جہنم سے آزادی کے اسباب

اہم عناصرِ خطبہ :

جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے اہم اسباب :

1۔ توحید

2۔اخلاص

3۔ دعا

4۔ تقوی

5۔ روزہ رکھنا

6۔ تکبیر اولی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا

7۔ فجر وعصر کی نمازوں کو ہمیشہ پڑھتے رہنا

8۔ ظہر سے پہلے اورا س کے بعد چار رکعات ہمیشہ پڑھتے رہنا

9۔ اللہ کے ڈر کی وجہ سے رونا

10۔ اللہ کے راستے میں اپنے قدموں کو غبار آلود کرنا

11۔ بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کرنا

12۔ مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرنا

13۔ مسلمان کو آزاد کرانا

14۔ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا

15۔ صبح وشام کے اذکار میں سے ایک خاص ذکر کا پڑھنا

پہلا خطبہ

محترم حضرات ! ہر مسلمان اِس بات کی تمنا اور دعا کرتا ہے کہ اسے قیامت کے روز اللہ تعالی جہنم کے عذاب سے نجات دے کر جنت میں داخل کردے کیونکہ در اصل یہی وہ حقیقی کامیابی ہے جس سے ہر مسلمان ہمکنار ہونا چاہتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ ﴾ [آل عمران:۱۸۵]

’’ پھر جس شخص کو جہنم سے دور اور جنت میں داخل کردیا جائے گا تو وہی شخص در حقیقت کامیاب ہو گا ۔ اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے ۔ ‘‘

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسے اسباب ہیں کہ جنھیں اختیار کیا جائے تو اللہ تعالی ان کی وجہ سے مسلمان کو جہنم سے آزادی دے دیتا ہے ؟ آئیے آج کے خطبۂ جمعہ میں انہی اسباب کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں :

1۔ توحید

جہنم سے آزادی حاصل کرنے اور جنت میں داخل ہونے کا سب سے بڑا سبب اللہ رب العزت کی توحید کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا ہے ۔

حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ( مَنْ شَھِدَ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ ) [مسلم:۲۹]

’’ جو آدمی یہ گواہی دے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں تو اس پر اللہ تعالی نے جہنم حرام کردی ہے ۔‘‘

اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( إِنِّی لَأعْلَمُ کَلِمَۃً لَا یَقُولُہَا عَبْدٌ حَقًّا مِّنْ قَلْبِہِ فَیَمُوتُ عَلٰی ذَلِکَ إِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ ) [ المستدرک ج ۱ ص ۱۴۳ وقا ل الحاکم : صحیح علی شرط الشیخین ووافقہ الذہبی ]

’’ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جس کو کوئی بندہ سچے دل کے ساتھ پڑھے ، پھر اسی پر اس کی موت آجائے تو اسے اللہ تعالی جہنم کی آگ پر حرام کردیتا ہے ۔ ‘‘

اور حضرت عتبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( إِنَّ اللّٰہَ حَرَّم عَلَی النَّارِ مَنْ قَالَ :لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ)

’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس شخص کو جہنم پر حرام کردیتا ہے جو محض اللہ کی رضا کی خاطر لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے ۔ ‘‘

اِن ا حادیث سے یہ ثابت ہوا کہ توحید ِ باری تعالی کا دل سے اقرار کرنا جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ اور توحید کی ضد ہے شرک جو کہ جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنتا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : دو واجب کرنے والی چیزیں کونسی ہیں؟

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ ، وَمَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللّٰہِ دَخَلَ النَّارَ ) [ مسلم :۹۳]

’’جس شخص کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ کسی کو اﷲ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا تووہ جنت میں داخل ہوگا۔ اور جس آدمی کی موت اس حالت میں آئے کہ وہ اﷲ کے ساتھ شرک کرتا تھا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔‘‘

توحید اور شرک دو متضاد چیزیں ہیں اور یہ دونوں کسی ایک شخص میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔ اگرکوئی شخص توحید ِ خالص کو مانتا اور اس کو دل سے تسلیم کرتاہو تو وہ یقینی طور پر شرک سے بچنے والا ہو گا ۔ اور اگر کوئی شخص شرک کرتا ہو تو وہ یقینا

توحید ِ خالص سے عاری ہو گا ۔ انجام کے اعتبار سے بھی یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں ۔ توحید کو ماننے والے کا انجام جنت اور شرک کرنے والے کا انجام جہنم ہے ۔

اللہ رب العزت فر ماتا ہے : ﴿ اِنَّہُ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوَاہُ النَّارُ﴾ [ المائدۃ : ۷۲ ]

’’ یقین کر لو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ۔‘‘

2۔ اخلاص

جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا دوسرا سبب اخلاص ہے جس کا معنی ہے : ہر عبادت کو خالصتا اللہ تعالی کی رضا کیلئے سر انجام دینا اور ریا کاری اور دکھلاوے سے بچنا ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( لَن یُّوَافِیَ عَبْدٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِی بِہَا وَجْہَ اللّٰہِ إِلَّا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ ) [ البخاری : ۶۴۲۳]

’’ جوبندہ قیامت کے روز اللہ تعالی سے اِس حالت میں ملے گا کہ اس نے خالصتا اللہ کی رضا کیلئے یہ کہا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ کو حرام کردے گا ۔ ‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں اخلاص جہنم سے آزادی کا سبب بنتا ہے جبکہ اخلاص کے برعکس ریاکاری ، دکھلاوا اور تعریف سننے کی خواہش یا کسی دنیاوی غرض کا حصول مقصود ہو تو یہ چیز انسان کو جہنم میں لے جاتی ہے ۔ چنانچہ جہنم میں سب سے پہلے جن تین لوگوں کو پھینکا جائے گا وہ ریاکاری کرنے والے ہی ہونگے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :

’’ قیامت کے دن سب سے پہلے جس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہو گا۔ چنانچہ اسے لایا جائے گا ، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا یعنی اقرار کر لے گا۔ پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا: ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : میں تیرے راستے میں قتال کرتے کرتے شہید ہو گیا تھا۔ اللہ تعالی کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے توقتال صرف اس لئے کیا تھا کہ تجھے جرأت مند کہا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی کہا گیا ۔ پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔

پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے علم حاصل کیا تھا اور اس نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور وہ قرآن کا قاری تھا ، اللہ تعالی اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا ۔ پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا : ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا ؟ وہ جواب دے گا : میں نے علم حاصل کیا ، پھر لوگوں کو تعلیم دی اور تیری رضا کی خاطر قرآن کو پڑھا ۔ اللہ تعالی کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے علم صرف اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی کہا گیا ۔ پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جسے اللہ تعالی نے نوازا تھا اور اسے ہر قسم کا مال عطا کیا تھا ۔ اللہ تعالی اسے بھی اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ انہیں یاد کرلے گا ۔ پھر اللہ تعالی اس سے پوچھے گا: ان نعمتوں میں تم نے کیا عمل کیا تھا؟ وہ جواب دے گا :جہاں کہیں خرچ کرنا تجھے پسند تھا وہا ں میں نے محض تیری رضا کی خاطر خرچ کیا اور ایسی کوئی جگہ میں نے چھوڑی نہیں ۔ اللہ تعالی کہے گا : تو جھوٹ بولتا ہے ، تو نے تو محض اس لئے خرچ کیا تھا کہ تجھے سخی کہا جائے ۔ چنانچہ ایسا ہی کہا گیا۔ پھر اللہ تعالی اس کے متعلق حکم دے گا اور اسے بھی چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔ ‘‘ [ مسلم ۔ الإمارۃ باب من قاتل للریاء والسمعۃ : ۱۹۰۵ ]

3۔ دعا

جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا تیسرا سبب ہے : دعا یعنی اللہ تعالی سے دعا کرنا کہ وہ جہنم سے اپنی پناہ میں رکھے اور اس کے عذاب سے بچائے ۔

عباد الرحمن کی صفات میں ایک صفت اللہ تعالی یوں بیان فرماتا ہے :

﴿ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ إِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ٭ إِنَّہَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا ﴾ [ الفرقان : ۶۵۔۶۶]

’’ اور جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے ۔ بے شک وہ ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بد ترین جگہ ہے ۔‘‘

لہذا رحمن کے بندوں کو چاہئے کہ وہ جہنم کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کیلئے اللہ تعالی سے دعا کرتے رہیں ۔ اور اس کی فضیلت اس قدر زیادہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(مَنْ سَأَلَ اللّٰہَ الْجَنَّۃَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ، قَالَتِ الْجَنَّۃُ : اَللّٰہُمَّ أَدْخِلْہُ الْجَنَّۃَ ، وَمَنِ اسْتَجَارَ مِنَ

النَّارِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ ،قَالَتِ النَّارُ : اَللّٰہُمَّ أَجِرْہُ مِنَ النَّارِ) [صحیح الجامع : ۶۲۷۵]

’’ جو شخص اللہ تعالی سے تین مرتبہ جنت کا سوال کرے توجنت کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جنت میں داخل کردے ۔ اور جو آدمی جہنم سے تین مرتبہ پناہ طلب کرے توجہنم کہتی ہے : اے اللہ ! اسے جہنم سے پناہ دے ۔‘‘

یعنی خود جہنم بھی اس سے بچنے کی دعا کرنے والے کیلئے دعا کرتی ہے کہ اے اللہ ! اسے مجھ سے بچا لے ۔

اور اس سلسلے میں ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ سامنے رکھنا چاہئے جو کہ خود بھی جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تعلیم دیتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ دعا اِس قدر اہتمام کے ساتھ سکھلاتے تھے کہ جیسے انھیں قرآن مجید کی ایک سورت سکھلا رہے ہوں :

( اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ،وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ مسلم :۵۹۰]

’’ اے اللہ ! میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اورقبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اورمسیحِ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ اور زندگی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔‘‘

اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر یہ دعا مانگتے تھے:

﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ بخاری:۶۳۸۹ ]

’’ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں اچھائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی دے۔اور ہمیں عذابِ جہنم سے بچا ۔‘‘

4۔تقوی

’ تقوی ‘ سے مراد ہے اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنا اور برائیوں اور گناہوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھنا ۔ لفظ ’ تقوی ‘ وقایہ سے ہے جس کا مطلب ہے اپنے اور گناہوں کے درمیان خوفِ الٰہی کو رکاوٹ بنانا ۔ لہذا جو شخص اللہ تعالی کے خوف کی بناء پر گناہوں سے بچتا رہے تو یہ چیز اس کیلئے جہنم سے آزادی کا سبب بن سکتی ہے ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ٭ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا ﴾ [مریم :۷۱ ۔۷۲]

’’ اور تم میں سے کوئی نہیں جس کا جہنم پر گزر نہ ہو ، یہ طے شدہ بات ہے جو آپ کے رب کے ذمہ ہے ۔ پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے اور ظالموں کو اس میں گھٹنوں کے بل گرا چھوڑیں گے ۔‘‘

اِس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ جہنم سے نجات حاصل کرنے والے لوگ وہی ہونگے جو دنیا میں اللہ تعالی سے ڈرتے ہوئے برائیوں سے اجتناب کرتے تھے ۔

اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز جنت میں پہنچائے گی ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تَقْوَی اللّٰہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ ) ’’ اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق ۔‘‘

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو سب سے زیادہ کونسی چیز جہنم میں پہنچائے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اَلْفَمُ وَالْفَرْجُ ) ’’ منہ اور شرمگاہ ۔‘‘ [ ترمذی : ۲۰۰۴۔ وقال : صحیح غریب۔ وحسنہ الألبانی]

چونکہ زیادہ تر گناہ انہی دو اعضاء ( منہ اور شرمگاہ ) سے ہوتے ہیں اس لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جہنم میں سب سے زیادہ پہنچانے والے اعضاء قرار دیا ۔ لہذا جہنم سے نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ان دونوں اعضاء کی خاص طور پر حفاظت کریں اور ان کے ذریعے اللہ تعالی کی نافرمانی نہ کریں ۔

منہ سے کسی کو گالی گلوچ نہ کریں ۔ جھوٹ ، غیبت ، فحش گوئی اور چغل خوری سے اپنا منہ پاک رکھیں ۔ منہ سے صرف حلال کھائیں پییں اور اسے حرام سے بچائے رکھیں ۔

اسی طرح شرمگاہ کی شہوت کو جائز اور حلال طریقے سے پورا کریں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ ٭ فَمَنِ ابْتَغَی وَرَائَ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ ﴾ المعارج : ۲۹ ۔ ۳۱ ]

’’اورجو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، ہاں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ اب جو شخص اس کے علاوہ کوئی اور راہ تلاش کرے گا تو ایسے لوگ حد سے گذر جانے والے ہیں ۔‘‘

محترم حضرات ! جہنم کو’شہوات اور نفسانی خواہشات ‘ کے ساتھ ڈھانپا گیا ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّہَوَات) [ مسلم : ۲۸۲۲]

’’ جنت کو ان کاموں سے ڈھانپا گیا ہے جو کہ (طبعِ انسانی

کو ) نا پسند ہوتے ہیں اور جہنم کو شہوات سے ڈھانپا گیا ہے ۔‘‘

اور ’ تقوی ‘ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اپنی خواہشات کو شریعت کا پابند بنائے اور شہوت پرستی سے پرہیز کرے ۔ یہ چیز جہنم سے نجات حاصل کرنے کیلئے نہایت ضروری ہے ۔ اگر یہ نہ ہو اور انسان اپنی شہوات میں غرق ہو جائے تو اس کا انجام یقینی طور پر جہنم ہی ہے ۔ والعیاذ باللہ

5۔ روزے رکھنا

روزہ انسان کیلئے ڈھال ہے جس کے ذریعے وہ دورانِ روزہ شہوات سے بچ سکتا ہے اور آخرت میں جہنم سے نجات حاصل کر سکتا ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ مِّنَ النَّارِ کَجُنَّۃِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ ) [ النسائی : ۲۲۳۱ ، ابن ماجہ : ۱۶۳۹ ، وصححہ االألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب : ۹۸۲]

’’ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص جنگ سے بچنے کیلئے ڈھال لیتا ہے۔ ‘‘

ایک دن کا روزہ مسلمان کو جہنم سے کتنا دور کردیتا ہے اس کا اندازہ آپ اِس حدیث سے کر سکتے ہیں :

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (مَا ِمنْ عَبْدٍ یَصُوْمُ یَوْمًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إلَّا بَاعَدَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ الْیَوْمِ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا) [البخاری : ۲۸۴۰ ، مسلم : ۱۱۵۳]

’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے ۔‘‘

اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

( مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ جَعَلَ اللّٰہُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ النَّارِ خَنْدَقًا کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْأرْضِ ) [ رواہ الترمذی : ۱۶۲۴وقال الألبانی : حسن صحیح ]

’’ جو شخص اللہ کے راستے میں ایک دن کا روزہ رکھے ، اللہ تعالی اُس کے اور جہنم کے درمیان ایک ایسی خندق بنا دیتا ہے جو اتنی لمبی ہوتی ہے جتنی زمین وآسمان کے درمیان کی مسافت ہے ۔ ‘‘

اور شاید یہی وجہ ہے کہ متعدد گناہوں کے کفارہ میں روزے رکھنا مشروع کیا گیا ہے مثلا قتل ِ خطا ، ظہار اور رمضان کے دنوں میں بیوی سے جماع کرنے کی پاداش میں مسلسل دو مہینوں کے روزے رکھنا مشروع ہے ۔ اسی طرح قسم توڑنے کے کفارہ میں تین دن کے روزے ہیں ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے گناہوں کو مٹاتے ہیں اور جب

گناہ مٹ جاتے ہیں تو انسان اللہ کے فضل وکرم سے جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے لائق ہو جاتا ہے ۔

6۔ چالیس دن تکبیر اولی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( مَنْ صَلّٰی لِلّٰہِ أَرْبَعِیْنَ یَومًا فِی جَمَاعَۃٍ یُدْرِکُ التَّکْبِیْرَۃَ الْأُوْلٰی کُتِبَ لَہُ بَرَائَ تَانِ : بَرَائَ ۃٌ مِّنَ النَّارِ وَبَرَائَ ۃٌ مِّنَ النِّفَاقِ ) [ الترمذی : ۲۴۱۔ وحسنہ الألبانی ]

’’ جو شخص اللہ کی رضا کیلئے چالیس دن اِس طرح باجماعت نماز پڑھے کہ تکبیر اولی بھی فوت نہ ہو تو (اللہ تعالی کی طرف سے ) اس کیلئے دو چیزوں سے براء ت لکھ دی جاتی ہے : جہنم کی آگ سے اور نفاق سے۔ ‘‘

مسلسل چالیس دنوں میں ہر نماز تکبیر اولی کے ساتھ با جماعت ادا کرنا بہت بڑا عمل ہے ۔ اس عرصہ کی نمازیں ۲۰۰ ہوتی ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ دو سو قدم ہیں جنت کی طرف ! کیا یہ سودا مہنگا ہے ؟ نہیں ، ہرگز نہیں ، اگر دو سو نمازیں تکبیر اولی کے ساتھ باجماعت ادا کرنے سے جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جائے تو یہ سودا ہرگز مہنگا نہیں ۔ لہذا اللہ تعالی سے مدد طلب کرتے ہوئے کمر بستہ ہو جائیں اور عزم کریں کہ یہ عمل ان شاء اللہ ضرور کریں گے !

7۔ فجر وعصر کی نمازوں کو ہمیشہ ادا کرتے رہنا

ویسے تو ہر نماز اہم ہے لیکن فجر وعصر کی اہمیت زیادہ ہے ۔ اِس لئے جو شخص باقی نمازوں کے ساتھ ساتھ ان دونوں نمازوں کو ہمیشہ پابندی کے ساتھ بروقت پڑھتا رہے تو اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( لَنْ یَّلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا) یَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ [ مسلم : ۶۳۴]

’’ وہ شخص جہنم میں ہرگز داخل نہ ہو گا جو طلوعِ آفتاب سے پہلے ( نماز فجر )اور غروب ِ آفتاب سے پہلے (نماز عصر ) پڑھتا رہے۔ ‘‘

اورحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ صَلَّی الْبَرْدَیْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ) [ البخاری : ۵۷۴ ، مسلم : ۶۳۵]

’’ جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں ( فجر وعصر ) پڑھتا رہے تووہ جنت میں داخل ہو گا ۔ ‘‘

فجر کی نماز اِس قدر اہم ہے کہ اگر کوئی شخص اسے باجماعت ادا کرے تو اسے پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے ۔

رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ ، وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِی جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیْلَ کُلَّہُ ) [ مسلم : ۶۵۶]

’’ جو شخص نماز عشاء با جماعت ادا کرے تو اس نے گویا آدھی رات قیام کیا اور جو فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو وہ گویا پوری رات نماز پڑھتا رہا ۔ ‘‘

اور جہاں تک نماز عصر کا تعلق ہے تو اللہ تعالی نے اس کے بارے میں خصوصی طور پر ارشاد فرمایا کہ نمازوں میں سے اِس نماز کو ہمیشہ پابندی سے اور بروقت ادا کرتے رہو ۔

فرمایا : ﴿حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ﴾ [البقرۃ: 238]

’’ تم تمام نمازوں کو پابندی سے پڑھتے رہو اور خاص طور پر درمیانی نماز کو ( یعنی نماز عصر کو)۔ اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو ۔ ‘‘

نماز عصر کوچھوڑنے کا خسارہ کتنا بڑا ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( اَلَّذِیْ تَفُوْتُہُ صَلَاۃُ الْعَصْرِ کَأَنَّمَا وُتِرَ أَہْلُہُ وَمَالُہُ ) [ البخاری : ۵۵۲ ، مسلم : ۶۲۶]

’’ جس آدمی کی نمازِ عصر فوت ہو جائے ، گویا اس سے اس کے گھر والوں اور اس کے مال کو سلب کر لیا گیا ۔‘‘

یعنی اگر کسی آدمی سے اس کے اہل وعیال اور اس کے پورے مال ودولت کو چھین لیا جائے تو جتنا بڑا خسارہ اِس آدمی کا ہو گا اُتنا ہی بڑا خسارہ اُس شخص کا ہو گا جو نماز عصر کوچھوڑدے ۔

اور ایک روایت میں ہے کہ ( مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ ) [ البخاری : ۵۵۳]

’’ جو شخص نمازِ عصر چھوڑ دے تواس کے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی ایک مرتبہ نماز عصر کو چھوڑنے سے پوری زندگی کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں ۔

8۔ ظہر سے پہلے او را س کے بعد چار رکعات ہمیشہ پڑھتے رہنا

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

( مَنْ حَافَظَ عَلیٰ أَرْبَعِ رَکْعَاتٍ قَبْلَ الظُّہْرِ ، وَأَرْبَعٍ بَعْدَہَا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ ) [ رواہ الترمذی : ۴۲۷ وصححہ الألبانی ]

’’جوآدمی ظہر سے پہلے چار رکعات اور اس کے بعد بھی چار رکعات ہمیشہ پڑھتارہے تو اسے اللہ تعالی جہنم کی آگ پر حرام کردیتا ہے۔‘‘

9۔ اللہ کے ڈر کی وجہ سے رونا

اللہ تعالی کی خشیت اور اس کے خوف کی بناء پر آنکھوں سے آنسو بہانا بھی جہنم سے آزادی حاصل کرنے کا بہت

بڑاسبب ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

( لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ حَتّٰی یَعُودَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ فِی مِنْخَرَیْ مُسْلِمٍ ) [ رواہ الترمذی وقال:حسن صحیح ، وصححہ الألبانی ]

’’ وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہو گا جو اللہ کے ڈر کی وجہ سے رو یا۔ (وہ جہنم میں نہیں جائے گا ) تا وقتیکہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ آئے ۔ اور اللہ کے راستے میں غبار اور جہنم کا دھواں ‘ یہ دونوں ایک مسلمان کے نتھنوں میں اکٹھے نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘

یعنی جو شخص اللہ کے راستے میں غبار آلود ہوتا ہے وہ بھی قیامت کے روز جہنم کے دھویں اور اس کے عذاب سے محفوظ رہے گا ۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( ثَلَاثَۃٌ لَا تَرَی أَعْیُنُہُمُ النَّارَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ : عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ، وَعَیْنٌ حَرَسَتْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَعَیْنٌ غَضَّتْ عَن مَّحَارِمِ اللّٰہِ ) [ رواہ الطبرانی وقال الألبانی : حسن لغیرہ ۔ السلسلۃ الصحیحۃ : ۲۶۷۳]

’’ تین قسم کے لوگوں کی آنکھیں جہنم کو نہیں دیکھیں گی ۔ ایک وہ آنکھ جس سے اللہ کے ڈر کی وجہ سے آنسو بہہ نکلے ، دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ کے راستے میں پہرہ دیا اور تیسری و ہ جو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو دیکھنے سے محفوظ رہی ۔ ‘‘

خوفِ الٰہی کی بناء اپنی آنکھوں سے آنسو بہانے والامسلمان قیامت کے روز ان خوش نصیبوں میں شامل ہو گا جنھیں اللہ رب العزت اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا اور اُس دن عرش کے سائے کے علاوہ کوئی اورسایہ نہیں ہو گا ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’ سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے (عرش کے ) سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا۔

( ان سات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کا بھی ذکر کیا ) جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ ‘‘ [ البخاری : ۶۶۰، مسلم : ۱۰۳۱]

10۔ اللہ کے راستے میں اپنے قدموں کو غبار آلود کرنا

اللہ کے راستے میں چل کرجانا جس سے جانے والے کے قدم غبار آلود ہو جائیں ، یہ وہ عمل ہے کہ اس کی وجہ سے بھی اللہ تعالی اس کے کرنے والے کو جہنم سے آزادی دے دیتا ہے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ فَہُمَا حَرَامٌ عَلَی النَّارِ) [ترمذی : ۱۶۳۲ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جس شخص کے دونوں قدم اللہ تعالی کے راستے میں غبار آلود ہوں تو وہ دونوں جہنم پر حرام ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘

’ اللہ کے راستہ ‘ سے مراد بنیادی طور پر تو جہاد فی سبیل اللہ ہے ، تاہم اس میں وہ تمام اعمالِ خیر شامل ہیں جنھیں اللہ کی رضا کیلئے سر انجام دینے کی خاطر انسان تگ ودو کرتا ہے ۔ اور ان میں نماز جمعہ کیلئے چل کرآنا بھی شامل ہے ۔ جیسا کہ حدیث نبوی میں ہے کہ ( مَنْ غَسَّلَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَاغْتَسَلَ ، وَبَکَّرَ وَابْتَکَرَ ، وَمَشٰی وَلَمْ یَرْکَبْ ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ ، فَاسْتَمَعَ وَلَمْ یَلْغُ ، کَانَ لَہُ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ عَمَلُ سَنَۃٍ ، أَجْرُ صِیَامِہَا وَقِیَامِہَا ) [ ابوداؤد : ۳۴۵ ، ابن ماجہ : ۱۰۸۷ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جس شخص نے جمعہ کے روز غسل کرایا اور خود غسل کیا اور نماز کے اول وقت میں آیا اور خطبۂ جمعہ شروع سے سنا ۔ اور چل کر آیا اور سوار نہیں ہوا ۔ اور امام کے قریب بیٹھ کر خطبہ غور سے سنا اور اس دوران کوئی لغو حرکت نہیں کی تو اسے ہر قدم پر ایک سال کے روزوں اور ایک سال کے قیام کا اجر ملے گا ۔‘‘

11۔بیٹیوں کی پرورش اور تربیت کرنا

اولاد دینے کا اختیار اللہ کے پاس ہے ۔ وہ جس کو چاہے بیٹے دے ، جس کو چاہے بیٹیاں دے ، جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دے اور جس کو چاہے کچھ بھی نہ دے ۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ﴿ لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَ ٭ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ ﴾ [الشوری:۴۹۔ ۵۰]

’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے ، وہ پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے ، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے یا انہیں ملا کر بیٹے اور بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے یقیناً وہ سب کچھ جاننے والا ، ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔‘‘

لہذا جس شخص کو اللہ تعالی بیٹیاں دے تو وہ جاہلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں اپنے لئے عار نہ سمجھے اور نہ ہی اپنی بیوی کو برا بھلا کہے کیونکہ اس کے اختیار میں نہیں کہ وہ بس بیٹے ہی پیدا کرے ۔ یہ تو صرف اللہ تعالی کا اختیار ہے ۔ اور اسے اپنی بیٹیوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت کا اہتما م کرنا چاہئے کیونکہ یہی بیٹیاں اس کے اور جہنم کے درمیان پردہ بن کرحائل ہو جائیں گی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کی تعلیم وتربیت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :

(مَنِ ابْتُلِیَ مِنْ ہٰذِہِ الْبَنَاتِ بِشَیْئٍ فَأَحْسَنَ إِلَیْہِنَّ کُنَّ لَہُ سِتْرًا مِّنَ النَّارِ ) [البخاری ۔ الزکاۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ :۱۴۱۸ ۔ واللفظ لہ ، مسلم ۔ البر والصلۃ باب فضل الإحسان إلی البنات ۔ ۲۶۲۹ ]

’’ جس شخص کو اِن بیٹیوں کی وجہ سے کسی طرح آزمائش میں ڈالا جائے پھر وہ ان سے اچھائی کرے تو یہ اس کیلئے جہنم سے پردہ بن جائیں گی ۔ ‘‘

اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیوں کو اٹھا رکھا تھا ۔ میں نے اسے تین کھجوریں پیش کیں ۔ اُس نے ایک ایک کھجوراُن میں سے ہر ایک کو دے دی اور تیسری کھجور کو اپنے منہ کی طرف کھانے کیلئے بلند کر ہی رہی تھی کہ اُس کی دونوں بیٹیوں نے اُس سے وہ کھجور بھی طلب کر لی ۔ چنانچہ اس نے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور آدھی آدھی کھجور ہر ایک کو دے دی اور یوں اُس نے خو د کچھ بھی نہ کھایا ۔ مجھے اُس کا یہ طرزِ عمل بہت پسند آیا ۔ اِس لئے میں نے یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کی ۔ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَوْجَبَ لَہَا بِہَا الْجَنَّۃَ أَوْ أَعْتَقَہَا بِہَا مِنَ النَّارِ ) [ مسلم : ۲۶۳۰]

’’بے شک اللہ تعالی نے اس کیلئے اس کی وجہ سے جنت کو واجب کردیا ہے ۔ ‘‘ یا آپ نے فرمایا : ’’ اسی بناء پر اللہ تعالی نے اسے جہنم سے آزاد کردیا ہے۔‘‘

12۔مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کرنا

اگر کسی کے سامنے اس کے مسلمان بھائی کو نشانہ بنایا جائے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے بھائی کا دفاع کرے اور نشانہ بنانے والے کو اس سے منع کرے ۔ مسلمان بھائی کی عزت کا غائبانہ دفاع اتنا بڑا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالی دفاع کرنے والے کو جہنم سے آزاد کردیتا ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے 🙁 مَنْ ذَبَّ عَنْ عِرْضِ أَخِیْہِ بِالْغَیْبَۃِ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّعْتِقَہُ مِنَ النَّارِ ) [ صحیح الجامع للألبانی : ۶۲۴۰]

’’ جو شخص اپنے بھائی کی عزت کا غائبانہ دفاع کرے تو اللہ پر اس کا یہ حق ہے کہ اسے جہنم سے آزاد کردے۔‘‘

لہذا جب کسی کے سامنے کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب بیان کرے یا اس پر طعن اندازی یا الزام تراشی کرے تو اسے اپنے بھائی کا دفاع کرتے ہوئے طعن اندازی یا الزام تراشی کرنے والے کا منہ بند کرنا اور اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے ۔ نہ یہ کہ وہ اس سے متاثر ہو کر اس کے خلاف مزید پروپیگنڈا کرنا یا اس کے عیبوں کو اچھالناشروع کردے۔اِس طرح کا طرزِ عمل یقینا افسوسناک ہے اور قابل مذمت بھی ۔

13۔ مسلمان کو آزاد کرانا

اگرکوئی مسلمان کسی کافر کی قید میں ہو یا اسے نا جائز طور پر پابند ِ سلاسل کردیا گیا ہو تو اسے قید سے آزادی دلانا اتنا عظیم عمل ہے کہ اللہ تعالی اس کی وجہ سے آزادی دلانے والے کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے ۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

( أَیُّمَا امْرِیئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَئً ا مُسْلِمًا کَانَ فِکَاکَہُ مِنَ النَّارِ ، یُجْزِیئُ کُلُّ عُضْوٍ مِّنْہُ عُضْوًا مِّنْہُ ، وَأَیُّمَا امْرِیئٍ مُسْلِمٍ أَعْتَقَ امْرَأَتَیْنِ مُسْلِمَتَیْنِ کَانَتَا فِکَاکَہُ مِنَ النَّارِ ، یُجْزِیئُ کُلُّ عُضْوٍ مِّنْہُمَا عُضْوًا مِّنْہُ ، وَأَیُّمَا امْرَأَۃٍ مُّسْلِمَۃٍ أَعْتَقَتِ امْرَأَۃً مُّسْلِمَۃً کَانَتْ فِکَاکَہَا مِنَ النَّارِ ، یُجْزِیئُ کُلُّ عُضْوٍ مِّنْہَا عُضْوًا مِّنْہَا ) [ ترمذی : ۱۵۴۷ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ جو مسلمان کسی مسلمان کو آزاد کرے تو وہی جہنم سے اس کی خلاصی کا سبب بن جائے گا ۔ اس کا ہر عضو اس کے ہر عضو کو آزاد کردے گا۔ اور جو شخص دو مسلمان عورتوں کو آزاد کرے تو وہ دونوں جہنم سے اس کو آزادی دلا دیں گی ، ان دونوں کا ہر عضو اِس کے ہر عضو کی آزادی کا سبب بنے گا ۔ اور جو مسلمان عورت کسی مسلمان عورت کو آزاد کرے تو وہ جہنم سے اس کی آزادی کا سبب بنے گی اور اس کا ہر عضو اس کے ہر عضو کو آزاد کردے گا۔ ‘‘

14۔ حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا

’ حسن اخلاق ‘ بھی جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے ۔

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ( مَنْ کَانَ ہَیِّنًا لَیِّنًا قَرِیْبًا حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ ) [ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی : ۱۷۴۵]

’’ جو شخص آسان ،نرم دل اور (مسلمانوں سے ) قریب ہو اس کو اللہ تعالی نے جہنم پر حرام کردیا ہے ۔‘‘

یعنی وہ ملنسار ہو ، اپنے مسلمان بھائیوں میں گھل مل جاتا ہو ، نرم دل اور متواضع مزاج ہو تو اس پر اللہ تعالی نے جہنم کو حرام کردیا ہے ۔

حسن اخلاق کا مظاہرہ مسلمان کو جنت میں لے جانے والا اور بد اخلاقی کا مظاہرہ اسے جہنم میں لے جانے والا عمل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض سلف صالحین ساری ساری رات صرف حسن اخلاق کی دعا ہی کیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک رات ابو الدرداء رضی اللہ عنہ تہجد کی نماز میں روتے ہوئے بار بار یہ دعا کر رہے تھے : ( اَللّٰہُمَّ أَحْسَنْتَ خَلْقِی فَحَسِّنْ خُلُقِی) ’’ اے اللہ ! تو نے مجھے بہت اچھا بنایا تو میرے اخلاق کو بھی اچھا کردے ۔ ‘‘

وہ مسلسل یہ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔ میں نے ان پوچھا : ابو الدرداء ! آپ نے ساری رات ایک ہی دعا کی ہے ، اس کی کوئی خاص وجہ ؟ تو انھوں نے کہا :

( یَا أُمَّ الدْرْدَائِ ! إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ یُحَسِّنُ خُلُقَہُ حَتّٰی یُدْخِلَہُ حُسْنُ خُلُقِہِ الْجَنَّۃَ ، وَیُسِیْیئُ خُلُقَہُ حَتّٰی یُدْخِلَہُ سُوْئُ خُلُقِہِ النَّارَ) [ البخاری فی الأدب المفرد : باب حسن الخلق إذا فقہوا ]

’’ ام الدرداء ! بے شک ایک مسلمان بندہ اپنے اخلاق کو اچھا کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا اچھا اخلاق اسے جنت میں داخل کردیتا ہے ۔ اور وہ اپنے اخلاق کو برا کرتا ہے یہاں تک کہ اس کا برا اخلاق اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے ۔ ‘‘

اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اخلاق کی اہمیت اور اس کی قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :

( مَا مِنْ شَیْیئٍ یُّوْضَعُ فِی الْمِیْزَانِ أَثْقَلَ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ،وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَیَبْلُغُ بِہِ دَرَجَۃَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ ) [ ترمذی : ۲۰۰۳ ۔ وصححہ الألبانی ]

’’ ترازو میں رکھی جانے والی سب سے زیادہ وزنی چیز اچھے اخلاق کے سواکچھ نہیں ۔ اور اچھے اخلاق والا انسان اُس شخص کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے جو صوم وصلاۃ کا پابند ہو ۔ ‘‘

لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے اخلاق کو اچھا بنائے اور بد اخلاقی سے پرہیز کرے تاکہ وہ جہنم سے آزادی حاصل کرسکے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو جہنم سے آزاد کرکے جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔

دوسرا خطبہ

محترم حضرات ! جہنم سے آزادی حاصل کرنے کے متعدد اسباب کا تذکرہ آپ نے پہلے خطبۂ جمعہ میں سنا ۔ اب اس کا آخری سبب پیش خدمت ہے ۔

15۔ صبح وشام کے اذکار میں سے ایک خاص ذکر جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر تاکید کی کہ اگر اسے چار مرتبہ پڑھا جائے تو اللہ تعالی پڑھنے والے کو جہنم سے آزاد کر دے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ جو شخص صبح کے وقت یہ دعا ایک مرتبہ پڑھے :

(اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَصْبَحْتُ أُشْہِدُکَ وَأُشْہِدُ حَمَلَۃَ عَرْشِکَ وَمَلَائِکَتَکَ ، وَجَمِیْعَ خَلْقِکَ أَنَّکَ أَنْتَ اللّٰہُ ، لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ)

’’ اے اللہ ! میں نے صبح کر لی ، میں تجھے گواہ بناتا ہوں اور تیرے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو اور تیرے (دیگر ) فرشتوں کو اور تیری پوری مخلوق کو گواہ بناتا ہوں کہ صرف تو ہی سچا معبود ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود

نہیں ۔ تو اکیلا ہے ، تیرا کوئی شریک نہیں ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں۔ ‘‘

تو اللہ تعالی اس کا چوتھا حصہ جہنم سے آزاد کردے گا ۔ اور اگر وہ یہ دعا چار مرتبہ پڑھے تو اسے مکمل طور پر جہنم سے آزاد کردے گا ۔ ‘‘ [ رواہ ابو داؤد وحسنہ ابن باز فی تحفۃ الأخیار]

لہذا یہ دعا صیح وشام پڑھنی چاہئے ۔ تاہم شام کے وقت ( أَصْبَحْتُ ) کی بجائے ( أَمْسَیْتُ ) پڑھنا ہو گا ۔

محترم حضرات ! یہ تھے وہ اسباب جنھیں اختیار کیا جائے تو اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے جہنم سے آزادی نصیب فر مائے گا ۔ لہذا تمام مسلمانوں کو یہ اسباب اختیار کرنے چاہیئں ۔ ہر شخص خود بھی یہ اسباب اختیار کرے اور اپنے اہل وعیال کو بھی انھیں اختیار کرنے کی ترغیب دے ۔ کیونکہ

اللہ تعالی کا فرمان ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا قُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلآئِکَۃٌ غِلاَظٌ شِدَادٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ [التحریم : ۶]

’’ اے ایمان والو ! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔ جس پر سخت دل ، مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنھیں اللہ تعالی جو حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔‘‘

جہنم سے نجات حاصل کرنے کا سبب چاہے چھوٹا سا کیوں نہ ہو اسے حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اور نہ ہی اس کا موقعہ ضائع کرنا چاہئے ، بلکہ اسے بلا تاخیر اختیار کرتے ہوئے جہنم سے بچاؤ کا سامان مہیا کرنا چاہئے ۔

حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آتشِ جہنم کو یاد کیا اور اس سے ڈرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ پیچھے ہٹایا ۔ پھر آپ نے فرمایا : ’’ جہنم سے بچو ۔ ‘‘

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ یاد کیا اور اپنا چہرہ پیچھے ہٹایا یہاں تک کہ ہم نے یہ گمان کیا کہ جیسے آپ اسے دیکھ رہے ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ ، فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَبِکَلِمَۃٍ طَیِّبَۃٍ ) [ بخاری : ۶۵۶۳، مسلم : ۱۰۱۶]

’’ تم جہنم سے بچو اگرچہ کھجورکا آدھا حصہ صدقہ کرکے ہی ۔ اور جس شخص کو یہ بھی نہ ملے تووہ ایک اچھا کلمہ کہہ کر ہی اپنے آپ کو جہنم سے بچالے ۔‘‘

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ، ہمارے والدین ، ہمارے اہل وعیال اور تمام مسلمانوں کو جہنم سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو جنت الفردوس میں داخل فرمائے ۔