فکر آخرت سے انسان کو مقصد حیات کے سمجھنے اور ترجیحات کے تعین میں مددملتی ہے

﴿یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا ۥ وَ لَا یَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ۝۵﴾ (فاطر:5)
اس حقیقت سے ہر شخص آگاہ ہے کہ انسان کی زندگی میں پرائز ٹیز، اولویات اور ترجیحات نہایت ضروری ہیں ، کہ ترجیحات اگر نہ ہوں تو دنیا کا سارا نظام بے ربط ، بے ہنگم اور در ہم برہم ہو جائے۔
ترجیحات انسان کی ضرورت ہے، زندگی کے ہر شعبے میں ضروری ہے اور اس ضرورت کا احساس اور اس کی سمجھ انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ ترجیحات آدمی کی سوچ ، اس کے عقیدے اور نظریے اور اس کے اہداف و مقاصد کی غماز اور عکاس ہوتی ہیں ۔ ترجیحات سے انکار اور اعراض ممکن نہیں ، صرف اختیار مختلف ہوتا ہے کہ کوئی شخص کون سی ترجیحات اختیار کرتا ہے۔ ترجیحات کی اصل میں تو بنیاد اور معیار عقیدہ و نظریہ اور ایمان ہوتا ہے ، مگر بعض کے ہاں ترجیحات کی بنیاد محض اس کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ ترجیحات آدمی کی اپنے اہداف و مقاصد کے ساتھ سنجیدگی اور اخلاص بالا ابالی پن اور عدم اخلاص کی علامت ہوتی ہیں اور اس کی دانشمندی یا حماقت کی ترجمانی کرتی ہیں۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ترجیح کیا ہوتی ہے ؟
ترجیح کا مطلب ہے: دو چیزوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا کسی ایک کو اختیار کرنا، دو رائے میں سے ، دو کاموں یا دو باتوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنا ، اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈالنا، اس کی طرف مائل ہونا ، جھک جاتا ، اپنی قو تیں اور صلاحتیں ، اپنے اختیارات اپنا وقت اپنا پیسہ اپنی سوچی ، اور فکر اور اپنے جذبات دو چیزوں میں سے کسی ایک کے لیے وقف کر دینا، ترجیح دینا کہلاتا ہے۔ ترازو کے دو پلڑوں میں سے کسی ایک کا بھاری ہوتا ، اس کا راجح ہونا کہلاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے؛ آپ ﷺ نے فرمایا:
(( تُوضَعُ الْمَوَازِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، فَتُوزَنُ الْحَسَنَاتُ وَالسَّيِّئَاتُ فَمَنْ رَجَحَتْ حَسَنَاتُه عَلٰى سيئاتِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ دَخَلَ الجنَّة ، وَمَنْ رَجَحَتْ سَيِئَاتُه عَلٰى حَسَنَاتِهِ دَخلَ النَّار)) (فتح الباري ، ج:13 ، ص:539 – مختصر تاریخ دمشق:21452 ، السلسلة الضعيفة:13168)
’’قیامت کے دن تراز و قائم کیے جائیں گے ، ان میں حسنات دسیات تولی جائیں گی . پس جس کی نیکیاں اس کے گناہوں پر ایک دانے کے برابر بھاری ، غالب اور رائج ہو گئیں تو وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور جس کے گناہ اس کی نیکیوں پر رائج ہوئے وہ جہنم میں داخل ہو جائے گا۔‘‘
تو ترجیح کا مطلب ہے دو کاموں میں سے ایک کی طرف مائل ہونا ، جھک جانا ، اہمیت دینا اور مقدم رکھنا ۔
ترجیح دنیا کہ کاموں میں بھی ہوتی ہے اور دین کے کاموں میں بھی ہوتی ہے ، ترجیح اچھے کاموں میں بھی ہوتی ہے اور برے کاموں میں بھی ہوتی ہے ، اور ترجیح اچھے اور برے کاموں کے درمیان بھی ہوتی ہے۔ ترجیح انسان کی ضرورت بھی ہے اور اس کی ایک بہت بڑی خوبی بھی ہے بشرطیکہ اس کا صحیح استعمال ہو، کیونکہ صحیح ترجیح انسان کو خوب سے خوب تر اور بلند سے بلند تر کی طرف لے کر جاتی ہے۔ ترجیح کی ضرورت انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں پڑتی ہے، اعلیٰ کو ادنی پر اولویت دینے کے لیے مفید کو غیر مفید پر اہم کو غیر اہم پر ، فرض کو نقل پر ، افضل کو مفضول پر ، اصل کو فرع پر اور آخرت کو دنیا پر مقدم کرنے کے لیے ترجیح کی ضرورت ہوتی ہے۔
خوب پر خوب تر کو تر جیح دینا ، اور خراب پر خراب ترسے سے بچنے کو ترجیح و یا انسان کی فطرت میں موجود ہے ، آپ کسی بچے کو بھی جو تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھتا ہو دو چیزوں میں سے ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیں تو وہ ان میں سے زیادہ اچھی والی چیز کو ہی اختیار کرے گا۔ اگر چہ اسے یہ اندازہ کرنے میں کہ ان میں سے زیادہ اچھی کون سی ہے غلطی لگ سکتی ہے، تو جب کوئی بچہ بھی ترجیح کی حقیقت کو سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ تو پھر کوئی سمجھدار آدمی کیونکر اس صلاحیت اور وصف سے لاعلم اور عاری رو سکتا ہے۔ دو چیزوں میں سے زیادہ اچھی چیز کو صرف وہ شخص اختیار نہیں کرتا جسے اس کے زیادہ اچھے اور بہتر ہونے کا علم نہ ہو، یا کوئی کم عقل شخص ، جو اچھی اور زیادہ اچھی میں فرق نہیں کر سکتا یا کوئی بد نصیب یا بد بخت جو تجاہل سے کام لے رہا ہو، یعنی جان بوجھ کر انجان بنا ہوا ہو، باقی ہر شخص خوب سے خوب تر کو پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہے۔
اچھی اور بری چیز میں فرق کر لینا کوئی کمال عقل نہیں ہے، بلکہ اصل عقلمندی یہ ہے کہ آدمی دو اچھی چیزوں میں سے زیادہ اچھی چیز کو سمجھتا ہو ، اور دو بری چیزوں میں سے زیادہ بری چیز کو پہچان سکتا ہو جیسا کہ کہتے ہیں کہ:
((لَيْسَ الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ الْخَيْرَ مِنَ الشَّرُ))
’’عقلمند وہ نہیں ہے جو خیر اور شر کی پہچان رکھتا ہے۔‘‘
( وَلَكِنَّ الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْلَمُ خَيْرَ الْخَيرينِ وَشَرَّ الشَّرين)) (مجموع الفتاوى لابن تيمية ، ج:20 ، ص:54) ’’بلکہ عقلمند وہ ہے جو خیر کی باتوں میں زیاد و خیر کی بات کو سمجھتا ہو اور دو بری چیزوں میں سے زیادہ بری چیز کو پہچانتا ہو۔‘‘
آج ہمارا انفرادی طور پر ، اور اجتماعی طور پر من حيث الأمة سب سے بڑا، یا کم از کم بہت بڑے بڑے مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہماری ترجیحات کے اختلال اور عدم توازن کا شکار ہوتا ہے۔
کس کس شعبے کی کس کس ترجیح کی بات کریں ، زندگی کے تمام شعبوں میں تقریبا تقریبا تمام ہی ترجیحات عدم توازن کا شکار ہیں ۔
مثال کے طور پر جسم کی صحت و سلامتی اور تندرستی کی ضرورت و اہمیت پر کسی کو اعتراض اور انکار نہیں ہو سکتا اور اس غرض کے لیے سپورٹس ، ایکسر سائزز اور دیگر فزیکل ایکٹیوٹیز کا اهتمام يقينا قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن جسمانی صحت و تندرستی کے نام پر ایسے کھیلوں کا اہتمام کرنا جن سے دین کے تقاضے متاثر ہوتے ہوں ، بلکہ یکسر نظر انداز کیے جاتے ہوں کسی صورت مثبت ترجیح نہیں ہوگی۔
جسمانی صحت کو اور اس کے لیے کسی کھیل کو اگر اتنا ہی اہم مان لیا جائے جتنا کہ اس کو اہمیت دی جاتی ہے تو کیا اسے روحانی صحت پر ترجیح دی جاسکتی ہے؟
جسمانی صحت کے لیے جس قدر ذاتی اور قومی ذرائع اور وسائل استعمال کیے جاتے ہیں اگر ان کھیلوں کے اہتمام کو جسمانی صحت کے لیے ہی تسلیم کر لیا جائے تو کیا اتنا ہی اہتمام اور اہمیت روحانی صحت کو بھی دی جاتی ہے ؟ جبکہ اصولاً، عقل اور شرعا روحانی صحت ہر لحاظ سے جسمانی صحت پر مقدم ہے ، حتی کہ انسان کو کھانے پینے کی ضرورت سے بھی زیادہ دین کی اور دین کی سلامتی کی ضرورت ہے۔
کھیل کود کو اس قدر ترجیح کہ اس سے انسانی زندگی کے بہت سے معاملات اور بنیادی حقوق متاثر ہوں اور ان میں دین کا کہیں نام و نشان تک نہ ہو ، بلکہ اس کو ضروری ہی نہ سمجھا جاتا ہو، تو ایسی ترجیح کو آپ کیا نام دیں گے؟
آج کھیل اور کھلاڑیوں کے ساتھ تعلق اور لگاؤ دیوانگی کی حد تک ہے، اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک الگ کہانی ہے ، دنیا میں کھلاڑیوں کو جو عزت ، جو مقام و مرتبہ اور جو اہمیت دی جاتی ہے ، کسی عالم دین کو اس کے عشر عشیر بھی اہمیت نہیں دی جاتی ہے، بلکہ قابل ذکر ہی نہیں سمجھا جاتا۔
کوئی کھلاڑی ، کوئی ایکٹر ، کوئی گلوکار فوت ہو جائے تو پورا ملک سوگوار ہوتا ہے ، اور اس کی مدح سرائی کے قصیدے پڑھے جانے لگتے ہیں، لیکن کوئی عالم فوت ہو جائے تو اس کی وفات کی خبر کو بھی وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ہماری ترجیحات میں نہ صرف یہ کہ عدم توازن ہے بلکہ ترجیحات الٹ پلٹ ہو گئی ہیں، اور ان کا معیار ہی بدل گیا ہے ۔
ہماری ترجیحات دین اور فکر آخرت پر مبنی نہیں بلکہ ہماری ترجیحات کا مرجع اور مرکز و محور ہماری خواہشات ہیں اور قرآن پاک نے اس ضمن میں ایک قاعدہ بیان کر رکھا ہے، فرمایا:
﴿فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَهْوَآءَهُمْ ؕ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًی مِّنَ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ۠۝۵۰﴾ (القصص:50)
’’اے پیغمبرﷺ! اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے تو جان لیجئے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہو۔‘‘
یعنی اگر آدمی کی ترجیحات دین کے مطابق نہیں تو پھر وہ خواہشات نفس کے مطابق ہیں۔ جس قوم کا یہ حال ہو، اور مجموعی طور پر یہ حالت ہو کہ قوم کے تمام افراد، پوری حکومت ، تمام اخبارات ، ٹی وی چھینک کھیل پر گفتگو کرتے ہوئے نظر آئیں ، اس کے انعقاد کے لیے تمام وسائل جھونک دیے جائیں ، ہزاروں افراد کو سیکیورٹی پر مامور کر دیا جائے ، ٹرانسپورٹیشن فری کر دی جائے ، کروڑوں روپیہ خرچ کر دیا جائے ، اور ٹکٹوں کے حصول کے لیے قطار میں لگ جائیں۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کی ترجیحات کا مقصد اور معیار کیا ہوگا ؟
افسوس! آج مسلمانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے ، اور اکثریت یوں بھی راہ راست پر کم ہی ہوتی ہے اور جو راہ راست پر ہوتے ہیں پھر ان میں سے بھی بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو دنیا میں زہد و تقویٰ کی مثال اور طلب آخرت کے میدان میں ایک نمونہ ہوتے ہوں۔
اس حوالے سے آپ ﷺ نے ایک عمومی تناسب بیان فرمایا ہے، فرمایا:
(( إِنَّمَا النَّاسُ كَإِبِل مِائَةٍ لَا يَجِدُ الرَّجُلُ فِيهَا رَاحِلَةً)) (صحيح الترمذي:2872)
’’معیاری لوگوں کا تناسب لوگوں میں ایسے ہی ہے جیسے سو اونٹ ہوں اور ان میں مشکل سے کوئی ایک اونٹ سواری کے قابل پایا جائے۔‘‘
اونٹوں میں کسی اونٹ کو اچھا قرار دینے اور اسے سواری کے قاتل کہنے کا مطلب ہے، کہ وہ خوبیوں، صلاحیتوں، قابلیتوں اور اچھی صفات والا ہے اور ایسا اونٹ کہ جو مضبوط اور طاقت ور ہو، بوجھ اٹھانے کے قابل ہو، اس میں قوت برداشت ہو، صبر اور تحمل ہو، تیز رفتار ہو، پھر تلا ہو، سرکش نہ ہو ( کہ سوار ہونے والے کو سوار نہ ہونے دے) بلکہ مالک کے سامنے نرم اور فرمانبردار ہو اور وفادار ہو، یقینًا سو اونٹوں میں بھی بمشکل پایا جانے والا ہے ، گویا کہ جانوروں میں یہ تناسب ایک اور سو کا ہے، یعنی کوئی ایک جانور دوسرے جانوروں سے خوبیوں کے لحاظ سے سو گنا بہتر اور مفید ہو سکتا ہے، جب کہ انسانوں میں یہ تناسب ہزار گنا ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((ليس شيء خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ مِثْلِهِ إِلَّا الْإِنْسَانُ )) (المعجم الكبير للطبراني:6095)
’’ کوئی چیز اپنے جیسی ایک ہزار چیزوں سے بہتر نہیں ہو سکتی سوائے انسان کے۔‘‘
یعنی انسان کے اندر اتنا پوسیکل موجود ہے اور اُس کے اندر ایسی ایسی خوبیاں، صلاحیتیں، صفات، قوتیں اور خصلتیں پائی جائیں کہ اپنے جیسے ایک ہزار لوگوں سے بہتر ہو سکتا ہے۔
لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان ایک ہزار گنا کسی سے بہتر تو کیا ہوگا ، سو گنا بھی نہیں ہے، سو گنا ہی ہو جاتا تو ہم کم از کم جانوروں کے برابر ہی ہو جاتے۔ اور پھر یہ جو بہتری ہے، اس کا مطلب اپنی ذات کے لئے بہتر ہونا نہیں، بلکہ دوسروں کے لئے بہتر ہوتا ہے، اور اس میں اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہونا بھی ہے ، بلکہ اس کو تو بہتری کا معیار مقرر فرما دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
(( خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِي)) (ترمذي:3895)
’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر اور اچھا ہے ، اور میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کے لیے اچھا ہوں ۔‘‘
ایسے ہی حدیث میں ہے ، آپ ﷺنے فرمایا:
((أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى الله أَنْفَعُهُمْ وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سُرُورٌ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسلِمٍ ، أو تَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً ، أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، أَوْ تَطْرُدَ عَنْهُ جُوعًا، وَلَأَنْ أَمْشِي مَعَ أَخِي المُسلِم فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَى مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي الْمَسْجِدِ شهرًا)) (صحيح الجامع:176)
’’جو لوگ دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں وہ اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہیں، اور اللہ تعالی کے ہاں سب سے پسندیدہ اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ تم کسی مسلمان کو کوئی خوشی اور مسرت پہنچاؤ ، یا اس سے کوئی تنگی دور کر دو ، یا اس کی طرف سے قرض ادا کر دو، یا اس کی بھوک مٹا دو، اور میں اپنے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اس کے کسی کام کے لیے چل کر جاؤں ، مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ میں مسجد میں پورا مہینہ اعتکاف کروں ۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں مفید و مثبت ترجیحات اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہماری دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند اور بہتر ہو۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين