﷽
دین ، شریعت کا نام ہے نا کہ عقل کا
اہم عناصر :
❄ موزوں پر مسح ❄ تین صحابی رضی اللہ عنہم
❄ عصر کے بعد روزہ افطار ❄ صلح حدیبیہ کی شرائط
❄سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ ❄اس سے مراد تو شرک ہے
❄رومیوں کی فتح ❄اگر مگر کو یمن میں رکھو
❄عورتوں کا مسجد جانا ❄ مسلمان کا شیوہ
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله أما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ[النور: 51]
ذی وقار سامعین!
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
"آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کرلیا” [المائدہ: 3]
پتہ چلا کہ اسلام اور دین مکمل ہو چکا ہے اور اسلام اللہ تعالی کا پسندیدہ دین ہے اور جس چیز کو اللہ تعالی اپنا پسندیدہ کہیں وہ چیز غلط اور عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی. دین اسلام اور شریعت میں سے اگر کوئی بات یا کوئی مسئلہ ہماری عقل کے خلاف آجاتا ہے تو اس میں ہماری عقل کا نقص ہو سکتا ہے شریعت اور دین بالکل ٹھیک ہے کیونکہ جو دین ہے وہ شریعت کا نام ہے ، عقل کا نہیں.
موجودہ دور فتنوں کا دور ہے جس میں ایک بہت بڑا فتنہ انکار حدیث کا فتنہ ہے. کچھ لوگ شریعت کے چند مسائل کو لے کر کہتے ہیں کہ یہ عقل کے خلاف ہیں. اس لیے حدیث کا کوئی ثبوت اور وجود نہیں ہے.
آج کے خطبہ جمعہ میں ہم اللہ کے فضل سے اس بات کو سمجھیں گے کہ دین شریعت کا نام ہے ، عقل کا نام نہیں ہے. شریعت اور دین کے مسائل اگر ہماری سمجھ اور عقل میں آجائیں تو بہت اچھی بات ہے ، اگر نہ آئیں تو اس میں ہماری عقل اور فہم کا قصور ہو سکتا ہے حدیث اور قران غلط یا جھوٹا نہیں ہو سکتا۔
موزوں پر مسح
وَعَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَوْ كَانَ الدِّينُ بِالرَّأْيِ لَكَانَ أَسْفَلُ الْخُفِّ أَوْلَى بِالْمَسْحِ مِنْ أَعْلَاهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَمْسَحُ عَلَى ظَاهِرِ خُفَّيْهِ [ابوداؤد: 162 صححہ الالبانی] ترجمہ: حضرت علی سے روایت ہے‘ وہ فرماتے ہیں: اگر دین کا دارومدار رائے اور عقل پر ہوتا تو پھر موزوں کی نچلی سطح پر مسح کرنا اوپر کی بہ نسبت زیادہ قرین قیاس تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو موزے کے صرف بالائی حصے پر مسح کرتے دیکھا ہے۔
سردیوں میں ہم موزوں اور جرابوں پر مسح کرتے ہیں عقل ، سمجھ اور فہم یہ کہتے ہیں کہ جرابیں چونکہ نیچے سے گندی ہو جاتی ہیں اس لیے وضو کرتے ہوئے مسح نیچے والی سائیڈ پر کرنا چاہیے. لیکن دین یہ کہتا ہے کہ مسح جرابوں اور موزوں کے اوپر والی جانب کرنا ہے. پتہ چلا کہ دین رائے اور عقل کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
تین صحابی رضی اللہ عنہم
حضرت انس بن مالک نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم ﷺ کا عمل بتایا گیا تو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا؛
وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ
کہ "ہمارا آنحضرت ﷺ سے کیامقابلہ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں۔” ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا۔ پھر آنحضرت ﷺ تشریف لائے اور ان سے پوچھا؛
أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي [بخاری: 5063]
"کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں؟ سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔”
ان تین صحابہ نے نبی ﷺ کی عبادت کا سن کر جو جو فیصلہ کیا تھا عقل اور سمجھ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے کہ ساری زندگی نکاح نہیں کرنا ، ساری ساری رات نماز ادا کرنی ہے اور ساری زندگی روزہ رکھنا ہے. لیکن آقا علیہ السلام نے ان کا رد فرمایا اور یہ سمجھایا کہ دین عقل ، سمجھ اور فہم کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
عصر کے بعد روزہ افطار
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ، فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ، حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ، فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: «أُولَئِكَ الْعُصَاةُ، أُولَئِكَ الْعُصَاةُ» [مسلم: 2610]
ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کی طرف نکلے تو آپ ﷺ نے روزہ رکھا. جب آپ کراع الغمیم پہنچے تو لوگوں نے بھی روزہ رکھا پھر آپ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایاپھر اسے بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے اسے دیکھ لیا پھر آپ نے وہ پی لیا ، اس کے بعد آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ نافرمان ہیں یہ لوگ نافرمان ہیں۔
روزہ فجر سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے لیکن نبی ﷺ نے اس سفر کے دوران ترمذی کی روایت کے مطابق نماز عصر کے بعد روزہ افطار کر دیا۔عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اب سارا دن گزار لیا ہے ، دو اڑھائی گھنٹے باقی ہیں۔ اب روزہ افطار نہیں کرنا چاہیے لیکن نبی ﷺ نے روزہ عصر کے بعد افطار کر دیا اور صحابہ کو بھی حکم دیا کہ روزہ افطار کر دیں۔ لیکن چند صحابہ نے روزہ افطار نہیں کیا ، تو آقا علیہ السلام نے فرمایا یہ نافرمان ہیں۔ اس سے پتہ کہ دین عقل اور رائے کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
صلح حدیبیہ کی شرائط
رسول اللہﷺ کو مدینہ کے اندر یہ خواب دکھلایا گیا کہ آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے خانہ کعبہ کی کنجی لی۔ اور صحابہ سمیت بیت اللہ کا طواف اور عمرہ کیا۔ پھر کچھ لوگوں نے سر کے بال منڈائے اور کچھ نے کٹوانے پر اکتفاکی۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ا س خواب کی اطلاع دی تو انھیں بڑی مسرت ہوئی۔ اورانہوں نے یہ سمجھا کہ اس سال مکہ میں داخلہ نصیب ہوگا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام کو یہ بھی بتلایا کہ آپﷺ عمرہ ادا فرمائیں گے۔ لہٰذا صحابہ کرام بھی سفر کے لیے تیار ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہو گئے، حدیبیہ کے مقام پر جا کر پڑاؤ کیا ، مشرکین مکہ اس بات پر بضد تھے کہ آپ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے ، ایک دوسرے کی طرف سے ایلچی آتے جاتے رہے بالآخر طَرفَین میں صلح کی دفعات طے ہوگئیں جو یہ تھیں؛ رسول اللہﷺ اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس جائیں گے۔ اگلے سال مسلمان مکہ آئیں گے۔ اور تین روز قیام کریں گے۔ ان کے ساتھ سوار کا ہتھیار ہوگا۔ میانوں میں تلواریں ہوں گی۔ اور ان سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جائے گا۔
دس سال تک فریقین جنگ بندرکھیں گے۔ اس عرصے میں لوگ مامون رہیں گے۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا۔
جو محمد ﷺ کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ اور جو قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکے گا۔ جو قبیلہ جس فریق میں شامل ہوگا اس فریق کا ایک جزو سمجھا جائے گا۔ لہٰذا ایسے کسی قبیلے پر زیادتی ہوئی تو خود اس فریق پر زیادتی متصور ہوگی۔
قریش کا جو آدمی اپنے سر پرست کی اجازت کے بغیر یعنی بھاگ کرمحمد ﷺ کے پاس جائے گا محمدﷺ اسے واپس کردیں گے ، لیکن محمدﷺ کے ساتھیوں میں سے جو شخص – پناہ کی غرض سے بھاگ کر – قریش کے پاس آئے گا قریش اسے واپس نہ کریں گے۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بلایا کہ تحریر لکھ دیں۔ اور یہ املا کرایا بسم الله الرحمن الرحیم اس پر سہیل نے کہا: ہم نہیں جانتے رحمن کیا ہے ؟ آپ یوں لکھئے : باِسْمِک اللهمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ) نبیﷺ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہی لکھو۔ اس کے بعد آپ نے یہ املا کرایا۔ یہ وہ بات ہے جس پر محمد رسول اللہ نے مصالحت کی۔ اس پر سہیل نے کہا: اگر ہم جانتے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نہ تو آپ کو بیت اللہ سے روکتے ، اور نہ جنگ کرتے ، لیکن آپﷺ محمد بن عبد اللہ لکھوایئے۔ آپﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں اگر چہ تم لوگ جھٹلاؤ۔ پھر حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ محمد بن عبد اللہ لکھیں۔ اور لفظ ”رسول اللہ ” مٹادیں ، لیکن حضرت علیؓ نے گوارا نہ کیا کہ اس لفظ کو مٹائیں۔ لہٰذا نبیﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے مٹادیا۔ اس کے بعد پوری دستاویز لکھی گئی۔
یہ ہے معاہدۂ صلح کی دفعات کی حقیقت لیکن ان دفعات میں دوباتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا۔ ایک یہ کہ آ پ ﷺ نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اوراس کا طواف کرینگے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں۔ اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے قریش کا دباؤ قبول کیا۔ اور دب کر صلح کی ؟ یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان ووسوسے پیدا کررہی تھیں۔ ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے۔ اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطاب کوتھا۔ چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : خطاب کے صاحبزادے! میں اللہ کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ، انہوں نے کہا:کیاآپ ﷺ نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپ ﷺ بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا: کیوں نہیں؟ لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے۔
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصے سے بپھرے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھیں۔ اور انہو ں نے بھی ٹھیک وہی جواب دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا۔ اور اخیر میں اتنا اور اضافہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے رہویہاں تک کہ موت آجائے کیونکہ اللہ کی قسم آپ حق پر ہیں۔
اس کے بعد سورۃ الفتح کی آیات نازل ہوئیں۔ جس میں اس صلح کو فتح ِ مبین قراردیا گیا ہے۔ اس کا نزول ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر بن خطاب کوبلایا اور پڑھ کرسنایا۔ وہ کہنے لگے : یارسول اللہ ! یہ فتح ہے ؟ فرمایا : ہاں۔ اس سے ان کے دل کو سکون ہوگیا۔ اور واپس چلے گئے۔ [بخاری: 3182]
آقا علیہ السلام کو مکہ بہت زیادہ محبوب تھا ، اپنا وطن تھا اور چھ ہجری میں آقا علیہ السلام عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے لیکن مشرکین مکہ کی کڑی اور سخت شرائط مان کر عمرہ کیے بغیر واپس مدینہ آگئے۔ عقل اور فہم سے دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اتنی دب کر اور اتنی کڑی شرائط کے ساتھ صلح نہیں کرنی چاہیے تھی. صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے ،صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سیدنا عمر فاروق نے باقاعدہ نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مناقشہ کیا. لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ دین رائے اور عقل کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے. کہ آقا علیہ السلام نے جن شرائط کو مان کر صلح کی تھی جو بظاہر کڑی اور ناجائز لگ رہی تھیں وہی شرطیں بعد میں ایسے کارآمد ثابت ہوئیں کہ صلح حدیبیہ میں صرف 1400 صحابہ آقا علیہ السلام کے ساتھ تھے اور صرف ڈیڑھ سال کے بعد آٹھ ہجری میں آقا علیہ السلام 10 ہزار کا لشکر جرّار لے کر مکہ کو فتح کرنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں. اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین رائے اور عقل کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
سفید دھاگہ اور سیاہ دھاگہ
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ عَمَدْتُ إِلَى عِقَالٍ أَسْوَدَ وَإِلَى عِقَالٍ أَبْيَضَ فَجَعَلْتُهُمَا تَحْتَ وِسَادَتِي فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِي اللَّيْلِ فَلَا يَسْتَبِينُ لِي فَغَدَوْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ [بخاری: 1916]
ترجمہ: سیدنا عدی بن حاتم نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی "یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہوجائے۔” تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دنوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات میں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ واضح نہ ہوئے، جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔
جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی
حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ
کہ "یہاں تک کہ تمھارے لیے سیاہ دھاگے سے سفید دھاگا فجر کا خوب ظاہر ہوجائے۔” تو صحابی رسول نے سفید اور سیاہ دھاگہ سرہانے کے نیچے رکھ لیا کہ جب واضح ہو جائے گا تو کھانا پینا چھوڑ دوں گا. حب نبی ﷺ کو بتایا تو آپ نے سمجھایا کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی اور سفید دھاگے سے مراد صبح صادق ہے. پتہ چلا کہ دین اپنی سوچ ، سمجھ اور عقل کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
اِس سے مراد تو شرک ہے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالُوا أَيُّنَا لَمْ يَلْبِسْ إِيمَانَهُ بِظُلْمٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ لَيْسَ بِذَاكَ أَلَا تَسْمَعُ إِلَى قَوْلِ لُقْمَانَ لِابْنِهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [بخاری: 4776]
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بیان کیا کہ جب آیت ؛
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ
”جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی“
نازل ہوئی تو اصحاب رسول بہت گھبرائے اور کہنے لگے کہ ہم میں کون ایسا ہوگا جس نے اپنے ایمان کے سا تھ ظلم کی ملاوٹ نہیں کی ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے۔ تم نے لقمان علیہ السلام کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی کہ ”بیشک شرک کرنا بڑا بھاری ظلم ہے“۔ جب قران مجید میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ کامیاب وہ لوگ ہیں جو ایمان لے آئے اور اس کے بعد انہوں نے کوئی ظلم نہیں کیا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بڑے پریشان ہوئے کہ ہم میں سے ہر کوئی ظلم کرتا ہے یعنی چھوٹے گناہ تو ہو جاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے سمجھایا کہ اس سے مراد بڑا گناہ ہے یعنی شرک. پتہ چلا دین اپنی سوچ ، عقل ، سمجھ اور فہم کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
رومیوں کی فتح
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت {الم غَلَبَتِ الرُّومُ فِی أدنیَ الاَرْضِ} کے بارے میں کہتے ہیں: کفارو مشرکین پسند کرتے تھے کہ اہل فارس روم پر غالب آجائیں، اس لیے کہ کفار و مشرکین اور وہ سب بت پرست تھے جب کہ مسلمان چاہتے تھے کہ رومی اہل فارس پر غالب آجائیں ، اس لیے کہ رومی اہل کتاب تھے، انہوں نے اس کا ذکر ابوبکر سے کیا اور ابوبکر نے رسول اللہ سے ، آپ نے فرمایا: ‘وہ (رومی) (مغلوب ہوجانے کے بعد پھر) غالب آجائیں گے ،ابوبکر نے جاکر انہیں یہ بات بتائی ، انہوں نے کہا: (ایسی بات ہے تو) ہمارے اور اپنے درمیان کوئی مدت متعین کرلو، اگر ہم غالب آگئے تو ہمیں تم اتنا اتنا دینا ، اور اگر تم غالب آگئے (جیت گئے) تو ہم تمہیں اتنا اتنا دیں گے۔ توانہوں نے پانچ سال کی مدت رکھ دی، لیکن وہ (رومی) اس مدت میں غالب نہ آسکے، ابوبکر نے یہ بات بھی رسول اللہ ﷺ کو بتائی۔ آپ نے فرمایا:’ تم نے اس کی مدت اس سے دس سال مقرر کیوں نہ کی؟، ابوسعید نے کہا کہ بضع دس سے کم کوکہتے ہیں،اس کے بعد رومی غالب آگئے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہما ) کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے قول {الم غُلِبَتِ الرُّومُ} سے {وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللَّہِ یَنْصُرُ مَنْ یَشَائُ} تک کا یہی مفہوم ہے، سفیان ثوری کہتے ہیں : میں نے سنا ہے کہ وہ (رومی) لوگ ان پر اس دن غالب آئے جس دن بدر کی جنگ لڑی گئی تھی۔
[ترمذی: 3139 صححہ الالبانی]
نبی کریم ﷺ کے مکی دور میں مسلمان چاہتے تھے کہ روم والے فارس والوں پر غالب آجائیں اور مشرکین چاہتے تھے کہ فارس والے روم والوں پر غالب آجائیں. تو جب اللہ تعالی نے قران مجید میں سورہ روم نازل کی اور کہا کہ رومی غالب آجائیں گے ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مشرکین مکہ کو کہا کہ ایک دن رومی فارس والوں پر غالب آجائیں گے ، انہوں نے کہا ہم سے بات کر لو کہ وہ اتنے سالوں میں وہ غالب آئیں گے. انہوں نے کہا پانچ سالوں میں. پانچ سال گزر گئے رومی غالب نہ آئے. سیدنا ابوبکر صدیق نبی ﷺ کے پاس آئے تو آقا علیہ السلام نے فرمایا تم نے پانچ سال مدت کیوں مقرر کی تھی؟ کیونکہ جو بضع کا لفظ ہے وہ 10 تک بولا جاتا ہے ، تم نے کم از کم 10 سال مدت طے کرنی تھی۔ پتہ چلا دین اپنی سوچ ، سمجھ ، فہم اور عقل کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
اگر مگر کو یمن میں رکھو
عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ فَقَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ قَالَ قُلْتُ أَرَأَيْتَ إِنْ زُحِمْتُ أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ قَالَ اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ [بخاری: 1611]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک آدمی نے حجراسود کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے ہاتھ لگانے اور بوسہ دیتے دیکھا ہے۔ اس شخص کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: اچھا بتائیے اگر مجمع زیادہ ہو اور لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو میں کیا کروں؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا: اس قسم کی اگر مگر یمن میں رہنے دو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسے بوسہ دیتے ہوئے اور چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
یمنی آدمی نے حدیثِ رسول ﷺ سننے کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ حجرِ اسود کو بوسہ دینے کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے کہ اگر رش وغیرہ زیادہ ہو؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تجھے بتا رہا ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اسے بوسہ دیا ہے اور تو اگر مگر کر رہا ہے ، اپنی اگر مگر کو یمن میں ہی رکھو۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھایا کہ دین اپنی رائے ، عقل ، فہم اور سمجھ کا نام نہیں ہے بلکہ دین شریعت کا نام ہے۔
عورتوں کا مسجد جانا
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: "لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلٌ أَهْلَهُ أَنْ يَأْتُوا الْمَسَاجِدَ”. فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : فَإِنَّا نَمْنَعُهُنَّ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَتَقُولُ هَذَا ؟ قَالَ : فَمَا كَلَّمَهُ عَبْدُ اللَّهِ حَتَّى مَاتَ [مسند احمد: 4933 صحیح]
ترجمہ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص اپنے اہل خانہ کو مسجد آنے سے نہ روکے“، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کوئی بیٹا کہنے لگا کہ ہم تو انہیں روکیں گے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تم سے نبی اللہ ﷺ کی حدیث بیان کر رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو؟ اس کے بعد سیدنا عمر نے آخر دم تک اس سے بات نہیں کی۔
عورتوں کے مسجد جانے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ آقا علیہ السلام کے دور میں عورتیں مسجد میں جایا کرتی تھیں. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے کہا کہ ہم انہیں روکیں گے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے سے ناراض ہوئے اور ساری زندگی اس سے بات نہیں کی ، کیونکہ اس نے اپنی رائے اور عقل کو دین کے معاملے میں شریعت پر ترجیح دی۔
مسلمان کا شیوہ
ساری مثالوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دین شریعت اور وحی کا نام ہے ، اپنی سمجھ ، فہم اور عقل کا نام نہیں ہے۔ اب ہم نے قرآن و حدیث سے یہ بات سمجھنی ہے کہ جب قرآن کی کوئی آیت یا کوئی حدیث سامنے آجائے تو مومن اور مسلمان کا شیوہ اور طریقہ کیا ہوتا ہے؟
اللہ کا قرآن کہتا ہے کہ مومن کے سامنے جب دین کی بات پیش کی جاتی ہے ، اگرچہ وہ عقل کے خلاف آجائے ، تو وہ اگر مگر اور چوں چراں کئے بغیر سر تسلیمِ خم کردیتا ہے ، فوراً مان لیتا ہے۔ اور جو بندہ قرآن مجید اور حدیث سامنے آنے کے بعد بھی نہیں مانتا اور کہتا ہے کہ یہ آیت ، حدیث اور مسئلہ میری عقل کے خلاف ہے تو وہ حقیقی مسلمان اور مومن نہیں ہے۔ اللّٰہ فرماتے ہیں؛
اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ [النور: 51]
ترجمہ: ایمان والوں کی بات، جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، اس کے سوا نہیں ہوتی کہ وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔