خشیت الہی

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤْمِنُ بِهِ وَنَتَوَكَّلُ عَلَيْهِ وَنَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَّهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُّضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لهُ وَنَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيْثِ كِتَابُ اللهِ وَخَيْرَ الْهَدْيِ هَدُى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأَمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ﴿ اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۩۝۱۵ تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا ؗ وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ۝۱۶ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱۷ اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ؔؕ لَا یَسْتَوٗنَؔ۝۱۸ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی ؗ نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۱﴾ (سوره سجده 15 تا 17)
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جنھیں جب کبھی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ اور اپنے رب کی حمد کے بعد اس کی تسبیح پڑھتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔ ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہتے ہیں جو کچھ ہم نے دے رکھا اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اُن کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے۔ جو کچھ وہ کرتے تھے یہ اُس کا بدلہ ہے۔‘‘
خدا سے ڈرنے والوں کی مغفرت ہوگی۔ حدیث قدسی میں ہے:
(أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَكَرَنِي يَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِيْ مَقَامٍ)[1]
’’اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا اس کو دوزخ سے نکال لاؤ جس نے مجھے کسی دن یاد کیا تھا یا کسی دن مجھ سے ڈرا ہو۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب صفة جهنم، باب ان للنار نفسين: 347/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(وَعِزِّتي لَا أَجْمَعُ عَلَى عَبْدِى خَوفَيْنِ وَاَمْنَيْنِ إِذَا خَافَنِي فِي الدُّنْيَا أَمِنْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِذَا أَمِنَنِي فِي الدُّنْيَا أَخَفْتُهُ فِي الْآخِرَةِ)[1]
’’اپنی عزت کی قسم! میں اپنے بندوں پر دو خوف اور دو امن جمع نہیں کروں گا۔ جب دنیا میں مجھ سے ڈرا، آخرت میں امن دوں گا۔ اور جب دنیا میں نڈر رہا تو آخرت میں ڈراؤں گا۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ پہلے زمانہ میں ایک شخص تھا گناہ کر کے اپنے نفس پر ظلم کر رکھا تھا۔ مرتے وقت اپنے بیٹوں سے کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا۔ اور میری راکھ کو پیس کر ہوا میں اُڑا دینا۔ خدا کی قسم! اس نے مجھ پر گرفت کی تو سخت سزا دے گا کہ ایسی سزا کسی کو نہیں دے گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق کیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ جو کچھ تجھ میں ہے جمع کر دے۔ اُس نے جمع کر دیا۔ وہ شخص زندہ تیار ہو گیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: تجھے کس چیز نے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اس نے کہا تیرے خوف نے۔ اللہ تعالی اسے بخش دیا۔[2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدا سے ڈرنے والے کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ اور خدا سے ڈرنے والے قیامت کے دن عرش الہی کے سایہ تلے ہوں گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
(سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌ نَشَأْ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّق فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابًّا فِي اللهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ ذَاتُ مَنْصَبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّق بِصَدَقَةٍ فَاخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمُ شِمَالُهُ مَا يُنفِقُ يَمِيْنُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ)[3]
’’سات آدمیوں کو اللہ تعالی اپنے سایہ میں جگہ دے گا اس کے سایہ کے علاوہ اس دن کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (1) انصاف کرنے والا بادشاہ (2) اس جوان کو جو شروع جوانی سے خدا کی عبادت میں رہا (3) وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو۔ کہ ایک نماز پڑھ کر مسجد سے آیا اور دوسری نماز کے لئے مسجد میں جاتا ہے اور اس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے (4) وہ آدمی جنھوں نے اللہ کیلئے دوستی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح ابن حبان:640۔
[2] بخاري، کتاب احاديث الأنبياء، باب ما ذكر عن بني اسرائيل:3452۔
[3] بخاري: كتاب الاذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلوة فضل المساجد:660۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رکھی، زندگی بھر دوست رہے۔ اور اس دوستی پر جدا ہوئے یعنی مر گئے (5) وہ مرد جس کو ایک مرتبہ والی خوبصورت عورت نے بُرے کام کے لئے بلایا۔ اُس نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں (6) وہ جس نے اکیلے تنہائی میں چھپا کر صدقہ کیا کہ داہنے ہاتھ سے جو کچھ دیا بائیں ہاتھ تک کو اس کی خبر نہ ہوئی۔ (7) وہ شخص جس نے اکیلے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی دونوں آنکھیں بہہ پڑیں۔‘‘
در اصل خدا کا خوف بڑی عبادت و اخلاص کی دلیل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(مَنْ ذَكَرَ اللهُ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ حَتّٰى أَصِيبَ الْأَرْضُ مِنْ دُمُوعِهِ لَمْ يُعَذِّبْ يَوْمَ الْقِيمَةِ)[1]
’’جو اللہ کو یاد کرے اللہ کے خوف سے اتنا روئے کہ اس کے آنسو زمین پر گریں تو قیامت کے دن اس پر عذاب نہیں ہوگا۔‘‘
اللہ تعالی کے نیک بندے اپنے گناہوں کو یاد کر کے بہت روتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی غلطی کی وجہ سے ایک زمانہ تک روتے رہے۔
حضرت نوح علیہ السلام نام نوح اس وجہ سے پڑا کہ کثرت سے نوحہ کرتے تھے اور روتے تھے۔ حضرت یحیی علیہ السلام روتے روتے بیہوش ہو جاتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام چالیس روز تک سجدہ میں گڑ گڑاتے رہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جب اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ پر اس آیت کو نازل فرمایا:
﴿یَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوْا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾ (تحريم:6)
’’اے ایمان والو! تم خود اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔‘‘
اور آپ ﷺ نے اسے تلاوت فرمایا تو ایک نوجوان بیہوش ہو کر گر پڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھا تو وہ بہت ہل رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے نو جوان لا إله إلا الله کہو اس نے کہا۔ آپ ﷺ نے اس کو جنت کی بشارت دی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ کی یہ بشارت ہم سب کو نہیں صرف اس کے لئے مخصوص ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ کے اس فرمان کو نہیں سنا:
﴿ذٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِيْ وَخَافَ وَعِيْدِ﴾
’’ یہ اس کے لئے ہے جو میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے اور حشر کے عذاب سے ڈرتا رہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] مستدرك حاكم، كتاب التوبة والإنابة، باب لا يلج النار احد بكي من خشية الله: 260/4۔
[2] مستدرک حاکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مطرف رضی اللہ تعالی عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ ﷺ کے سینے میں رونے کی وجہ سے چکی چلنے یا ہانڈی پکنے کی آواز کی طرح آواز آ رہی تھی۔[1]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو قطرے اور دو نشان خدا کو بہت محبوب ہیں۔ ایک آنسو کا قطرہ جو اللہ کے خوف سے نکلے۔ دوسرا خون کا قطرہ جو اللہ کے راستے میں گرے۔ اور دونشانیوں میں سے ایک وہ نشان جو اللہ کے راستے میں جہاد وغیرہ سے اور دوسرے نماز وغیرہ کی ادائیگی کی وجہ سے پیشانی وغیرہ میں نشان گٹا پڑ جائے۔[2]
انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام اور اسلاف عظام خدا سے ڈرتے تھے۔ ساری چیزیں اُن سے ڈرتی تھیں۔
اس لئے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿إِيَّايَ فَارْهَبُونَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِيَّايَ فَاتَّقُونَ۔۔۔۔۔۔ فَلَا تَخْشَوُ النَّاسَ وَاخْشَوْنِي﴾
(‎’’خاص مجھ سے ہی ڈرو، لوگوں سے مت ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرو۔‘‘
اور فرمایا:
﴿يايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقِتِهٖ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ﴾ (آل عمران: 102)
’’اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔‘‘
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيفَةً﴾ (اعراف: 205)
’’تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور ڈر ڈر کر یاد کیا کرو۔‘‘
اللہ تعالی نے اپنے ڈرنے والوں کی بڑی تعریف فرمائی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا:
﴿وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُوْنَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ﴾ (آل عمران: 199)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ابو داود: كتاب الصلوة باب البكاء في الصلوة 340/1 رقم الحديث: (902)
[2] ترمذي: كتاب الجهاد باب في فضل المرابط: 19/3۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اور اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کتاب تم پر اور ان پر اتری ہے۔ سب پر ایمان رکھتے ہیں اللہ تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور اس کی آیتوں کے بدلے میں کوئی دنیا کی چیز نہیں خریدتے۔ انہی لوگوں کا اجر و ثواب انکے رب کے پاس ہے اللہ تعالی جلد حساب کرنیوالا ہے۔‘‘
﴿إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا وَّكَانُوا لَنَا خَشِعِينَ﴾ (انبياء: 30)
’’یہ نبی سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے۔ اور ہماری مہربانیوں کی امید اور عذابوں کے خوف سے ہم کو پکارتے رہتے تھے ہمارے لئے عاجزی کرتے رہتے تھے۔‘‘
اور بہت سی قرآنی آیتیں ہیں۔ جن میں خشوع و خضوع کرنے والوں کو بڑی بشارت دی گئی ہے۔ اس نئے صحابہ کرام اور اسلاف عظام خدا سے بہت ڈرتے تھے۔ ذیل میں ان کی خشیت اور خوف الہی کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب قرآن مجید کی اس آیت کو پڑھتے تو بے اختیار دیر تک روتے رہتے:
﴿أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوٍا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ﴾(الحديد:16)
’’کیا مومنوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا ہے کہ خدا کے ذکر سے اُن کے دل ڈر جائیں۔‘‘(اسد الغابه )
جب آيت ﴿يأتهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ﴾ (الحج: (1) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ مخاطب ہو کر فرمایا جانتے ہو یہ کونسا دن ہے یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا جہنم میں جانے والی فوج کو بھیجو۔ وہ کہیں گے خداوندا دوزخ کی فوج کون ہے؟ اللہ تعالی فرمائے گا ہزار میں سے نو سوننانو ے جہنم میں داخل کئے جائیں گا صرف ایک جنت میں جائے گا۔ یہ سن کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بے اختیار رو پڑے۔[1]
بہر حال اس قسم کے واقعات بیشمار ہیں۔ خدا کا خونی بڑی چیز ہے۔ جسے یہ دولت حاصل ہو گی وہ بہت بڑا خوش نصیب ہے۔ جس کے دل میں خوف الہی ہو گا وہ گنا ہوں سے دور رہے گا۔ اور اس کے لئے بڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] ترمذي: كتاب التفسير باب سورة الحج:150/4۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑے درجات ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ﴾ (سورة رحمن: 46)
’’اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرے دو جنتیں ہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا ڈر اپنے دل میں رکھتا ہے اور اپنے تئیں نفس کی خواہشوں سے بچاتا ہے اور سرکشی نہیں کرتا ہے۔ زندگانی کے پیچھے پڑ کر آخرت سے غفلت نہیں کرتا۔ بلکہ آخرت کی فکر زیادہ کرتا ہے اور اُسے بہتر اور پائیدار سمجھتا ہے۔ فرائض بجا لاتا ہے۔ محرمات سے رکتا ہے۔ قیامت کے دن اسے ایک چھوڑ دو جنتیں ملیں گی۔ دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاوَى﴾ (النّٰزِعٰت: 40 تا 41)
’’جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہو گا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکتا رہا ہو گا اُس کا ہی ٹھکانہ جنت ہے۔‘‘
(وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَلَمِيْنَ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔