اسلامی پرده

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوْبِهِنَّ ۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱﴾((النور: 31)
’’اللہ تعالیٰ رسول اللهﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: (اے نبیﷺ (مومن مردوں سے فریا دیجئے کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے پاکیزہ تر ہے یقیناً اللہ ان کے عملوں سے خوب واقف ہے اور (اے نبیﷺ مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں پست رکھا کریں اور اپنی زینت (سنگار) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس زینت کے جو خود بخود عمومًا ظاہر ہو جائے اور انہیں چاہئے کہ اپنے گریبانوں (سینوں) پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر باپ خسر بیٹے سوتیلے بیٹے یا بھائی بھتیجے بھانجے اپنی عورتوں اور اپنے لونڈی غلام کے لیے وہ مرد جو عورتوں کے کام کے نہیں رہے۔ یا نابالغ لڑکے جو ابھی عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف نہیں ہوئے ہیں (اور ان عورتوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ) وہ چلتے وقت اپنے پاؤں کو زمین پر اس طرح نہ مارتی چلیں جس سے پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے اور اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے غض بصر، پاک دامنی اور تزکیہ نفوس کا حکم فرمایا اور جس طرح مردوں کو نیچی نظر رکھنے کا حکم دیا اس طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیا اس میں دونوں برابر ہیں کیونکہ دونوں کی خفض بصر کا مقصد حفاظت و تزکیہ ہے اب آپ ہر ایک کی تفصیل قرآن وحدیث کی روشنی میں دیکھئے۔
غض بصر
تمام مردوں اور عورتوں کو جو سب سے پہلے حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ غض بصر کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ تم دونوں اپنی نظریں نیچی رکھو یعنی تم اپنے آپ کو ہر اس چیز سے بچاؤ جس کو حدیث شریف میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: (إِنَّ اللهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ ادَمَ حَظَّهُ مِنَ الزَّنَا أَدْرَكَ ذَالِكَ لَا مُحَالَةَ فَزِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَ زنَا اللَّسَانِ المَنْطِقُ والنَّفْسُ تَتَمَنّٰى وَتَشْتَهِي وَ الْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ كَلَّه وَ يكذبهُ)[1]
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کے بیٹے پر زنا کا حصہ لکھ دیا ہے (یعنی مقرر کر دیا ہے کہ فلاں فلاں کام بھی زنا میں شامل ہیں) وہ اس سے ضرور ہو جاتا ہے چنانچہ دیکھنا آنکھ کا زنا ہے اور زبان کا زنا بات چیت ہے اور دل کا زنا آرزو اور خواہش ہے اور شرم گاہ ان سب کی تصدیق یا تکذیب کر دیتی ہے۔“
حدیث شریف کا مطلب بالکل صاف ہے کہ اجنبی عورتوں کے حسن کی دید سے لطف اندوز ہونا مردوں کے لیے اور اجنبی مردوں کو سمح نظر بنانا عورتوں کے حق میں زہر قاتل ہے موجب فتنہ ہے زنا و فتنہ کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے اور یہی اس کے لیے پیش خیمہ ہے۔ نظر کے فتنے کا کوئی ذی عقل شخص انکار نہیں کر سکتا اس کے فتنے کے سدباب کے لیے شریعت مطہرہ نے غض بصر کا حکم دیا کہ تم اس حصے کو مت دیکھو جس کے دیکھنے سے زنا جیسے جرم عظیم کے مرتکب ہو۔ شریعت نے مرد و عورت کے لیے علیحدہ علیحدہ حدیں مقرر کر دی ہیں کہ اس جگہ سے اس جگہ تک جسم کا ڈھانکنا ضروری ہے جسے ستر کہا جاتا ہے۔ مردوں کے لیے ناف اور گھٹنے کے درمیان کا حصہ ستر قرار دیا ہے اور یہ حکم دیا گیا کہ اس حصے کو سوائے اپنی بیوی کے اور کسی کے سامنے نہ کھولیں اور نہ کسی دوسرے شخص کے اس حصے پر نظر ڈالیں۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب الاستئذان باب زنا الجوارح دون الفرج۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اِحْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ . )[1]
’’اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو۔ سوائے اپنی بیوی اور باندی کے۔‘‘
اور عورتیں تو عورتیں ہی ہیں یعنی وہ سراپا پردہ ہی پردہ ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(المراة عورة) (ترمذی) عورت کا تمام بدن چھپانے کے قابل ہے کہ وہ سوائے چہرہ کے اور ہاتھ پیر کے تمام جسم کو لوگوں سے چھپائیں۔ اس حکم میں باپ بھائی وغیرہ سب برابر ہیں سوائے خاوند کے۔ حضور ﷺ الله عليه وسلم نے فرمایا:
’’اے اسماء جب عورت بالغ ہو جائے تو درست نہیں ہے کہ اس کے جسم میں سے کوئی حصہ دیکھا جائے بجز اسکے اور اس کے یہ فرما کر آپﷺ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ (ابوداؤ۔ حسن لغیر والا ذكر سبب الورود)
رسول الله ﷺ فرماتے ہیں:
(صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ اَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَاَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا وَالنَّاسَ وَنَسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوْسُهُنَّ كَاَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَ إِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَّسِيرَةِ كَذَا وَ كَذَا)[2]
’’دو قسم کے دوزخی لوگ ہیں جن کو ابھی میں نے دیکھا نہیں- ایک وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو ظلما ماریں گے یعنی حاکم وغیرہ ظالم ہوں گے (چنانچہ اس زمانے میں وہ لوگ موجود ہیں) اور دوسرے وہ عورتیں جو ظاہر میں کپڑے پہنے ہوں گی اور حقیقت میں وہ ننگی ہوں گی اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور فریفتہ کرنے والی ہوں گی اور ان کی طرف رغبت کریں گی اور ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ہوں گے یعنی ایک جانب جھکے ہوئے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گے۔ حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے پائی جائے گی۔‘‘
یعنی وہ ایسے باریک کپڑے پہنے ہوں گی جس سے ان کا بدن جھلکے گا گویا وہ ظاہر میں ملبوس ہیں مگر حقیقت میں عاری اور ننگی ہوں گی چنانچہ اس زمانے میں اسی قسم کی عورتیں موجود ہیں جو چہرہ کے علاوہ بھی کچھ بدن ڈھانکتی ہیں اور کچھ کھلا رکھتی ہیں دوپٹہ کو پیٹھ پر ڈال کر سینہ گردن بازو اور پاؤں کھلے رکھتی ہیں اور ان اعضا کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد: 43/5 بخاري تعلیقا، كتاب الغسل، باب من اغتسل عريانا وحده في الخلوة
[2] مسلم: كتاب الجنة وصفة نعيمها و اهلها، باب جهنم اعاذنا الله منھا 383/2۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھول کر لوگوں کو فریفتہ کرتی ہیں۔ علامہ نووی یہ شرح صحیح مسلم میں اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں۔
(تَسْتُرُ بَعْضَ بَدَنِهَا وَتَكْشِفُ بَعْضَهَا إِظْهَارًا لِجَمَالِهَا وَأَمَّا مَا ئِلَاتٌ يَعْنِي يَمْشِينَ مشْيَةَ الْبَغَايَا وَيَمْشِينَ مُتَبَخْتِرَةً)
’’کہ بدن کے کچھ حصہ کو پوشیدہ کریں گی اور کچھ کو ظاہر کریں گی اور بدکار عورتوں کی طرح ناز و انداز سے چلیں گی جس سے لوگوں کو فریفتہ کریں گی۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ کسی زمانے میں عورتیں عام طور سے بے پردہ ہو کر پھیریں گی۔ حیا شرم ان سے معدوم ہو جائے گی۔ جیسے بازاری عورتیں بے حیا ہوتی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:
(إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ زَانِيَةٌ)[1]
’’جو عورت خوشبولگا کر زینت کر کے مردوں کے پاس سے گزرے گی وہ زانیہ ہے۔‘‘
ان حدیثوں سے آپ بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ مردوں اور عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے اپنے ستر کو پوشیدہ رکھیں اور ایک دوسرے کے ستر کو نہ دیکھیں۔ مردوں کے لیے ناف اور گھٹنے تک کا حصہ ستر ہے اس حصے کو ظاہر کرنا اور کھلا رکھنا اور اس کی طرف دیکھنا حرام ہے۔
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(لا يَنظُرُ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ)[2]
’’کوئی مرد کسی مرد کے ستر کی طرف نظر نہ کرے اور نہ کوئی عورت کسی عورت کے ستر کی طرف دیکھے۔‘‘
ان حدیثوں سے نگاہ نیچی رکھنے کی بہت اہمیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ نگاہ نیچی نہ رکھنے کی صورت میں ایک عظیم الشان فتنه کا دروازہ کھل جاتا ہے اسلام کا مقصد اس سے صرف یہی ہے کہ تم نظر بازی کے فتنہ سے بیچ جاؤ۔ کیونکہ ابتداء میں آنکھیں بڑی معصوم نگاہوں سے دیکھتی ہیں نفس شیطان ان کی تائید وتقویت میں بڑے بڑے پر قریب دلائل پیش کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ذوق جمال ہے جو فطرت نے تم میں ودیعت کیا ہے جمال فطرت کے دوسرے مظاہر و تجلیات کو جب تم دیکھتے اور ان سے بہت ہی پاک لطف اٹھاتے ہو تو جمال انسانی کو دیکھو اور ویسا ہی روحانی لطف اٹھاؤ مگر اندر ہی اندر شیطان لطف اندوزی کی ہے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہی ذوق جمال ترقی کر کے شوق وصال بن جاتا ہے کون ہے جو اس حقیقت سے انکار کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مسند احمد:400، 414، 418/4۔
[2] مسلم، كتاب الحيض باب تحريم النظر إلى العورات:154/1.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جرأت رکھتا ہو کہ دنیا میں جس قدر بد کاری اب تک ہوتی ہے اور فی الحال ہو رہی ہے اس کا پہلا اور سب سے بڑا محرک یہی آنکھوں کا فتنہ ہے کون یہ دعوی کر سکتا ہے کہ اپنی صنف مقابل کے حسین اور جوان فرد کو دیکھ کر اس میں وہی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو خوب صورت پھولوں کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ اگر دونوں قسم کی کیفیات میں فرق ہے اور ایک کے برخلاف دوسری کیفیت کم و بیش شہوانی کیفیت ہے تو پھر کیسے کہہ سکتے ہو کہ ایک ذوق جمال کے لیے بھی وہی آزادی ہونی چاہیے جو دوسرے ذوق جمال کے لیے ہے ۔ شارع علیہ السلام تمہارے ذوق جمال کو مٹانا نہیں چاہتے۔ وہ کہتے ہیں تم اپنی پسند کے مطابق اپنے جوڑے کا انتخاب کر لو اور جمال کا جتنا ذوق تم میں ہے اس کا مرکز صرف اسی ایک کو بناؤ پھر جتنا چاہو اس سے لطف اٹھاؤ اس مرکز سے ہٹ کر تم دیدہ بازی کرو گے تو فواحش میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ اگر ضبط نفس یا دوسرے موانع کی بنا پر آوارگی عمل میں مبتلا نہ بھی ہوئے تو آوارگی کے خیال سے کبھی نہ بچ سکو گے۔ تمہاری بہت سی قوت آنکھوں کے راستے ضائع ہو گی بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت تمہاردل کو ناپاک کر دے گی۔ بار بار فرییب محبت میں مبتلا ہو گے اور بہب سے راتیں بیداری کے خواب دیکھنے میں جاگ جاگ ک ضائع کرو گے۔ تمہاری بہت سی قوت حیات دل کی دھڑکن اور خون کے ہیجان میں ضائع ہو جائے گی۔ یہ نقصان کیا کچھ کم ہے اور یہ سب اپنے مرکز دید سے ہٹ کر دیکھنے ہی کا نتیجہ ہے۔ لہذا اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو۔ بغیر حاجت کے دیکھنا اور ایسا د یکھنا جو فتنے کا سبب بن سکتا ہو قابل حذر ہے۔ (پردہ:218)
غض بصر اور پردہ کی حکمت
اسلام ایک ڈاکٹر اور طبیب کی طرح ہے صرف فرق اتنا ہے کہ اسلام روحانی اور جسمانی دونوں بیماریوں کا معالج ہے اور اطباء محض جسمانی بیماریوں کے معالج ہیں جس طرح مریض کو حکیم یا ڈاکٹر سے ادویہ کی حقیقت و ماہیت وغیرہ کے دریافت کرنے کا حق نہیں اسی طرح انسان اپنے مذہب سے پوچھنے کا ہرگز حق نہیں رکھتا کہ اس حکم کی کیا علت ہے کیا حکمت ہے اس کو صرف امنا و صدقنا کہہ دینا ہی کافی ہے۔ مگر اسلام نے ہر حکم کے لیے علت ضرور مقرر کر دی۔ کبھی وہ ظاہر ہوتی ہے بھی پوشیدہ ہوتی ہے پردہ میں بھی حکمت ہے دنیا کے دستور کے مطابق ہر شخص کے لیے الگ الگ حد میں مقرر ہیں کہ بلا اجازت کے دوسری حد میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ شریعت مطہرہ میں بھی مرد و عورت کے لیے علیحدہ علیحدہ حدیں مقرر ہیں کہ بلا اجازت کے دوسرے کی حد میں داخل نہیں ہو سکتا، مردوں کے لیے فرمایا:
﴿لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتَّى تَسْتَانِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰى أَهْلِهَا﴾ (النور: ۲۷)
’’اپنے گھروں کے سوا کسی گھر میں داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو۔ ‘‘
اسی طرح عورتوں کو فر مایا:
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوْتِكُنَّ﴾ الآيه (الاحزاب:33)
’’اے عورتو! اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔‘‘
﴿يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَا بِيْبِهِنَّ﴾ (الاحزاب: 59)
’’وہ اپنی چادر میں اپنے اوپر اوڑھے لیں‘‘
اور ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا﴾ (البقرة: 229)
’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔‘‘
پس قرآن مجید نے ثابت کر دیا کہ اس پردہ میں یہ حکمت مضمر ہے کہ اگر تم اپنی حدود سے کسی کی حدود میں جاؤ اور تمہارے پاس پردہ کی سند نہ ہو تو تم ایک دوسرے کی نظر میں خطرناک سمجھے جاؤ گے اور اگر کسی کی حد میں جانا ضروری ہے تو اجازت کیوں نہیں لی جاتی پروہ کی حکمت تو یہ ہے کہ کسب حرام و بدکاری و بے حیائی زیادہ نہ بڑھے اور شرم و حیا اور خود داری دور نہ ہو اور عصمت و عفت باقی رہے اس لیے دونوں کو پردہ کا حکم دیا مردوں کو فرمایا:
﴿يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ﴾ (النور: 30)
عورتوں کو فرمایا:
﴿يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ﴾ (النور:31)
اس میں مرد و عورت دونوں کو نگاہ نیچی کرنے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا یہاں تک تو سب کا اتفاق ہے۔ اعتراض صرف اس بات پر ہے کہ عورتوں کو پردہ کے ساتھ کیوں مخصوص کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ﴿اَلرِّجَالَ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ﴾ (نساء: 34)
’’مرد عورت کا قوی نگہبان اور ذمہ داری ہے۔‘‘
عورتیں مردوں سے طاقت وقوت اور عقل و فہم میں کمزور ہیں اور پردہ کا مقصد عفت و عصمت کا بچانا ہے۔ تو ضروری ہوا کہ اپنی عفت اور عصمت بچانے کے لیے اس کو حکم دیا جائے جو ہر طرح کمزور سے کیونکہ بچنے بچانے کے اسباب کی ضرورت اسی کو ہوتی ہے جوکمزور ہو اس لیے عورت کو جو بہ تسبت مرد کے نبہت زیادہ کمزور اور ہر طرح کمزوریوں کی تصویر ہے اپنی عفت و حفاظت کے لیے ایک مضبوط آہنی دیوار پردہ کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے وہ اپنی عصمت کا بہترین بچاؤ کر سکے بخلاف اس کے جو خود قوی اور طاقتور ہے اس کو پردہ یعنی بچاؤ کے سامان کی کیا ضرورت ہے چنانچہ عورت جس طرح زیادہ کمزور ہے اسی طرح اس کو بہت شدت کے ساتھ پردے کا حکم دیا گیا ہے اور مرد عورت سے زیادہ قوی ہے اس کو بھی کچھ بچاؤ یعنی غض بصر کا حکم ديا ﴿يَغْضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ﴾ کیونکہ پردو کا مقصود صرف عصمت اور حفاظت ہے اور یہ دونوں کے لیے ہے تو بحیثیت قوت و ضعف دونوں کو الگ الگ حکم دیا گیا۔ اگر کوئی کہے کہ عورت مرد سے کمزور نہیں تو غالبا یہ جواب کافی ہوگا کہ مرد عورت کے ساتھ جبر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے اور عورت مرد کے ساتھ جبر نہیں کر سکتی۔ اس کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ جو روزانہ مشاہدے میں آتی رہتی ہیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عورت فطرتًا بے لوث، سادہ لوح، نازک اندام اور ضعیف وکمزور ہے اگر حسین بھی ہو اور عمدہ لباس میں ملبوس بھی ہو تو کونسی نگاہ ہے جو اس شعلہ ملتہب پر پڑے اور پگھل کر نہ رہ جائے۔ وہ باہرنکلیں گی تو ان پر نگامیں بھی پڑیں گی اور سب ہی کی پڑیں گی۔ کوئی دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ سب مرد اور عورتیں نیک ہی ہیں ایک کا قدم لغزش کرے گا تو پھر ایک مرتبہ کی لغزش اسے خرابی کا خوگر بنا دے گی اس کا زہر ہزاروں کو خراب کرے گا۔ پھر حسن کی تعریف سن کر کس کی طبیعت خوش نہیں ہوتی۔ دلوں میں ایک دوسرے کے لیے مقناطیسی کشش موجود ہے۔ خود غور کیجئے کہ ایک نوجوان مرد اور نوجوان عورت تنہائی میں ملیں جلیں تو کمزور ہی نہیں بلکہ قوی طبائع بھی متزلزل ہو جاتی ہیں اور یہ خلا ملا بدکاری کی صورت میں ظاہر نہ ہو تو عشق کی صورت ضرور اختیار کرے گا۔
علاوه ازیں نوع انسان عورت مرد پر مشتمل ہے اسی طرح معاشرتی فرائض کے بھی دو حصے ہیں ایک بیرونی اور ایک اندرونی۔ مردوں کا کام ہے کہ وہ باہر نکلیں، محنت کریں، کھیت جوتیں، کارخانے قائم کریں اور روپیہ پیدا کریں عورتوں کا فرض ہے کہ وہ گھر میں رہ کر خانہ داری کے انتظامات کریں، بچوں کی نگہداشت و تربیت میں مصروف رہیں اور اپنے تھکے ماندے شوہر اور اپنے بچوں کے لیے گھر کو بہشت بنائیں۔ قادر ازل نے دونوں کا علیحدہ علیحدہ کام مقرر کر دیا ہے۔ ﴿لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ الله﴾ (یونس: 64)
اب اگر عورتیں بھی بے پردہ ہو کر باہر نکلیں گی تو ان کے پاک اور منور چہروں پر ہزاروں اجنبی نگاہیں پڑیں گی گھر کو دوسرے کے حوالے کرنا پڑے گا اور جب وہ باہر سے آئیں گی تو دونوں تھکے ماندے ہوں گے اور دونوں چور کون کس کی دلداری کرے! خود غور کیجئے! کہ شوہر دن بھر کا تھکا ماندہ گھر میں آئے اور اس کی رفیقہ حیات کھلے دل سے اس کے استقبال کو بڑھے اس کے غسل اور چائے کا فوری اہتمام کرے یہ چیز بہتر ہے یا یہ کہ شوہر گھر میں اور بیوی باہر، پھر بڑی بات یہ ہے کہ ناموس مرد کی امانت، عورت اس کی امانت دار ہے۔ اور نان و نفقہ مہر وغیرہ اس کی امانت کا معاوضہ ہے۔ پس عورت کا فرض ہے کہ مرد کی امانت کی پوری حفاظت کرے اور وہ بے پردگی میں ممکن نہیں مال کی حفاظت کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے۔ زمین میں گڑھا کھود کے گاڑا جاتا ہے اس کمرے میں دوہرے اور مضبوط تالے لگائے جاتے ہیں اور چوکی پہرہ الگ آبرو عزت مال سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔ اس پر غیرت مند جانیں قربان کر دیتے ہیں ایک پردہ سے اگر پوری حفاظت ہو سکے تو یہ کیوں نہ کیا جائے۔
عزت حیات بعد الموت ہے اور بے عزتی موت قبل الموت ہے۔ پھر حیات جاوداں کو محض پردہ ترک کرنے سے چھوڑ کر کیوں سیاہ رو، زیر زمین ہو جائے۔ رہزن عزت کی روک تھام کے لیے سر پردہ سے مضبوط کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ ﴿ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ﴾ (الملك:4)
غض بصر والی آیت کی تشریح
(نیچی نگاہ کرنے کا بیان) پہلے جملہ میں نیچی نگاہ کرنے کا حکم دیا تو دوسرے جملے میں اس کی حکمت شرمگاہ کی حفاظت بتائی۔ یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے اور تیسرے جملہ ﴿وَلَا یُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ﴾ میں فرمایا کہ وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں۔
زینت کی دوقسمیں ہیں ایک فطری یعنی پیدائشی جیسے چہرہ وغیرہ کیونکہ یہی اصل زینت ہے اس میں مقناطیسی جاذبیت مضمر ہے۔ دوسری تصنعی یعنی بناوٹی زینت جیسے اچھے اچھے کپڑے پہننا، سرمہ، مہندی لگانا اور زلفوں کو سنوارنا، ان دونوں میں سے اس جگہ پہلی زینت مراد ہے تو ﴿لَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ) کے یہ معنی ہوں گے وہ عورتیں اپنی زینتوں (چہروں) کو ظاہر نہ کریں یعنی ان مخصوص لوگوں کے علاوہ جن کا استثنا اسی آیت میں بیان کر دیا گیا ہے دیگر اجنبی مردوں کے سامنے اپنے چہرے ظاہر نہ کریں۔
چہرے کا حکم
یہی مطلب سورہ احزاب والی آیت سے سمجھا جاتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۝۵۹﴾ (الاحزاب: 59)
’’اے ہمارے نبی! آپ اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں اور تمام مسلمان عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کے گھونگھٹ کر لیا کریں جن سے وہ پہچان لی جائیں اور انہیں ستایا نہ جائے۔‘‘
حضرت محمد بن سیرین و عبیدہ بن سفیان سے دریافت کیا گیا کہ اس حکم پر عمل کرنے کا کیا طریقہ ہے تو انہوں نے خود چادر اوڑھ کر بتایا اور اپنی پیشانی اور ناک اور ایک آنکھ چھپائی۔ صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔
اگر چہرہ کھلا رہے تو پردہ کس چیز کا نام ہے۔ علاوہ چہرے کے پردہ دنیا کی ہر ایک قوم کرتی ہے پھر اسلام نے پردہ میں کیا جدت کی فَلَایُؤْذَیْن سے وہی ایذا مراد ہے جو ایک غیرت مند انسان کی بیوی، بہن مان بیٹی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھے جانے سے اس کو ایذاء و تکلیف پہنچتی ہے اور اگر کسی کو ان باتوں سے غیرت نہیں آتی تو ایسے شخص کو رسول اللہﷺ نے دیوث فرمایا ہے۔ دراصل حیا و غیرت ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسانیت و حیوانیت کے درمیان فرق کرنیوالی ہے اس زمانے میں حامیان بے حجابی کے دلوں سے ایمانی غیرت نکل چکی ہے وہ اپنی رفیقہ حیات کو شمع انجمن بنانے کے لیے خوب مزین و معطر کرا کے مختلف نمازوں سے چہرے اور بانہوں کی رونق دوبالا کر کئے ہونٹوں کو لپ اسٹک سے مزین فرما کر کمان و ابرو کو درست کرا کر آنکھوں کو تیر اندازی کے لیے چست کرا کے سیاہ زلفوں کی زیبائش سے مسلح کر کے نہایت شان و شوکت سے تشریف لاکر براجمان ہوتے ہیں اور ہزاروں معصوم دلوں کو مجروح کرتے ہیں ان کے دلوں پر پردہ پڑ گیا ہے اس لیے اپنی اس رفیقہ حیات کو بے پردہ لیے پھرتے ہیں۔ علامہ اکبرالہ آبادی نے کیا ہی خوب فرمایا ہے
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کی پڑ گیا
اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ(مَنْ يَضْمَنُ لِي مَا بَيْنَ لِحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنُ لَهُ الْجَنَّةَ)[1]
’’جو شخص میرے لیے اپنی زبان اور شرمگاہ کا ضامن ہو جائے تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں گا۔‘‘
﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِينَتَهُنَّ﴾ کی تشریح
غض بصر والی آیت میں ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ﴾ موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں ۔ زینت کی دو قسمیں ہیں ایک فطری جیسے چہرہ وغیرہ دوسری تصنعی جیسے زیور سرمہ مہندی بالوں کی آرائش، جن عورتوں کو زینت و زیبائش کا زیادہ شوق ہوتا ہے وہ اپنے حسن و زینت کے ظاہر کرنے کو بہت پسند کرتی ہیں تاکہ مردوں سے زران تحسین حاصل کریں حالانکہ خود بھی فطری حیثیت سے مقناطیسی جاذبیت رکھتی ہیں جب یہ خوب بن ٹھن کر اچھے لباس میں ملبوس ہو کر بے پردہ (چہرہ کھول کر) باہر نکلیں گی تو بے شمار ظاہر پوشید طبعی اور غیر طبعی نقصانات نمایاں ہوں گے جن کا انکار کوئی سمجھدار شخص کر ہی نہیں سکتا۔ ان ہی نقصانات اور فتنوں کے روکنے کے لیے اللہ تعالی نے ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ﴾ فرمایا۔ وہ اپنی زینت کو ظاہر ہی نہ کریں جس سے فتنہ پیدا ہو اور اس کا اہتمام تو یہاں تک کیا گیا کہ سر اور سینہ کے چھپانے کے لیے دوپٹہ اوڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد ہے: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ﴾ (النور:31)
’’اپنے گریبانوں پر اپنے ڈوپٹوں کو ڈال لیا کریں۔‘‘
اس کے بعد فرمایا:
﴿وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ﴾ (النور: ٣١)
’’اپنے پاؤں کو زمین پر زور سے نہ رکھیں جس سے چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔‘‘
اس سے بھی وہی فتنہ پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے جو سر اور گردن سے ہے اب غور کیجئے کہ جب فتنہ صوت زیور سے منع کیا گیا جو نہایت کمتر در وضعیف ہے تو فتنہ صورت (چہرہ) سے کیوں نہ منع کیا جائے جو فتنہ زیور سے ہزار گنا بڑھا ہوا ہے غور اور فکر سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ حجاب اور غض بصر کے حکم سے اس فتنہ کر روکنا مقصود ہے اس لیے تمام فتنوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم صادر کیا ہے نظر کے فتنہ کو محض بھر سے بند کیا۔ آواز کے فتنہ کو ﴿وَلَا يَضْرِبْنَ﴾ الخ اور ﴿يَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ﴾ سے روکا اور خوشبو کے فتنے کو نہایت تشدد سے بند کیا۔ عورتوں کو اس کی اجازت نہیں کہ خوشبو میں بسے ہوئے کپڑے پہن کر راستوں سے گزریں یا محفلوں میں شریک ہوں کیونکہ حسن کی پوشیدگی سے کیا فائدہ۔ جب ان کی عطریات فضا میں پھیل کر طبعی جذبات کو متحرک کر رہی ہوں۔ اس لیے مقنن اعظمﷺ نے فرمایا:
(الْمَرْأَةُ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا يَعْنِي زَانِيَةٌ)[1]
’’جو عورت خوشبو لگا کے مردوں کی مجلس سے گزرے ووزانیہ ہے‘‘
شریک جماعت ہو کر نماز ادا کرنا افضل ترین عبادت ہے مگر اس موقعہ پر بھی حکم دیا کہ
(إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تَمَسُّ طِيبًا)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: کتاب الأدب، باب ما جاء في كراهية خروج المرأة متعطرة:17/4
[2] مسلم: كتاب الصلوة باب خروج النساء إلى المساجد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جب تم مسجد میں آؤ تو خوشبو لگا کرمت آؤ۔‘‘
عریانی کے فتنہ سے بھی اسلام نے منع کیا ہے ستر پوشی کے معاملہ میں اسلام نے انسانی شرم وحیا کی جس قدر صحیح اور اکمل تعلیم دی ہے اس کی مثال دنیا کے کسی مذہب یا سوسائٹی میں نہیں ہے۔ آج دنیا کی مہذب ترین قوموں کا یہ حال ہے کہ ان کے مردوں اور ان کی عورتوں کو اپنے جسم کا کوئی حصہ کھول دینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا۔ ان کے لباس صرف زینت کے لیے ہیں ستر پوشی کے لیے نہیں ہیں۔ مگر اسلام کی نگاہ میں زینت سے زیادہ ستر پوشی کی اہمیت ہے۔ اس لیے دونوں کو جسم کے ان حصوں کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جن میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پائی جاتی ہے۔ عریانی اور برہنگی ایک ایسی ناشائستگی ہے جس کو اسلامی دنیا کسی حالت میں برداشت نہیں کر سکتی۔
﴿إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ کی تفسیر
قرآن مجید میں جس جگہ غیروں کے سامنے زینت کے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں ایک استثنا بھی موجود ہے ﴿إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ ہے یعنی وہ عورتیں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود بخود کھل جائے اور ظاہر ہو جائے یا مجبورًا اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مفسرین کرام کا اس میں قدرے اختلاف ہے مگر سب کا مفہوم وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔
تفسیر ابن جریر و ابن کثیر اور غرائب القرآن کی عبارتوں کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک زینت ظاہر سے مراد وہ کپڑے مراد ہیں جن میں زینت باطنہ کو چھپایا جاتا ہے۔ جیسے برقعہ، چادر۔ حضرت ابن عباس، ابن عمر اور انس رضی اللہ عنہم کے نزدیک اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اور وہ سب اسباب زینت بھی اسی استثناء میں داخل ہیں۔ جو چہرے اور ہاتھوں میں عادۃً شامل ہیں جیسے مہندی، انگوٹھی اور سرمہ و غیره
حضرت عائشه رضی اللہ تعالی عنہا چہرہ چھپانے کی طرف مائل ہیں ان کے نزدیک ظاہرہ سے مراد ہاتھ چوڑیاں کنگن اور انگوٹھیاں ہیں۔ مسعر بن مخرمہ اور قتادہ ہاتھوں کو ان کی زینت سمیت کھولنے کی اجازت دیتے ہیں مگر چہرے کے بارے میں ان کے قول سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورے چہرے کے بجائے وہ صرف آنکھیں کھولنے کو جائز رکھتے ہیں۔
ان تمام حضرات نے ﴿إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ سے یہی سمجھا ہے کہ اللہ تعالی عورتوں کو ایسی زینت کے ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے جو خود بخود ظاہر ہو۔ نمائش کرنا اور ان کوئی انظار بنانا کسی کا بھی مقصود نہیں ہے۔
علامہ شوکانی نیل الاوطار جلد 6 صفحہ16 میں فرماتے ہیں: (وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَرْأَةَ يُبْدِي مَوَاضِعَ الزِّينَةِ مَا تَدْعُوْ الْحَاجَةُ إِلَيْهِ عِندَ مزَاوَلَةٍ الْأَشْيَاءِ وَالْبَيْعِ وَالشَّرَاءِ وَالشَّهَادَةِ فَيَكُونُ ذَلِكَ مُسْتَثْنًى مِنْ عُمُومِ النَّهْي عَنْ إِبْدَاءِ مَوَاضِعِ الزِّيْنَةِ)
’’خلاصہ یہ ہے کہ عورت زینت کی ان جگہوں کو ظاہر کر سکتی ہے جس کے ظاہر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے چیزوں کو لینے دینے اور بیچنے خریدنے اور شہادت کے وقت لہذا یہ عموم نہی سے خارج ہے۔‘‘
یعنی سخت ضرورت اور مجبوری کی حالت میں عورت اپنا چہرہ وغیر ہ ظاہر کر سکتی ہے ۔ بلا ضرورت ہرگز جائزہ نہیں ہے۔
ان تمام روایات و شواہد سے یہی معلوم ہوتا ہے نکاح شہادت علاج و نماز و دیگر ضروریات و اضطراری حالت میں زینت (چہرہ) کو ظاہر کرنا جائز ہے رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
(إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ)[1]
’’جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو اگر ممکن ہو تو وہ چیز دیکھ لے جس کی بنا پر اس سے نکاح کی طرف میلان ہوا ہے۔‘‘
حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتے تھے نبیﷺ سے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ آپﷺ نے فرمایا:
(اُنْظُرْ إِلَيْهَا فَإِنَّهُ أَحْرٰى أَنْ يُّؤْدَمَ بَيْنَكُمَا)[2]
’’تم ایک نظر دیکھ لو۔ کیونکہ یہ دونوں کے درمیان محبت واتفاق پیدا کرنے کے لئے مناسب ہوگا۔‘‘
خود آنحضرت ﷺ نے ایسے موقعوں پر دیکھا ہے جیسا کہ بخاری کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت نے حاضر ہو کر نکاح کی درخواست کی۔
(فَصَعِدَ النَّظَرَ إِلَيْهَا)[3]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب النكاح باب في الرجل ينظر إلى المرأة و هو يريد تزويجها:190/2.
[2] ترمذي: كتاب النكاح باب ما جاء في النظر إلى المخطوبة:169/2.
[3] صحيح بخاري: كتاب النكاح، باب النظر إلي المرءة التزويج و صحيح مسلم.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو آپ نے نظر اٹھا کر اس کو دیکھا۔‘‘
بہرحال ایسے ضروری کاموں میں شارع علیہ السلام کی طرف سے دیکھنے کی اجازت ہے کیونکہ اسلامی قانون کوئی غیر معتدل اور یک رخا قانون نہیں ہے وہ ایک طرف اخلاقی مصلحتوں کا لحاظ کرتا ہے تو دوسری طرف انسانی ضرورتوں کا بھی خیال کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان اس نے غایت درجہ کا تناسب و تو ازن قائم کیا ہے وہ اخلاقی فتنوں کا سد باب بھی کرنا چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ایسی پابندیاں بھی عائد نہیں کرنا چاہتا جن کی وجہ سے انسان اپنی ضروریات کو پورا نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے عورت کے لیے چہرے اور ہاتھ کے معاملہ میں ویسے قطعی احکام نہیں دیئے جیسے ستر پوشی اور زینت کے چھپانے کے بارے میں دیئے ہیں کیونکہ ستر پوشی اور زینت چھپانے سے ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا مگر چہرے اور ہاتھوں کو ہمیشہ چھپائے رہنے سے عورتوں کو اپنی ضرورتوں میں سخت دشواری پیش آسکتی ہے پس ان کے لیے عام قاعدہ یہ مقرر کر دیا ہے کہ چہرے گھونگھٹ ڈالے رہیں اور ﴿إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ کے استثناء سے یہ آسانی کر دی گئی ہے کہ اگر کھولنے کی ضرورت پیش آ جائے تو اس کو ظاہر کر سکتی ہے۔ بشر طیکہ نمائش حسن مقصود نہ ہو۔ بلکہ رفع ضرورت مد نظر ہو پھر دوسری جانب سے فتنہ انگیزی کے جو خطرات تھے ان کا سد باب اس طح کیا گیا کہ مردوں کونیچی نگاہ کرنے کا حکم دے دیا گیا تاکہ اگر کوئی عفت مآب عورت اپنی حاجت کے لیے چہرے کو کھولے تو وہ فورًا اپنی نظریں نیچی کر لیں۔ اور بیہودگی کے ساتھ اس کو گھورنے باز رہیں اور ایسے موقع پر نگاہ نیچی کرنے سے اللہ تعالی ایمانی حلاوت (مٹھاس) بڑھاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کا ایک واقعہ سناؤں جس کو مشہور متعصب عیسائی مورخ مسٹر گبن نے بیان کیا ہے۔
امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی گئی جب آپ بیت المقدس پہنچے اور شہر میں داخل ہونے لگے تو عیسائیوں اور یہودیوں کی نوجوان اور حسین لڑکیاں اپنی فتنہ سامانیوں کے ساتھ مسلمانوں کا فاتحانہ داخلہ دیکھنے کے لیے اپنے بالاخانوں پر چڑھ آئیں۔ مسلم سپاہیوں نے (جن کو پے در پے جنگ میں شرکت کی وجہ سے اہل وعیال سے ملنے کا موقع مدت سے نہیں ملا تھا) جب حسن سربام دیکھا تو ان کے جذبات میں بھی (جو پہلے ہی فاتحانہ داخلہ کے سرور سے مست تھے) ایک ہیجان پیدا ہو گیا ۔ سپہ سالار اعظم یہ منظر دیکھ کر گھبرا اور دربار خلافت میں حاضر ہو کرعرض کی حضور سخت امتحان کا وقت ہے ایک طرف سپاہیوں کا اضطراب دوسری طرف حسن کی بے حجابانہ شوخیاں کیونکہ نظم رکھا جائے۔ فاورق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑ ہو کر اسی وقت سپاہیوں کے سامنے بلند آواز سے فرمایا:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوْ مِنَ اَبُصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ﴾ (النور:30)
’’مسلمانوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی کر لیں اور اپنے جذبات پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں‘‘
خلیفہ المسلمین کی زبان سے قرآن پاک کا یہ حکم سنتے ہی مسلم سپاہیوں کے جذبات عشق ٹھنڈے پڑ گئے اور ان کی نگاہیں اس طرح پست ہو گئیں کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو سر نیچا کئے ہوئے اس طرح جا رہے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔ (محدث)
اظہار زینت کے حدود
غض بصر والی آیت میں اظہار زینت سے منع کیا گیا ہے مگر دو جگہ عورت کو اس کی رخصت بھی دے دی گئی ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے۔ (1) ضرورت و مجبوری کے وقت جس کو ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ سے بیان کیا گیا ہے اس زینت سے چہرہ اور دونوں ہاتھ مراد ہیں جس کی تشریح او پر گزر چکی ہے کیونکہ چہرے اور ہاتھ کے سوا عورت کا پورا جسم ستر ہے۔
(2) وہ اپنی زینت (چہرہ اور ہاتھ ) کو اپنے ان رشتہ داروں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جن کو ﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ أَوْ اٰبَائِهِنَّ﴾ میں بیان کیا گیا۔ یعنی عورت اپنی زینت کو خاوند باپ خسر سوتیلے بیٹے حقیقی بیٹے بھائی، بھتیجے بھانجے کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے۔
(3) اور اپنی عورتوں یعنی ہم جنس مسلمان عورتوں سے پردہ نہیں۔ کافرہ مشرکہ عورت پردہ کے حکم میں اجنبی مردوں کے مثل ہے کیونکہ وہ بھی فتنہ کا سبب بن سکتی ہے اس بنا پر جب شام کے علاقہ میں مسلمان گئے اور ان کی عورتیں وہاں کی عیسائی اور یہودی عورتوں کے ساتھ بے تکلفانہ ملنے لگیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے امیر شام حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا کہ۔
(أنْ يَمْنَعَ نِسَاءَ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دُخُولِ الْحَمَّامِ مَعَ الْمُؤْمِنَاتِ) (تفسير كبير)
’’اہل کتاب (عیسائی اور یہودی) عورتوں کو منع کر دو کہ وہ مسلمان عورتوں کے ساتھ حمام میں داخل نہ ہوں‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(ليسَ لِلْمُسْلِمَةِ أَنْ تَتَجَرَّدَ بَيْنَ نِسَاءِ أَهْلِ الذِّمَّةَ وَلَا تُبْدِي لِلْكَافِرَةِ إِلَّا مَا تُبْدِى للاجانب)(تفسیر کبیر)
’’مسلمان عورت ذمی عورتوں کے سامنے برہنہ نہ ہو اور کافرہ عورتوں کے سامنے اس سے زیادہ ظاہر نہیں کر سکتی جو اجنبی مردوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے۔“
یہ ممانعت محض اس لیے ہے کہ مسلم خواتین ان مشرکہ کافرہ عورتوں کے نتشابہ سے محفوظ رہیں اور ان کے اخلاق پر غیر اسلامی تہذیب کا سایہ نہ پڑے۔
4۔ اور ان مردوں سے بھی پردہ ضروری نہیں جو عورتوں کی بالکل خواہش نہیں رکھتے اور ان سے کسی قسم کا اندیشہ نہیں رہا۔ جیسے ایسے بوڑھے جن میں بالکل حس و حرکت نہیں اور مخنث (ہیجڑے) سے پردہ ضروری ہے اگرچہ ان میں اس کی صلاحیت نہیں بلکہ ان میں جذبات موجود ہیں۔ جس سے وہ فتنہ پیدا کرنے کا ذریعہ وسیلہ بن سکتے ہیں اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کو گھروں میں آمد و رفت سے منع فرمایا ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:
(إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا مُخَنَّثٌ فَاَقْبَلَ عَلٰى أَخِيْ أَمِ سلِمَةَ فَقَالَ يَاعَبْدَاللهِ إِنْ فَتَحَ اللهُ لَكُمُ الطَّائِفَ دَلّلْتُكَ عَلَى ابْنَةِ غَيْلَانَ فَإِنَّهَا تُقْبِلُ بَارْبَعٍ وَ تُدْبِرُ بِثَمَانٍ فَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَوةُ وَالسَّلَامُ لَا يَدُخُلَنَّ عَلَيْكُمْ هَذَا)[1]
’’رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اس وقت ان کے پاس ایک مخنث تھا جو ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی سے کہہ رہا تھا۔ اے عبداللہ! اگر اللہ نے طائف کو فتح کر دیا تو تم کو غیلان کی بیٹی کا پتہ بتا دوں گا جو چار کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ کے ساتھ واپس ہوتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ آئندہ یہ تمہارے پاس نہ آیا کرے۔‘‘
5۔ نابالغ لڑکوں سے بھی پردہ نہیں قرآن مجید کی اسی آیت میں ﴿اَوِ الطَّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ﴾ (النور:31) کا لفظ موجود ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ عورتیں اپنی زینت کو ایسے لڑکوں کے سامنے ظاہر کر سکتی ہیں جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے بالکل ناواقف ہیں۔
6۔ اور اگر کسی کے محرم ہونے میں شک وشبہ پڑ جائے تو احتیاطاً اس سے پردہ کرانا چاہیے رسول اللہﷺ نے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالی عنہا کو فرمایا تھا۔
(احْتَجِبِى مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَھِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَأَهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ)[2]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، کتاب المغازی، باب غزوة الطائف، و كتاب النكاح، باب ما ينهى من دخول المتشبهين بالنساء على المرأة
[2] بخاري، كتاب الوصايا، باب قول الموصى الوصيه (2745)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اس لڑکے سے پردہ کرو۔ کیونکہ آپ نے اس لڑکے کی صورت عتبہ سے ملتی جلتی دیکھی پھر اس لڑکے نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کو مرتے دم تک نہیں دیکھا۔“
حالانکہ وہ ایک حیثیت سے حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا بھائی ہوتا تھا۔ مگر احتیاطاً آپ نے اس سے پردہ کرایا۔ اس کے متعلق قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جس سے کسی حالت میں نکاح جائز ہو سکتا ہے اس سے پردہ ضروری ہے اور جس سے کسی حالت میں نکاح جائز نہیں اس سے پردہ نہیں۔ دیور سے پردہ ضرور ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(إِيَّاكُمُ وَالدُّخُولُ عَلَى النِّسَاءَ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمُوُ الْمَوْتُ)[1]
’’غیر عورتوں کے پاس اکیلے میں آمد و رفت مت کرو ایک شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول دیور کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔‘‘
7۔ ایسی بوڑھی عورتیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں نکاح کی اب صلاحیت نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍ ؕ وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّ ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۝۶۰﴾ (النور: 60)
’’اور وہ بڑی بوڑھی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں ان کو کچھ گناہ نہیں کر اتار رکھیں اپنے (بعض زائد) کپڑوں کو بشر طیکہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں اور اس سے بھی بچیں تو ان کے حق میں بہت ہی اچھا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ کا مطلب بالکل واضح ہے کہ بوڑھی عورتیں اگر اپنے گھروں میں دوپٹے وغیرہ اتار رکھیں اور تھوڑے کپڑوں میں بیٹھی رہیں تب بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ستر نہ کھلنے پائے اور اس سے بچیں اور پورا پردہ رکھیں تو اچھا ہے ان زائد کپڑوں سے وہی کپڑے مراد ہیں جو پہنے سے زائد ہوں جن سے ہاتھ منہ چھپایا جاتا ہے جیسے نقاب برقعہ دوپٹہ وغیرہ کیونکہ ہاتھ منہ کے علاوہ تمام بدن کا چھپانا جوان اور بوڑھی دونوں عورتوں کے لیے برابر ہے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اسی معنی کو بیان فرماتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑھی عورتوں کو اس کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ اپنے کپڑے اتار کر رکھیں کیونکہ اس سے تمام بدن کھل جائیگا اور وہ بالکل برہنہ ہو جائیں گی اس لیے مفسرین کرام نے یہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب النكاح، باب لا يخلون رجل بامراة إلا ذو رحم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرمایا ہے کہ ان کپڑوں سے وہ کپڑے مراد ہیں جو ستر پوشی سے زائد ہوں جیسے چادر دوپٹے وغیرہ۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ﴿اَنُ يَّضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ﴾ پڑھا ہے کہ وہ اپنی چادر میں اتار دیں اور سدی کے مشائخ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ اپنے سروں سے دوپٹوں کو اتار دیں اور بعض لوگوں نے ﴿مِنْ ثِيَا بِهِنَّ﴾ پڑھا ہے یعنی وہ اپنے کپڑوں کو اتار دیں اور اللہ نے ان بوڑھی عورتوں کو اس حکم کے ساتھ اس لیے خاص کیا ہے کہ اس بڑھاپے تک پہنچنے کی وجہ سے گمان شبہات سے پاک ہو چکی ہیں اور اگر اس کے خلاف ظن غالب ہو تو کوئی کپڑا اتار نا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس سے بھی بچیں تو اچھا ہے کیونکہ اس وقت وہ شبہات سے بہت دور رہیں گی اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ تہمت کے موقعوں پر کپڑا اتارنا جائز نہیں جیسے جوان عورتوں کے لیے لازم ہے کہ وہ دوپٹہ اوڑھے رہیں اسی طرح ان کو بھی لازم ہوگا۔ جو عورتیں ابھی سن یاس (حمل سے نا امیدی) کو نہیں پہنچی ہیں ان کے لیے دوپٹہ اتارنا جائز نہیں ہے بلکہ ہر وقت پہنے رہنا ضروری ہے جیسا کہ صاحب خازن فرماتے ہیں۔ (فَأَمَّا مَنْ كَانَتْ فِيهَا بَقِيَّةُ جَمَالٍ وَهِيَ مَحَلُّ شَهْوَةٍ فَلَا تَدْخُلُ فِي حُكْمِ هَذِهِ)(تفسیر خازن)
’’جن عورتوں میں ابھی جمال باقی ہے جو مردوں کے لیے مرغوب ہے وہ اس آیت کے حکم میں داخل نہیں ہیں۔‘‘
جن عورتوں کے لیے دوپٹہ وغیرہ اتارنے کی اجازت ہے وہ ایسی بوڑھی عورتیں ہیں کہ ان کو دیکھ کر گھن اور نفرت ہو۔
(هُنَّ الْعَجَائِزُ اللّوَاتِى إِذَا رَاهُنَّ الرِّجَالُ اسْتَقْذَرُوْهُنَّ) (تفسیر خازن)
’’جن کو وضع ثیاب کی اجازت ہے وہ ایسی بوڑھی ہیں کہ مرد ان کو دیکھ کر نفرت کرتا ہے۔“
ان تمام عبارتوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ دوپٹہ وغیرہ اتارنا بوڑھی ہی کے لیے مخصوص ہے۔ جوان عورتیں اس سے خارج ہیں۔ ان کو جائز نہیں ورنہ تخصیص شرعی کا ابطال لازم آئے گا۔ جو کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔
9۔ ضرروت کے وقت ہر مومنہ عورت اجنبی مرد سے پردہ میں ہو کر ضروری گفتگو کر سکتی ہے مگر شیرین آواز سے بات چیت نہ کریں بلکہ سخت اور تلخ لہجہ میں بات کریں تاکہ سننے والوں کو ان کی طرف سے کسی بری بات کی توقع اور خیال پیدا نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ۝۳۲ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ۝۳۳﴾ (الاحزاب : 32 – 33)
’’اے ہمارے نبی کی بیویو! تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہوا اگر تمہارے دل میں خدا کا خوف ہو تو نزاکت اور نرمی سے مت بولو کہ بیماریوں والا بد باطن کوئی آرزو رکھے اور معقول بات کہو اور اور اپنے گھروں میں سکون سے جمی بیٹھی رہو اور پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار دکھاتی مت پھر و اور ہمیشہ نماز پڑھتی رہو اور زکوۃ دیتی رہو۔ اللہ رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کے گھر والو! گندگی کو تم سے دور کر کے تم کو اچھی طرح پاک وصاف کر دے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو کہ ہر ایک کے سامنے ظاہر ہو کر بات چیت کرو اگر تم پرہیز گار بننا چاہتی ہو تو نرمی سے گفتگو مت کرو جس سے بد باطن شخص خدا جانے کیا طمع کرے اس لیے بے لاگ لپیٹ اور فطری انداز بدل کر بلا نزاکت کھری اور رکھاوٹ کے ساتھ بات کرو۔ جیسے ماں بیٹے سے کیا کرتی ہے چونکہ یہ روکھا پن عفت و عصمت کا محافظ ہے اس لیے یہ بدخلقی نہیں ہے اور اچھی بات کہو اور اپنے گھروں میں جمی بیٹھی رہو اور پہلے زمانہ جاہلیت کی طرح اب بن سنور کر باہر مت نکلا کرو ہمیشہ نمازیں پڑھتی رہو۔ زکوۃ دیتی رہو۔ اللہ کے رسول کا کہنا مانتی رہو اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے گناہوں کو دور کر کے تم کو پاک وصاف کر دے۔
اس آیت میں دو لفظ قابل غور ہیں (1) ’’قرن‘‘ ہے جس کو بعض لوگوں نے بفتح قاف پڑھا ہے اور قرار سے مشتق ہے اس صورت میں اس کے یہ معنی ہوئے کہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہو یا جمی رہو۔ اور بعض نے بکسر قاف پڑھا ہے جس کا مصدر وقار ہے اس بنا پر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اپنے گھروں میں سکون و قرار کے ساتھ رہو۔
(2) تبرج ہے اس کے دو معنی ہیں (1) زیب وزینت اور بناؤ سنگھار کو ظاہر کرتا (2) ناز وانداز دکھانا اور اترا کے چلنا۔ اس آیت میں دونوں معنی مراد ہیں۔ قدیم جاہلیت کی عورتیں خوب بن سنور کر باہر نکلتی تھیں جس طرح اب جدید جاہلیت میں نکل رہی ہیں قدیم جاہلیت کی عورتوں کی چال کو اگر دیکھنا ہو تو اس وقت جدید جاہلیت یافتہ عورتوں کی رفتار کو ملاخطہ فرما لیجئے تو قدیم زمانے کا نقشہ آپ کے سامنے آ جائے گا اسلام اس سے منع کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تم باہر کی ذمہ داریوں سے سبک دوش ہو تمہاری جائے قیام تمہارا گھر ہے وقار و سکون سے اپنے گھروں میں بھی بیٹھی رہو۔ اگر کسی ضرورت سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آجائے تو اپنی عصمت کو محفوظ رکھ کر نکل سکتی ہو مگر اس حالت میں کہ تمہارے لباس میں کوئی شان اور بھڑک نہ ہو جولوگوں کو تمہاری طرف مائل کرے اور نہ حسن کی نمائش کرو۔ اور اگر بولنے کی ضرورت پیش آ جائے تو بولو مگر شیریں اور رس بھری آواز سے نہیں۔ بلکہ تلخی اور روکھے پن سے اس میں تمہاری عصمت محفوظ رہے گی۔
اس آیت میں گو ازواج مطہرات کو مخاطب کیا گیا ہے مگر یہی حکم تمام عورتوں کے لیے ہے صاحب تفسیر احمدی فرماتے ہیں گو اس آیت کا موقع نبی ﷺ کی بیویوں کے متعلق ہے لیکن یہ حکم تمام مومنہ عورتوں کے لیے بھی ہے اور اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمام عورتیں عام مردوں سے پردہ کریں اور ان کے سامنے ظاہر نہ ہوں۔
کیونکہ اس آیت میں چھ چیزوں کا ذکر ہے: (1) سنجیدگی سے بات کرنا (2) گھروں میں رہنا (3) جاہلیت کے فیشن کو چھوڑ نا (4) نماز پڑھنا (5) زکوۃ دینا (6) اللہ و رسول کی اطاعت کرنا۔ یہ ساری چیزیں ازواج مطہرات اور تمام مسلمان عورتوں کے لیے عام نہیں چنانچہ پردہ کی بابت سورہ احزاب میں صاف طور پر فرمایا:
﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ ﴾ (الاحزاب: 59)
’’اے ہمارے نبی! آپ اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی تمام عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ اپنی چادروں سے گھونگھٹ کر لیا کریں۔‘‘
ازواج مطہرات تمام مسلمانوں کی مائیں ہیں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ﴾ اس لیے نبی ﷺ کے بعد ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی سے نکاح کریں- اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًا ؕ﴾ جب امہات المومنین کے لیے گھروں میں ہی رہنے کا حکم دیا گیا ہے جہاں فتنے کا بالکل احتمال نہیں تو دوسری عورتوں کے لیے ضرور ہی گھروں میں رہنے کا حکم دیا جائے گا کیونکہ یہاں فتنہ کا احتمال قوی تر ہے باوجود امہات المومنین ہونے کے خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات کا دوسروں سے پردہ کرایا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے تہمت والے واقعہ میں ہے کہ حضرت صفوان رضی اللہ تعالی عنہ آپ کے قریب تشریف لائے تو آپﷺ نے پردہ کر لیا۔ فرماتی ہیں صفوان رضی اللہ تعالی عنہ میرے پاس آئے مجھے پہچان لیا کیونکہ پردہ کے حکم سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے ان کے ﴿إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴾ (البقرة: 156) کے پڑھنے سے میں جاگ گئی اور میں نے اپنی چادر سے اپنے چہرے کو چھپا لیا۔[1]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: کتاب المغازى باب حديث الافك (4141)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا جنگ جمل کا قصہ بھی مشہور ہے کہ ان کا حقیقی بھائی آپ کے پاس آیا جب جنگ کا نقارہ بج چکا تھا اور لڑائی کا میدان گرم تھا۔ اور اپنی بہن کی اونٹنی (جس پر صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سوار تھیں) کے قریب کھڑا ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا رقعہ پیش کرنے لگا اس وقت آپ کے چہرے پر نقاب تھا اس نقاب کی وجہ سے اپنے بھائی کو نہ پہچان کر بولیں کہ آج عام لوگ میرے پاس بغیر اجازت کے آنے کی جرأت کرتے ہیں۔ بھائی نے جواب دیا نقاب اٹھا کر دیکھو میں (غیر) کون ہوں آپ کا بھائی ہوں۔
جنگ میں عورتوں کی شرکت:
مجاہدین اسلام کا کھانا پکانے سپاہیوں کو پانی پلانے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے ڈیرے کیمپ کی حفاظت کے لیے عورتیں جنگ میں شرکت کر سکتی ہیں یہ گھر میں رہنے کے بھی منافی نہیں ہے۔ اسلامی خواتین رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایسے کاموں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ احادیث کی ورق گردانی سے بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جنگ احد کے موقعہ پر جب مجاہدین کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا اپنی اپنی پیٹھوں پر مشکیزے لاد کر لایا کرتی تھیں اور مجاہدین اور لڑنے والوں کو پانی پلاتی تھیں۔[1]
حضرت ربیع بنت مسعود رضی اللہ تعالی عنہا خود چند خواتین کے ساتھ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں اور مجروحین کو مدینہ منورہ لاتی تھیں۔
ام عطیہ سات لڑائیوں میں شریک ہوئیں، کیمپ کی حفاظت، سپاہیوں کے لیے کھانا پکانا، زخمیوں اور بیماروں کی تیمارداری کرنا ان کے سپرد تھا، عورتوں کو ان کی خدمات کے صلہ میں مال غنیمت میں سے انعام بھی دیا جاتا تھا۔[3]
حج کے لیے جانا
جو عورتیں استطاعت والی ہیں ان پر حج فرض ہے اس کے لیے جانا ضروری ہے مناسک حج کے جو کام مردوں پر فرض ہیں وہی عورتوں پر بھی فرض ہیں البتہ احرام کی حالت میں عورتوں کا چہرہ کھلا رہنا ضروری ہے جب اجنبی مردوں کا سامنا ہو جائے تو دوپٹہ سے گھونگھٹ کر لیا کریں اور طواف کرتے وقت مردوں سے علیحدہ طواف کریں تاکہ اختلاط نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري: كتاب الجهاد و السير، باب غزوة النساء و قتالهن مع الرجال
[2] بخاري: كتاب الجهاد و السير باب مداواة النساء الجرحي في الغزو
[3] مسلم: كتاب الجهاد و السير باب النساء الغازيات:117/2.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعہ وعیدین میں شرکت
عورتیں جمعہ وعیدین میں بھی شرکت کر سکتی ہیں۔
حضرت ام عطیہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’کنواری جوان اور پردہ نشین اور حیض والی عورتیں بھی عید گاہ میں جائیں نیکی میں اور مومنوں کی دعا شریک ہوں، حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔‘‘
پنج وقتہ نمازوں میں شرکت
اسی طرح عورتیں مسجد میں جا کر پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھ سکتی ہیں بشرطیکہ سادگی کے ساتھ جائیں زینت کے ساتھ اور خوشبولگا کر نہ جائیں نبی ﷺ فرماتے ہیں۔ (لا تمنعُوا إِمَاءَ اللهِ مَسَاجِدَ الله)[1]
’’اللہ کی باندیوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو (اجازت دے دیا کرو)۔‘‘
اور فرمایا۔
(لَا تَمْتَعُو نِسَائِكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَّهُنَّ)[2]
’’اپنی عورتوں کو مسجدوں سے مت منع کرو لیکن ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
حقیقت یہی ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ افضل و ثواب ہے جتنی ہی زیادہ وہ پردہ سے نماز پڑھیں گی اتنا ہی زیادہ تو اب ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
(صَلوةُ المَرَاةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلوتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلوتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَو تِهَا فِي بَيْتِهَا)[3]
’’عورت کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے صحن میں پڑھے۔ اور اپنی کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے گھر میں پڑھے۔‘‘
نماز ایک مقدس فریضہ اور عبادت ہے اور مسجد ایک پاک مقام ہے مگر آپ نے اپنے منشا کا اظہار ان لفظوں سے فرمایا کہ ان کو مسجدوں میں آنے سے روکو نہیں لیکن ان کے حق میں گھر ہی میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر سے تاکہ اختلاط صنفین سے کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب الجمعة باب (بدون عنوان) (900)
[2]ابوداؤد، كتاب الصلوة باب خروج النساء الى المسجد:222/1۔
[3] ابوداؤد، كتاب الصلوة باب التشديد في ذلك 223/1۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ﴾ (احزاب: 33)
’’عورتو! اپنے گھروں میں سکونت پذیر رہو۔‘‘
اگر جانا چاہیں تو پردہ سے جا سکتی ہیں اپنے پاس نقاب یا چادر نہ ہو تو دوسرے سے مستعار لے لیں۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ سے دریافت کیا تھا اے اللہ کے رسول! اگر عید گاہ جانے کے لیے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کی بہن اپنی چادر اس کو بھی اڑھا دے۔[1]
چلتے وقت نہ زور سے پاؤں رکھیں اور نہ ٹخنے کھلنے پائیں حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایسے موقع کے لیے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! عورت کتنی نیچی ازار رکھے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: آدھی پنڈلی سے ایک بالشت نیچی رکھے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا تب تو ان کے قدم کھل جائیں گے فرمایا تو پھر ایک ہاتھ لٹکا لیا کریں۔
بہرحال باقاعدہ نقاب پہن کر ضرورت و حاجت کے لیے باہر آنے جانے کی اجازت ہے یہ گھر میں رہنے کے منافی نہیں ہے اور جب یہ اپنے گھروں میں ہوں اور کسی غیر مرد کے کچھ دریافت کرنے یا مانگنے کی ضروت پیش آئے اور گھر میں اس وقت کوئی مرد نہ ہو تو ان سے مانگنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور ان کے جواب دینے میں بھی کوئی حرج نہیں مگر یہ سب باتیں پردہ سے ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿ وَ اِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَ قُلُوْبِهِنَّ ؕ ﴾ (احزاب: 53)
’’اور جب ان عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ یہ طریقہ تمہارے اور ان کے دلوں کو پاک کرنے والا ہے۔‘‘
امام رازی تفسیر کبیر میں اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں اس میں نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو اس سے یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ عورتیں مردوں سے ضرور پردہ کریں یہی حکم مطلقہ عورتوں کا بھی ہے کہ اپنے گھروں میں رہیں باہر نہ نکلیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿ لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ؕ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ ؕ ﴾ (الطلاق: 1)
’’ان مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ صریح بے حیائی اختیار کریں تو اور بات ہے یہ اللہ کی حد ہے جو اس سے تجاوز کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] بخاري، كتاب الصلوة باب وجوب الصلوة في الثياب۔ [2] ابو داؤد، کتاب اللباس، 111؍4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو گھر میں رکھنے اور رہنے کی تاکید کی گئی ہے اس کو سزائے طلاق تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اگر کسی صورت میں طلاق دینا نامناسب ہے تو وہ مرد کا فعل ہے عورت بے چاری کو سزائے حبس کیوں دی جائے لامحالہ یہی کہنا پڑے گا کہ عورت کی وضع فطری کا مقتضا یہی ہے کہ اپنے گھر میں بھی بیٹھی رہے اور یہ وضع مقتضا قبل طلاق بھی اسی حالت میں تھا۔ لہذا ان کو بھی یہی حکم دیا جائے گا جو مطلقہ نہیں ہیں کیونکہ وضع فطری میں دونوں شریک ہیں لیکن مطلقہ عورتوں کو جو اس آیت میں گھر میں ہی رہنے اور زیادہ پردہ کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قبل طلاق اپنے شوہروں کے نام زد تھیں لالچی اور بدباطن لوگوں کی طمع منقطع اور مسدود تھی۔ اب طلاق کے بعد وہ آزاد ہو گئی ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ نہ تم ان کو نکالو اور نہ وہ خود ہی نکلیں۔ ہاں اگر وہ خود ہی اپنی عفت و عصمت کو برباد کرنا چاہتیں ہیں اور صریح بے حیائی پر کمر بستہ ہیں تو اور بات ہے۔ نبی ﷺ نے ایسی عورتوں کے پاس آمد و رفت رکھنے کو اس لیے حرام فرمایا کہ غیر عورتوں کے پاس آمد و رفت سے بچا کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! دیور کے حق میں کیا فرماتے ہیں۔ (بخاري و مسلم) فرمایا: دیور تو موت ہے یعنی بڑا خطرناک ہے اور فرمایا:
(لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا كَانَ ثَالِتُهَا شَيْطَانٌ)[1]
’’جب کوئی مرد کسی عورت کے پاس تنہائی کی جگہ بیٹھے گا تو تیسرا شیطان ضرور ہو گا۔“
کیونکہ آگ و پھوس دونوں کا اجتماع غیر ممکن ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
(الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا شَيْطَانٌ)[2]
’’عورت سرتا پا پردہ کی چیز ہے جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگا رہتا ہے۔“
بہکانے وسوسہ ڈالنے میں اس کو پوری کامیابی ہوتی ہے۔ اس لیے آپ نے حج کے موقعہ پر حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی تھوڑی پکڑ کر دوسری طرف پھیر دی تھی۔
ان چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ آپ نے پڑھ لیا ان سے آپ صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام نے حجاب (پردہ) کے مسئلہ پر کس قدر زور دیا ہے اور اس کو کتنی اہمیت دی ہے اگر ان پر عمل کیا جائے تو دنیا سے فتنہ وفساد کا دروازہ بالکل بند ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ صحیح سمجھ دے کر نیک عمل کی توفیق مرحمت فرمائے (آمین)
(وَاٰخِرَ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنْ لَّا نَبِيَّ بَعْدَہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذی، كتاب الفتن باب ماجاء في لزوم الجماعة 307/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔