان کریں گے تو اس پر احسان کریں گے جو شکر کرنے والا ہے۔ اور اگر مال چاہتے ہیں تو بتائیے، آپ جو چاہتے ہیں، آپ کو دے دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیا، جب ایک دن کے بعد اگلا دن آیا تو آپ ﷺ  نے پھر دریافت فرمایا: ((مَا عِنْدَكَ يَا ثَمَامَةً))

’’ثمامہ! تمھارے پاس (کہنے کو) کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:(وہی) جو میں آپ سے پہلے کہہ چکا ہوں، اگر احسان کریں گے تو ایک شکر کرنے والے پر احسان کریں گے، قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو طلب کیجیے، آپ جو چاہتے ہیں دے دیا جائے گا۔ رسول اللہ نے اسے پھر اس کے حال پر چھوڑ دیا حتی کہ جب اگلا دن طلوع ہوا تو آپ میں اللہ نے پھر پوچھا:

((مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثَمَامَةُ)) ’’ثمامہ تمھارے پاس کیا (جواب) ہے؟“ اس نے جواب دیا: میرے پاس بس وہی کچھ ہے جو میں نے آپ سے کہہ دیا ہے: اگر احسان کریں گے تو ایک احسان شناس پر احسان کریں گے قتل کریں گے تو ایک ایسے شخص کو قتل کریں گے جس کا خون ضائع نہیں جاتا اور اگر مال چاہتے ہیں تو حکم دیجیے، آپ جو چاہتے ہیں وہی آپ کو پیش کر دیا جائے گا۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((أَطْلِقُوْا ثَمَامَةَ)) ’’ثمامہ کو آزاد کر دو۔‘‘

وہ رہا ہوتے ہی مسجد سے نکلا، قریب ہی کھجوروں کے ایک باغ کی طرف گیا، غسل کیا، پھر واپس مسجد میں آیا اور بے ساختہ بولا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے محمد! (ﷺ) اللہ کی قسم! روئے زمین پر آپ کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چہرہ نہیں تھا جس سے مجھے بغض ہو اور اب آپ کے چہرے سے بڑھ کر مجھے کوئی چہرہ محبوب نہیں۔  اللہ کی قسم! آپ کے دین سے بڑھ کر کوئی دین مجھے ناپسند نہیں تھا، اب آپ کا دین سب سے بڑھ کر محبوب دین ہو گیاہے۔ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر برا نہیں لگتا تھا، اب مجھے آپ کے شہر سے بڑھ کر کوئی شہر محبوب نہیں۔ آپ کے گھڑ سواروں نے مجھے (اس وقت) پکڑا تھا جب میں عمرہ کرنا چاہتا تھا۔ اب آپ کیا (میرا عمرہ کرنا صحیح) سمجھتے ہیں؟ یہ سن کر رسول اللہﷺ نے انھیں (ایمان کی قبولیت کی خوشخبری دی اور حکم دیا کہ (جاؤ) عمرہ ادا کرو۔ جب وہ مکہ آئے تو کسی کہنے والے نے ان سے کہا:کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ تو انھوں نے جواب دیا: نہیں بلکہ میں تو اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ اسلام میں داخل ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم! اب جب تک رسول اللہﷺ اجازت مرحمت نہیں فرمائیں گے، یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی تمھارے پاس نہیں پہنچے گا۔(أخرجه البخاري:462 و4372، ومُسْلِمٌ:1764)

90۔سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:گویا میں رسول اللہﷺ کو دیکھ رہا ہوں، آپ انبیاء علیہم السلام میں سے ایک نبی کا حال بیان فرما رہے تھے۔ انھیں ان کی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور (یہ) فرما رہے تھے:

((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ))(أخرجه البخاري:3477، و مسلم: 1792)

’’اے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے، یہ لوگ نہیں جانتے (کہ وہ کیا کر رہے ہیں)‘‘

…………………