جشن عید میلاد النبی ﷺ منانا

ارشاو رہائی ہے: ﴿اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَمْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيْنًا﴾ (سوره مائده، آیت: 3)
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا ۔
عَن عَائِشَةَ رَضِيَ الله عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ أَحدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدَّ (متفق عليه)
(صحیح بخاری: کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، صحیح مسلم: کتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور.)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے دین میں ایسی بات پیدا کی جو اس سے نہیں ہے تو وہ قابل قبول نہیں۔
وعَن عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَرَدّ. (رواه مسلم)
(صحیح مسلم : كتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور)
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : اگر آدمی ایسا عمل کرتا ہے جس کی قرآن وسنت میں کوئی دلیل نہیں ملتی تو وہ قابل قبول نہیں۔
وَعَن جابر بن عبد اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ إِذَا خَطَبَ ….وَيَقُولُ أَمَّا بَعدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرَ الهَديِ هَدىُ مُحَمَّدٍ وَشَرَ الأمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلالَةٍ. (اخرجه مسلم)
(صحيح مسلم : كتاب الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة)
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔ اما بعد: سب سے بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے اور سب سے بہترین طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہے، سب سے بدترین امر وہ ہے جسے (دین میں) ایجاد کر لیا گیا ہو، ایسی ہرنئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
تشریح:
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے احکام و عقائد بہت ہی روشن ہیں اس میں کسی طرح کی ترمیم و تنسیخ اور حذف واضافہ کی گنجائش نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں تم جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہو گے ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دونوں میں سے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت ہے (موطا امام مالک، مستدرک حاکم)۔
عصر حاضر میں ایک بہت بڑی بدعت رونما ہوئی ہے جسے جشن میلاد النبی یا عید میلاد النبی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آج پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد حب رسول کا حوالہ دے کر اسے بہت ہی زور شور سے مناتی اور اسے تیسری عید کا نام دیتی ہے حتی کہ گورنمنٹ بھی عوام کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے سرکاری طور پر چھٹی کا نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ بعض صوبوں میں سرکاری خزانہ سے سیرت رسول پر کانفرس کا انعقاد بھی کراتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ تیسری عید آئی کہاں سے؟ اور کب آئی؟ اس کا وجود کب ہوا؟ اس کا موجد کون ہے؟ کیونکہ اسلام میں تو صرف دو ہی عید کا ثبوت ملتا ہے۔
ایک عید الفطر اور دوسری عیدالاضحی۔ نبی کریم ﷺ کی تاریخ ولادت کے تعلق سے تمام مورخین کا شدید اختلاف ہے البتہ دن کے بارے میں تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سوموار کو ہوئی جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سوموار کے دن میری پیدائش ہوئی۔ اور اسی دن مجھے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ (صحیح مسلم)۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تاریخ ولادت کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کی ولادت عام الفیل، ماہ ربیع الاول بروز سوموار کو ہوئی لیکن اس ماہ کے کس تاریخ کو ہوئی؟ اس میں سیرت نگاروں کے درمیان مختلف اقوال میں کسی نے دو کسی نے آٹھ کسی نے دس کسی نے بارہ کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ کسی نے بائیس ربیع الاول کہا ہے۔ لیکن ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان میں سے آٹھ تاریخ کو راجح قرار دیا ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے البدایہ والنہایہ: 259 تا 292؍2)۔
اسی طرح علامہ صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے نزدیک آپ ﷺ کی پیدائش 9 ربیع الاول ؁1، عام الفیل بروز سوموار ہے۔ (الرحیق مختوم (101)۔
اس کی تائید شبلی نعمانی قاضی سلیمان منصوری پوری، اکبر شاہ نجیب آبادی نے بھی کی ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش 9 ربیع الاول بروز سوموار ہے۔ (دیکھئے سیرت النبی از شبلی نعمانی:171؍1، تاریخ اسلام از اکبر شاه، 87؍1، رحمۃ للعالمین از سلیمان منصور پوری 391؍2)
البتہ آپ ﷺ کی تاریخ وفات کے تعلق سے تمام مورخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے 12ربیع الاول کو تاریخ وفات بتائی ۔ (البداية والنہایہ: 255؍5) ابن سعد اپنی کتاب طبقات ابن سعد 272؍2 میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے۔ امام نووی، حافظ ابن حجر، ابن جریر طبری، ابن اثیر اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ کے نزدیک بھی آپ ﷺ کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے۔ اسی طرح برصغیر کے معروف مورخین اور سیرت نگار جیسے علامہ صفی الرحمن مبا کپوری، شبلی نعمانی، قاضی سلیمان منصور پوری بھی آپ ﷺ کی تاریخ وفات 12 ربیع الاول کے قائل ہیں۔ ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ آپ ﷺ کی ولادت 12 ربیع الاول نہیں بلکہ یہ تاریخ وفات ہے۔ اب اس دن کا نام عید میلاد رکھنا کہاں تک صحیح ہے اس کا فیصلہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
عید میلاد کے تعلق سے ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ اس کے موجد چوتھی صدی ہجری کے غالی شیعہ رافضی ہیں اور یہ کافرو فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا۔ زنا کو جائز، شراب اور خوں ریزی کو حلال قرار دیا، یہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن و طعن کرتے تھے نیز یہ بہت ہی مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے ان کے ظاہر و باطن نجاست سے بالکل پر تھے ان کے دور حکومت میں بدعات و منکرات کو کافی تقویت ملی (البداية والنہایہ: 255 تا 271؍11)۔
جبکہ علامہ تقی الدین مقریزی میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فاطمی حکمران ہمیشہ میلا د جشن مناتے رہتے کبھی جشن میلادالنبی ہے تو کبھی جشن عاشوراء ہے، تو کبھی جشن حسن و حسین ہے تو کبھی میلاد فاطمہ ہے اسی طرح ان کا سال بھر جشن چلتا اور میلاد کی محفلیں لگی رہتی تھیں ۔ (المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار: 390؍1)
پھر اس میلاد کا سلسلہ رافضیوں سے نکل کر سینیوں تک پہنچا لیکن سینیوں نے یہ کیا کہ تمام میلاد یعنی حسن و حسین و فاطمہ و حکمرانوں کے میلاد کو چھوڑ کر صرف میلادالنبی کو اختیار کیا پھر یہ بدعت شاہ اربل نے بڑے ہی دھوم دھام سے سرکاری طور پر منانا شروع کر دیا۔ شاہ اربل کے تعلق سے امام سیوطی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ سب سے پہلے اس نے اربل میں عید میلاد کی رسم نکالی۔ وہ اربل کا حاکم الملک المنظفر ابوسعید کو کبوری تھا۔ ( الحاوی للفتاوی: 189؍1)
ابن خلکان نے بہت ہی تفصیل کے ساتھ شاہ اربل کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے ہاں محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار اور عجم کے شہروں سے فقہاء، صوفیا، شعراء اور قراء حضرات اربل آنا شروع ہو جاتے ۔ ان کے اعزاز میں شاہ اربل چار چار پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا، ان میں سب سے بڑا قبہ اس کا ہوتا اور باقی دوسرے حکمرانوں کے۔ ان قبوں کی سجاوٹ ماہ صفر میں کمپلیٹ ہو جاتی اور ہر طرح کے رقص و سرور کی چیزیں مہیا کر دی جاتیں اور لوگ اپنے کاروبار بند کر کے یہاں لطف اندوز ہونے کے لئے آتے۔ جبکہ بادشاہ کا معمول تھا کہ روزانہ وہ وہاں جاتا اور کسی ایک قبے میں شامل ہو کر وہاں رقص و سرود کی محفلوں سے لطف اندوز ہوتا اور پھر رات گزارنے کے بعد وہیں سے شکار کے لئے نکل جاتا اور دوپہر کو گھر واپس لوٹتا۔ یہی سلسلہ 12 ربیع الاول تک رہتا۔ واضح ہو کہ اس کے زمانے میں بھی دو تاریخوں میں یعنی آٹھ اور بارہ ربیع الاول کو عید میلاد منائی جاتی، کیونکہ اس وقت تک بھی تاریخ میلاد کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عید میلاد سے دو دن قبل دو بہت سارے اونٹ، گائے اور بکری اور طبلے اور سارنگیوں کے ساتھ عید میلاد کے لئے نکلتا اور پھر انہیں جانوروں کو ذبح کر کے میلاد میں شریک ہونے والوں کی ضیافت کرتا تھا۔ (وفیات الاعیان لابن خلکان: 117؍3)
پھر دھیرے دھیرے یہ بدعت رواج پکڑتی چلی گئی یہاں تک کہ عمر بن حسن جو ابن دحیہ سے مشہور ہے اس کا زمانہ آیا تو اس نے موقع کا بہت فائدہ اٹھایا اور اس میلاد کے جواز اور فضائل کے تعلق سے ایک مکمل کتاب لکھ دی جس میں قرآن وسنت کے نصوص کو کاٹ چھانٹ کر اور سیاق سباق سے ہٹا کر پیش کیا جاتا تا کہ بادشاہوں سے داد و دہش اور انعام حاصل کر سکے۔ ابن دحیہ کے تعلق سے امام ذہبی نے کہا کہ وہ جھوٹا ہے جبکہ ابن حجر کا قول ہے کہ وہ ظاهری مذہب کا حامل تھا ائمہ کرام اور سلف کے بارے میں گستاخ تھا اور دینی امور میں کم علم اور بے عمل تھا۔ (میزان الاعتدال ۱۸۹/۳، لسان المیوان: 296؍3)
ان سارے دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عید میلاد سراسر بدعت ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی لوگ اسے جائز قرار دینے کے لئے قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی تاویلات کرتے ہیں اور اسے تو زمروز کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿يَاأيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتَكُمْ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ) (سوره يونس: آیت57،58)
ترجمہ: اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لئے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے وہ اس سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں۔
اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ نصیحت، شفاء ہدایت اور رحمت وغیرہ صرف حضور کی آمد ہی پر منحصر ہے اور سب سے بڑی نعمت حضور کی ذات گرامی ٹھہری اس لئے فيذلک فلیفرحوا میں خوشی منانے کا حکم ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے پورے ۲۳ سال کی زندگی میں کبھی اس کام کو نہیں کیا اور نہ ہی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے اس آیت سے میلاد کو جوڑا اور نہ محدثین و مفسرین وائمہ اربعہ نے اس آیت سے عید میلاد کا مفہوم نکالا۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ انہیں صدیوں بعد یہ ہوش آیا کہ اس آیت سے مراد عید میلادالنبی ہے۔ دوسرے یہ کہ اس آیت میں عید میلاد کا کوئی تذکرہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ آیت اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ تم نزول قرآن پر خوش ہو جاؤ جو تمہارے لئے سر چشمہ ہدایت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عید میلاد النبی کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ سلف صالحین نے محفل میلاد کا انعقاد نہیں کیا اور نہ ہی اس کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ تھی اگر یہ محض خیر و بھلائی ہی کا کام ہوتا یا اس میں خیر کا پہلو زیادہ ہوتا تو سلف صالحین اسے حاصل کرنے کے لئے ہم سے زیادہ حقدار تھے وہ ہماری نسبت اللہ کے رسول ﷺ سے زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کی تعظیم و تکریم میں ہم سے زیادہ سبقت کرنے والے تھے آپ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی آپ سے محبت کی علامت ہے (اقتضاء الصراط المستقیم: ۲۹۵)۔
اسی طرح تاج الدین فاکہانی نے لوگوں کے عید میلاد النبی کے استفسار پر فرمایا کہ کتاب وسنت سے اس میلاد کی کوئی دلیل مجھے نہیں ملی اور نہ ہی علماء امت کے ہاں بھی کوئی دلیل اس بارے میں موجود ہے کہ انہوں نے عید میلاد منائی ہے بلکہ حقیقت میں یہ بدعت اور من گھڑت چیز ہے جسے خواہش نفس کے پجاریوں اور پیٹ پرستوں نے گھڑ لیا
ہے۔ (الحاوی للفتاوی: ۱/ ۱۹۰)۔
جبکہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے سوال کیا گیا کہ کیا ربیع الاول کے ماہ میں نبی کریم کی روح کو کھانا کھلانے سے ثواب پہنچتا ہے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اس کام کے لئے وقت، دن اور مہینہ کی تعین کرنا بدعت ہے اور سنت کے مخالف اور حرام ہے۔ (فتاوی عزیزه:93)
یہ عید میلادالنبی کی مختصری تاریخ ہے جس سے واضح ہو گیا کہ کسی بھی صورت میں یہ چیز جائز نہیں ہے بلکہ بدعت ہے کیونکہ اسے رسول اکرم ﷺ نے کبھی نہیں منایا اور نہ ہی اس کا حکم دیا جب کہ آپ سے دین کے مبلغ اور رب کی شریعت کے شارع تھے۔ یہ کام خلفاء راشدین، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا اور نہ ہی تابعین عظام اور ائمہ کرام نے کیا بلکہ اس کام کو لوگوں نے صدیوں بعد ایجاد کیا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے که وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو اپنے اوپر لازم پکڑیں اور شرک و بدعات اور باطل عقائد و نظریات سے اجتناب کریں کیونکہ اس میں سعادت دارین کا راز مضمر ہے۔
فوائد:
٭ جشن عید میلادالنبی منانا اور اس کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔
٭ بدعت انسان کو جہنم میں لے جانے کا ذریعہ ہے۔
٭ جشن عید میلا والنبی اسلام کے خلاف ہے۔
٭٭٭٭