انسان کی رحمان دوستی

ایمان و عمل ذریعہ سیادت و سعادت
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۷﴾(النحل:97)
خوشحال اور خوشگوار زندگی ہر انسان کی خواہش اور خواب ہے، یہ سب جانتے ہیں اور کسی کو اس حقیقت سے انکار نہیں، مگر خوشگوار زندگی کا مطلب کیا ہے! شاید بہت ہی کم لوگ اس سے واقف ہوں۔
لوگ عموماً خوشگوار زندگی کا مطلب سمجھتے ہیں: مال و دولت کی فراوانی نعمتوں، سہولتوں اور آسائشوں کا حصول ، صحت و تندرستی، آزادی خواہشات کا بر آنا، روکاوٹوں کا نہ ہوتا، عزت، شہرت، عہده و منصب، امارت و سیادت حکومت و اقتدار، بالا دستی اور سطوت، رعب و دبدیہ شان و شوکت، اور ہر وہ خواہش کہ جس سے نفس کو تسکین ملتی ہے، جسم کو راحت اور طبیعت کو خوشی ۔ اور یہ صحیح ہے کہ ان چیزوں کے حصول سے انسان کو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے، اور نفس کو تسکین ملتی ہے، مگر کیا ان چیزوں کے حصول ہی کا نام سعادت و خوش بختی اور خوشگوار زندگی ہے؟
یقینًا نہیں!
خوشگوار زندگی کی خواہش انسان کی فطری خواہش ہے، اور انسان کی یہ کمزوری ہے کہ اس کی کسی فطری خواہش کی اگر تکمیل نہ ہو تو وہ بے چین و بے قرار ہو جاتا ہے، سکون معدوم ہو جاتا ہے، اور وہ بے چینی بڑھ کر غصے اور غضب میں تبدیل ہو جاتی ہے، اور انسان یقینًا ہزاروں خواہشیں اپنے نہاں خانہ دل میں لیے پھرتا ہے، اور یقینًا اس کی تمام خواہشیں اس دنیا میں پوری نہیں ہوتیں تو پھر ایسے میں اسے بھلا کیونکر سکون اور چین مل سکتا ہے جب توسکون نفس میسر نہ ہو تو زندگی کیسے خوشگوار ہو سکتی ہے۔
تو اس نظریئے کی روشنی میں کہ جس میں متاع دنیوی کے حصول کو خوشگوار زندگی قرار دیا گیا ہو، خوشگوار زندگی اس دنیا میں محال ہے۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے خوشگوار زندگی کا وعدہ بھی فرما رکھا ہے اور وہ وعدہ مشروط ہے، اور شرط یہ ہے کہ:﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً﴾ (النحل:97)
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، ہم اسے دنیا میں خوشگوار اور پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔‘‘
تو وہ شرطیں ہیں: عمل صالح اور ایمان ۔
اور آج کی گفتگو میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ ایمان اور عمل صالح کا کیا مطلب ہے اور یہ کیونکر سعادت و خوش بختی اور خوشگوار زندگی کا باعث بنتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ جس طرح انسان کی فطرت میں بے شمار دنیوی خواہشات ہیں، اسی طرح دین کا حصول بھی اس کی فطری خواہش اور ضرورت ہے، دین انسان کی بنیادی ضرورت ہے، دین کے بغیر وہ سیدھی اور راست زندگی نہیں گزار سکتا اور دینداری انسان کا فطری مزاج ہے۔
کچھ لوگ دین کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ دل میں وہ اس کی ضرورت کے قائل ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا﴾ (النمل: 14)
’’انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راو سے ان نشانیوں کا انکار کیا، حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔‘‘
دوسری بات: انسان کی تمام فطری خواہشات جو دنیا سے متعلق ہیں وہ جب تک ساری کی ساری پوری نہ ہو جا ئیں سکون نہیں مل سکتا ، ہر خواہش کے پورا ہونے پر اک جزوی اور وقتی سکون تو ملتا ہے مگر مکمل سکون نہیں مل سکتا۔
مگر وہ فطری خواہش جو دین کے حصول سے متعلق ہے، اگر وہ حاصل ہو جائے تو اس میں یہ وصف اور خوبی موجود ہے کہ باقی تمام خواہشوں اور ضرورتوں کی محرومی کے باوجود انسان کو سکون مل سکتا ہے؟ اس کے عقلی نفلی اور واقعاتی دلائل موجود ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی نے دین کی موجودگی کو خوشگوار اور پاکیزہ زندگی کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اور ایسا کیوں ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کے لیے تو خوشگوار اور پاکیزہ زندگی کا وعدہ فرمایا اور کچھ کو محروم رکھا، حالانکہ کبھی اس کے بندے ہیں؟ تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں ایک اٹل اصول ہے کہ نیک اور بد برابر نہیں ہو سکتے، مسلم اور مجرم برابر نہیں ہو سکتے۔
﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ كَالْمُجْرِمِیْنَؕ۝۳۵
مَا لَكُمْ ۥ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ۝۳۶﴾( القلم:35)
’’کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کر دیں تمہیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے فیصلے کرتے ہو؟‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَ الْبَصِیْرُۙ۝۱۹
وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ۝۲۰
وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ۝۲۱
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ ؕ﴾ (فاطر: 19 تا 22)
’’اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہو سکتا، تاریکیاں اور روشنیاں برابر نہیں ہو سکتیں، ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہو سکتی اور زندہ اور مردہ برابر نہیں ہو سکتے ۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ؕ﴾ (الانعام:122)
’’کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور اسے ایک نور عطا فرمایا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے مشکل اس شخص کے ہے جس کی حالت یہ ہے کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جس سے نکل نہیں سکتا ؟‘‘
یہاں مومن اور کافر کی مثال بیان کی جا رہی ہے، مؤمن کو زندہ اور کافر کو مردہ قرار دیا گیا ہے، مومن اللہ تعالی کی طرف سے دی گئی روشنی میں لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، اس کے احکام کی روشنی میں زندگی گزارتا ہے، دوسری طرف وہ شخص جو جہالت و گمراہی کی تاریکیوں میں گھرا ہوا ہو، ان سے نکل نہ پاتا ہو، وہ دونوں بھلا کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ گویا کہ اصل زندگی ایمان کی زندگی ہے، دل کی زندگی ہے اور یہی وہ زندگی ہے جو خوش حالی اور تنگدستی میں فرق کرتی ہے، یہی وہ زندگی ہے جو خوشگوار اور ناخوش گوار زندگی کا احساس دلاتی ہے۔
﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ ۚ﴾ (الانعام:125)
’’ اللہ تعالی جس کی ہدایت کا ارادہ فرماتے ہیں اس کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں ۔‘‘
﴿وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ ﴾ (الانعام:125)
’’اور جسے گمراہ کرنا چاہتے ہیں اس کے سینے کو تنگ بھینچا ہوا کر دیتے ہیں گویا کہ اسے آسمان پر چڑ ھنا پڑھ رہا ہے۔‘‘
ورنہ وہ مادی زندگی کہ جس میں انسان کے ساتھ جانور بھی شریک ہیں، پاکیزہ اور مثالی زندگی نہیں قرار دی گئی۔ کیونکہ خوشگوار اور ناخوش گوار زندگی کا احساس عقل و شعور اور ایمان سے ہے، جسے ایمان کی دولت نصیب ہو اور عمل صالح کی توفیق ہو، وہ سعادت مند اور خوش بخت ہے چاہے وہ تمام مادی نعمتوں سے محروم ہو۔
جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
((من أصبح منكم آمنا في سربه))
’’تم میں سے جو شخص اپنے گھرانے میں امن و امان سے ہو۔‘‘
((معافی فی جسدہ))
’’جسمانی عافیت سے ہو۔‘‘
((عنده قوت يومه))
’’ اس کے پاس اس دن کا راشن اور نان ونفقہ موجود ہو۔‘‘
((قكأنما حيزت له الدنيا)) (ترمذي:2346)
’’تو گویا کہ اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ کر رکھ دی گئی ہے۔‘‘‘
اور خود رسول کریم ﷺ کی حیات مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی پاکیزہ زندگیاں اس پر شاہد ہیں، انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر خوشگوار اور پاکیزہ زندگی کا کون حق دار ہو سکتا ہے اور یقیناً انہیں خوشگوار زندگیاں حاصل تھیں، مگر دنیاوی اعتبار سے انکا حال یہ تھا کہ انہیں اذیتیں سہنا پڑتیں، پتھر کھانا پڑتے، برے القاب اور گالیاں سننا پڑتیں، اور مال و دولت کا یہ حال ہوتا کہ دو دو مہینے گھر میں چولہا نہ جلتا اور ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کے گھر حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ ﷺ چٹائی پر سے رہے ہیں اور چٹائی کے نشان آپﷺ کے جسم اطہر پر ثبت ہوئے ہیں تو رو پڑے، آپﷺ نے فرمایا: کیوں رو رہو ہو۔ عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ قیصر و کسری ریشم کے بستروں پر سوئیں اور آپ چٹائی پر؟ فرمایا:
((أولئك قوم عجلت لهم طيباتهم في الحياة الدنيا))(بخاری:2568)
’’فرمایا: انہیں ان کے حصے کی نعمتیں دینا کی زندگی میں ہی دے دی گئی ہیں۔‘‘
اور آپﷺ کی زندگی یقیناً خوشگوار اور پاکیزہ زندگی تھی، اللہ تعالی کے مقررہ کردہ معیار کے مطابق، لوگوں کے خود ساختہ معیار کے مطابق نہیں، اور آپﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی زندگیاں بھی سکون و اطمینان والی اور خوشگوار اور پاکیزہ تھیں۔
اس کے برعکس جن لوگوں کی زندگیاں دنیا والوں کے خود ساختہ معیار کے مطابق خوشگوار ہوتی ہیں کہ جنھیں دنیا کی تمام نعمتیں اور سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ خود کشیوں کی شرح سب سے زیادہ انہی ملکوں میں ہوتی ہے، اور خود کشی کا انسان اس وقت مرتکب ہوتا ہے جب مایوسی انتہا کو پہنچ جائے۔ جبکہ دو مسلمان جو خوشگوار زندگی والی شرطوں کو پورا کرتا ہو، اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ بعض سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے کہ:
(( لَوْ عَلِمَ الْمُلُوكُ وابناءُ الْمُلُوكِ مَا نَحْنُ فِيهِ لَجَالِدُونَا عَلَيْهِ بِالسُّيُوْفِ)) (الداء والدواء ، ج :1، ص: 281)
’’اگر بادشاہوں کو اور بادشاہوں کی اولادوں کو معلوم ہو جائے کہ ہم کسی سکون و اطمینان میں ہیں تو وہ اسے تلواروں کے ذریعے ہم سے چھین لینا چاہیں۔ یعنی اس سعادت اور نعمت کو پانے کے لیے اگر انہیں لڑائی بھی کرنا پڑے تو وہ اس سے بھی گریز نہ کریں۔‘‘
اور ایسے ہی امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((إِنَّ فِي الدُّنْيَا جَنَّةٌ مَنْ لَمْ يَدْخُلُهَا ، لَمْ يَدْخُلْ جَنَّةَ الْآخِرَةِ)) (مدارج السالكين ، ج:1، ص:452) ’’دنیا میں بھی ایک جنت ہے، جو دنیا کی جنت میں داخل نہ ہوا، وہ آخرت کی جنت میں بھی داخل نہ ہوگا۔‘‘
یعنی جو شخص ایمان اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہے وہ یقینًا ایمان کی لذت سے محفوظ ہوتا ہے اور اس کا دل سکون و اطمینان سے معمور ہوتا ہے، یقینًا ایمان کی ایک لذت ہے، جو شخص وہ لذت پالیتا ہے، وہ دنیا میں خوشگوار زندگی گزار رہا ہوتا ہے
مگر وہ لذت کے حاصل ہوتی ہے؟ حدیث میں اس کی نشاندہی یوں فرمائی گئی ہے؟
((ذَاقَ طَعْمَ الإِيمَان مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبَّا وبالإسلام ديناً، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا )) (مسلم:34)
’’ایمان کی لذت سے وہ آشنا ہوتا ہے جو اللہ تعالی کے رب ہونے پر راضی ہو جائے اور اسلام کے دین اور نظام زندگی ہونے پر راضی ہو جائے اور محمدﷺ کے نبی ہونے پر راضی ہو جائے ۔‘‘
ایمان کی لذت پانے والوں کی جو نشانیاں جتلائی گئی ہیں ، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور دلوں میں ٹٹولیں کہ کہیں ان کا کوئی وجود ہے؟
جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو جائے، پھر کیا وہ غیروں کے آستانوں پر سر جھکا سکتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اس کا مشکل کشا اور حاجت روا ہو سکتا ہے، کیا اس کی بیڑیاں پار لگانے والا، اس کی بیماریاں دور کرنے والا، اولادیں دینے والا اور مشکلیں آسان کرنے والا اللہ کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے؟ یقینًا نہیں اور ہرگز نہیں۔
ایمان کی لذت پانے والوں کی ایک نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اسلام کے نظام زندگی ہونے پر راضی اور خوش رہتا ہے؟ اور جو اسلام کو اپنا دین سمجھتا ہو اور دل سے اسے تسلیم کرتا ہو اور اس پر مکمل یقین و اطمینان رکھتا ہو، پھر کیا وہ دنیا کے کسی اور نظام کو بہتر سمجھ سکتا ہے، پھر کیا اسلام پر ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ اعتراض اور تنقید کر سکتا ہے، یقینًا نہیں اور ہر گز نہیں۔
اسی طرح جس نے رسولﷺ کو سچے دل سے اپنا نبی مانا اور دل کی گہرائیوں سے مانا اور اس پر راضی ہو گیا تو کیا وہ دین میں کوئی بدعت ایجاد کر سکتا ہے۔ کسی بڑے سے بڑے آدمی کی بے دلیل بات کو دین کا درجہ دے سکتا ہے، یقینًا نہیں اور ہرگز نہیں۔ دین کو ماننے کا مطلب اپنے نام کے ساتھ محض اسلام کا لیبل لگانا نہیں ہے بلکہ اسے اپنی زندگیوں پر نافذ کرنا ہے۔
ایمان کی لذت پائے بغیر خوشگوار اور پاکیزہ زندگی حاصل نہیں ہو سکتی،
﴿ ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ۪﴾ (البقرة:208) کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔
ہم زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزاریں اور چاہیں کہ خوشحال اور خوشگوار زندگی حاصل ہو جائے یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے۔
﴿ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَآءً مَّحْیَاهُمْ وَ مَمَاتُهُمْ ؕ سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ۠۝۲۱﴾ (الجاثیه:21)
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے، یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے، کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے ،برے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں۔‘‘
﴿ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰی عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰی سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ وَ جَعَلَ عَلٰی بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ؕ فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۝۲۳﴾ (الجاثیہ:23)
’’کیا آپ نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا اللہ بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا، اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے، کیا تم لوگ اس سے سبق نہیں لیتے ۔‘‘
اسی طرح سعادت و شقاوت کا، خوشگوار اور ناخوشگوار زندگی کا ایک اصول بیان فرمایا:
﴿ وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی۝۱۲۴﴾ (طه:124)
’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تلک زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھا ئیں گے۔‘‘
اور تنگ زندگی کا مطلب تنگدستی نہیں، بلکہ ممکن ہے وہ امیر ترین آدمی ہو، مگر وہ تمام نعمتیں حاصل ہونے کے باوجود گھٹن کا شکار ہو۔ اور اللہ کا ذکر کیا ہے؟ نماز اور روزہ ہے، حج اور زکاة ہے، تلاوت قرآن پاک ہے اور دین کے دیگر تقاضے اور معاملات ہیں
وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
………….