علم نجوم کی ممانعت

814۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَا اقْتَبَسَ رَجُلٌ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، إِلَّا اقْتَبَسَ بِهَا شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ، مَا زَادَ زَادَ)) ((أخرجه أحمد: 2000، وأبو داود: 3905، وابن ماجه: 3726)

’’جس شخص نے جتنا علم نجوم سیکھا اس نے اس حساب سے تھوڑا یا زیادہ جادو کا حصہ سیکھا۔‘‘

 توضیح و فوائد: مشرکین یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ستارے انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہر انسان کا مقدر ستاروں سے وابستہ ہے، اس لیے وہ ستاروں کے علم کی آڑ میں علم غیب کا دعوی کرتے تھے، اسلام  نے اس علم کو حرام قرار دے کر اسے جادو کی ایک قسم قرار دیا اور صاف بتلا دیا کہ یہ محض ایک شیطانی کھیل ہے۔ ستارے نہ انسان سے متاثر ہوتے ہیں، نہ انسانی زندگی پر کسی ستارے کے طلوع یا غروب کا کوئی اثر پڑتا ہے، تاہم ستاروں کا وہ علم جس میں سمندری سفر میں رہنمائی لی جاتی ہے یا موسم کے بارے میں معلومات حاصل کی جاتی ہیں تو وہ یقینًا مفید ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

815۔ سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں میں سے ایک انصاری نے مجھے بتایا کہ ایک بار وہ لوگ رات کے وقت رسول اللہﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ ٹوٹا اور اس سے فضا روشن ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:

((مَاذَا كُنتُمْ تَقُولُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا رُمِيَ بِمِثْلِ هَذَا؟))

’’دور جاہلیت میں جب اس طرح ستارے ٹوٹتے تھے تو تم لوگ کیا کہتے تھے؟‘‘

لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جاننے والے ہیں۔ ہم تو کہا کرتے تھے کہ آج رات کسی عظیم انسان کی ولادت ہوئی ہے اور کوئی عظیم انسان فوت ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((فَإِنَّهَا لَا يُرْمَى بِهَا لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلَكِنْ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى اسْمُهُ، إِذَا قَضٰى أَمْرًا سَبَّحَ حَمَلَةُ الْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَّحَ أَهْلُ السَّمَاءِ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، حَتَّى يَبْلُغَ التَّسْبِيحُ أَهْلَ هُذِهِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ الَّذِينَ يَلُونَ حَمَلَةَ الْعَرْشِ لِحَمَلَةِ الْعَرْشِ مَاذَا قَالَ رَبِّكُمْ فَيَخْبِرُونَهُم مَاذَا قَالَ. قَالَ: فَيَسْتَخْبِرُ بَعْضُ أَهْلِ السَّمَاوَاتِ بَعْضًا، حَتَّى يَبْلُغَ الْخَبَرُ هَذِهِ السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَتَخْطَفُ الْجِنُّ السَّمْعَ . فَيَقْذِفُونَ إِلٰى أَوْلِيَائِهِمْ، وَيُرْمَوْنَ بِهِ. فَمَا جَاءُوا بِهِ عَلٰى وَجْهِهِ . فَهُوَ حَقٌّ، وَلَكِنَّهُمْ يَقْرِفُونَ فِيهِ وَيَزِيدُونَ)) (أخرجه مسلم:2229)

’واقعہ یہ ہے کہ یہ نہ کسی شخصیت کی موت پر ٹوٹتا ہے اور نہ کسی کی پیدائش پر بلکہ ہمارا رب، جس کا نام برکت والا اور اونچا ہے، جب کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش تسبیح کرتے ہیں، پھر ان سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح کرتے ہیںیہاں تک کہ وہ تسبیح کا ورد اس آسمان دنیا تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر حاملین عرش کے قریب کے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمھارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ وہ انھیں بتاتے ہیں کہ اس نے کیا فرمایا، پھر (مختلف) آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیںیہاں تک کہ وہ خبر دنیا کے اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے تو جن بھی جلدی سے اس کی کچھ ساعت اچکتے ہیں اور اسے اپنے دوستوں ( کاہنوں) کی طرف پھینکتے ہیں اور انھیں اس (ستارے) کے ذریعے سے نشانہ بنایا جاتا ہے، پھر جو خبر وہ جوں کی توں لے کر آتے ہیں وہ تو سچ ہوتی ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملاتے ہیں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔‘‘

816۔ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، وَلٰكِنَّهُمَا أَيْتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا)) (أخرجه البخاري: 1041، 1057، 3204، ومسلم:911)

’’سورج اور چاند کسی کے مرنے یا کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے بے نور نہیں ہوتے بلکہ یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دونشانیاں ہیں، جب تم انھیں اس حالت میں دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘

817۔ سیدنا انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:

((أَخَافُ عَلٰى أُمَّتِي بَعْدِى خَصْلَتَيْنِ: تَكْذِيبًا بِالْقَدْرِ، وَتَصْدِيقًا بِالنُّجُومِ)) (أخرجه أبو يعلى: 4135، وابن عساكر في تاريخه: 208، 207/23)

’’مجھے اپنے بعد اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا ڈر ہے: وہ تقدیر کو جھٹلائیں گے اور ستاروں  (کے علم) کی تصدیق کریں گے۔‘‘

818۔ سیدنا رجاء بن حیوہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

((أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلٰى أُمَّتِي فِي آخِرِ زَمَانِهَا، إِيمَانُ بِالنُّجُومِ، وَتَكْذِيبُ بِالْقَدْرِ،وَحِيفُ السُّلْطَانِ)) (أخرجه البخاري في التاريخ الكبير:148/1 والروياني في مسنده: 1245)

’’قرب قیامت مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خدشہ ہے وہ ہے ستاروں پر ایمان لانا تقدیر کو جھٹلانا اور حکمرانوں کا ظلم کرنا۔‘‘