فکر آخرت اک بھولا ہوا سبق
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
’’اے لوگو! بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس تمھیں دنیا کی زندگی ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے اور تمھیں اللہ کے بارے میں بہت دنیا باز ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے۔‘‘
گذشتہ جمع فکر آخرت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی، فکر آخرت انسان کا بھولا ہوا سبق ہے، اس کی گمشدہ میراث اور کھوئی ہوئی حکمت ہے، جس کی تذکیر و یاد دہانی کے لیے اللہ تعالی نے بہت سارے انتظامات اور اسباب مہیا فرما رکھے ہیں۔ قرآن وحدیث میں مختلف پیرایوں میں عقیدہ آخرت کی ضرورت اور اہمیت اور مراحل و مناظر آخرت کی شدت اور ہول نا کی بیان کی گئی اور اس کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور بتکرار یادہانی کرائی گئی ہے اور ایسے ایسے اسلوب اختیار کئے گئے ہیں کہ کوئی بھی ذی شعور انسان اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مشاہدے کے ذریعے موت اور آخرت کی حقیقت کو انسان کے دل و دماغ میں اتارا گیا اور ایسا راسخ اور پیوست کیا گیا کہ کوئی عقلمند انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا۔
اور تذکیر و موعظت کے لیے مشاہدہ ایک نہایت ہی مضبوط اور مؤثر ترین ذریعہ اور وسیلہ ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان پھر بھی موت کی حقیقت کو سمجھنے اور اس سے اثر لینے کو تیار نہیں ہے، اگر اس سے اثر لیتا بھی ہے تو صرف تھوڑی دیر کے لیے اور اس کے بعد پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سواب بھی ہے والا معاملہ ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسی کون سی چیز ہے جو اپنے اندر اس قدر شدید جاذبیت اور مقناطیسیت رکھتی ہے کہ نا پائیداری، زوال پذیری اور موت کی حقیقت کے عقلی اور نقلی دلائل جان لینے اور اس کی علامات کا عینی مشاہدہ کر لینے کے باوجود وہ انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور باقی سب کچھ بھلا دیتی ہے!
جی ہاں! دنیا ایک ایسی ہی چیز ہے، اُس میں کچھ ایسی ہی کشش ہے، دنیا میں بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو اپنے اندر ایسی کشش اور جاذبیت رکھتی ہیں جو انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں، بلکہ دنیا کی ہر چیز پرکشش ہے اور ارادتا پرکشش بنائی گئی ہے اور یہی بات سمجھنے کی ہے جو کہ ہمارے اس مسئلے کا حل ہے، بلکہ تمام مسائل کا حل ہے۔ اس دنیا کی کشش ہی اصل امتحان اور اس کی کشش کا شکار ہونے سے بچ جانا ہی امتحان میں کامیابی ہے۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَ اِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْهَا صَعِیْدًا جُرُزًاؕ﴾(الكهف:7۔8)
’روئے زمین پر جو کچھ بھی سروسامان ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے، آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں ۔‘‘
یہ تو تھا ہمارے اس سوال کا مختصر جواب کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ موت اور آخرت کی حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کے باوجود آدمی دنیا کی طرف ہی کھچا چلا جاتا ہے اور آخرت کی طرف مائل نہیں ہوتا۔
اب ذرا تفصیل سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں: اللہ تعالی نے انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی کرتے ہوئے اس کی ہدایت و رہنمائی کا پورا پورا بندو بہت فرمایا ہے، اس کو بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے پورے پورے انتظامات فرمائے ہیں، اسے جہنم سے بچانے اور جنت کا وارث بنانے کے لیے صراط مستقیم کی صحیح حیح رہنمائی کی ہے اور بے راہ روی سے ٹھیک ٹھیک خبر دار کیا ہے۔
اللہ تعالی نے یہ بتانے کے بعد کہ موت وحیات محض ایک امتحان ہے!
﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملك:2)
’’وہ ذات کہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
اور پھر یہ فرمانے کے بعد کہ:
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾(الكهف:7)
’’روئے زمین پر جو بھی سروسامان ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے، تاکہ لوگوں کو آزمائیں ان میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی زندگی اور موت اور دنیا و مافیہا سب کا سب محض انسان کی آزمائش اور امتحان کے ہے، یہ بتا دینے کے بعد اللہ تعالی نے اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دنیا کے فریبوں ، اس کے لیے جھانسوں اور اس کی تباہ کاریوں کو خوب کھول کھول کر بیان کیا۔
مثلا پہلے یہ کہہ کر ایک اجمالی ذکر فرمایا کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے تا کہ لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔ پھر اس زینت کا قدرے تفصیل سے ذکر فرمایا: اور زینت کی چند چیزوں کا باقاعدہ نام لے کر تذکرہ فرمایا، فرمایا:
زينَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوتِ ) (آل عمران:14)
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس مزین کر دی گئیں ۔‘‘
یعنی جو چیزیں انسان کے جی کو اچھی لگتی ہیں فطرتا اس کے دل کو بھاتی ہیں انہیں مزید مزین کر دیا گیا ہے، ان میں کشش ڈال دی گئی ہے اور ان میں سے چند یہ ہیں:
﴿مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ ﴾ (آل عمران:14)
’’عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں ۔‘‘
﴿ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ﴾ (آل عمران:14)
’’مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہترین ٹھکانہ ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘
یعنی یوں تو دنیا ساری کی ساری پرکشش ہے جو انسان کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے، مگر یہ چند چیزیں بالخصوص انسان کے لیے کشش کا باعث بنتی ہیں۔
ہے ان چیزوں میں کتنی کشش ہے، اس کی تفصیل میں جانے کی تو چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر انسان اچھی طرح سمجھتا اور محسوس کرتا ہے مگر مثال کے طور پر ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ ان خصوصی طور پر مزین کردہ مرغوبات نفس کے سرفہرست اللہ تعالی نے جس چیز کا ذکر فرمایا ہے، وہ ہے عورتیں، اور انسان کو دنیا کی طرف مائل کرنے کے لیے عورتوں کی کشش اور تاثیر کا اندازہ اس حدیث سے لگائیے ، مشہور حدیث ہے:
((خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى فَمَرَّ عَلَى النِّساء))
’’آپﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے موقع پر عید گاہ تشریف لے جاتے ہوئے عورتوں کے پاس سے گزرے۔‘‘
((فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ ، فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ))
’’فرمایا:! اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کہ مجھے عورتوں کی اکثریت کو جنم میں دکھایا گیا۔‘‘
((فَقُلْنَ وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟))
’’انہوں نے عرض کیا: وہ کسی وجہ سے اللہ کے رسول ﷺ؟‘‘
قَالَ: ((تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ))
’’فرمایا: اس لیے کہ تم اپنے ساتھی کو، یعنی خاوند کو بکثرت سب وشتم اور گالی گلوچ کرتی ہو اور ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہو ۔‘‘
((مَا رَأَيْتُ مِن نَاقِصَاتِ عَقْل وَ دِينٍ اَذْهَبَ لِلبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ))
’’میں نے تم جیسی عقل اور دین میں کمی والی، مگر ایک بہت ہی محتاط ، مضبوط شخصیت والے منقلمند انسان کی بہت زیادہ مت مارنے والی کوئی نہیں دیکھی۔‘‘
((قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ))
’’انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ!ہماری دین اور عقل میں کمی کسی صورت میں ہے؟‘‘
قَالَ: ((أَلَيْسَ شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ ؟))
’’تو آپ ﷺنے فرمایا: کیا عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر نہیں ہے؟‘‘
قلن: بلى
’’تو انہوں نے کہا: جی ہاں۔‘‘
قَالَ: ((فَذٰلِكَ مِنْ نُقْصَانَ عَقْلِهَا))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: یہی اس کی عقل کا نقصان ہے ۔‘‘
((أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ))
’’فرمایا: کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کچھ مخصوص ایام میں وہ نماز پڑھتی اور نہ روزے رکھتی ہیں ؟‘‘
قلن: بلى
’’انہوں نے کہا: جی ہاں‘‘
قَالَ: ((فَذٰلِكَ مِنْ نُقْصَانَ دِينِها)) (صحيح البخاري:304)
’’تو فرمایا یہی اُس کے دین کا نقصان ہے ۔‘‘
اب یہاں تھوڑی سی وضاحت جانتے چلیں۔
عورت کی عقل میں کمی کا مطلب اس کا بے وقوف ہونا نہیں ہے کیونکہ عورت اگر بے وقوف ہوتی تو آپ سے یہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعال یعنہ سے مشورہ نہ کرتے اور ان کے مشورے پر عمل نہ کرتے۔ وہ واقعہ آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ جب مشرکین مکہ نے آپﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کو عمرہ کرنے نہ دیا، البتہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ، جو ابظاہر مسلمانوں کے خلاف نظر آتا تھا اور ان کی کمزوری اور بے بسی کا اظہار ہوتا تھا۔
معاہدہ طے پانے کے بعد، آپﷺ نے صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ((يَا أَيُّهَا النَّاسُ انْحَرُوا وَاحْلِقُوا))
’’اے لوگو! قربانی کر لو اور بال کٹا لو۔‘‘
((فَمَا قَامَ أَحَدٌ))
’’تو کوئی نہ اٹھا، پھر فرمایا: پھر کوئی نہ اٹھا پھر فرمایا: پھر کوئی نہ اٹھا۔‘‘
((فَرَجَعَ رَسُولُ اللهِ فَدَخَلَ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ))
’’آپ ﷺ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس تشریف لائے۔‘‘
فَقَالَ: ((يَا أَمَّ سَلَمَةَ مَا شَأْنُ النَّاسِ))
’’آپ ﷺنے کہا: ’’اے ام سلمہ (رضی اللہ تعالی عنہا)! لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
قَالَتْ: ((يَا رَسُولَ اللهِ قَدْ دَخَلَهُمْ مَا قَدْ رَأَيْتَ))
’’عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! انہیں جو تم پہنچا ہے وہ آپ ﷺکو معلوم ہی ہے۔‘‘
((فَلَا تُكَلِّمَنَّ مِنْهُمْ إِنْسَاناً ، وَاعْمِدْ إِلٰى هَدِْيكَ حَيْثُ كَانَ فَانْحَرْهُ وَاحْلِقْ فَلَوْ قَدْ فَعَلْتَ ذَلِكَ، فَعَلَ النَّاسُ ذَلِكَ)) (مسند احمد:18910)
’’آپ ﷺمیں سے کسی بھی انسان سے بات نہ کریں اور جاکر اپنا اونٹ نحر کر دیں اور اپنے بال منڈوائیں اور اگر آپ ﷺ ایسا کریں گے تو لوگ بھی ایسا کریں گے چنانچہ جب آپﷺ نے ایسا کیا تو لوگوں نے بھی قربانی کر کے بال کٹوا لیے ۔‘‘
لہذا عورت کی عقل میں کمی کا مطلب اس کا بے قوف ہونا ہرگز نہیں ہے البتہ عورت چونکہ گھریلو معاملات میں، بچوں کی دیکھ بھال اور نگہداشت میں مگن ہوتی ہے اور وہی چیزیں اس کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں، ان چیزوں سے عورت کو شدید فطری لگاؤ ہوتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ عورتیں جب آپس میں بیٹھتی ہیں تو ان کی گفتگو کا اکثر محور دو چیزیں ہی ہوتی ہیں، بچوں کی باتیں کرتی ہیں، کپڑوں کا ذکر ہوتا ہے، رشتہ داروں کی باتیں ہوتی ہیں اور ان کے مسائل ڈسکس ہوتے ہیں۔
عورت کی ساری توجہ گھر کے معاملات میں ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، یہ ایک فطری ضرورت ہے، یہ اُس کی خوبی اور صفت ہے، کہ اللہ تعالی نے گھر کے نظام کو چلانے کے لیے اس میں یہ عقل سمجھ اور کشش رکھی ہے، مگر اس کا دوسرا پہلو یہ ہے جس کی وجہ سے وہ باہر کے معاملات کو اتنی توجہ نہیں دیتی جب کہیں کوئی واقعہ اور حادثہ ہوتا ہے تو وہ اسے ذہن نشین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی، چنانچہ شاید اس وجہ سے اس کی گواہی آدھی رکھی گئی ہے۔ میں اس نظریے کی تائید میں اس واقعے کو بھی سامنے رکھتا ہوں: میرے ایک دوست کہوٹہ میں کام کرتے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے سائنسدان جو کہ اپنے کام میں خوب مہارت رکھتے ہیں وہ جب لیب سے باہر نکلتے ہیں تو اپنے کام میں بہت زیادہ مگن ہونے کی وجہ سے اکثر انہیں یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے اپنی گاڑی کہاں پارک کی ہوتی ہے۔ تو مطلب یہ ہوا کہ کسی ایک کام میں منہمک ہونے کی وجہ سے عموماً آدمی دوسرے کام میں زیادہ توجہ نہیں دے پاتا، تو عورت کی عقل میں کمی شاید کچھ ان معنوں میں ہے۔ میں ہے۔ تو اس حدیث میں ہمارے موضوع سے جو بات تعلق رکھتی ہے وہ یہ کہ ایک نسبتا کم عقل مخلوق، ایک نہایت ہی محتاط اور عقلمند انسان کی مت مار دیتی ہے ایک عام اور نارمل انسان کی بات نہیں ہے بلکہ بہت زیادہ محتاط اور تجربہ کار انسان کی بات ہو رہی ہے، کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالی نے امتحان اور آزمائش کے لیے بالخصوص مزین اور پر کشش بنایا ہے۔
یہاں اس حدیث کی تشریح میں علماء کرام نے ایک یہ نقطہ بھی بیان فرمایا ہے کہ آپ سے کم نے جب عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم عقل میں ذرا کم ہونے کے با وجود نہایت ہی عقلمند آدمی کی مت مار دینے والی ہو تو عورتوں نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ وہ کیسے ؟ اور آپﷺ نے بھی اس بات کی مذمت نہیں فرمائی۔
مطلب یہ کہ آدمی اپنی بیوی کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ کی وجہ سے اس کی ہر جائز بات مانتا ہے، کہ جسے ہمارے معاشرے میں رن مرید یا زن مرید کہا جاتا ہے، حقیقت میں یہ بری بات نہیں ہے، بلکہ آدمی کے اچھا انسان ہونے کی دلیل ہے، آپ سے ہم نے آدمی کے اچھا
ہونے کا معیار اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہونا مقرر فرمایا ہے۔
((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَ أَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي )) (جامع ترمذی:3895)
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں ۔‘‘
گویا کہ آدمی کی اصلیت کا پتا چلتا ہے اس کے اپنی بیوی کے ساتھ برتاؤ سے، گھر سے باہر تو ہر آدمی اچھا ہوتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہنسی مذاق کی باتیں کیں، گپ شپ لگائی اور چلتے بنے، مگر حقیقت میں وہ کسی ذہنیت اور کسی قماش کا آدمی ہے وہ اس کے گھر سے پتہ چلتا ہے، اپنے سے کمزور انسان کو ذہنی اور جسمانی اذیت دینا اور وہ بھی قیدی کو کیوں کہ عورتیں آدمی کے پاس ایک قسم کی قیدی ہوتی ہیں جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا کہ عورتیں تمہارے پاس قیدی ہیں۔
تو آدمی اگر اپنے بارے میں جاننا چاہے کہ وہ نبی کریم ﷺکے مقرر کردہ معیار کے مطابق اچھا ہے یا کمرا ہے تو وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لے کہ دو اپنی بیوی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا ہے۔ خیر ہمارا اصل موضوع تو تھا فکر آخرت ، بیچ میں عورت کی کم عقلی کا ذکر ہوا تو اس کی وضاحت بھی ضروری تھی۔ مگر اگلے دو جمعوں کے بعد ان شاء اللہ پھر اسی موضوع پر گفتگو کریں گے۔
آج کی گفتگو سے جو باتیں ہمیں معلوم ہوئیں وہ یہ کہ دنیا میں اس قدر شدید کشش ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھنے کے باوجود انسان اس کے جال میں پھنس جاتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
﴿يٰأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ﴾
’’لوگو! اللہ کا وعدہ یقینًا برحق ہے۔ یعنی آخرت کا وعدہ۔‘‘
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۵﴾ (فاطر:5)
’’لہٰذا دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ بڑا دھو کے باز تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے پائے ۔‘‘
تو دنیا کے اور شیطان کے دھوکے سے ہمیں بچتا ہے، لہذا یہ جاننے کی کوشش کرنی ہو گی کہ دنیا کیسے دھوکہ دیتی ہے اور شیطان کسی طرح اپنے جال میں پھنساتا ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين