دین میں غلو…عقیدے اور عبادات میں خرابی کا باعث
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ،يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا،
يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
سورۃ النساء آیت نمبر 171 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿يَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِکُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَی اللہِ إِلَّا الْحَقَّ، إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَی ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللہِ وَکَلِمَتُہُ أَ لْقَاہَا إِلَیٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْہُ فَآمِنُوا بِاللہِ وَرُسُلِہِ، وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَۃٌ ۚ انتَہُوا خَيْرًا لَّکُمْ ۚ إِنَّمَا اللہُ إِلَٰہٌ وَاحِدٌ، سُبْحَانَـہُ أَن يَکُونَ لَہُ وَلَدٌ لَّہُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَکَفَیٰ بِاللہِ وَکِيلًا﴾
اے اہل کتاب !اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر حق کے سوا اور کچھ نہ کہو ، مسیح عیسیٰ بن مریم ([) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ) ہیں جسے مریم ([) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں ، اس لیے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آجاؤ کہ تمہارے لیے بہتری ہے ، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔
سورۃ توبۃ آیت نمبر 30   و 31 میں ہے:
﴿وَقَالَتِ الْيَہُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللہِ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِيحُ ابْنُ اللہِ ذَلِکَ قَوْلُہُم بِأَفْوَاہِہِمْ يُضَاہِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ کَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَہُمُ اللہُ أَ نَّی يُؤْفَکُونَ﴾
یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے ، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے ، اللہ انہیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔
﴿اتَّخَذُواْ أَحبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللہِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعبُدُواْ إِلَہًا وَاحِدًا لاَّ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ سُبْحَانَہُ عَمَّا يُشْرِکُونَ﴾
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو، حالانکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3445 میں ہے
﴿لَا تُطرُونِي کما أَطرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَريَمَ؛ فإنَّما أَ نَا عَبْدُہُ، فَقُولوا: عبدُ اللہِ وَرَسُولُہُ.﴾
آپe نے فرمایا ’’مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے سیدنا عیسیٰ ابن مریم i کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘
 السلسلۃ الصحيحۃ 2550۔صحیح میں ہے:
﴿يا أيُّہا الناسُ، لا تَرفَعُونِي فَوْقَ قَدرِي فإنَّ اللہَ اتَّخذَني عبدًا قَبلَ أنْ يَتَّخِذَني نبيًّا.﴾
اے لوگو! مجھے میرے رتبے سے زیادہ مقام نہ دو میں پہلے اللہ تعالیٰ نے پہلے مجھے اپنا بندہ ہوں پھر نبی۔
٭…سنن نسائی حدیث نمبر 3057 اور یہ صحیح حدیث ہے۔
نسائی 3057 صحیح میں ہے:
﴿وإيَّاکُم والغلوَّ في الدِّينِ، فإنَّما أَہلَـک مَن کان قَبلَکم الغُلوُّ في الدِّينِ.﴾
اے لوگو غلو سے بچو تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو کرنے نے ہلاک کر دیا۔
السلسلۃ الصحيحۃ. صحيح علی شرط مسلم
﴿ أنَّ رجلًا قال: يا محمدُ: أيا سيَّدَنا وابنَ سيِّدِنا ! وخيرَنا وابنَ خيرِنا!  فقال رسولُ اللہِﷺ يا أيہا الناسُ عليکم بتقواکم، ولا يستہوينَّکم الشيطانُ، أنا محمدُ بنُ عبدِ اللہِ، أنا عبدُ اللہِ ورسولِہ، ما أحبُّ أن ترفعوني فوقَ منزلَتي التي أنزلَنيہا اللہُ﴾
ایک آدمی نے کہا:اے محمدe، اے ہمارے سردار، اور ہمارے سردار کے بیٹے،  اے ہم میں سب سے بہتر، اور سب سے بہتر شخص کے بیٹے تو آپe نے فرمایا اے لوگو تقوی اختیار کرو، کہیں شیطان تمہیں بھٹکا نہ دے۔ میں محمد بن عبداللہ ہوں۔میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔میں نہیں چاہتا کہ جو اللہ نے مجھے مقام عطا کیا ہے تم مجھے اس سے اوپر کر کے بیان کرو۔
ایک دفعہ مدینہ کی بچیاں نبی کریمe کی موجودگی میں دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں۔  بخاری 5147 میں یہ واقعہ موجود ہے ۔
﴿يَضرِبْنَ بالدُّفِّ ويَنْدُبْنَ مَن قُتِلَ مِن آبَائِي يَومَ بَدرٍ، إذْ قالَتْ إحدَاہُنَّ، وفينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ ما في غَدٍ، فَقالَ: دَعِي ہذِہ، وقُولِي بالَّذِي کُنْتِ تَقُولِينَ﴾
کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے باپ اور چچا جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے، ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اتنے میں، ان میں سے ایک لڑکی نے پڑھا، اور ہم میں ایک نبی ہے جو ان باتوں کی خبر رکھتے ہے جو کچھ کل ہونے والی ہیں۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ یہ چھوڑ دو۔ اس کے سوا جو کچھ تم پڑھ رہی تھیں وہ پڑھو۔
وضاحت ! جب بچی نے نبی کریمe کی شان میں علم غیب والی بات کی تو آپe نے اسے منع فرما دیا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 39 میں ہے:
﴿ إنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، ولَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أحَدٌ إلَّا غَلَبَہُ﴾
بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا۔
٭…عبادات میں غلو کا صورتیں اور ان سے روکنا:
صحیح بخاری حدیث نمبر  1150 میں ہے:
﴿الراوي: أنس بن مالک. دَخَلَ النبيُّ ﷺ فَإِذَا حَبْلٌ مَمْدُودٌ بيْنَ السَّارِيَتَيْنِ، فَقالَ: ما ہذا الحَبْلُ؟ قالوا: ہذا حَبْلٌ لِزَيْنَبَ، فَإِذَا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ، فَقالَ النبيُّ ﷺ: لا، حُلُّوہُ، لِيُصَلِّ أَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ، فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُد﴾
 نبی کریمe مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپe کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ زینبr  نے باندھی ہے جب وہ (نماز میں کھڑی کھڑی) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔
صحیح مسلم حدیث نمبر 2670 میں ہے:
﴿ہَلَـکَ المُتَنَطِّعُونَ. قالَہا ثَلاثًا.﴾
اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے والے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات نبی کریمe نے تین بار دہرائی۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 6704 میں ہے:
﴿الراوي: عبداللہ بن عباس. بينَا النبيُّ ﷺ يَخْطُبُ، إذَا ہو برَجُلٍ قَائِمٍ، فَسَأَلَ عنْہ. فَقالوا: أبو إسْرَائِيلَ، نَذَرَ أنْ يَقُومَ ولَا يَقْعُدَ، ولَا يَسْتَظِلَّ، ولَا يَتَکَلَّمَ، ويَصُومَ. فَقَالَ النبيُّ ﷺ: مُرْہُ فَلْيَتَکَلَّمْ ولْيَسْتَظِلَّ ولْيَقْعُدْ، ولْيُتِمَّ صَوْمَہُ.﴾
رسول اللہe خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کو کھڑے دیکھا۔ نبی کریمe نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ یہ ابواسرائیل نامی ہیں۔ انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے ہی رہیں گے، بیٹھیں گے نہیں، نہ کسی چیز کے سایہ میں بیٹھیں گے اور نہ کسی سے بات کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ نبی کریمe نے فرمایا کہ ان سے کہو کہ بات کریں، سایہ کے نیچے بیٹھیں اٹھیں اور اپنا روزہ پورا کر لیں۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 1946 میں ہے:
﴿الراوي: جابر بن عبداللہ. کانَ رَسولُ اللہِ ﷺ في سَفَرٍ، فَرَأَی زِحَامًا ورَجُلًا قدْ ظُلِّلَ عليہ، فَقالَ: ما ہذا؟ فَقالوا: صَائِمٌ، فَقالَ: ليسَ مِنَ البِرِّ الصَّوْمُ في السَّفَرِ.﴾
رسول اللہe ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے آپe نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپe نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپe نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔
وضاحت: سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور اگر کوئی شخص برداشت کر لے تو وہ روزہ رکھ سکتا ہے۔ البتہ کسی کے لیے سفر مشکل ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 1965 میں ہے:
﴿الراوي: أبو ہريرۃ  نَہَی رَسولُ اللہِ ﷺ عَنِ الوِصَالِ في الصَّوْمِ فَقَالَ لہ رَجُلٌ مِنَ المُسْلِمِينَ: إنَّکَ تُوَاصِلُ يا رَسولَ اللہِ، قَالَ: وأَيُّکُمْ مِثْلِي، إنِّي أبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي ويَسْقِينِ، فَلَمَّا أبَوْا أنْ يَنْتَہُوا عَنِ الوِصَالِ، واصَلَ بہِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوُا الہِلَالَ، فَقَالَ: لو تَأَخَّرلَزِدْتُکُمْ کَالتَّنْکِيلِ لہمْ حِينَ أبَوْا أنْ يَنْتَہُوا﴾
رسول اللہe نے مسلسل (کئی دن تک سحری و افطاری کے بغیر) روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر ایک آدمی نے مسلمانوں میں سے عرض کی، یا رسول اللہe آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپe نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے؟ مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا ہے، اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ لوگ اس پر بھی جب صوم وصال رکھنے سے نہ رکے تو آپe نے ان کے ساتھ دو دن تک وصال کیا۔ پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپe نے فرمایا کہ اگر چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور کئی دن وصال کرتا، گویا جب صوم وصال سے وہ لوگ نہ رکے تو آپ نے ان کو سزا دینے کے لیے یہ کہا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 5861 میں ہے:
﴿الراوي: عائشۃؓ أم المؤمنين، أنَّ النَّبيَّ ﷺ کانَ يَحتَجِرُ حَصِيرًا باللَّيْلِ فيُصَلِّي عليہ، ويَبْسُطُہُ بالنَّہَارِ فَيَجْلِسُ عليہ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَثُوبُونَ إلی النَّبيِّ ﷺ فيُصَلُّونَ بصَلَاتِہِ حتَّی کَثُرُوا، فأقْبَلَ فَقالَ: يا أيُّہا النَّاسُ، خُذُوا مِنَ الأعْمَالِ ما تُطِيقُونَ؛ فإنَّ اللہَ لا يَمَلُّ حتَّی تَمَلُّوا، وإنَّ أحَبَّ الأعْمَالِ إلی اللہِ ما دَامَ وإنْ قَلَّ﴾
رسول اللہe رات میں چٹائی کا گھیرا بنا لیتے تھے اور ان گھیرے میں نماز پڑھتے تھے اور اسی چٹائی کو دن میں بچھاتے تھے اور اس پر بیٹھتے تھے پھر لوگ (رات کی نماز کے وقت) نبی کریمe کے پاس جمع ہونے لگے اور نبی کریمe کی نماز کی اقتداء کرنے لگے۔
 جب مجمع زیادہ بڑھ گیا تو نبی کریمe متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! عمل اتنے ہی کیا کرو جتنی کہ تم میں طاقت ہو ۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں تھکتا مگر تم (عمل سے) تھک جاتے ہو اور اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے جسے پابندی سے ہمیشہ کیا جائے، خواہ وہ کم ہی ہو۔
صحیح  الجامع حدیث نمبر 813۔ شیخ البانیaنے اس روایت کو صحیح کہا ہے ۔
﴿إذا نعَس الرجلُ و ہو يُصلي فلْينصَرِفْ، لعلہ يدعو علی نفسِہ و ہو لا يدري.﴾
جب نماز پڑھتے ہوئے بندے کو اونگھ آنے لگے تو نماز سے رک جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ اپنے لیے دعا مانگنے کی بجائے بد دعا کر بیٹھے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 5063 میں ہے:
تین صحابہ کرام کا قصہ: ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔
﴿فَقالَ: أنْتُمُ الَّذِينَ قُلتُمْ کَذَا وکَذَا؟! أَمَا واللہِ إنِّي لَأَخشَاکُمْ لِلہِ وأَتقَاکُمْ لہ لَکِنِّي أصُومُ وأُفْطِرُ، وأُصَلِّي وأَرقُدُ، وأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فمَن رَغِبَ عن سُنَّتي فليسَ مِنِّي.﴾
پھر نبی کریمe تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ فمن رغب عن سنتي فليس مني میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
أصل صفۃ الصلاۃ. صححہ الألباني
﴿إنَّ اللہَ يحبُّ أنْ تؤتَی رخصُہ کما يحبُّ أن تؤتَی عزائمُہ﴾
اللہ تعالیٰ جیسے فرائض پر عمل کرنے کو پسند کرتا ہے ایسے ہی دی ہوئی رخصت اپنانے سے بھی خوش ہوتا ہے۔ نبی کریمe آسانیاں پسند کرتے تھے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3560 میں ہے:
﴿الراوي: عائشۃ أم المؤمنين، ما خُيِّرَ رَسولُ اللہِ ﷺ بيْنَ أمْرَيْنِ إلَّا أخَذَ أيْسَرَہُمَا، ما لَمْ يَکُنْ إثْمًا، فإن کانَ إثْمًا کانَ أبْعَدَ النَّاسِ منہ.﴾
رسول اللہe سے جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے کے لیے کہا گیا تو آپe نے ہمیشہ اسی کو اختیار فرمایا جس میں آپ کو زیادہ آسانی معلوم ہوئی ۔ بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔ کیونکہ اگر اس میں گناہ کا کوئی شائبہ بھی ہوتا تو آپ اس سے سب سے زیادہ دور رہتے۔ لوگوں نے بزرگوں کی عقیدت میں طرح طرح کے قصے گھڑ رکھے ہیں کہ فلاں بزرگ نے ایک ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اتنی عبادت کی کوئی قبر میں چلہ کاٹتا ہے ۔ اس طرح کی مثالیں آپ آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔
٭٭٭