حوض اور ترازو کا بیان

1151۔  سیدنا عبد الله بن عمرو بن عاص  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺنے فرمایا:

((حَوْضِي مَسِيرَةُ شَهْرٍ مَاؤُهُ أَبْيَضُ مِنْ اللَّبَنِ وَرِيحُهُ أَطْيَبُ مِنْ الْمِسْكِ وَكِيزَانُهُ كَنُجُومِ السَّمَاءِ مَنْ شَرِبَ مِنْهَا فَلَا يَظْمَأُ أَبَدًا)) (أخرجه البخاري:6579، ومسلم:2292 واللفظ له)

 ’’میرا حوض (لمبائی چوڑائی میں) ایک ماہ کی مسافت کے برابر ہے اور اس کے (چاروں) کنارے برابر ہیں (مربع ہے)۔ اس کا پانی چاندی سے زیادہ چمکدار اور اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ معطر ہے۔ اس کے کوزے آسمان کے ستاروں جتنے ہیں۔ جو شخص اس میں سے پیا لے گا۔ اسے اس کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔‘‘

توضیح و فوائد: حشر کے میدان میں جب سورج ایک میل کے فاصلے پر ہو گا اور ان پچاس ہزار سال کا ہوگا تو اس زبردست تپش میں لوگوں کو اس قدر شدت سے پیاس لگے گی کہ وہ اپنے کرب و الم سے عاجز آ کر حساب شروع ہونے کی التجا کریں گے۔ ایسے حالات میں اللہ تعالی ایمان والوں کی داد رسی فرمائے گا، ہرنبی کو ایک حوض عطا کرے گا ، سب نبی اپنے اپنے امتیوں کو پانی پائیں گے۔ رسول اکرم ﷺ کا حوض سب ب سے بڑا ہوگا اور اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہوگی۔ جو ایک مرتبہ اس  حوض سے پیا لے گا اسے بھی پیاس نہیں آئے گی۔ حوض اور کوثر میں فرق یہ ہے کہ کوثر سے مراد  وہ نہر ہے جس کی اصل جنت میں ہے اور حوض پانی جمع ہونے کی وہ جگہ ہے جو میدان محشر میں ہو گا اور

اس میں کوثر ہی سے پانی آ رہا ہوگا۔

1152۔  سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((إنَّ قَدْرَ حَوْضِي كَمَا بَيْنَ أَيْلَةَ وَصَنْعَاءَ مِنَ الْيَمَنِ، وَإِنَّ فِيهِ مِنَ الْأَبَارِيقِ كَعَدَدِ نُجُومِ السَّمَاءِ)) (أخرجه البخاري:6580، ومسلم:2303)

’’بلاشبہ میرے حوض کی لمبائی اتنی ہو گی جتنی ایلیہ اور میمن کے شہر صنعاء کے درمیان کی لمبائی ہے۔ یقینًا وہاں اتنی زیادہ تعداد میں آبخورے ہوں گے جتنی آسمان کے ستاروں کی تعداد ہے۔‘‘

 توضیح وفوائد: اس سے مراد حوض کی وسعت ہے مخصوص پیائش مقصودنہیں ۔ آپ ﷺنے سائل کے فہم کے مطابق اس کی وسعت بتا دی۔ کبھی علاقوں کا ذکر کر کے اور کبھی دنوں کی مسافت بتا کر اس کا طول و عرض واضح کر دیا۔

1153۔ سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا:

(( أَنَا أَسِيرُ فِي الْجَنَّةِ إِذَا أَنَا بِنَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ الدُّرِّ الْمُجَوَّفِ قُلْتُ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ رَبُّكَ فَإِذَا طِينُهُ أَوْ طِيبُهُ مِسْكٌ أَذْفَرُ)) (أخرجه البخاري:6581)

’’میں جنت کی سیر کرتے کرتے ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے گنبد بنے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا: جبریل! یہ کیا ہے ؟ انھوں نے بتایا کہ یہ کوثر ہے جو آپ کو آپ کے رب نے دی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کی خوشبو یا مٹی تیز مسک جیسی تھی۔‘‘

1154۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((ما بَيْنَ بَيْنِي وَمِنْبَرِى رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِى عَلٰى حَوضِي)) (أخرجه البخاري:6588، و مسلم:1390)

’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا حصہ جنت کے پاغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہوگا ۔‘‘

توضیح وفوائد: اس حدیث کے مفہوم کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ گھر سے منبر تک کا حصہ جنت میں منتقل کر دیا جائے گا اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہو گا اور آپ ﷺکا منبر آپ کے حوض پر منتقل کر دیا جائے گا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس جگہ قیام، نماز اور اطاعت کے امور نبھا لانا جنت کے باغ میں لے جانے کا باعث ہے۔ مزید برآں آپ ﷺکے منبر کے پاس اعمال صالح کرنا یا اس جگہ تلاوت کیے گئے قرآن کے احکام پر عمل کرنا حوض کوثر سے فیض یاب ہونے کا ذریعہ بنے گا۔

1155۔ سیدنا اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا:

((إِنِّي عَلَى الْحَوْضِ حَتَّى أَنْظُرَ مَنْ يَرِدُ عَلَيَّ مِنْكُمْ وَسَيُؤْخَذُ نَاسٌ دُونِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ مِنِّي وَمِنْ أُمَّتِي فَيُقَالُ هَلْ شَعَرْتَ مَا عَمِلُوا بَعْدَكَ وَاللَّهِ مَا بَرِحُوا يَرْجِعُونَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ))(أخرجه البخاري: 6593، 7048، و مسلم:2293)

’’میں حوض پر موجود ہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون میرے پاس آتا ہے، پھر کچھ لوگوں کو مجھ سے الگ کر دیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب ! یہ تو میرے آدمی اور میری امت کے لوگ ہیں۔ مجھ سے کہا جائے گا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا کام کیے تھے اللہ کی قسم! یہ مسلسل الٹے پاؤں لوٹتے رہے۔‘‘

توضیح و فوائد: بعض روایات میں ’’اصحابی‘‘ کے الفاظ ہیں۔ لیکن اس سے مراد امتی ہی ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا روایت میں ہے۔ اگر لفظ صحابی کو اس کے اصطلاحی معنی پر محمول کیا جائے تو اس سے مراد مرتدین ہوں گے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ..التذکرہ‘‘میں کہا ہے کہ اس سے مراد مرتد ہونے والے پاکسی بھی دور میں بدعت کو رواج  دینے والے لوگ ہیں، جیسے خوارج، معتزلہ اور دیگر بدعتی گروہ۔

1156۔ سیدنا ابو مالک اشعری  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((اَلطَّهُورُ شَطْرُالْإِيْمَانِ، وَالْحَمْدُ لِله تَملَأُ الْمِيزَانَ، وَسُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تملآن أو تَمْلأُ مَا بَيْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ. والصَّبْرُ ضِيَاءٌ ، وَالْقُرْآنَ حَجَّةٌ لكَ أَوْ عَلَيْكَ . كُلَّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَايِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا أَوْ مُوبِقُهَا))(أخرجه مسلم:223)

’’پاکیزگی نصف ایمان . ہے۔ الحمد  للہ ترازو کو بھر دیتا ہے۔ سُبْحَانَ اللہ اور الحمد الله آسمانوں سے زمین تک کی وسعت کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے۔ صدقہ دلیل ہے۔ صبر روشنی ہے۔قرآن تمھارے حق میں یا تمھارے خلاف حجت ہے۔ ہر انسان دن کا آغاز کرتا ہے تو ( کچھ اعمال کے عوض) اپنا سودا کرتا ہے، پھر یا تو خود کو آزاد کرنے والا ہوتا ہے یا خود کو تباہ کرنے والا ۔‘‘

1157-  سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا:

((كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ)) (أخرجه البخاري:6406، 6682،7563، و مسلم:2694)

دوکلمے زبان پر ہلکے، ترازو میں وزنی اور اللہ رحمان کو بہت پیارے ہیں۔ وہ یہ ہیں: پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ۔ پاک ہے اللہ جو بہت عظمت والا ہے۔‘‘

1158۔ سیدنا عبد الله بن عمرو  رضی اللہ تعالی عنہ حدیث بطاقہ میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((فَإِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا فِيهِنَّ لَوْ وُضِعَتْ فِي كِفَّةِ الْمِيزَانِ ، وَوُضِعَتْ لَا إِلَهَ إِلَّا الله في الكِفَّةِ الْأُخْرَى، كَانَتْ أَرْجَحَ مِنْهُمَا)) (أخرجه أحمد:6583 والحاكم49/1)

’’بلاشبہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے اگر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں اور لا الہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو وہ بھاری ہو جائے گا۔‘‘

1159۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ  نے رسول اللہﷺ سے روایت کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّهُ لَيَأْتِي الرَّجُلُ الْعَظِيمُ السَّمِينُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَزِنُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ وَقَالَ اقْرَءُوا فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا)) (أخرجه  البُخَارِي: 4729، ومُسْلِمٌ:2785)

’’بلاشبہ قیامت کے دن ایک آدمی قد آور اور موٹا تازہ آئے گا جس کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے برابر بھی وزن نہ ہوگا، (اگر اس کی تصدیق کرنا چاہو تو یہ آیت پڑھ لو: ’’ہم قیامت کے ان کے لیے کوئی وزن قائم نہیں کریں گے۔‘‘

1160۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ پیلو کی مسواک کاٹ رہے تھے اور ان کی  پنڈلیاں بار یک تمھیں تو ہوا انھیں ادھر ادھر جھُکانے تھی۔ یہ دیکھ کر لوگ  ہنسنےلگے تو رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ((ممَّ تَضحَكُونَ ؟)) ’’ تم کیوں ہنستے ہو؟‘‘

انھوں نے عرض کی: اللہ کے نبی ! ان کی باریک پنڈلیوں کی وجہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ((وَالَّذِی نَفْسِی بِيْدِهِ!  لَهُمَا اَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ أُحُدٍ)) (أخرجه أحمد:3991، والطيالسي:355، والبزار:2678، وأبو يعلى:5210، 5365، والشاشي:661، والطبراني في الكبير:8452)

’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!  وہ دونوں قیامت کے دن تر از و میں احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوں گی۔‘‘

توضیح وفوائد: میزان سے مراد ترازو ہے جس کے دو پاٹ ہوں گے۔ لیکن وہ اس قدر حساس ہو گا کہ ذرات تک کا وزن بھی صاف بتا دے گا۔ اس میں انسان کے اچھے برے بھی اعمال تو لے جائیں گے۔ کلمات کا بھی وزن ہوگا، جن صحیفوں میں اعمال لکھتے ہوں گے ان کا بھی وزن ہوگا اور انسانوں کو بھی تو لا جائے گا حتی کہ اس ترازو میں یہ صلاحیت بھی ہوگی کہ وہ دل میں موجود اخلاص کا وزن بھی تو لے گا۔

حساب کتاب کے بعد اعمال تو لے جائیں گے تاکہ ان کے اعمال کے مطابق جزا و سزا دی جاسکے، تاہم جن نیک لوگوں پر اللہ تعالی کا خصوصی فضل و کرم ہوگا، ان کے اعمال تولے بغیر ہی انھیں بلا حساب کتاب جنت کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔