ہدایت یا کفر۔جنت یا جہنم
یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے
﴿إنَّ الحَمْدَ لِلہِ نَحمَدُہُ وَنَسْتَعِينُہُ، مَن يَہْدِہِ اللہُ فلا مُضِلَّ لہ، وَمَن يُضْلِلْ فلا ہَادِيَ لہ، وَأَشْہَدُ أَنْ لا إلَہَ إلَّا اللہُ وَحْدَہُ لا شَرِيکَ لہ، وَأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسولُہُ، يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ،يَا أَ يُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَارِجَالاً  کَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُواْ اللہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيبًا، يَا أَ يُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَکُمْ أَعْمَالَکُمْ وَيَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَمَن يُطِعْ اللہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا، أما بعدُ فإنَّ خيرَ الحديثِ کتابُ اللہِ وخيرَ الہديِ ھديُ محمدٍ ﷺ وشرَّ الأمورِ محدثاتُھا وکلَّ بدعۃٍ ضلالۃٌ وکلُّ ضلالۃٍ في النارِ.﴾
سورۃ التوبۃ آیت نمبر 80 میں ہے:
اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.
﴿اسْتَغْفِرْ لَھُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً فَلَن یَغْفِرَ اللہُ لَہُمْ ذَلِکَ بِأَ نَّہُمْ کَفَرُواْ بِاللہِ وَرَسُولِہِ وَاللہُ لاَیَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ﴾
ان کے لیے تو استغفار کر یا نہ کر۔ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہ بخشے گا یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے ایسے فاسق لوگوں کو رب کریم ہدایت نہیں دیتا۔
٭  نبی کریمe کی انتہائی کوشش کے باوجود عبداللہ بن ابی منافقوں کی بخشش نہ ہو کی۔
بخاری حدیث نمبر 1269 میں ہے:
الراوي: عبداللہ بن عمر. أنَّ عَبْدَ اللہِ بنَ أُبَیٍّ لَمَّا تُوُفِّیَ، جَاءَ ابنُہُ إلی النبيِّ ﷺ، فَقالَ: یا رَسولَ اللہِﷺ، أَعْطِنِی قَمِیصَکَ أُکَفِّنْہُ فِیہِ، وصَلِّ علیہ، واسْتَغْفِرْ لہ، فأعْطَاہُ النبیُّ ﷺ  قَمِیصَہُ، فَقالَ: آذِنِّی أُصَلِّی علیہ، فَآذَنَہُ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ یُصَلِّیَ علیہ جَذَبَہُ عُمَرُ ؓ، فَقالَ: أَلیسَ اللہُ نَہَاکَ أَنْ تُصَلِّیَ علَی المُنَافِقِینَ؟ فَقالَ: أَنَا بیْنَ خِیَرَتَیْنِ، قالَ: ﴿اسْتَغْفِرْ لہمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لہمْ إنْ تَسْتَغْفِرْ لہمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً، فَلَنْ یَغْفِرَ اللہُ لہمْ﴾ [التوبۃ:80]
 فَصَلَّی علیہ، فَنَزَلَتْ: ﴿وَلَا تُصَلِّ علَی أَحَدٍ منہمْ مَاتَ أَبَدًا ولَا تَقُمْ علَی قَبْرِہِ﴾ [التوبۃ: 84].
جب عبداللہ بن ابی (منافق) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا (عبداللہ صحابی)    نبی کریمe کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھیے اور مغفرت کی دعا کیجیے۔ چنانچہ نبی کریمe نے اپنی قمیص (غایت مروت کی وجہ سے) عنایت کی اور فرمایا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی۔ جب آپe نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو عمرt نے آپe کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے؟ آپe نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ’’تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا‘‘ چنانچہ نبی کریمe نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ’’کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا۔‘‘
بخاری حدیث نمبر 1350 میں ہے:
﴿وکانَ علَی رَسولِ اللہِ ﷺ  قَمِیصَانِ، فَقالَ لہ ابنُ عبدِاللہِ: یارَسولَ اللہِ ﷺ، ألْبِسْ أبِی قَمِیصَکَ الذی یَلِی جِلْدَکَ.﴾
رسول اللہe کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے (جو مومن مخلص تھےt) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجیے جو آپe کے جسد اطہر کے قریب رہتی ہے۔
٭  نبی کریمe کوشش کے باوجود اپنے چچا کو ایمان پر نہ لا سکے۔
بخاری حدیث نمبر 1360 میں ہے:
﴿أنَّہُ لَمَّا حَضَرَتْ أبَا طَالِبٍ الوَفَاۃُ جَاءَہُ رَسولُ اللہِ ﷺ، فَوَجَدَ عِنْدَہُ أبَا جَہْلِ بنَ ہِشَامٍ، وعَبْدَ اللہِ بنَ أبِی أُمَـیَّۃَ     بنِ المُغِیرَۃِ، قالَ رَسولُ اللہِ ﷺ لأبِی طَالِبٍ: یا عَمِّ، قُلْ: لا إلَہَ إلَّا اللہُ، کَلِمَۃً أشْہَدُ لکَ بہَا عِنْدَ اللہِ ، فَقالَ أبوجَہْلٍ، وعَبْدُ اللہِ بنُ أبِی أُمَیَّۃَ: یا أبَا طَالِبٍ أتَرْغَبُ عن مِلَّۃِ عبدِالمُطَّلِبِ؟
 فَلَمْ یَزَلْ رَسولُ اللہِ ﷺ یَعْرِضُہَا علیہ، ویَعُودَانِ بتِلْـکَ المَقالَۃِ حتَّی قالَ أبو طَالِبٍ آخِرَ ما کَلَّمَہُمْ: ہو علَی مِلَّۃِ عبدِالمُطَّلِبِ، وأَبَی أنْ یَقُولَ: لا إلَہَ إلَّا اللہُ، فَقالَ رَسولُ اللہِ ﷺ: أما واللہِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لکَ ما لَمْ أُنْہَ عَنْکَ.﴾
جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہe ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپe نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ لا إلہ إلا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں) کہہ دیجیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہe برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لاإلہ إلا اللہ کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہe نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تاآنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ما کان للنبی‏ الآیۃ‏ نازل فرمائی۔ (التوبہ: 113)
فَــنَزَلَــــتْ
سورۃ التوبۃآیت نمبر 113 میں ہے:
﴿ مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْکَانُوا أُولِی قُرْبَی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَ نَّہُمْ أَصحَابُ الْجَحِیمِ 113.﴾
پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔
سورۃ القصص آیت نمبر 56 میں ہے:
﴿إِنَّکَ لَا تَہْدِی مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللہَ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ 56.﴾
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔
٭  دو پیغمبر اپنی بیویوں کو جنت میں نہ لے جا سکے۔
سورۃ التحریم آیت نمبر 10 میں ہے:
﴿ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا لِّلَّذِینَ کَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ کَانَتَا تَحتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا،     فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ﴾
اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لیے نوح کی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی یہ دونوں ہمارے بندوں میں سے دو (شائستہ اور) نیک بندوں کے گھر میں تھیں، پھر ان کی انہوں نے خیانت کی پس وہ دونوں (نیک بندے) ان سے اللہ کے (کسی عذاب کو) نہ روک سکے اور حکم دے دیا گیا (اے عورتو) دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی چلی جاؤ۔
سورۃ ہودآیت نمبر 43 میں ہے:
﴿قَالَ سَآوِی إِلَیٰ جَبَلٍ یَعصِمُنِی مِنَ الْمَاءِ ۚ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہِ إِلَّا مَن رَّحِمَ، وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِینَ﴾
اس نے جواب دیا کہ میں تو کسی بڑے پہاڑ کی طرف پناہ میں آجاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا نوح (u) نے کہا آج اللہ کے امر سے بچانے والا کوئی نہیں، صرف وہی بچیں گے جن پر اللہ کا رحم ہوا۔ اسی وقت ان دونوں کے درمیان موج حائل ہوگئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگیا ۔
٭  حضرت نوحu بیٹے کو نہ بچا سکے۔
سورۃ ہودآیت نمبر 45 میں ہے:
﴿وَنَادَیٰ نُوحٌ رَّبَّہُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِی مِنْ أَہْلِی وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحکَمُ الْحَاکِمِینَ﴾
سیدنا نوح (u) نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا میرے رب میرا بیٹا تو میرے گھر والوں میں سے ہے، یقیناً تیرا وعدہ بالکل سچا ہے اور تو تمام حاکموں سے بہترحاکم ہے۔
٭  جنت اللہ تعالیٰ کے فضل اور نیک اعمال سے ملتی ہے۔
مسلم حدیث نمبر489 / 1094 میں ہے:
سیدنا ربیعہ بن کعب الا ٔ سلمی t بیان کرتے ہیں کہ
کُنْتُ أبِیتُ مع رَسولِ اللہِ ﷺ فأتَیْتُہُ بوَضُوئِہِ وحَاجَتِہِ
فَقالَ لِی: سَلْ فَقُلتُ: أسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فی الجَنَّۃِ.
قالَ: أوْ غیرَ ذلکَ قُلتُ: ہو ذَاکَ. قالَ: فأعِنِّی علَی نَفْسِکَ بکَثْرَۃِ السُّجُودِ .
 سیدنا ربیعہ بن کعب (بن مالک) اسلمیt نے کہا: میں (خدمت کے لیے) رسول اللہ e  کے ساتھ (صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا، (جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا:’’ (کچھ) مانگو۔‘‘ تو میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا:’’ یا اس کے سوا کچھ اور ؟‘‘ میں نے عرض کی: بس یہی۔ تو آپ نے فرمایا:’’ تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔‘‘
ابو دائود حدیث نمبر 4901  میں ہے:
﴿کان رجلانِ فی بنی إسرائیلَ مُتآخِیَیْنِ، فکان أحدُہما یذنب، والآخرُ مجتہدٌ فی العبادۃ، فکان لا یزال المجتہدُ یری الآخرَ علی الذنبِ فیقول: أَقصِرْ. فوجدہ یومًا علی ذنبٍ فقال لہ: أقصِر. ﴾
فقال: خلِّنی وربی أبعثتَ علیَّ رقیبًا ؟
فقال: واللہِ ! لا یغفر اللہُ لک۔
فقبض أرواحَہما، فاجتمعا عند ربِّ العالمین،  فقال لہذا المجتہدِ: کنتَ بی عالما، أوکنتَ علی ما فی یدی قادرًا؟
وقال للمذنب: اذہبْ فادخلِ الجنۃَ برحمتی، وقال للآخرِ اذہبوا بہ إلی النارِ.
 قَالَ أَبُو ہُرَیْرَۃَ:‏‏‏‏ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَتَکَلَّمَ بِکَلِمَۃٍ أَوْبَقَت دُنْیَاہُ وَآخِرَتَہُ .
سیدنا ابوہریرہt کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہe سے سنا، آپ فرماتے تھے:’’ بنو اسرائیل میں دو آدمی آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے۔ ایک گناہوں میں ملوث تھا جب کہ دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا۔ عبادت میں راغب جب بھی دوسرے کو گناہ میں دیکھتا تو اسے کہتا کہ باز آ جا۔ آخر ایک دن اس نے دوسرے کو گناہ میں پایا تو اسے کہا کہ باز آ جا۔ اس نے کہا: مجھے رہنے دے، میرا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے۔ کیا تو مجھ پر کوئی چوکیدار بنا کر بھیجا گیا ہے ؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم ! اللہ تجھے معاف نہیں کرے گا یا تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ دونوں فوت ہو گئے اور رب العالمین کے ہاں جمع ہوئے، تو اللہ نے عبادت میں کوشش کرنے والے سے فرمایا: کیا تو میرے متعلق (زیادہ) جاننے والا تھا یا جو میرے ہاتھ میں ہے تجھے اس پر قدرت حاصل تھی ؟ اور پھر گناہ گار سے فرمایا: جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا۔ اور دوسرے کے متعلق فرمایا: اسے جہنم میں لے جاؤ۔‘‘
سیدنا ابوہریرہt کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس نے ایسی بات کہہ دی جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ کر کے رکھ دی۔
٭  نبی کریمe کا اپنے قریبی رشتہ داروں کو انتباہ۔
بخاری حدیث نمبر 4771 میں ہے:
﴿الراوی: أبو ہریرۃ  قَامَ رَسولُ اللہِ ﷺ  حِینَ أنْزَلَ اللہُ: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَـکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ [الشعراء: 214]، قالَ: یامَعْشَرَ قُرَیْشٍ اشْتَرُوا أنْفُسَکُمْ؛ لا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شیئًا،  یا بَنِی عبدِ مَنَافٍ، لا أُغْنِی عَنْکُمْ مِنَ اللہِ شیئًا،  یا عَبَّاسُ بنَ عبدِ المُطَّلِبِ، لا أُغْنِی عَنْکَ مِنَ اللہِ شیئًا، ویَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسولِ اللہِ، لا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللہِ شیئًا، ویَا فَاطِمَۃُ بنْتَ مُحَمَّدٍ، سَلِینِی ما شِئْتِ مِن مَالِی، لا أُغْنِی عَنْکِ مِنَ اللہِ شیئًا.﴾
سیدنا ابوہریرہt نے بیان کیا، جب آیت وأنذر عشیرتک الأقربین‏ ’’اور اپنے خاندان کے قرابت داروں کو ڈرا‘‘ نازل ہوئی تو رسول اللہe نے (صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر) آواز دی کہ اے جماعت قریش! یا اسی طرح کا اور کوئی کلمہ آپe نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کے ذریعہ اپنی جانوں کو اس کے عذاب سے بچاؤ (اگر تم شرک و کفر سے باز نہ آئے تو) اللہ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہیں آؤں گا۔
اے بنی عبد مناف! اللہ کے ہاں میں تمہارے لیے بالکل کچھ نہیں کر سکوں گا۔
اے عباس بن عبدالمطلب! اللہ کی بارگاہ میں میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔
اے صفیہ، رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے یہاں تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔
اے فاطمہ! محمد (e) کی بیٹی! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے لے لو لیکن اللہ کی بارگاہ میں، میں تمہیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکوں گا۔
باب لا یقال فلان شہید
 بخاری حدیث نمبر 4202 میں ہے:
﴿وفی أصحَابِ رَسولِ اللہِ ﷺ رَجُلٌ لا یَدَعُ لہمْ شَاذَّۃً ولَا فَاذَّۃً إلَّا اتَّبَعَہَا یَضْرِبُہَا بسَیفِہِ، فَقالَ رَسولُ اللہِ ﷺ: أما إنَّہ مِن أہْلِ النَّارِ، فَجُرِحَ الرَّجُلُ جُرْحًا شَدِیدًا، فَاسْتَعْجَلَ المَوْتَ، فَوَضَعَ سَیْفَہُ بالأرْضِ وذُبَابَہُ بیْنَ ثَدْیَیْہِ، ثُمَّ تَحَامَلَ علَی سَیْفِہِ فَقَتَلَ نَفْسَہُ، فَقالَ رَسولُ اللہِ ﷺ عِنْدَ ذلکَ: إنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أہْلِ الجَنَّۃِ، فِیما یَبْدُو لِلنَّاسِ، وہو مِن أہْلِ النَّارِ، وإنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أہْلِ النَّارِ، فِیما یَبْدُو لِلنَّاسِ وہو مِن أہْلِ الجَنَّۃِ.﴾
رسول اللہe کے ایک صحابی کے متعلق کسی نے ذکر کیا کہ یہودیوں کا کوئی بھی آدمی اگر انہیں مل جائے تو وہ اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کئے بغیر نہیں رہتے۔ کہا گیا کہ آج فلاں شخص ہماری طرف سے جتنی بہادری اور ہمت سے لڑا ہے شاید اتنی بہادری سے کوئی بھی نہیں لڑا ہو گا لیکن نبی کریمe نے ان کے متعلق فرمایا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہے۔ ایک صحابیt نے اس پر کہا کہ پھر میں ان کے ساتھ ساتھ رہوں گا، بیان کیا کہ پھر وہ ان کے پیچھے ہو لیے جہاں وہ ٹھہرتے یہ بھی ٹھہر جاتے اور جہاں وہ دوڑ کر چلتے یہ بھی دوڑنے لگتے۔ بیان کیا کہ پھر وہ صاحب زخمی ہو گئے، انتہائی شدید طور پر اور چاہا کہ جلدی موت آ جائے۔ اس لیے انہوں نے اپنی تلوار زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک سینہ کے مقابل کر کے اس پر گر پڑے اور اس طرح خودکشی کر لی۔ اب دوسرے صحابی (جو ان کی جستجو میں لگے ہوئے تھے) نبی کریمe کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پوچھا کیا بات ہے؟ ان صحابی نے عرض کیا کہ جن کے متعلق ابھی آپ نے فرمایا تھا کہ وہ اہل دوزخ میں سے ہیں تو لوگوں پر آپ کا یہ فرمانا بڑا شاق گزرا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں تمہارے لیے ان کے پیچھے پیچھے جاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ ایک موقع پر جب وہ شدید زخمی ہو گئے تو اس خواہش میں کہ موت جلدی آ جائے اپنی تلوار انہوں نے زمین میں گاڑ دی اور اس کی نوک کو اپنے سینہ کے سامنے کر کے اس پر گر پڑ ے اور اس طرح انہوں نے خود اپنی جان کو ہلاک کر دیا۔ اسی موقع پر آپe نے فرمایا کہ انسان زندگی بھر جنت والوں کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہل دوزخ میں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرا شخص زندگی بھر اہل دوزخ کے عمل کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے۔
مسلم حدیث نمبر 2662 میں ہے:
﴿الراوی: عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہا أم المؤمنین. دُعِیَ رَسُولُ اللہِ ﷺ إلی جِنَازَۃِ صَبِیٍّ مِنَ الأنْصَارِ، فَقُلتُ: یارَسُولَ اللہِﷺ، طُوبَی لِہذا؛ عُصْفُورٌ مِن عَصَافِیرِ الجَنَّۃِ، لَمْ یَعمَلِ السُّوءَ وَلَمْ یُدرِکْہُ، قالَ: أَوَغیرَ ذلکَ؟ یا عَائِشَۃُ،  إنَّ اللہَ خَلَقَ لِلْجَنَّۃِ أَہْلًا، خَلَقَہُمْ لَہَا وَہُمْ فی أَصلَابِ آبَائِہِمْ، وَخَلَقَ لِلنَّارِ أَہْلًا، خَلَقَہُمْ لَہَا وَہُمْ فی أَصلَابِ آ بَائِہِمْ.﴾
سیدہ عائشہ صدیقہr سے روایت کی کہ ایک بچہ فوت ہوا تو میں نے کہا: اس کے لیے خوش خبری ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ تو رسول اللہe نے فرمایا:’’ کیا تم نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور دوزخ کو پیدا کیا اور اس کے لیے بھی اس میں جانے والے بنائے اور اس کے لیے بھی اس میں رہنے والے بنائے ؟
٭  اللہ تعالیٰ نے نبی کریمe سے اعلان کروا دیا۔
سورۃ الا ٔعراف آیت نمبر 188 میں ہے:
﴿قُل لاَّ أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلاَ ضَرًّا إِلاَّ مَا شَاء اللہُ  وَلَوْکُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ  إِنْ أَنَاْ إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ﴾
 آپ فرما دیجیے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔
اس لیے کسی کو کافر فاسق جنتی اور جہنمی کے فتوے مت لگائیں ۔
بخاری حدیث نمبر 6103 میں ہے:
﴿الراوی: أبو ہریرۃ ؓ إذا قالَ الرَّجُلُ لأخِیہِ یا کافِرُ، فقَدْ باءَ بہ أحَدُہُما.﴾
رسول اللہe نے فرمایا ’’جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کہتا ہے کہ اے کافر! توان دونوں میں سے ایک کافر ہو گیا۔
صحیح مسلم حدیث نمبر 60 میں ہے:
 أَیُّما امْرِئٍ قالَ لأَخِیہِ: یا کافِرُ، فقَدْ باءَ بہا أحَدُہُما
 إنْ کانَ کما قالَ، وإلَّا رَجَعَتْ علیہ.
جس نے اپنے بھائی کو کافر کہا۔ دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے۔ جسے کہا گیا اگر وہ کافر نہیں ہے تو یہ بد دعا کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے۔ یہ خود کافر ہو جاتا ہے۔
٭٭٭