ہماری عبادات کا ہماری زندگی پر اثر مفقود کیوں؟
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا۱۳۶﴾ (النساء:136)
گذشتہ جمعے ماہ شعبان کی اہمیت و فضیات کا ذکر ہورہا تھا، کہ جسے ایک حیثیت سے ماہ استقبال رمضان بھی کہہ سکتے ہیں اور ایک حیثیت سے Fiscal Year ، یعنی مالی سال کا انتقامی مبینہ بھی کہا جا سکتا ہے، کہ جس میں مالی معاملات کا حساب و کتاب رپورٹ ہوتا ہے۔ کیلنڈر سال تو جنوری فرسٹ سے، دسمبر ۳۱ تک ہوتا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مگر امریکا میں Federal Fiscal Year (وفاقی مالی سال ) اکتو بر فرسٹ سے ستمبر30 تک ہوتا ہے، جس میں Revenues Report ہوتے ہیں۔
کچھ ایسے ہی اسلامی سالانہ کیلنڈر یوں تو محرم سے ذوالحجہ تک ہوتا ہے، مگر آدمی کی حقیقی آمدنی نیکیوں اور گناہوں کے حساب سے Revenues and Expenses ، نفع و نقصان رپورٹ کرنے کا سال گویا رمضان سے شعبان تک ہوتا ہے۔
تو شعبان میں پورے سال کے Revenues and Expenses رپورٹ ہوتے ہیں۔ شعبان کے اس مہینے میں کہ جس میں ہمارے سال بھر کا نفع و نقصان رپورٹ ہونے جا رہا ہے، ہم اپنے Revenues میں کتنا اضافہ کر سکتے ہیں، یہ اللہ تعالی کے فضل کے بعد ہماری کوشش اور سمجھ پر منحصر ہے، کہ ہم اس کی اہمیت کو کتنا سمجھے ہیں، کیا ہم نفع میں اضافہ اور نقصان میں کمی کو ضروری سمجھتے ہیں کہ نہیں۔ اور اس بارے میں ہم کیا سمجھتے ہیں!
ہمارے طرز عمل سے اس کا اظہار ہوتا ہے، ماہ شعبان کی فضیلت اور اہمیت جان لینے کے بعد کیا ہم نے اس سے مستفید ہونے کی کوئی عملی کوشش کی! ہم میں سے ہر شخص اپنے بارے میں خوب جانتا ہے۔
ان مہینوں کی اہمیت کی سمجھ ہمیں کیوں نہیں آتی ، اور اگر آتی ہے تو ہم اس سے مستفید ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو ہماری کوششیں بے جان کھوکھلی اور سرسری کی کیوں ہوتی ہیں، ان میں جوش و جذبہ اور ولولہ اور ذوق و شوق نظر کیوں نہیں آتا، اور ان کوششوں کا اثر ہماری زندگیوں پر کیوں نہیں ہوتا! یہ بات ہمارے لیے قابل فکر اور باعث تشویش ہونی چاہیے۔ اس معاملے پر غور و فکر کے بعد جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ دین ہمارے قلوب و اذہان میں گھر نہیں کر سکا، پیوست نہیں ہوا۔
اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دین کے دل و دماغ میں گھر کر جانے اور محض زبان پر جاری ہونے میں ایک واضح فرق ہے، جو کہ آدمی کے طرز زندگی پر ایک دوسرے سے مختلف اثر رکھتا ہے۔
چنانچہ قرآن پاک اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ:
﴿قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْ ؕ ﴾(الحجرات:14)
’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہوا ایمان نہیں لائے ، بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ، ایمان ابھی تمھارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ۔‘‘
زبان سے کلمہ شہادت کہہ دیا، مسلمان ہونے کا اقرار کر لیا تو مسلمان ہو گئے ، ظاہری اعمال، نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ ادا کرنے شروع کر دیئے ، مگر ایمان کی منزلیں طے کرنا ابھی باقی ہے۔
اس لیے مسلمان ہوتے ہی دعوائے ایمان کر ڈالنا، ایسے مقام پر فائز ہونے کا دعوی ہے، جس پر پہنچنا جان جوکھوں میں ڈالتا ہے، جس کے لیے محنت شاقہ درکار ہے، آزمائشوں سے گزرنا باقی ہے۔
﴿اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ؕ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰهِ ؕ اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ۲۱۴﴾ (البقره:214)
’’تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت کا داخلہ مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے، ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا کر رکھ دیئے گئے حتی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ۔‘‘
اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾ (العنكبوت:2)
’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ: ہم ایمان لائے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟‘‘
﴿وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِیْنَ۳﴾ (العنكبوت :3)
’’ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں، اللہ کو تو ضرور یہ دیکھتا ہے کہ بچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘
تو اگر ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے حج اور ہماری زکاتیں ہمارے طرز عمل ہمارے رویوں اور ہماری زندگیوں میں انقلاب نہیں لاسکے، ہمارے رہن سہن ، کاروبار، معاملات اور تمام امور میں تبدیلی پیدا نہیں کر سکے، تو مطلب واضح ہے کہ دین ہمارے دل ودماغ میں جاگزیں نہیں ہوا، راسخ نہیں ہوا، اترا نہیں ہے، جما نہیں ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری یہ عبادات جو ہماری دنیا کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں ، کیا آخرت میں نجات کا باعث ہو سکتی ہیں!
یہ بات ہم سب کے لیے قابل غور ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن پل صراط عبور کر جانے والے جب دیکھیں گے کہ انھوں نے پل صراط پار کر لیا ہے! اور پل صراط پار کرنا آپ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن کا انتہائی خطرناک اور خوفناک مرحلہ اور منظر ہے، حدیث میں ہے کہ پل صراط پھسلتے اور گرنے کی جگہ ہے۔ پل صراط بال سے زیادہ بار یک اور تلوار سے زیادہ تیز ہوگا، پل صراط پر کانٹے اور کنڈے بھی ہوں گے اور اندھیرا بھی ہوگا۔
لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق روشنی دی جائے گی، کچھ لوگ پلک جھپکنے کی مدت میں پل صراط پار کریں گے، کچھ ہوا کی تیزی سے بعض پرندوں کے اڑنے کی تیزی سے، بعض گھوڑوں کے دوڑنے کی تیزی سے اور بعض اونٹوں کے چلنے کی رفتار سے پار کریں گے۔ بعض خیر وعافیت سے صحیح سالم پار ہو جائیں گے، بعض کرتے پڑتے ٹھوکریں کھاتے گزر جائیں گے اور بعض جہنم میں گر جا ئیں گے۔ اعاذنا الله منها .
تو لوگ جب پل صراط پار کر لیں گے۔
((وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا))
’’جب وہ دیکھیں گے کہ وہ بچ نکلے ہیں ۔‘‘
((فِي إِخْوَانِهِم يَقُولُونَ))
’’وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں اللہ تعالی کے حضور عرض کریں گے ۔‘‘
((ربَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ معنا، ويَصُومُونَ معنا ويعملون معنا))
’’اے ہمارے رب! ہمارے بھائی جو ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے، ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، ہمارے ساتھ نیک عمل کیا کرتے تھے یعنی وہ نظر نہیں آرہے!‘‘
((فَيَقُولُ اللهُ تَعَالَى اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيْمَانِ فَأَخْرِجُوهُ)) (صحيح البخاري: 7439)
’’ تو اللہ تعالی فرمائیں گے، جاؤ، جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے نکال لے آؤ۔‘‘
تو بات ہو رہی تھی کہ ہماری نمازیں اور روزے اور دیگر عبادات ہماری زندگی پر کوئی اثر کیوں نہیں چھوڑ تھیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ دین ہمارے رگ وپے میں سرایت نہیں کیا، سمایا نہیں ہے۔
ہماری عبادات ایک کھوکھلی اور بے روح عبادات ہوتی ہیں محض بے ساختہ اور بے ارادہ سرزد ہونے والی حرکات و سکنات ہوتی ہیں، ان میں خشوع و خضوع نہیں ہوتا، ان کے پیچھے کوئی عقیدہ، کوئی نظریہ کار فرما نہیں ہوتا، کوئی خصوصی پہچان اور شناخت نہیں ہوتی۔
عقیدہ اور نظریہ آدمی کی حقیقی شناخت اور پہچان ہے، گہرے اور مضبوط عقیدے کی بنیاد پر جو عمل ادا ہوتا ہے، مضبوط عقیدہ جب آدمی کو کسی عمل پر آمادہ کرتا ہے تو وہ عمل اللہ تعالی کے ہاں قدر و قیمت پاتا ہے اور وہ عمل آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اس کی زندگی میں
انقلاب پیدا کرتا اور آخرت میں نجات کا باعث بنتا ہے۔
تو آدمی کا عقیدہ ہی اس کی اصلی اور حقیقی پہچان اور شناخت ہے، اور آدمی کی پہچان ہی اسے دوسروں سے ممتاز کرتی اور منفرد بناتی ہے۔
آدمی کی پہچان کیا ہوتی ہے؟ دنیا کے معاشرتی نظام میں تو آدمی کی پہچان اور شناخت کا مطلب ، اس کا نام، پتہ ، تاریخ پیدائش اور شہریت وغیرہ جیسی معلومات ہوتی ہیں جو کہ ID پر درج ہوتی ہیں مگر آدمی کی حقیقی شناخت اور ID: اس کا عقیدہ، اس کے اخلاق ، اس کی صفات اس کا طرز زندگی، اس کا رہن سہن اور اس کے معاملات ہوتے ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی کہ آدمی کی حقیقی پہچان: اس کی عادات ، اس کی صفات ، اس کا طرز زندگی اور اس کے معاملات ہوتے ہیں، جن کی بنیاد کسی نہ کسی عقیدے اور نظریئے پر ہوتی ہے اور اپنی پہچان متعین کرنا اور اس پر قائم رہنا کامیابی ، عزت اور سنجیدگی کی دلیل ہے۔
مگر آج ہم اپنی پہچان ظاہر کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اور اسے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے حلیے ، اپنے لباس اور اپنے نام سے ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ ہماری پہچان کیا ہے، اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں، ہر آدمی اس کا مشاہدہ کرتا ہے، اور بعض تو اپنی شناخت چھپانے کے لیے اس حد تک آگے نکل جاتے ہیں کہ صرف Nickname کی حد تک نہیں بلکہ اپنا اصلی نام بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ ایک شخص جو کبھی کبھی اس مسجد میں نماز پرھنے بھی آتا ہے جب سٹیزن ہوا تو اس نے اپنا اسلامی نام بدل کر David Smith رکھ لیا۔ اب مشکل یہ آپڑی کہ جب کبھی وہ اپنے آبائی ملک جاتا ہے تو اسے ائیر پورٹ پر بارہ بارہ گھنٹے روک کر پوچھ گچھ کی جاتی ہے، کہ تمھارے ملک میں یہ نام بھی نہیں سنا، پھر تم نے یہ نام کیوں رکھا ہے، اسے یہ نام رکھنے کی جسارت کیوں ہوئی ؟ اس لیے کہ وہ اپنی پہچان کھو بیٹھا ہے، اس کا کوئی عقیدو اور نظر یہ نہیں رہا۔
اغیار نے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جو جال بن رکھا ہے، اس میں مسلمانوں کی پیچان منانا ، عقیدہ اور نظر یہ ختم کرنا اور ان کی دین و مذہب سے وابستگی ختم کرنا سر فہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہوتا چلا جارہا ہے ایسے دین اور ایسی عبادات سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جن کا عقیدے سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہو۔ اب مثال کے طور پر اگر کوئی شخص نمازیں پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور ساتھ ناچنے گانے کو بھی جائز سمجھتا ہو، بلکہ ناچنے گانے کے پروگرامز کو فنڈنگ بھی کرتا ہو، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص کی نمازوں کا عقیدے سے کوئی تعلق رہ سکتا ہے؟
تو جب ہماری عبادات عقیدے اور ایمان کی بنا پر نہیں ہوں گی ، صرف ایک عادت کے طور پر ہوں گی ، تو وہ ہماری زندگیوں میں ہرگز کسی مثبت تبدیلی کا باعث نہیں بن سکیں گی۔ چنانچہ رمضان المبارک کے روزے جو کہ مسلمانوں پر فرض ہیں اس سے پہلے بھی تمام قوموں پر فرض رہے ہیں ، اب مسلمانوں پر فرض ہیں اور مسلمانوں کو ہی مخاطب کیا جارہا ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ﴾ (البقره:183)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے، یعنی گذشتہ انبیاء کے پیرووں پر فرض کئے گئے، تاکہ تم میں تقومی پیدا ہو۔‘‘
اللہ تعالی کے اس فرمان کے بعد کوئی مسلمان روزے رکھتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس عقیدے کی بنا پر ہی روزے رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرض کر رکھے ہیں ۔
مگر اس کے باوجود آپ ﷺکا یہ فرمانا کہ:
((مَنْ صَامَ رَمْضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (صحیح البخاری:38)
’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔‘‘
یعنی وہ ایمان جو دل کی گہرائیوں میں جایا ہو، دل و دماغ میں پیوست ہو گیا ہو، جو نیکی پر ابھارتا ہو، جو روزوں کا ذوق اور شوق پیدا کرتا ہو، جو دل میں چاہت خواہش اور تڑپ پیدا کرتا ہو، جو انسان کو خشوع و خضوع پر مجبور کر دے، محض سرسری اور بھی ایمان نہیں، کہ جو صرف ایک عادت کے طور پر روزے رکھنے پر آمادہ کر سکے، بلکہ وہ ایمان کہ جو روزے اس کی شرائط اور لوازمات کے مطابق رکھنے پر آمادہ کر سکے۔
چنانچہ آپ سے امام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو مختلف نیک کاموں کی ترغیب دیتے ہوئے عقیدہ آخرت کی شرط لگاتے ، جیسا کہ فرمایا:
((مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْلِيَصْمُتْ))(صحيح البخاری:6018)
’’جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘
ہر مسلمان یقینًا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، مگر یہاں وہ ایمان مراد ہے جو دل و دماغ میں رچا بسا ہو، صرف زبان پر نہ ہو۔
تو ہماری عبادات کا ہماری زبان، ہماری آنکھ، ہمارے کاروبار، ہمارے رہن سہن اور ہمارے رویوں پر اثر نہ ہونے کی وجہ یوم آخرت پر ایمان اتنا کمزور ہونا ہے کہ جو پستی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں حقیقی ایمان کی چاشنی سے آشنا کر دے ۔ آمین
………………………