جہاد ہی میں عزت ہے
تمہارے لیے جہاد سب سے بہتر ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (التوبة : 41)
نکلو ہلکے اور بوجھل اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
اور فرمایا
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرة : 216)
تم پر لڑنا لکھ دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں سراسر نا پسند ہے اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
جہاد،دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب، غموں اور پریشانیوں سے بچنے کا زریعہ ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (الصف : 10)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمھاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا لے ؟
تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف : 11)
تم اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جَاهِدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَإِنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يُنَجِّي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهَمِّ وَالْغَمِّ ” (مسند احمد 22172)
اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے زریعے غم اور پریشانی سے نجات دیتا ہے
جہاد ،اقامت دین اور حفاظت اسلام کا بہترین زریعہ ہے
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ، حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّ الْإِسْلَامِ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ". (بخاري كِتَابُ الإِيمَانِ، بَابٌ: {فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ} [التوبة: 5]،25)
۔ مجھے ( اللہ کی طرف سے ) حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں اس وقت تک کہ وہ اس بات کا اقرار کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز ادا کرنے لگیں اور زکوٰۃ دیں، جس وقت وہ یہ کرنے لگیں گے تو مجھ سے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیں گے، سوائے اسلام کے حق کے۔ ( رہا ان کے دل کا حال تو ) ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” لَنْ يَبْرَحَ هَذَا الدِّينُ قَائِمًا يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ ” (مسلم 1922)
یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور اس کے دفاع کیلئے ہمیشہ ایک جماعت قتال کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو جائے گی
ابو بكر الصديق رضی اللہ عنہ نے فرمایا
وَاللهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ، وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ (مسلم، كِتَابُ الْإِيمَانِ،بَابُ الْأَمْرِ بِقِتَالِ النَّاسِ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ،124)
اللہ کی قسم ! میں ان لوگوں سے جنگ کروں گا جو نماز او رزکاۃ میں فرق کریں گے ، کیونکہ زکاۃ مال (میں اللہ) کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ لوگ (اونٹ کا) پاؤں باندھنے کی ایک رسی بھی روکیں گے ،جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے جنگ کروں گا ۔
جہاد، مومنین کے سینوں کو ٹھنڈا اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ (التوبة : 14)
ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة : 15)
اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
اکٹھی پانچ بشارتیں
ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں
01. اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہو گا
02. دوسرا یہ کہ ’’ يُخْزِهِمْ ‘‘ انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا
03. تیسرا یہ کہ ’’ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ ‘‘ ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں غلبہ عطا کرے گا۔
اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہو سکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہو جائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔
04. چوتھا یہ کہ ’’وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ‘‘ تمھارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔
05. پانچواں یہ کہ ’’ وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ ‘‘ ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔
(تفسیرالقرآن الکریم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ)
حافظ صاحب مزید لکھتے ہیں
دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے
جہاد کی تیاری سے دشمن مرعوب ہوکر دب جاتا ہے اور امت محفوظ ہوجاتی ہے
فرمایا اللہ تعالیٰ نے
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (الأنفال : 60)
اور ان کے لیے جتنی کر سکو قوت کی صورت میں اور تیار بندھے گھوڑوں کی صورت میں تیاری رکھو، جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن کو اور اپنے دشمن کو ڈرائو گے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں کو بھی جنھیں تم نہیں جانتے، اللہ انھیں جانتا ہے اور تم جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمھاری طرف پوری لوٹائی جائے گی اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے استاذ گرامی لکھتے ہیں
یعنی اس قدر مضبوط تیاری رکھو کہ اللہ کا دشمن اور تمھارا دشمن اور تمھارے ساتھ کد رکھنے والا ہر شخص تم سے خوف زدہ رہے اور لڑنے کی جرأت ہی نہ کر سکے۔ ان واضح دشمنوں میں مشرکین، یہود و نصاریٰ اور جانے پہچانے منافق سب شامل ہیں۔نیز مسلمانوں کی صفوں میں کفار کے چھپے ہوئے ہمدرد منافق بھی شامل ہیں۔
علاوہ ازیں کئی اقوام جو بظاہر اس وقت تمھارے خلاف نہیں، مگر موقع پانے پر دل میں تم سے لڑائی کا ارادہ رکھتی ہیں، تمھاری مکمل تیاری اور ہر وقت جہاد میں مصروف رہنا سب کو خوف زدہ رکھے گا
جہاد، مظلوموں کی مدد کا اہم راستہ ہے
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ نَصِيرًا (النساء : 75)
اور تمھیں کیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی مدد گار بنا۔
اور فرمایا
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (الحج : 39)
ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے، اجازت دے دی گئی ہے، اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر یقینا پوری طرح قادر ہے۔
جہاد چھوڑنے سے ذلت اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوتی ہے
سیدنا ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے
” إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ ؛ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ ” (ابو داؤد، کِتَابُ الْإِجَارَةِ،بَابٌ فِي النَّهْيِ عَنْ الْعِينَةِ،3462صحیح)
” جب تم عینہ کی بیع کرنے لگو گے ، بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے ، کھیتی باڑی ہی پر مطمئن ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو کسی طرح زائل نہ ہو گی حتیٰ کہ تم اپنے دین کی طرف لوٹ آؤ ۔ “
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التوبة : 39)
اگر تم نہ نکلو گے تو وہ تمھیں دردناک عذاب دے گا اور بدل کر تمھارے علاوہ اور لوگ لے آئے گا اور تم اس کا کچھ نقصان نہ کرو گے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
امت مسلمہ کی معاشی ترقی جہاد سے ہی وابستہ ہے
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” جُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي ” (بخاري،معلقا تحت الحديث 2757
مسند احمد، 5093)
میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھ دیا گیا ہے اور جو میرے حکم کی مخالفت کرے گا اس پر ذلت اور رسوائی مسلط کر دی گئی ہے
اور اللہ تعالیٰ اسی جہاد کے مفید اثرات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَمْ تَطَئُوهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا (الأحزاب : 27)
اور تمھیں ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مالوں کا وارث بنادیا اور اس زمین کا بھی جس پر تم نے قدم نہیں رکھا تھا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
جہاد اور مسلمانوں کی تعداد
جہاد کی فرضیت سے پہلے تیرہ سالہ مکی اور ایک سالہ مدنی زندگی میں بھرپور دعوتی سرگرمیوں اور جد و جہد کے باوجود جب بدر کی جنگ ہوئی تو اس میں 313 مسلمان شامل تھے اور شاید کہ تب تک مجموعی تعداد 1000 سے متجاوز نہ ہو گی
لیکن اس جنگ کے ثمرات دیکھیں کہ ٹھیک ایک سال بعد تعداد اس سے ڈبل ہوجاتی ہے اور اس کے چھ سال بعد جب مکہ فتح کیا تو بچوں، بوڑھوں، معذوروں اور خواتین کے علاوہ صرف لشکر اسلام کی تعداد دس ہزار تھی
پندرہ دن بعد حنین و ہوازن کی طرف رخ کیا تو یہی لشکر 12 ہزار نفوس پر مشتمل تھا اور اس کے ایک سال بعد تبوک کی طرف روانگی ہوئی تو اسلامی لشکر 30 ہزار جنگجوؤں کی تعداد میں تھا
عزت و قوۃ کے یہ سب مظاہر جہاد فی سبیل اللہ کے ثمرات ہیں
اسی فتح، نصرت اور جہاد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (النصر : 1)
جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔
وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (النصر : 2)
اور تو لوگوں کو دیکھے کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر : 3)
تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور اس سے بخشش مانگ، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔
ہمارے حافظ صاحب لکھتے ہیں
جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے مکہ فتح فرما دیا تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد دو سال نہیں گزرے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور تمام قبائل میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو۔
تفسیر القرآن الكريم از استاذ گرامی حافظ عبدالسلام بن محمد حفظہ اللہ تعالیٰ
ایک ایک آدمی کو تین تین سو اونٹ دے دیئے گئے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین میں خونریز جنگ کی، اللہ نے اپنے دین کو اور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی
40 ہزار بکریاں
24 ہزار اونٹ
6 ہزار قیدی
اور اس کے علاوہ بے شمار نقدی، سونا چاندی مسلمانوں کے ہاتھ آیا
صحیح مسلم میں ہے
وَأَعْطَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ مِائَةً مِنَ النَّعَمِ ثُمَّ مِائَةً ثُمَّ مِائَةً
اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سو اونٹ عطا فرمائے ،پھر سواونٹ پھر سواونٹ۔
صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :
«وَاللهِ لَقَدْ أَعْطَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْطَانِي، وَإِنَّهُ لَأَبْغَضُ النَّاسِ إِلَيَّ، فَمَا بَرِحَ يُعْطِينِي حَتَّى إِنَّهُ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ» (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6022)
اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو عطا فر ما یا ،مجھے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ بغض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا ۔پھر آپ مجھے مسلسل عطا فرما تے رہے یہاں تک کہ آپ مجھے تمام انسانوں کی نسبت زیادہ محبوب ہو گئے
ایسے ہی آپ نے
ابوسفیان بن حرب اور اس کے بیٹے یزید و معاویہ کو سو سو اونٹ عطا کیئے
ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو 100 اونٹ
ان کے بیٹے یزید رضی اللہ عنہ کو 100 اونٹ
دوسرے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کو 100 اونٹ
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو 200 اونٹ عطا فرمائے
بحوالہ الرحیق المختوم
یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کی بدولت ممکن ہوا
دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں ایک ہی شخص کو دے دیں
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
آپ فرماتے ہیں
” مَا سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ، قَالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَةَ ” (مسلم، كِتَابُ الْفَضَائِلِ،بَابُ حُسنِ خُلُقِهِ النبي صلى الله عليه وسلم، 6020)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام (لا نے) پر جوبھی چیز طلب کی جا تی آپ وہ عطا فر ما دیتے ،کہا: ایک شخص آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہاڑوں کے درمیان(چرنے والی) بکریاں اسے دے دیں ،وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس گیا اور کہنے لگا : میری قوم !مسلمان ہو جاؤ بلا شبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ تک نہیں رکھتے۔
5 کروڑ 61 لاکھ 60 ہزار روپے کا سالانہ بجٹ
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں :
’’جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خمس میں سے ہر بیوی کو اسّی (۸۰) وسق (دو سو چالیس من) کھجوریں اور بیس (۲۰) وسق (ساٹھ من) جو دیا کرتے تھے (اور یہ وظیفہ آپ کی وفات کے بعد بھی جاری رہا)۔‘‘ [ أبو داوٗد، الخراج، باب ما جاء في حکم أرض خیبر : ۳۰۰۶، و قال الألباني حسن الإسناد ]
کھجور اچھی بھی ہوتی ہے درمیانی بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی
اگر ہم اوسط ریٹ فی کلو 500 کے مطابق بھی حساب کریں تو 80 وسق یعنی 300 من کھجور (جوکہ 12000 کلو بنتی ہے) 60 لاکھ روپے مالیت ہے
اور 20 وسق یعنی 75 من جو (جوکہ 3000 کلو بنتے ہیں)
فی کلو جو کا اوسط ریٹ 80 روپے ہے
75 من جو تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار روپے کے بنتے ہیں
گویا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہر زوجہ محترمہ کو ٹوٹل 62 لاکھ 40 ہزار روپے سالانہ دیا کرتے تھے
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیک وقت 9 ازواج مطہرات موجود رہی ہیں
اس حساب سے 9 بیویوں کا سالانہ خرچ 5 کروڑ 61 لاکھ 60 ہزار روپے بنتا ہے
کیا دنیا میں کوئی شخص اتنا مالدار پایا گیا ہے جو اپنی بیویوں کو اتنی بھاری رقم سالانہ جیب خرچ کے طور پر دیتا ہو؟
نوٹ، ایک وسق تقریباً 3 من 30 کلو کا ہوتا ہے
5 کروڑ 40 لاکھ روپے کا بجٹ
خلفائے راشدین کے زمانے میں روم و شام، مصر اور فارس فتح ہوئے، تو امہات المومنین میں سے ہر ایک کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار درہم مقرر ہو گیا، جو تقریباً ایک ہزار دینار (ساڑھے چار کلو یعنی 450 تولہ سونے) کے برابر تھا۔ جوکہ(موجودہ سونے کے ریٹ 1 لاکھ 20 ہزار روپے فی تولہ کے حساب سے) 5 کروڑ 40 لاکھ روپے مالیت کے برابر ہے یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے ان کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتی تھیں
اور اسی زندگی پر قناعت کرتیں جو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا پر ترجیح دیتے ہوئے اختیار کی تھی
ہر بچے کا وظیفہ مقرر کیا جانے لگا
تاریخ کی یادوں میں یہ بات معروف ہے کہ عھد فاروقی میں مسلمانوں کے ہربچے کا وظیفہ بیت المال سے جاری کردیا جاتا تھا
اور یہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ افق پر چھائے ہوئے بادلوں کو جب برسے بغیر واپس جاتے ہوئے دیکھتا تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتا تم جہاں کہیں بھی برسو گے آخر تمہارا خراج تو میرے پاس ہی آئے گا
فتوحات کا سیل رواں
مولانا اقبال کیلانی صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب "جہاد کے مسائل” کے مقدمہ میں بڑی خوبصورت ترتیب سے چند فتوحات کا تذکرہ کیا ہے
آپ لکھتے ہیں
عہد صدیقی 632 ء تا 635 ء (دورانیہ تقریباً اڑھائی سال)
اس دوران حیرہ اور عراق فتح ہوئے جھوٹے مدعیان نبوت، مرتدین، اور منکرین زکوٰۃ کا خوب بندوبست کیا گیا
عہد فاروقی 635ء تا 645ء
635ء میں اسلامی فوجیں ایران میں داخل ہوئیں اور 642ء تک (صرف 7 سالوں میں) قادسیہ، مدائن، جلولاء، حلوان، خوزستان، اصفہان،ہمدان، رے، طبرستان، آزربائیجان، آرمینیا، کرمان اور خراسان فتح ہوئے
دوسری طرف
635ء میں دمشق
636ء میں حمص، انطاکیہ، بیت المقدس
638ء میں پورا ملک شام فتح ہوا
641ء میں مصر
647ء میں تیونس
653ء میں الجزائر، یونان اور قبرص
670ء میں قیروان
674ء میں بخارا
675ء میں سمر قند فتح ہوا
693ء میں اسلامی فوجیں ساحل اطلس تک پہنچ چکی تھی
700ء میں ایشیاء کوچک میں داخل ہوئیں
711ء میں ایک طرف طارق بن زیاد نے سپین اور آدھا فرانس فتح کرلیا تھا تو دوسری طرف محمد بن قاسم کراچی سے ملتان تک اسلامی پھریرا لہرا رہا تھا
809ء میں کارسیکا
810ء میں سارڈینا
823ء میں کریٹ
826ء میں سسلی
846ء میں جنوبی اٹلی اور
870ء میں مالٹا مسخر ہوا
جہاد کی برکت سے صرف 200 سال میں بحر اسود سے لیکر ملتان تک اور سمرقند سے لیکر فرانس تک 90 لاکھ مربع میل پر اسلامی پھریرا لہرا رہا تھا
بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیلِ رواں ہمارا
اور آپ نے مزید لکھا
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں
دِیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاںداروں کی
کلِمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اَڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اُکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہُوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سُنایا ہم نے
جہاد کی تازہ بشارتیں
فی زمانہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ میں کس قدر خیر اور برکت رکھی ہے
01. یہ کل کی بات ہے جب امریکہ بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت 100 سے زائد ملکوں کو ساتھ لیئے نہتے افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور اس وقت کے امریکی صدر نے کہا تھا کہ یہ تو ہمارے سامنے چار گھنٹے نہیں ٹھہر سکتے
مگر چشم فلک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہی امریکہ صرف 20 سال کے مختصر عرصے میں راتوں رات ایسے بھاگا کہ سیکیورٹی پر مامور افغان فورسز کو بھی معلوم نہیں ہونے دیا
اور تاریخ میں مسلمانوں کے خلاف اتنے بڑے صلیبی اتحاد کی مثال نہیں ملتی لیکن مزے کی بات ہے کہ اتنی بڑی ذلت آمیز شکست کی مثال بھی شاید کہیں نہیں ملے گی
02. اگر تھوڑا پیچھے چلیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ امریکہ بہادر کو ہزیمت سے دوچار کرنے والے یہ مجاہدین امریکہ کی آمد سے صرف 11 سال پہلے دنیا کی بہت بڑی سپر پاور روس کو شکست کے مزے چکھا کر ابھی پوری طرح سے تازہ دم بھی نہیں ہوئے تھے
03. اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس سرخ ریچھ کے آنے سے صرف 60 سال قبل انہی مجاہدین کے آباؤ اجداد ایک ایسی سپر پاور کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں جو اپنے آپ کو برطانیہ عظمی کہلواتی تھی اور "عظمی” کا لاحقہ لگانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن آج وہی برطانیہ سکڑ کر افغانستان سے بھی چھوٹا ہوگیا ہے اور "عظمی” تو دور کی بات "برطانیہ” بھی نہیں رہا اس کی جگہ "انگلینڈ” نے لے لی ہے
گویا 1919 تا 2021 صرف ایک صدی میں جہاد کی برکت سے ایک ایسی قوم نے تین سپر پاوریں ڈھیر کردیں کہ جنہیں ڈھنگ سے کپڑے بھی استری کرنے نہیں آتے
04. اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو برصغیر سے انگریز کا نکلنا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام پزیر ہونا کسی سیاسی یا جمہوری جدوجہد نہیں بلکہ جہاد فی سبیل اللہ کا عظیم ثمرہ ہے
(ان شاء اللہ اس موضوع پر جلد ہی لکھنے کا ارادہ ہے جس میں دلائل سے یہ بات ثابت کی جائے گی کہ قیام پاکستان، جہاد فی سبیل اللہ سے ہی ممکن ہوا ہے)
05. جہاد افغانستان سے وطن عزیز پاکستان میں خوشحالی، فراوانی اور آسودگی پیدا ہوئی ہے اگر ہم 1980 سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں وہ بہت سی نعمتیں اور سہولیات نظر نہیں آئیں گی جنہیں ہم آج استعمال کر رہے ہیں
صرف چینی اور آٹے کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں لوگ لائنوں میں کھڑے ہو کر آٹا حاصل کرتے تھے اور چینی تو صرف سرکاری ڈیپو سے ہی ملا کرتی تھی اور وہ بھی محدود مقدار میں کہ کوئی اس سے زیادہ نہیں لے سکتا تھا اور اس کے لیے بھی پہلے کارڈ بنوانے پڑتے تھے
گویا اس جہاد کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ایک طرح سے قحط سالی کا خاتمہ کیا
06. اگر یہ بات کہوں کہ وطن عزیز پاکستان کو ایٹم بم کی شکل میں بے پناہ قوۃ بھی اسی روسی جہاد کی بدولت حاصل ہوئی ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے روس کے خلاف لڑنا پوری دنیا کی مجبوری بنا دیا تھا جس کی وجہ سے سب لوگ پاکستان کے محتاج تھے اور یہی وہ حالات تھے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی طاقتوں کے ناچاہتے ہوئے بھی ایٹمی پروگرام پایا تکمیل تک پہنچایا گیا ورنہ نارمل حالات میں یہ ممکن ہی نہیں تھا
07. اور پھر امریکہ کے خلاف ہونے والے جہاد 2001 سے پہلے اور بعد کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو بہت فرق نظر آتا ہے
وطن عزیز پاکستان میں نظر آنے والی بہترین سڑکیں، اعلی کوالٹی کی گاڑیاں، انڈسٹریل پروگریس، بڑھتا ہوا تجارتی حجم، اور افواج پاکستان کی دسترس میں آنے والی جدید ٹیکنالوجی، اسلحہ اور پاکستان کا مضبوط ہوتا ہوا دفاع 2001 سے پہلے کہاں نظر آتا تھا
08. اسی کی دہائی میں وطن عزیز پاکستان کے اندر سوشلزم کا نظریہ بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا روٹی کپڑا اور مکان کے بظاہر خوبصورت نعرے کی آڑ میں اسے نافذالعمل بنانے کے منصوبے تشکیل دیئے جا رہے تھے کوئٹہ اور پشاور جیسے شہروں میں جگہ جگہ سرخ انقلاب کے حق میں وال چاکنگ نظر آتی تھی بہت سے لوگ اپنے آپ کو کامریڈ یا سرخے کہلوانے میں فخر محسوس کرتے تھے قریب تھا کہ پاکستان سوشل ازم کی گود میں چلا جاتا مگر جہاد کی برکت دیکھئے کہ وطن عزیز میں ایک گولی چلائے بغیر کیسے اس ممکنہ انقلاب کو الٹ کر رکھ دیا گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ خود ماسکو میں بھی اسے راندہ درگاہ قرار دیا گیا
09. اسی کی دہائی سے پیچھے چلیں جائیں تو وطن عزیز پاکستان میں داڑھی، ٹوپی، پگڑی اور برقعے کے وہ مظاہر نظر نہیں آتے جو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کوئی بڑا عالم ہوتا تو شاید اس کے چہرے پر داڑھی نظر آتی تھی یا پھر کوئی بوڑھا داڑھی رکھ لیتا نوجوانوں میں تو اس بات کا تصور بھی نہیں تھا
آدھے رخسار تک پہنچتی ہوئی لمبی لمبی قلمیں رکھنے کا رواج عام تھا اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
مگر اس کے بعد سے اب تک روزبروز یہ تعداد بڑھتی ہی چلی جارہی ہے
نوجوانوں کے چہرے داڑھی سے سجتے سنورتے نظر آرہے ہیں اور یہی شرح نمو برقعے اور پردے کی ہے
یہ تصور عام تھا کہ نماز، آذان اور مسجد میں جانا تو بوڑھوں کا کام ہے مگر اب اللہ کے فضل سے مساجد میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دکھائی پڑتی ہے
آپ حیران ہوں گے کہ روسی اور امریکی دونوں حملوں کا اصل ٹارگٹ اسلام اور مساجد و مدارس کو کنٹرول بلکہ ختم کرنا تھا امریکی صدر بش نے تو مدارس اسلامیہ کی بات کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ "ہم مجھر پیدا کرنے والے جوہڑ بند کردیں گے”
مگر اللہ کا فضل اور جہاد کی برکت دیکھیں کہ اسی دوران وطن عزیز پاکستان میں مساجد و مدارس کا جال بچھا دیا گیا جتنی خوبصورت مساجد آج موجود ہیں پہلے کہاں نظر آتی تھیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مدارس کی عمارتیں عالم کفر کا منہ چڑا رہی ہیں کوئی چلے اور دیکھے جامعہ محمدیہ، سلفیہ ،مرکز طیبہ ،جامعہ رحمانیہ ،دارالعلوم، حقانیہ، بنوریہ کی وسیع رقبے پر مشتمل فن تعمیر کی عظیم شاہکار عمارتیں اور پھر ان مدارس کا میس شیڈول دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے کہ عالم کفر تو انہیں مٹانے آیا تھا مدارس اور ان کے طلبہ کی تعداد میں ساٹھ ستر فیصد اضافہ ہوا ہے