حشر و نشر کا بیان

1133۔ سیدنا عمرو بن عبسہ  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول ! اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:

((أنْ يُّسْلِمَ قَلَبُكَ لِلهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنْ يُسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَالِكَ وَيَدِكَ))

’’اسلام یہ ہے کہ تیرا دل اللہ عز وجل کے لیے مطلع ہو جائے اور مسلمان تیری زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں۔‘‘

اس نے پوچھا: تو پھر کون سا اسلام افضل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ((الایمان)) ’’ایمان‘‘

اس نے پوچھا: ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((تُؤْمِنْ بِاللهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ))

’’ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ پر، اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لائے اورموت کے بعد اٹھائے جانے پر یقین رکھے ۔‘‘

1134۔  سید نا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:

((اَلصَّوْرُ قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيه)) (أخرجه أحمد:17027)

’’صور ایک سینگ ہے جس میں پھونک ماری جائے گی۔‘‘

1135۔  سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((كَيْفَ أَنْعَمُ؟ وَصَاحِبُ الْقَرْنِ قَدِ التَقَمَ الْقَرْنَ، وَاسْتَمَعَ الْأُذُنَ مَتٰى يُؤْمَرُ بِالنَّفْخِ فَيَنْفُحُ

 (أخرجه أبو داود:4742، والترمذي: 2430، 3244)

’’میں خوش و خرم کیسے رہوں جبکہ صور پھو نکنے والا فرشتہ صور کو لقمہ بنا چکا ہے اور اپنی پیشانی جھکائے ہوئے، اپنے کان لگا کر اس انتظار میں ہے کہ صور پھونکے کا حکم دیا جائے تو وہ صور پھو نکے۔‘‘

 مسلمانوں نے کہا، (اس پریشانی کے عالم میں ) ہم کیا کہیں، اللہ کے رسول ؟  آپ ﷺنے فرمایا:

((قُولُوْا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ، عَلَى اللهِ تَوَكَّلْنَا))

’’تم کہو اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔ ہم نے اللہ پر توکل و بھروسا کیا۔‘‘

 توضیح و فوائد: اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ صور پھو نکنے کے لیے مقرر فرما رکھا ہے۔ وہ نرسنگھا لے کر اس میں پھونک مارنے کے لیے  بحالتِ رکوع اللہ کے حکم کا مسلسل منتظر ہے کہ کب اسے حکم ہو اور وہ صور میں پھونک مار کر قیامت برپا کر دے۔

1136۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا قَالَ وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ قَالَ فَيَصْعَقُ وَيَصْعَقُ النَّاسُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللَّهُ مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوْ الظِّلُّ نُعْمَانُ الشَّاكُّ فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ ثُمَّ يُقَالُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ ))(أخرجه مسلم: 2940)

’’صور پھونکا جائے گا، جو بھی اسے سنے گا وہ گردن کی ایک جانب کو جھکائے گا اور دوسری جانب کو اونچا کرنے کا  (گردنیں ٹیڑھی ہو جائیں گی)۔ سب سے پہلا شخص جو اسے سنے گا وہ اپنے اونٹوں کے حوض کی لپائی کر رہا ہوگا۔ وہ بے ہوش کر گر جائے گا اور دوسرے لوگ بھی گر (کر مر ) جائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی ایک بارش نازل فرمائے گا جو ایک پھوار کے مانند ہوگی یا سایے کی طرح ہوگی۔ اس سے انسانوں کے جسم اگ آئیں گے۔ پھر صور میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تو وہ سب لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے (زندہ ہو جائیں گے)۔ پھر کہا جائے گا: لوگو!  اپنے پروردگار کی طرف آؤ۔  اور فرشتوں سے کہا جائے گا ۔ ان کو لا کھڑا کرو، ان سے سوال پوچھے جائیں گے۔‘‘

1137۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا:

((مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ)) ’’ دو بار صور پھونکنے کے درمیان چالیس کا وقفہ ہوگا۔‘‘

 لوگوں نے کہا: ابوہریر ہ!  چالیس دن؟ انھوں نے کہا: میں چالیس دن کی تعیین نہیں کرتا۔ لوگوں نے کہا: چالیس مہینے ؟ انھوں نے کہا: میں چالیس مہینوں کا تعین نہیں کرتا۔ لوگوں نے کہا: چالیس سال؟ انھوں نے کہا: میں یہ بھی متعین نہیں کر سکتا کہ چالیس سال ہوں گے۔

((ثُمَّ يُنْزِلُ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ كَمَا يَنْبُتُ البَقْلُ))

’’پھر اللہ تعالی آسمان سے پانی نازل فرمائے گا تو لوگ اس طرح آئیں گے جس طرح سبزہ اگتا ہے۔‘‘

انھوں نے کہا:

((وَلَيْسَ مِنَ الْإِنْسَانٍ شَيءٌ إِلَّا يَبْلٰی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرْكَبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)) (أخرجه البخاري:4935، و مسلم:2955، واللفظ له)

’’اور انسان کا کوئی حصہ نہیں مگر وہ بوسیدہ ہو جائے گا، سوائے ایک بڑی کے۔ وہ دمچی کی ہڈی کا آخری حصہ ہے۔ قیامت کے دن اس سے خلقت کی ترکیب مکمل ہوگی۔‘‘

توضیح و فوائد: قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تین صور پھو نکے جائیں گے۔ پہلے صور کے بعد لوگ گھبرا جائیں گے، دوسرے صور کے بعد سب لوگ بے ہوش ہو کر گر جائیں گے اور تیسری دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد تمام لوگ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور وہاں سے حشر کے میدان میں پہنچ کر جمع ہو جائیں گے جس کی کیفیت حدیث:1136 میں بیان کی گئی ہے۔ ہر صور سے دوسرے صور کے درمیان وقفے کے بارے میں نبی ﷺ نے چالیس کا لفظ بولا۔ اس سے چالیس دن، مہینے یا سال مراد ہو سکتے ہیں۔ کسی ایک کا تعین نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے۔

1138۔ سیدنا سہل بن سعد  رضی الللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

((يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى أَرْضٍ بَيْضَاءَ عَفْرَاءَ كَقُرْصَةِ النَّقِيِّ لَيْسَ فِيهَا عِلْم﷩ٌ لِأَحَدٍ)) (أخرجه البخاري:6521، ومسلم:2790 واللفظ له

’’قیامت کے دن لوگوں کو غبار کی رنگت ملی۔ سفید زمین پر اکٹھا کیا جائے گا جیسے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی ہوتی ہے اور اس زمین میں کسی شخص کے لیے کوئی علامت موجود نہیں ہوگی ۔

توضیح و فوائد: روز محشر زمین تمام بوجھ نکال دے گی اور بالکل کورے صاف کپڑے کی طرح ہوگی۔ زمین کے پیٹ میں موجود تمام انسان مخلوقات اور معد نیات وغیرہ باہر آ جائیں گی ۔ تمام انسان بے لباس پیدائشی حالت میں بغیر ختنہ کے میدان محشر میں اکٹھے ہوں گے جیسا کہ حدیث: 1139 میں  بتایاگیاہے۔ روز ِمحشر اس قدر شدید ہولنا کی ہوگی کہ کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوگی۔ سب کے ہوش اڑے ہوئے ہوں گے۔

1139۔ سید نا ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((تُحْشَرُونَ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَرَأَ ﴿كَمَا بَدَأْنَا أَوْلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ﴾ فَأَوَّلُ مَنْ يُكْسٰى إِبْرَاهِيمُ)) (أخرجه البخاري:3447، و مسلم:2860(58)

’’(قیامت کے دن ) تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے بدن اور ختنے کے بغیر اٹھائے جاؤ گے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’جس طرح ہم نے انھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم دوبارہ بھی پیدا کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے جسے ہم ضرور پورا کریں گے۔‘‘ سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔‘‘

1140۔ سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَكُونَ أَوَّلَ مَن تَنْشَقُّ عَنهُ الْأَرْضُ، فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخَذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِى أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ أَمْ حُوسِبَ بِصَعْقَةِ الأُوْلٰى)) (أخرجه البخاري:2412)

’’قیامت کے دن جب سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے تو سب سے پہلے جس کی قبر کھلے گی وہ میں ہوں گا۔ میں دیکھوں گا کہ موسی علیہ السلام عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ وہ بے ہوش ہونے والوں میں سے تھے یا ان کی پہلی بے ہوشی ہی ان کے حق میں شمار کر لی گئی ۔‘‘

1141۔  سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کافر کا چہرے کے بل کیسے حشر کیا جائے گا؟ آپ ﷺنے فرمایا:

((أَلَيْسَ الَّذِي أَمْشَاهُ عَلٰى رِجْلَيْهِ فِي الدُّنْيَا قَادِرًا عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُ عَلٰى وَجْهِهِ يَوْمَ القِيَامَة)) (أخرجه البخاري:4760، 6523، ومسلم:2806)

’’کیا وہ ذات جس نے اسے دنیا میں دونوں پاؤں پر چلایا ہے اسے قدرت نہیں کہ اسے قیامت کے دن چہرے کے بل چلا دے؟‘‘

 توضیح و فوائد:  کا فرمنہ کے بل چلتے ہوئے حشر کے میدان میں آئیں گے۔ یہ ان کی ذلت کی علامت ہوگی۔