دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا ناممکن ہے، رسول اللہ ﷺ کے لیے خواب میں اور دوسرے اہل ایمان کے لیے آخرت میں دیکھنے کا اثبات

1056۔زید بن ثابت انصاری  رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک صحابی سے روایت کرتے ہوئے خبر دی کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((تَعْلَمُوا أَنَّهُ لَنْ يَرٰى أَحَدٌ مِنْكُمْ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَتّٰى يَمُوتُ)) (أخرجه مسلم:169، بعد الحديث:(2931))

’’اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کوئی بھی اپنے رب کو نہیں دیکھ سکے گا حتی کہ اسے موت آجائے ۔‘‘

توضیح و فوائد: دنیا میں کسی نے جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے، البتہ روز قیامت ایمان والے اللہ کے دیدار سے فیض یاب ہوں گے۔

1057۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپﷺ نے جواب دیا:

((نُورٌ اَنَٰى أَرَاهُ)) ’’وہ نور ہے، میں اسے کہاں سے دیکھوں‘‘

صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے:

((رُأَيتُ نوراً))  ’’میں نے نور دیکھا۔‘‘ (أخرجه  مسلم:178، 291)

توضیح وفوائد: مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جاگتی آنکھوں کو اس کا دیدار کرنے کی طاقت نہیں۔ میں نے تو صرف نور کو دیکھا ہے جو اس کا پردہ ہے۔ حدیث (1058) میں ہے کہ اگر وہ نور کا پردہ ہٹا دے تو اس کے چہرے کی در خشندگی ہر چیز کو راکھ کر کے رکھ دے۔

1058۔ سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر پانچ باتوں پر مشتمل خطبہ دیا، فرمایا:

((إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنَامُ ، وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَنَامَ ، يَخْفِضُ الْقِسْطَ وَيَرْفَعَهُ، يُرْفَعُ إِلَيْهِ عَمَلِ اللَّيْلِ قَبْلَ عَمَلِ النَّهَارِ وَعَمَلَ النَّهَارِ قَبْلَ عَمَلِ اللَّيْلِ ، حِجَابُهُ النُّورُ كَشَفَهُ لَأَحْرَقَتْ سُبْحَاتُ وَجْهِهِ مَا انْتَهَى إِلَيْهِ بَصَرَهُ مِنْ خَلْقِهِ)) (أخرجه مسلم:179)

’بے شک اللہ تعالی سوتا نہیں اور نہ سونا اس کے شایان شان ہی ہے، وہ میزان کے پلڑوں کو جھکاتا اور اوپر اٹھاتا ہے، رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال بات سے پہلے اس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں، اس کا پردہ نور ہے اگر وہ اس (پردے) کو کھول دے تو اس کے چہرے کے انوار، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچے، اس کی مخلوق کو جلانا ڈ الیں۔‘‘

1059۔ مسروق  رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے عرض کی: امی جان! کیا محمدﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا ؟

سیدہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: تم نے ایسی بات کہہ دی ہے جس سے میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں۔

کیا تم ان تین باتوں سے بے خبر ہو جو شخص بھی تم سے یہ باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے ؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد ﷺ نے (شب معراج میں) اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے، پھر  سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے یہ آیت پڑھی:

﴿لا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ (الأنعام103:6)

’’اسے نگاہیں نہیں پاسکتیں لیکن وہ نگا ہوں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ نہایت باریک بین، با خبر ہے۔‘‘

نیز یہ آیت بھی سیدہ رضی اللہ تعالی عنہا نے تلاوت فرمائی:

﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُّكَلِّمُهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ﴾ (الشورى51:42)

’’کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ تعالی اس سے کلام کرے مگر وحی یا پردے کے پیچھے سے ۔‘‘ (أخرجه البخاري:3235،4612،4855، 7531، مسلم:177)

1060- سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی روایت میں یہ الفاظ ہیں: مسروق کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ام المومنین! مجھے بات کرنے کا موقع دیجیے اور جلدی نہ کیجیے۔ کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا:

﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِۚ۝۲۳﴾(التکویر23گ18)

’’بلا شبہ انھوں نے اسے روشن کنارے پر دیکھا۔‘‘

اور اسی طرح ﴿وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰیۙ۝۱۳﴾(النجم13:53)

’’اور آپ نے اسے ایک اور بار اترتے ہوئے دیکھا ۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں: میں اس امت میں سب سے پہلی ہوں جس نے اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تھا تو آپ ﷺنے فرمایا:

((إِنَّمَا هُوَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ أَرَهُ عَلٰى صُورَتِهِ الَّتِي قُلِقَ عَلَيْهَا غَيْرَ هَاتَيْنِ الْمَرَّتَینِ رَأَيْتُهُ مُنْهَبِطًا مِنَ السَّمَاءِ، سَادًّا عِظَمُ خَلْقِهِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ)) (أخرجه   مسلم7:177)

’’وہ یقینا جبرائیل علیہ السلام ہیں، میں نے انھیں اس شکل میں ، جس میں پیدا کیے گئے، ان دو بار کے علاوہ کبھی نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ میں نے انھیں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے وجود کی بڑائی نے آسمان و زمین کے درمیان کی وسعت کو بھر دیا تھا۔‘‘

1061۔سید نا اابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((أَتَانِي الليلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وتَعَالٰى في أَحْسَن صورةٍ ))

’’آج رات میرے پاس میرا رب انتہائی حسین شکل میں آیا۔‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: میرے خیال میں آپ ﷺ نے فرمایا: خواب میں۔

((فقَالَ يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ لَا ، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَیَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدِييَّ … أَوْ قَالَ فِي نَحْرِى … فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلٰي قُلْتُ نعم، في الكفارَاتِ)) (أخرجه لترمذي:3233)

"”اور اللہ تعالی نے فرمایا: اے محمد! کیا تم جانتے ہو مقرب فرشتے کسی چیز کے بارے میں جھگڑا کرتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: میں نے کہا کہ نہیں۔ تو اللہ تعالی نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا، حتی کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دونوں پستانوں کے درمیان یا آپ نے فرما…..اپنے سینے میں……محسوس کی تو آپ نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ تھا اسے جان لیا، اللہ تعالی نے فرمایا: اے محمد! کیا تم جانتے ہو مقرب فرشتے کسی چیز کے بارے میں جھگڑتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں کفارات کے بارے میں ۔‘‘

توضیح و فوائد: جمہور صحابہ کرام شان کا یہی موقف ہے کہ کسی  نبی نے جاگتے ہوئے اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا، تاہم خواب میں اللہ تعالی کی زیارت کا شرف آپ کو حاصل ہوا ہے لیکن آپ نے اس کی کیفیت بیان نہیں کی کیونکہ اس کی مثال ہی نہیں ہے۔

سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے سے معروف ہے۔ کہ ان کا موقف تھا کہ کی  نبی ﷺنے دیدار الہی کا شرف حاصل کیا ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی خواب میں دیدار الہی کے قائل تھے۔ گویا اس مسئلے پر اجتماع ہو گیا کہ کسی نے جاگتی آنکھوں سے اللہ تعالٰی کا دیدار نہیں کیا اور نہ کر سکتا ہے۔

1062۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کردہ روایت میں ہے: (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:)

((فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي فَاسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ))( فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي فَاسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ)(أخرجه الترمذي:3235)

’’مجھے نماز کی حالت میں اونگھ آگئی اور میری نیند گہری ہوگئی تو ناگہاں میں نے اپنے رب تبارک و تعالی کو انتہائی حسین صورت میں دیکھا۔‘‘

1063۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ  رضی  اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عِیَانًا))(أخرجه البخاري:7435)

’’بے شک تم اپنے رب کو صاف صاف علانیہ کھلی آنکھ سے ضرور دیکھو گے۔‘‘

1064۔ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے ایک رات چودھو میں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا:

إنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا الْقَمَرَ لَا تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمُ أَنْ لَّا تُغْلَبُوا عَلٰى صَلَاةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ فَافْعَلُوا)).(أخرجه البخاري:554، 7434، و مسلم:633)

’’بے شک تم اپنے پروردگار کو (روز قیامت) اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہوں اسے دیکھنے میں تمھیں کوئی دقت نہیں ہوگی، لہذاگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے(فجر کی) اور غروب آفتاب سے پہلے (عصر کی) نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انھیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔)