استقبال رمضان
بسم الله الرحمن الرحيم
﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ﴾(آل عمران:133)
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، تقریبا سترہ، اٹھارہ دن باقی ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی پیشگی تیاری کی جائے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کی تیاری کی ضرورت کیوں ہے، اس کا مطلب کیا ہے، اور اس کے فوائد کیا ہیں، آج ان شاء اللہ کچھ انہی نکات پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔
کسی کام کی تیاری کا مطلب تو آپ سمجھتے ہی ہیں کہ اس کے لیے کمر بستہ ہونا، فراغت پانا، دوسرے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر، یا نمٹا کر ساری توجہ اور تمام صلاحیتیں اس کے لیے وقف کر دینا۔
تو تیاری کے معنی و مفہوم، تیاری کی ضرورت واہمیت اور اس کی افادیت کو ہر آدمی اچھی طرح سمجھتا ہے اور زندگی میں بہت بار اس سے گزرتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جتنا بڑا کام جتنا بڑا منصوبہ، اور جتنا اہم معاملہ ہو اسی قدر اس کی تیاری بھی اہم ہوتی ہے اور کسی کام کی تیاری آدمی کے ذوق اور شوق اس کی لگن اور اس کے ہاں اس کام کی اہمیت کی غمازی کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک کون سے کام اہمیت رکھتے ہیں اور ہم کن کاموں کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں، یہ بات کوئی ہم سے ڈھکی چھپی نہیں۔
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌۙوَّ لَوْ اَلْقٰى مَعَاذِیْرَهٗؕ﴾(القيامة:14۔ 15)
’’ہر شخص اپنے بارے میں خوب جانتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی حیلے بہانے تراش لے۔‘‘
کسی کام کے لیے تیاری اس کام کے ساتھ آدمی کی لگن اور شوق اور اس کے اخلاص اور سنجیدگی کا پتا دیتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی منافقین کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہ جب انہوں نے جھوٹے حیلے تراش کر جہاد میں نہ جانے کی اجازت چاہی تو فرمایا کہ در حقیقت ان کا جہاد پر جانے کا ارادہ تھا ہی نہیں۔
﴿ وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاَعَدُّوْا لَهٗ عُدَّةً﴾ (التوبة:46)
’’اور اگر ان کا ارادہ جہاد کے لیے نکلنے کا ہوتا تو وہ اس سفر کے لیے سامان کی تیاری کرتے ۔‘‘
﴿ وَّ لٰكِنْ كَرِهَ اللّٰهُ انْۢبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ﴾ (التوبة:46)
’’لیکن اللہ تعالی کو ان کا اٹھنا پسند ہی نہ تھا، اس لیے انہیں ست کر دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھے رہو، بیٹھنے والوں کے ساتھ۔‘‘
تو تیاری آدمی کی اس کام، مقصد اور منصوبے کے ساتھ اخلاص اور سنجیدگی کی علامت اور نشانی ہوتی ہے۔
یوں تو تیاری دنیا اور آخرت کے تمام معاملات میں ہی ہوتی ہے جو کام آدمی کرنا چاہے اس کے لیے کچھ نہ کچھ تیاری تو ضرور کرتا ہے۔ آدمی کام پر جانے کی تیاری کرتا ہے، کھانا کھانے کی تیاری کرتا ہے، سونے کی تیاری کرتا ہے، سیر و تفریح کے لیے جانے کی تیاری کرتا ہے، سفر پر روانہ ہونے کی تیاری کرتا ہے امتحان کی تیاری کرتا ہے انٹرویو کی تیاری کرتا ہے۔
اسی طرح نماز پڑھنے کی تیاری کرتا ہے، روزہ رکھنے کی تیاری کرتا ہے، روزہ کھولنے کی تیاری کرتا ہے، اور اسی طرح دیگر معاملات کے لیے بھی تیاری کرتا ہے۔ یہ اک روٹین کی تیاری ہے، جو ایک عادت بن جانے کی وجہ سے تیاری نہیں لگتی، اہتمام نہیں لگتا۔ مگر کچھ کام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے لیے آدمی روٹین سے ہٹ کر تیاری کرتا ہے، مثلاً شادی کے لیے کی جانے والی تیاری روٹین سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ شادی کسی کی بھی ہو، اپنی ہو، کسی رشتہ دار کی ہو، کسی دوست کی ہو، آدمی اس حیثیت سے اس کے لیے خوب تیاری کرتا ہے۔
دین کے معاملے میں حج کی مثال لیجیے، اس کے لیے بھی آدمی ایک خصوصی تیاری کرتا ہے، کیونکہ وہ ایک بہت اہم اور خصوصی واقعہ ہوتا ہے۔ اور تیاری آدمی اس لیے کرتا ہے کہ کہیں وہ موقعہ ہاتھ سے نکل نہ جائے، کہیں اس سے محروم نہ رہ جائے، کیونکہ وہ اس کام کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے۔ اسے کسی طرح ضائع ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا، بلکہ ہر حال میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ اس کا اہتمام کرتا ہے، اس کی تیاری کرتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے کاموں کے لیے کی جانے والی تیاری کی اہمیت کو ہم لوگ خوب سمجھتے ہیں ، لہٰذا خوب اہتمام کرتے ہیں۔ جبکہ آخرت کے معاملات کے لیے تیاری کو اہمیت نہیں دیتے ، حالانکہ دنیا کے کسی معاملے میں اگر آپ نے تیاری نہ بھی کی، یا آپ کی نیابت پر کسی اور نے تیاری کر رکھی ہو تو وہ بھی کام آسکتی ہے، جبکہ آخرت کے لیے خود آپ ہی کی تیاری کام آئے گی۔
﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰیۙ﴾ (النجم:39)
’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے۔‘‘
لہٰذا آخرت کے معاملات میں انسان کی خود اپنی ہی تیاری کام آتی ہے، الا یہ کہ بعض مخصوص اور استثنائی حالتوں میں کسی دوسرے کی تیاری بھی کام آسکتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ﴾(الطور:21)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور ان کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ، ان کی اس اولاد کو بھی ہم جنت میں ان کے ساتھ ملا دیں گے اور ان کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں کے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے۔‘‘
اسی طرح نماز جنازہ ہے، حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ ، يَمُوتُ فَيَقُومُ عَلٰى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا لا يُشْرِكُونَ بِاللهِ شَيْئًا ، إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيهِ))( مسلم:948)
’’ جس کسی مسلمان کے جنازے میں چالیس ایسے آدمی شامل ہوں جو اللہ تعالی کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہراتے ہوں، تو اللہ تعالی اس کے حق میں ان کی سفارش قبول کرتا ہے۔‘‘
اسی طرح انبیاء علیہم السلام، ملائکہ ، شہداء، علماء اور صالحین کی شفاعت بھی فائدہ دے گی مگر اللہ تعالی جس کو اجازت دیں گے اور جس کے حق میں اجازت دیں گے۔‘‘
تو آخرت میں بعض مخصوص اور استثنائی حالتوں میں آدمی کو اپنی تیاری اور کوشش کے علاوہ کسی اور کی کوشش کا فائدہ ہو سکتا ہے اور یہ اللہ تعالی کا خاص فضل ہوگا مگر قانون عدل وہی ہے﴿ وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰیۙ﴾ (النجم:39)
’’انسان کے لیے وہی ہے جس کی اس نے سعی کی ہے۔‘‘
اس لیے اسی قاعدے کی روشنی میں انسان کو آخرت کے حوالے سے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت ہے، صرف آخرت کی باتیں کر لینا کافی نہیں ہے۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں: ((أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! مَتَى السَّاعَةُ))
’’ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول سے ہم ! قیامت کب ہے؟‘‘
((قَالَ: وَمَا أَعْدَدتَّ لَهَا))
’’تو آپﷺ نے فرمایا: تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے۔‘‘
((قَالَ: لَا))
’’کیا کچھ بھی نہیں۔‘‘
((إِلَّا أَنِّي أَحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ .))
’’البتہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘
((قَالَ: فَإِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ))
’’تو فرمایا: تو اس کے ساتھ ہے جس سے تو محبت کرتا ہے۔‘‘
((قَالَ أَنس: فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْءٍ بعد الإسلام فَرَحنَا بِقَوْلِ رَسُول اللهِ إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ))
’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ہمیں اسلام لانے کے بعد کبھی کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی، جتنی آپﷺ کے اس فرمان سے ہوئی کہ ((إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ)) ’’ کہ تو اس کے ساتھ ہے جس سے تو محبت کرتا ہے۔‘‘
اور پھر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
((فَأَنَا أَحِبُّ رَسُولَ اللهِ ﷺ وَآبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ ))
’’پس میں آپ ﷺسے محبت کرتا ہوں، اور ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے۔‘‘
((فَارْجُو أَنْ أَكُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّي أَيَّاهُمْ وَإِنْ كُنْتُ لَا أَعْمَلُ بِأَعْمَالِهِم)) (المخلصيات لابي طاهر المخلِّص ، ج:3، ص:184 ، رقم:2284)
’’اور میں امید کرتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ ہوں گا ان سے، اپنی اس محبت کی وجہ ہے۔ اگر چہ میں ان جیسے عمل نہیں کرتا ۔‘‘
کسی چیز کی تیاری در اصل اس چیز کے لیے ، محبت ، شوق ، جوش، جذبہ اور ولولہ، اور لگن ابھارتی ہے، اور تعلق خاطر مضبوط کرتی ہے۔ کوئی کام شوق جوش اور جذبے کے ساتھ کرنے اور بغیر جوش و جذبے کے کرنے میں جو فرق ہے وہ آپ ضرور سمجھتے ہوں گے۔ جو کام آدمی شوق اور جذبے سے کرتا ہے اس میں لذت بھی ہوتی ہے اور اس کی قدر دانی بھی ہوتی ہے، اور جو کام ہے ولی اور بے رغبتی سے ہوتا ہے اس میں آدمی خود بھی لذت نہیں پاتا اور اس کی قدر بھی نہیں کی جاتی۔
اس لیے جو بھی کام کرنا ہو شوق اور جذبے سے ادا کرنا ہوگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺنماز میں جو دعائیں فرمایا کرتے ، ان میں سے ایک دعا کے چند الفاظ یہ بھی ہیں۔
((وَاسْأَلُكَ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ)) (مسند احمد، ج:5، ص:191، رقم:21710)
’’اور میں قضاء کے بعد تیری رضا چاہتا ہوں ۔‘‘
مطلب یہ کہ قضا و قدر پر ہر مسلمان کا ایمان ہے، اللہ تعالی نے جس کے بارے میں جو فیصلہ فرمایا وہ عدل پر مبنی ہے، اور حق ہے۔ اس پر ہر مسلمان کا ایمان ہے، عزم ہے اور دعوی ہے اور جب کوئی فیصلہ بندے پر واقع ہوتا ہے، اگر تو اس میں بظاہر بھی خیر ہو تو آدمی اپنے اس دعوے پر اور اس ایمان پر قائم رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی فیصلہ بظاہر اس کے حق میں نہ ہو، تکلیف اور نقصان کی صورت میں ہو تو اس وقت آدمی کا عزم متزلزل ہو جاتا ہے۔ ڈگمگا جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایا:
((أَسْأَلُكَ الرَّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ)) ’’قضاء کے بعد رضا چاہتا ہوں ۔‘‘
((أَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ المَوْت))
’’اور موت کے بعد عیش کی یعنی زندگی کی ٹھنڈک چاہتا ہوں ۔‘‘
موت سے پہلے جو زندگی کی ٹھنڈک ہے وہ یقینًا اک نعمت ہے، مگر ادھوری اور عارضی ہے، اصلی اور حقیقی ٹھنڈک وہ ہے جو موت کے بعد ہوگی ۔
((وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظْرِ إِلٰى وَجْهِكَ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ)) (مسند احمد، ج:5، ص:191، رقم:21710)
’’ اور تجھ سے تیرے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں، اور تیری ملاقات کا شوق چاہتا ہوں ۔‘‘
انسان اپنے رب کی طرف تو لا محالہ جاہی رہا ہے۔
﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰی رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِیْهِۚ۶﴾ (الانشقاق: (6)
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف جا رہا ہے۔ بالآخر اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔‘‘
مگر کیا لذت ہے دل میں شوق ملاقات لیے ہوئے جانے میں۔
تو بات ہو رہی تھی کہ کسی کام کے لیے پیشگی تیاری اس کام کے لیے دل میں شوق اور جذبہ کا مظہر ہوتی ہے اور اس کام میں اس کے وقت سے پہلے شریک ہونے کی سعادت مہیا کرتی ہے۔
شوق ملاقات کا ایک منظر ملاحظہ کیجیے۔
اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کو تورات دینے کے لیے کوہ طور پر بلایا، اور چالیس دن کی مدت مقرر فرمائی، کہ چالیس دن طور کے دائیں جانب ٹھہرو، اور مدت گزرنے پر پھر تمہیں ہدایت نامہ عطا کیا جائے گا۔ جب مدت پوری ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے پہلے جلدی جلدی روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اللہ تعالی نے پوچھا:
﴿وَ مَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُوسَى﴾ (طه:83)
’’اے موسیٰ تمہیں کون سی چیز اپنی قوم سے جلدی لے آئی ؟‘‘
﴿ قَالَ هُمْ اُولَآءِ عَلٰۤی اَثَرِیْ وَ عَجِلْتُ اِلَیْكَ رَبِّ لِتَرْضٰی﴾ (ص:84)
’’عرض کیا: وہ بھی میرے پیچھے پیچھے ہی آ رہے ہیں، میں جلدی کر کے حاضر ہو گیا ہوں اے میرے رب تا کہ تو مجھ سے خوش ہو جائے ۔‘‘
یہ ہے شوق ملاقات ۔
تو رمضان المبارک جو اللہ تعالی کی طرف سے اہل ایمان کے لیے ایک بہت بڑی عنایت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی کی وہ عنایت حاصل کرنے کا شوق ظاہر کریں اور اس کی طرف لپکیں۔ ہم یہ ثابت کریں کہ رمضان المبارک ہم پر بوجھ نہیں بلکہ ہمارے دلوں کی بہار ہے، ہم اس کے منتظر ہیں، ہم اس کے لیے بے چین و بے قرار ہیں، جس طرح کہ ہمارے اسلاف رمضان المبارک کے انتظار میں بے قرار رہتے تھے۔ وہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے رمضان المبارک پانے کی دعا میں کرتے۔ اور جب گزر جاتا تو قبولیت کی دعائیں کرتے رہتے۔ اللہ تعالی صرف فرائض کی ادائیگی نہیں بلکہ ان سے متعلق ہمارے دلوں کی کیفیت دیکھتے ہیں، ہماری چاہت، ہماری طلب اور ہماری تڑپ دیکھتے ہیں۔
((إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُورِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلٰى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ)) (مسند احمد، ج:2 ص :284، رقم:7814)
’’آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی تمہاری شکلیں اور تمہارے مال و دولت نہیں بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
بندہ اگر اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو ابتدا بندے کی طرف سے ہوگی ، ہاں توفیق اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوگی۔ اللہ تعالی نے ایمان دیا ہے، عقل دی ہے، صحت دی ہے، وسائل دیے ہیں، یہ اللہ تعالی کی طرف سے توفیق ہے، اب فجر کی نماز میں آنے کی راہ میں کیا چیز رکاوٹ ہے ! بس یہی کہ ہم چاہتے نہیں ہیں، جب اپنی چاہت کا اظہار کریں گے تو پھر دیکھنا قربتیں کسی طرح بڑھتی ہیں۔
حدیث میں ہے، مشہور حدیث ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
((إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَىَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا))
’’جب میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ذراع (ہاتھ کہنی تک) اس کے قریب ہو جاتا ہوں ۔‘‘
((وَإِذَا تَقَرَّبَ إِلَى ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ بَاعًا))
’’اور جب وہ ایک ذراع میرے قریب آتا ہے تو میں باز و بھر اس کے قریب ہوجاتا ہوں ۔‘‘
((وَإِذَا آتَانِي يَمْشِي أِتَيْتُهُ هَرْوَلَةً))( بخاری:7405)
’’ اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں‘‘
اللہ تعالی تو منتظر ہیں کہ ہم اپنی چاہت کا اظہار کریں۔ وہ کہتا ہے کہ:
﴿اُدْعُونِي اسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (غافر:60)
’’مجھے پکارو میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ مانگھو تو سہی میں قبول کرتا ہوں۔‘‘
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کے رہرو منزل ہی نہیں
یا د رکھیں اللہ تعالیٰ نے تمام اسباب اور وسائل مہیا کر کے ہم پر حجت قائم کر دی ہے، اب اگر ہماری طرف سے چاہت کا اظہار نہیں ہوتا، رضا مندی کا اشارہ نہیں جاتا تو وہ عنایت نہیں ہونے والی، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا قانون ہے۔
(اَنُلْزِمُكُمُوهَا وَ انْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ﴾ (هود:28)
’’تم مانتا نہ چاہو تو ہم یہ ہدایت ز بر دستی تمہارے سر چپیک دیں ۔ یعنی ایسے نہیں ہو سکتا۔‘‘
لہٰذا ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم اس ہدایت کے اہل ہیں، اس کے خواہشمند اور طلبگار ہیں۔
رمضان المبارک کی تیاری کسی طرح کریں؟ بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں، مگر ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وقت نکالنا ہوگا۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ:
’’وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔‘‘ تو پھر ڈر ہے کہ کہیں ہم جبریل علیہ السلام کی بددعا اور اس پر رسول ﷺ کی آمین کے مستحق نہ ٹھہرا دیے جائیں۔ جس میں جبریل علیہ السلام بد دعا کرتے ہیں:
((بَعُدَ مَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ ، فَقُلْتُ آمين)) (شعب الایمان ، ج:3، ص:134 ، رقم:1471)
’’اس شخص کے لیے دوری ہو، جس نے رمضان کو پایا مگر اس کی بخشش نہ ہو سکی،آپ نے فرمایا: آمین۔‘‘
ہماری ایمانی حالت کسی حد تک پتلی ہے بلکہ ابتر ہے کہ ایک تو ہم رمضان المبارک سے مستفید نہیں ہوتے اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ہم ہیرا پھیری اور بے ایمانی کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ خراب چیزیں رمضان المبارک میں بیچتے ہیں، قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور پرانا مال دھوکہ دہی سے نکالتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ چیزیں سستی کریں الٹا مہنگی کر دیتے ہیں حالانکہ رمضان المبارک تو بالخصوص ہمدردی اور خیر خواہی کا مہینہ ہے، لوگوں کو کھانا کھلانے، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا مہینہ ہے، مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے، تاہم یہ باتیں ہم سب کے لیے ایک نصیحت ہیں۔
﴿إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ﴾ (عبس:11۔12)
’’یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔‘‘
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا