خوشگوار زندگی کے راہنما اصول
اہم عناصرِ خطبہ :
خوشگوار زندگی کے بارہ اصول :
01.ایمان وعمل
02.نماز
03.تقوی
04.توبہ واستغفار
05.دعا
06.ذکر الٰہی
07.شکر
08.صبر
09.توکل
10.قناعت
11.علوم نافعہ کا مطالعہ
12.مسلمانوں کی پریشانیاں دور کرنا
پہلا خطبہ
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کو سب کا باپ بنایا ہے ۔ اِس لحاظ سے سب کی بنیاد تو ایک ہے لیکن وہ کئی اعتبارات سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ شکل وصورت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور کم ہی کوئی شخص دوسرے سے ملتا جلتا ہے ۔ کوئی سفیدگورے رنگ کا اور کوئی کالے سیاہ رنگ کا ، کوئی چھوٹے قد والا اور کوئی بڑے قد والا …اسی طرح وہ سب اپنے معاشی حالات کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ۔ کوئی مالدار اور کوئی غریب ، کوئی بخیل اور کوئی سخی ، کوئی ہر حال میں شکر گذار اور کوئی ہر حال میں حریص ولالچی … اسی طرح وہ ایمان وعمل کے اعتبار سے بھی الگ الگ نظریات کے حامل ہوتے ہیں ۔ کوئی مومن اور کوئی کافر ، کوئی نیک وپارسا اور کوئی فاسق وفاجر ، کوئی باکردار اور بااخلاق اور کوئی بد کردار اور بد اخلاق … لیکن یہ سب کے سب اپنے احوال میں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں اور وہ ہے خوشحال زندگی کی تمنا اور آرزو ۔ چنانچہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس بات کے متمنی نظر آتے ہیں کہ انہیں دنیا میں خوشگوار زندگی نصیب ہو جائے اور سب کے سب لوگ ایک باوقار اور پرسکون زندگی کے حصول کیلئے دن رات جد وجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، گویا سب کا ہدف تو ایک ہی ہے البتہ وسائل واسباب مختلف ہیں ۔
٭ ایک تاجر جو دن بھر اپنے کاروبار کو وسیع کرنے اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے اپنی پوری صلاحیتیں اور توانائیاں کھپا دیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ مزدور جو صبح سے لیکر شام تک پسینے میں شرابور ہو کر محنت ومزدوری کرتا ہے ، دونوں خوشحال اور خوشگوار زندگی کے حصول کیلئے کوشاں ہوتے ہیں۔
٭ ایک عبادت گذار جو اللہ تعالیٰ کے فرائض وواجبات کو پابندی سے ادا کرتا ہے اور نوافل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے وہ اور اسی طرح وہ فاسق وفاجر انسان جو دن رات اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے دونوں ہی ایسی زندگی کے متمنی ہوتے ہیں جس میں کوئی پریشانی اور کوئی دکھ نہ ہو۔
٭اسی طرح تمام لوگ سعادتمندی اور خوشحالی کو حاصل کرنے کی تمنا لئے تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں ۔ کوئی کسی طرح اور کوئی کسی طرح …لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سعادتمندی ہر ایک کو مل جاتی ہے ؟ اور کیا خوشحالی ہر ایک کو نصیب ہو جاتی ہے ؟ اور آخر وہ کونسا راستہ ہے جس پر چل کر ہم سب خوشحال وخوشگوار زندگی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ؟
برادران اسلام ! ہم یہی سوال ایک دوسرے انداز سے بھی کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح کہ اس دور میں تقریبا ہر انسان پریشان حال اور سرگرداں نظر آتا ہے ۔ کسی کو روزگار کی پریشانی ، کسی کو مالی وکاروباری مشکلات کا سامنا ، کسی پر قرضوں کا بوجھ ، کسی کو جسمانی بیماریاں چین اور سکھ سے سونے نہیں دیتیں ، کسی کو خاندانی لڑائی جھگڑے بے قرار کئے ہوئے ہیں ، کسی کو بیوی بچوں کی نافرمانی کا صدمہ ، کسی کو دشمن کا خوف اور کسی کو احباء واقرباء کی جدائی کا دکھ …الغرض یہ کہ تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شخص ان دکھوں ، صدموں اور پریشانیوں سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ تو وہ حقیقی وسائل واسباب کون سے ہیں جنھیں اختیار کرنے سے دنیا کی مختلف آزمائشوں سے نجات مل سکتی ہے ؟
آپ میں سے ہر شخص یقینا یہ چاہتا ہو گا کہ اسے ان دونوں سوالوں کے جوابات معلوم ہو جائیں تاکہ وہ ایک خوشحال وباوقار زندگی حاصل کر سکے اور دنیا کی پریشانیوں سے چھٹکارا پا سکے ۔ تو آئیے ہم سب قرآن وسنت کی روشنی میں ان سوالوں کے جوابات معلوم کرتے ہیں ۔
آج کے خطبۂ جمعہ میں ہم ایک کامیاب اور خوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں وآزمائشوں سے نجات حاصل کرنے کے چند اصول ذکر کریں گے اور مجھے یقین کامل ہے اگر ہم ان پر عمل کریں گے تو ضرور بالضرور اپنے مقصود تک پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ تو لیجئے وہ اصول سماعت فرمائیے ۔
پہلا اصول : ایمان وعمل
خوشگوار زندگی کا پہلا اصول ’’ ایمان وعمل ‘‘ ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ (النحل16:97)
’’ جو شخص نیک عمل کرے ، مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان والا ہو تو اسے ہم یقینا بہت ہی اچھی زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے ۔ ‘‘
اور فرمایا :﴿ اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ طُوْبیٰ لَہُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ﴾ (الرعد13:29)
’’ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کیلئے خوشحالی بھی ہے اور عمدہ ٹھکانا بھی ۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر ایسے شخص کو بہت ہی خو شگوار وکامیاب زندگی اور خوشحالی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جس میں دو شرطیں پائی جاتی ہوں ۔ ایک یہ کہ وہ مومن ہو اور دوسری یہ کہ وہ عمل صالح کرنے والا، باکردار اور بااخلاق ہو ۔ اور اگر ہم ان دونوں شرطوں کو پورا کردیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں خوشگوار زندگی نصیب نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے میں سچا ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ارشاد باری ہے :
﴿ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ ( آل عمران3 :99)
’’ یقینا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ ‘‘
ہمیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ تمام انسانوں کی خیر وبھلائی ایمان اور عمل صالح میں ہی ہے ۔اگر انسان سچا مومن ہو اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو اور ساتھ ساتھ باعمل ، باکردار اور بااخلاق بھی ہو ، اللہ کے فرائض کو پورا کرتا ہو ، پانچوں نمازوں کا پابند ہو ، زکاۃ ادا کرتا ہو، رمضان کے فرض روزے بلا عذر شرعی نہ چھوڑتا ہو ، والدین اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہو ، لین دین میں سچا اور وعدوں کو پورا کرتا ہو ۔ بد دیانتی، دھوکہ اور فراڈ سے اجتناب کرتا ہو، حلال ذرائع سے کماتا ہو تو اللہ تعالیٰ دنیا میں اسے ہر قسم کی خیر وبھلائی عطا کرتا ہے اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور اجر وثواب الگ ہے۔
اِس کے بر عکس اگر کوئی انسان فاسق وفاجر ، بد کردار اور بد اخلاق ہو ۔ نہ نمازوں کی پروا کرتا ہو اور نہ زکاۃ دیتا ہو ، رمضان کے روزے مرضی کے مطابق رکھتا ہو اور طاقت ہونے کے باوجود حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کیلئے تیار نہ ہو ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی کرتا ہو ، اللہ کے بندوں کے حقوق مارتا ہو ، لین دین میں جھوٹ بولتا ہو ، دھوکہ دہی اور بد دیانتی سے کام لیتا ہو اور حرام ذرائع سے کماتا ہو تو ایسے انسان کے متعلق ہمیں یقین کرلینا چاہئے کہ اسے لاکھ کوشش کے باوجود خوشگوار زندگی نصیب نہیں ہو سکتی ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمیٰ ٭ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ أَعْمیٰ وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا ٭ قَالَ کَذٰلِکَ أَتَتْکَ آیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ﴾ (طہ20:126-124)
’’ اور جو شخص میرے ذکر سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں یقینا تنگ حال رہے گا اور روزِ قیامت ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔ وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کرکے کیوں اٹھایا ہے ؟ دنیا میں تو میں خوب دیکھنے والا تھا ۔ اللہ کہے گا : اسی طرح تمھارے پاس میری آیتیں آئی تھیں تو تم نے انہیں بھلا دیا تھا اور اسی طرح آج تم بھی بھلا دئے جاؤ گے۔ ‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ جو شخص میرے دین سے منہ موڑے گا اور میرے احکامات کی پروا نہیں کرے گا میں دنیا میں اس کی زندگی تنگ حال بنا دوں گا اور اسے خوشحال زندگی سے محروم کردونگا ۔ اس کے علاوہ قیامت کے دن میں اسے اندھا کرکے اٹھاؤں گا۔ وہ مجھ سے اس کی وجہ پوچھے گا تو میں کہوں گا : جیسا تم نے کیا آج ویسا ہی بدلہ تمھیں دیا جار ہا ہے ۔ تمھارے پاس میرے احکام آئے ، اہلِ علم نے تمھیں میری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائیں اور میرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث کو تمھارے سامنے رکھا لیکن تم نے ان سب کو پسِ پشت ڈال کر من مانی کی اور جو تمھارے جی میں آیا تم نے وہی کیا ۔ اسی طرح آج مجھے بھی تمھاری کوئی پروا نہیں ۔
اگر ہم واقعتا یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہمیں ایک باوقار اور خوشحال زندگی نصیب ہو تو ہمیں دین الہی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا اور من مانی کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہو گا … اور اللہ کا سب سے بڑا حکم یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اور اس میں کسی کو شریک نہ بنائیں ۔ صرف اسی کو پکاریں ، صرف اسی کو نفع ونقصان کا مالک سمجھیں ، صرف اسی کو داتا ، مدد گار ، حاجت روا ، مشکل کشا اور غوث اعظم تصور کریں ۔ اگر ہم خالصتا اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے تو وہ یقینا ہمیں پاکیزہ اور خوشگوار زندگی نصیب کرے گا ۔ ورنہ وہ لوگ جو اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے در پر جبینِ نیاز جھکاتے اور غیر اللہ کیلئے نذرو نیاز پیش کرتے ہیں ، غیر اللہ کو داتا ، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہیں اور انہی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں توانہیں در در کی ٹھوکریں ہی نصیب ہوتی ہیں اور ذلت وخواری کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکاَنٍ سَحِیْقٍ﴾ (الحج22 :31)
’’ اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناتا ہے وہ ایسے ہے جیسے آسمان سے گراہو ، پھر پرندے اسے فضا میں ہی اچک لیں یا تیز ہوا اسے کسی دور دراز جگہ پر پھینک دے ۔ ‘‘
یعنی مشرک کاانجام سوائے تباہی وبربادی کے اور کچھ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا دوسرا بڑا حکم یہ ہے کہ ہم اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں اور آپ کی نافرمانی سے بچیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے ۔اور جب اللہ تعالیٰ راضی ہو گا تو یقینا وہ ہمیں خوشحال اور باوقار زندگی نصیب کرے گا ۔ اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے منہ موڑ کر دین میں ایجاد کردہ نئے امور (بدعات ) پر عمل کریں گے تو دنیا میں ( نعوذ باللہ ) ہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں گی اور قیامت کے روز ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حوض کوثر کا پانی نصیب نہیں ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ والعیاذ باللہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ فَلْیَحْذَرِالَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ أَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ﴾ (النور24:63)
’’لہٰذا جو لوگ اس ( رسول صلی اللہ علیہ وسلم )کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ کہیں وہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے ۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز آجائیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی آزمائش یا اللہ کا دردناک عذاب آ جائے ۔
برادران اسلام ! کامیاب وخوشگوار زندگی کا جو پہلا اصول ہم نے ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح کی بناء پرہی ہمیں ایک کامیاب زندگی نصیب ہو سکتی ہے ۔ اور ایمان باللہ کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم عقیدۂ توحید پر قائم رہیں ۔اور ایمان بالرسل کا ایک لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں زندگی بسر کریں ۔ اس طرحہمیں دنیا کے دکھوں اور صدموں سے چھٹکارا ملے گا اور ہماری زندگی کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی ۔
دوسرا اصول : نماز
کامیاب اور خوشحال زندگی کا دوسرا اصول ’’ نماز ‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہٖ وَہُوَ سَاجِدٌ فَأَکْثِرُوا الدُّعَائَ )) (صحیح مسلم:482)
’’ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہے ۔ لہٰذا تم (سجدے کی حالت میں ) زیادہ دعا کیا کرو ۔ ‘‘
جب بندہ اپنے رب کے قریب ہو جاتا ہے تب وہ جو چاہے اس سے طلب کر سکتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نماز کے ذریعے مدد طلب کرنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾ ( البقرۃ2:1539)
’’ اے ایمان والو ! ( جب کوئی مشکل درپیش ہو تو ) صبر اور نماز کے ذریعے مدد طلب کرو ۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ ہر قسم کی مشکل اور پریشانی کے ازالے کیلئے صبر اور نماز کے ذریعے اس سے مدد طلب کریں ۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے اور نماز پڑھنے والے بندۂ مومن کی مدد فرماتا ہے اور اسے تمام مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔ گویا نماز دکھوں اور صدموں کا مداوا ہے ، نماز ادا کرنے سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور غموں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے ۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( … وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِیْ الصَّلَاۃِ )) یعنی ’’ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔ ‘‘ ( أحمد ،نسائی ۔ صحیح الجامع للألبانی:3124)
ایک عبرتناک قصہ
حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے کہ ایک فقیر آدمی اپنے خچر پر لوگوں کو سوار کرکے دمشق سے زیدانی پہنچاتا اور اس پر کرایہ وصول کرتا تھا ۔ اس نے اپنا ایک قصہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ میرے ساتھ ایک شخص سوار ہوا اور وہ راستے میں مجھ سے کہنے لگا : یہ راستہ چھوڑ دو اور اُس راستے سے چلو کیونکہ اس سے ہم اپنی منزل مقصود تک جلدی پہنچ جائیں گے ۔ میں نے کہا : نہیں میں وہ راستہ نہیں جانتا اور یہی راستہ زیادہ قریب ہے۔ اس نے کہا : وہ زیادہ قریب ہے اور تمھیں اسی سے جانا ہو گا ۔ چنانچہ ہم اسی راستے پر چل پڑے ۔ آگے جاکر ایک دشوار گذار راستہ آگیا جو ایک گہری وادی میں تھا اور وہاں بہت ساری لاشیں پڑی ہوئی تھیں ۔ اس نے کہا : یہاں رک جاؤ ۔ میں رک گیا ۔ وہ نیچے اترا اور اترتے ہی چھری سے مجھ پر حملہ آور ہوا ۔ میں بھاگ کھڑا ہوا ۔ میں آگے آگے اور وہ میرے پیچھے پیچھے ۔ آخر کار میں نے اسے اللہ کی قسم دے کر کہا : خچر اور اس پر لدا ہوا میرا سامان تم لے لو اور میری جان بخش دو ۔ اس نے کہا : وہ تو میرا ہے ہی ، میں تمھیں قتل کرکے ہی دم لوں گا ۔ میں نے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرایا اور قتل کی سزا یاد دلائی لیکن اس نے میری ایک بھی نہ سنی ۔ چنانچہ میں نے اس کے سامنے رک کر کہا : مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو ۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے جلدی پڑھ لو ۔ میں نے قبلہ رخ ہو کر نماز شروع کردی لیکن میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ میری زبان پر قرآن مجید کا ایک حرف بھی نہیں آرہا تھا اور اُدھر وہ بار بار کہہ رہا تھا : اپنی نمازجلدی ختم کرو ۔ میں انتہائی حیران وپریشان تھا ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر قرآن مجید کی یہ آیت جاری کردی :
﴿ أَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْئَ﴾ ’’ بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ؟‘‘
پھر میں نے اچانک دیکھا کہ ایک گھوڑ سوارہاتھ میں نیزہ لئے وادی کے منہ سے نمودار ہو رہا ہے ۔ اس نے آتے ہی وہ نیزہ اس شخص کو مارا جو مجھے قتل کرنے کے درپے تھا ۔ نیزہ اس کے دل میں پیوست ہو گیا اور وہ مر گیا۔ میں نے گھوڑ سوار کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا :
’’ مجھے اس نے بھیجا ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے ۔ ‘‘
پھر میں نے اپنا خچر پکڑا اور اپنا ساز وسامان اٹھا کر سلامتی سے واپس لوٹ آیا ۔
یہ قصہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ ٔ مومن جب نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے تو وہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے اور مشکل کے وقت اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا …
یاد رہے کہ نمازوں میں سب سے پہلے فرض نماز کا اہتمام کرنا ضروری ہے جو کہ دین کا ستون ہے ۔ اس کے بعد سنت اور نفل نماز ، خصوصا فرائض سے ماقبل اور مابعد سنتیں اور پھر تہجد کی نماز …نمازتہجد کے دیگر فوائد کے علاوہ اس کا ایک عظیم فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تہجد گذار کو جسمانی بیماریوں سے شفا نصیب کرتا ہے ۔ لہٰذا وہ لوگ جو علاج کرکر کے تھک چکے ہوں انہیں یہ نبوی علاج ضرور کرنا چاہئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ،فَإِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ،وَہُوَ قُرْبَۃٌ إِلٰی رَبِّکُمْ، وَمُکَفِّرٌ لِّلسَّیِّئَاتِ،وَمَنْہَاۃٌ لِلْآثَامِ،وَمَطْرَدَۃٌ لِلدَّائِ عَنِ الْجَسَدِ )) (أحمد والترمذی :صحیح الجامع للألبانی:4079)
’’تم رات کا قیام ضرور کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے صلحاء کی عادت تھی ۔ اور رات کا قیام اللہ کے قریب کرتا ہے، گناہوں کو مٹاتا ہے،برائیوں سے روکتا ہے اور جسمانی بیماری کو دور کرتا ہے ۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ جب آپ کی طبیعت میں پریشانیوں ، دکھوں اور صدموں کی وجہ سے تکدر آجائے اور آپ سخت بے چین ہو ں تو وضو کرکے بارگاہِ الٰہی میں آ جائیں اور ہاتھ باندھ کر اس سے مناجات شروع کردیں ۔ پھر بادشاہوں کے بادشاہ اور رحمان ورحیم ذات کے سامنے جھک کر اپنے گناہوں پر ندامت وشرمندگی کا اظہار کریں ، اس کے بعد اس سے مشکلات کے ازالے کا سوال کریں ۔ یقینا آپ کی بے چینی ختم ہو جائے گی ، سکون واطمینان نصیب ہو گا اور اللہ تعالیٰ آپ کو خوشحال بنا دے گا ۔
تیسرا اصول : تقوی
تقوی دنیا کے دکھوں ، تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے اور خصوصا ان لوگوں کیلئے ایک نسخۂ کیمیا ہے جو بے روزگاری ، غربت اور قرضوں کی وجہ سے انتہائی پریشان حال اور سرگرداں رہتے ہوں ۔ تقوی سے مراد ہے اللہ تعالیٰ سے ایسا خوف کھانا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور حرام کام سے روک دے ۔ اور جب کسی انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایسا ڈر اورخوف پیدا ہو جاتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ پرہیزگار بن جاتا ہے اور تمام حرام کاموں سے اجتناب کرنے لگ جاتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ
﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا ٭ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق65 :3-2)
’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے مشکلات سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کردیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ۔ ‘‘
اور فرمایا :﴿ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مِنْ أَمْرِہٖ یُسْرًا﴾ (الطلاق65 :4)
’’ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کیلئے اس کے کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے ۔ ‘‘
نیز فرمایا:﴿وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُریٰ آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ﴾ (الأعراف7:96)
’’ اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات (کے دروازے) کھول دیتے ۔ ‘‘
ان تمام آیات میں خوشحالی اور کامیاب زندگی کے حصول کیلئے ایک عظیم اصول متعین کردیا گیا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا کیونکہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کیلئے ہر قسم کی پریشانی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے ، اس کے ہر ہر کام کو آسان کر دیتا ہے اور اوپر نیچے سے اس کیلئے رزق کے دروازے کھول دیتا ہے ۔
اب آئیے ذرا اس اصول کی روشنی میں ہم اپنی حالت کا جائزہ لے لیں … ایک طرف تو ہم خوشحال اور کامیاب زندگی کی تمنا رکھتے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں بھی کرتے رہتے ہیں۔ مثلا نمازوں میں سستی اور غفلت ، جھوٹ ، غیبت ، چغل خوری ، سودی لین دین ، والدین اور قرابت داروں سے بد سلوکی ، فلم بینی اور گانے سننا وغیرہ ۔۔۔ بھلا بتلائیے کیا ایسی حالت میں خوشحالی وسعادتمندی نصیب ہو سکتی ہے ؟ اور کیا اس طرح پریشانیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے ؟
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نافرمانیوں کی موجودگی میں خوشحالی کا نصیب ہونا تو دور کی بات ہے موجودہ نعمتوں کے چھن جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے ۔ اِس کی واضح دلیل حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت حواء علیہا السلام کا قصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جنت کی ہر نعمت وآسائش سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی، محض ایک چیز سے منع کردیا کہ تمھیں اس درخت کے قریب نہیں جاناہے ۔ لیکن شیطان کے ورغلانے پر جب انہوں نے اس درخت کو چکھا تو اللہ تعالیٰ نے جنت کی ساری نعمتوں سے محروم کرکے انہیں زمین پر اتار دیا اوران کی ایک غلطی جنت کی ساری نعمتوں سے محرومی کا سبب بن گئی ۔ توآج جبکہ ہم گناہ پر گناہ کئے جا رہے ہیں اور پھر بھی خوشحالی کے متمنی ہوتے ہیں ! یہ یقینی طور پر ہماری خام خیالی اورغلط فہمی ہے ۔ اگر ہم واقعتا ایک خوشحال زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے قطعی اجتناب کرنا ہو گا ۔
اسی طرح ابلیس کا قصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا لیکن اس نے تکبر کرتے ہوئے سجدہ ریز ہونے سے انکار کردیا ۔ پھر نتیجہ کیا نکلا ؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ہمیشہ کیلئے ملعون قرار دے دیا ۔ یہ صرف ایک سجدہ چھوڑنے کی سزا تھی اور آج بہت سارے مسلمان کئی سجدے چھوڑ دیتے ہیں ، پانچ وقت کی فرض نمازوں میں من مانی کرتے ہیں ۔ تو کیا اس طرح ان کی زندگی کامرانیوں سے ہمکنار ہو سکے گی؟ ایں خیال است ومحال است
بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ آج بہت سارے لوگ کئی برائیوں کو برائی ہی تصور نہیں کرتے اور بلا خوف وتردد ان کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ برائی کو برائی تسلیم نہ کرنا اللہ کی شریعت سے انکار کے مترادف ہے اور یہ ’ کفر ‘ ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے گریبان میں منہ ڈال کر سنجیدگی سے اپنا جائزہ لیں اور اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں ۔ جب ہم خود اپنی اصلاح کریں گے اور اپنا دامن اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچائیں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ بھی ہماری حالت پہ رحم فرمائے گا اور ہمیں خوشحال زندگی نصیب کرے گا ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ تابعین کو مخاطب کرکے کہا کرتے تھے :
( إِنَّکُمْ لَتَعْمَلُوْنَ أَعْمَالًا ہِیَ أَدَقُّ فِیْ أَعْیُنِکُمْ مِنَ الشَّعْرِ ، إِنْ کُنَّا لَنَعُدُّہَا عَلیٰ عَہْدِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم مِنَ الْمُوْبِقَاتِ ) (صحیح البخاری،الرقاق باب ما یتقی من محقرات الذنوب:6492)
’’ آج تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمھاری نگاہوں میں بال سے زیادہ باریک (بہت چھوٹے ) ہیں جبکہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہلاک کرنے والے گناہوں میں شمار کرتے تھے ۔ ‘‘
یہ تابعین کے دور کی بات ہے جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد بہترین دور تھا ۔ اور آج ہمارے دور میں اللہ جانے کیا کچھ ہوتا ہے ، بس اللہ کی پناہ !
چوتھا اصول : تو بہ واستغفار
انسان پر جو مصیبت آتی ہے چاہے جسمانی بیماری کی صورت میں ہو یا ذہنی اور روحانی اذیت کی شکل میں ، چاہے کاروباری پریشانی ہو یا خاندانی لڑائی جھگڑوں کا دکھ اور صدمہ ہو … ہر قسم کی مصیبت اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے آتی ہے ۔ اس لئے اسے ان سے نجات پانے کیلئے فورا سچی توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ازالہ کرکے انھیں خوشحال بنا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَمَا أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍ﴾ (الشوری42:30)
’’اور تمھیں جو مصیبت بھی آتی ہے تمھارے اپنے کرتوتوں کے سبب سے آتی ہے ۔ اوروہ تمھارے بہت سارے گناہوں سے در گذر بھی کرجاتا ہے ۔ ‘‘
توبہ واستغفار کے فوائد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ إِنَّہُ کَانَ غَفَّارًا ٭ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا ٭ وَیُمْدِدْکُمْ بِأَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنَّاتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ أَنْہَارًا﴾ (نوح71:12-10)
’’ پس میں ( نوح علیہ السلام )نے کہا : تم سب اپنے رب سے معافی مانگ لو ۔ بلا شبہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا،مال اور بیٹوں سے تمھاری مدد کرے گا ، تمھارے لئے باغات پیدا کرے گا اور نہریں جاری کردے گا ۔ ‘‘
ان آیات میں استغفار کے جو فوائد ذکر کئے گئے ہیں ( موسلا دھار بارشیں ، مال واولاد سے مدد ، باغات اورنہریں) یہ سب در اصل انسانوں کی خوشحالی وسعادتمندی کی علامت ہیں اور یہ استغفار سے ہی نصیب ہوتے ہیں ۔
پانچواں اصول : دعا
کامیاب اور خوشحال زندگی کے حصول کا پانچواں اصول ’’ دعا ‘‘ ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خوشحالی کا اور مشکلات ،غموں اور صدموں سے نجات پانے کا سوال کرنا ۔کیونکہ خوشحالی کے تمام خزانوں کی چابیاں اللہ رب العزت ہی کے پاس ہیں اور مصائب وآلام سے نجات دینے والا اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اور بندۂ مومن جب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو شرم آتی ہے کہ وہ انہیں خالی لوٹا دے ۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ حَیِیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحْیِیْ إِذَا رَفَعَ الرَّجُلُ إِلَیْہِ یَدَیْہِ أَنْ یَرُدَّہُمَا صِفْرًا خَائِبَتَیْنِ)) (سنن الترمذی:3556،ابو داؤد :1488،سنن ابن ماجہ :3865۔ وصححہ الألبانی)
’’بے شک اللہ تعالیٰ حیا کرنے والا اور نہایت مہربان ہے ۔ اور کوئی آدمی جب اس کی طرف ہاتھ بلند کرتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ وہ انہیں خالی اور نا کام واپس لوٹا دے ۔ ‘‘
دعا کرنے سے تین فوائد میں سے ایک فائدہ ضرور ملتا ہے ۔ یا تو اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کا سوال پورا کردیتا ہے ۔ یا اس کی دعا کو اس کیلئے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے ۔ یا اس دعا کے سبب آنے والی کسی مصیبت کو ٹال دیتا ہے ۔ یہ بات بھی صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا عَلَی الْأَرْضِ مُسْلِمٌ یَدْعُوْ اللّٰہَ تَعَالیٰ بِدَعْوَۃٍ إِلَّا آتَاہُ اللّٰہُ إِیَّاہَا،أَوْ صَرَفَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا،مَا لَمْ یَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِیْعَۃِ رَحِمٍ )) فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : إِذًا نُکْثِرُ؟ قَالَ : ( اَللّٰہُ أَکْثَرُ ) (سنن الترمذی:3573۔ وصححہ الألبانی)
’’ خطۂ زمین پر پایا جانے والا کوئی مسلمان جب اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی طلب کی ہوئی چیز دے دیتا ہے یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے ٹال دیتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘ یہ سن کو لوگوں میں سے ایک شخص کہنے لگا : تب تو ہم اورزیادہ دعا کریں گے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ اور زیادہ عطا کرے گا ۔ ‘‘
اور حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْلَیْسَ بِإِثْمٍ وَلاَ بِقَطِیْعَۃِ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاہُ إِحْدیٰ ثَلاَثٍ : إِمَّا أَنْ یُعَجِّلَ لَہُ دَعْوَتَہُ وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَہَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ وَإِمَّا أَنْ یَدْفَعَ عَنْہُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَہَا)) قَالَ : إِذًا نُکْثِرُ ؟ قَالَ: ( اَللّٰہُ أَکْثَرُ ) (صحیح الأدب المفرد للألبانی:ص264:547)
’’ کوئی مسلمان جب کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہیں ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسے تین میں سے ایک چیز ضرور عطا کرتا ہے ۔ یا اس کی دعا جلدی قبول کر لیتا ہے۔ یا اسے ذخیرۂ آخرت بنا دیتا ہے ۔ یا اس جیسی کوئی مصیبت اس سے دور کر دیتا ہے ۔ ‘‘ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا : تب تو ہم زیادہ دعا کریں گے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ اور زیادہ عطا کرے گا ۔‘‘
اس لئے دعا ضرور کرنی چاہئے اور کسی شخصیت کا واسطہ ڈھونڈے بغیر براہِ راست اللہ سے کرنی چاہئے کیونکہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَإِنِّیْ قَرِیْبٌ أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ﴾ (البقرۃ2:186)
’’ اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو میں ( ان کے ) قریب ہی ہوں ۔ کوئی دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔ ‘‘
اس لئے جو قریب ہے ، پکار کو سن سکتا ہے ، سن کر قبول بھی کرتا ہے اور پھر مدد کرنے پر بھی قادر ہے صرف اسی کو پکارنا چاہئے اوراسے چھوڑ کر کسی اور کو نہیں پکارنا چاہئے ۔
دعا خصوصا قبولیت کے اوقات میں کرنی چاہئے ۔ مثلا سجدے کی حالت میں ، اذان اور اقامت کے درمیان، یومِ جمعہ کو عصر کے بعد مغرب تک اور خاص طور پر رات کے آخری حصے میں جبکہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاکر کہتا ہے :
(( مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ)) (صحیح مسلم:758)
’’ کیا کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا قبول کروں ؟ اور کیا کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کا سوال پورا کروں ؟ اور کوئی ہے جو اپنے گناہوں پر مجھ سے معافی مانگے تو میں اسے معاف کر دوں ؟ ‘‘
اور دعا میں دنیا وآخرت دونوں کی خیر وبھلائی کا سوال کرنا چاہئے ۔ خصوصا یہ دعا :
(( اَللّٰہُمَّ أَصْلِحْ لِیْ دِیْنِی الَّذِیْ ہُوَ عِصْمَۃُ أَمْرِیْ،وَأَصْلِحْ لِیْ دُنْیَایَ الَّتِیْ فِیْہَا مَعَاشِیْ،وَأَصْلِحْ لِیْ آخِرَتِی الَّتِیْ فِیْہَا مَعَادِیْ،وَاجْعَلِ الْحَیَاۃَ زِیَادَۃً لِّیْ فِیْ کُلِّ خَیْرٍ،وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَۃً لِّیْ مِنْ کُلِّ شَرٍّ )) (صحیح مسلم:2720)
’’ اے اللہ ! تو میرا دین میرے لئے سنوار دے جوکہ میرے معاملاتِ زندگی کے تحفظ کا ذریعہ ہے ۔ اور میرے لئے میری دنیا کو بھی ٹھیک کردے جس میں میری گذران ہے ۔ اور میرے لئے میری آخرت کو بھی بہتر بنا دے جس میں مجھے لوٹ کر جانا ہے ۔ اور میری زندگی کو میرے لئے ہر خیر میں اضافے کا باعث بنااور میری موت کو میرے لئے ہر شر سے راحت بنا ۔ ‘‘
برادران اسلام ! اب وہ دعائیں پیش کی جاتی ہیں جنھیں خا ص طور پر پریشانی کے عالم میں بار بار پڑھنا چاہئے اور جن کا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
پریشانی اور صدمے کے وقت کی دعائیں
01.حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :(( اَللّٰہُ رَبِّیْ لَا أُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا )) (سنن أبی داؤد:1525،وصححہ الألبانی فی صحیح سنن ابی داؤد:284/1)
’’ اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا ۔ ‘‘
02.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:(( لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ،لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ َورَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ )) (صحیح البخاری،الدعوات باب الدعاء عند الکرب،الفتح:123/11، مسلم:2730)
’’ اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا ا وربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے ۔‘‘
03.حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :
(( لَا إلٰہَ إلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ،سُبْحَانَ اللّٰہِ وَتَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ،وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ )) (مسند أحمد:91/1وصححہ الشیخ احمد شاکر:87/2)
’’ اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ۔ اللہ پاک ہے اور با برکت ہے وہ اللہ جو عرشِ عظیم کا رب ہے ۔ اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ ‘‘
04.حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ پریشان حال کو یہ دعا پڑھنی چاہئے :
(( اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلََا تَکِلْنِیْ إلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ )) (سنن أبی داؤد:5090، وحسنہ الألبانی فی صحیح الکلم الطیب:121)
’’ اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں۔ لہٰذا تو مجھے پل بھر کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرا ہر کام میرے لئے ٹھیک کردے ۔ ‘‘
05.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے:(( یَا حَیُّ یَا
قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ )) (سنن الترمذی:3524۔ وصححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ :3182)
’’ اے زندہ ، اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں ۔ ‘‘
06.دعائے یونس علیہ السلام :(( لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ ))
’’ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، تو پاک ہے ۔ بے شک میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے تھا ۔ ‘‘
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا مُسْلِمٌ فِیْ شَیْئٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُ بِہَا)) (صححہ الحاکم فی المستدرک:505/1ووافقہ الذہبی)
’’جو مسلمان ان کلمات کے ساتھ کوئی بھی دعا کرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے یقینا قبول کرتاہے۔ ‘‘
07.حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ جس شخص کو حزن وملال پہنچے ، پھر وہ یہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے حزن وملال کو ختم کردیتا ہے اور اس کی پریشانی کو دور کردیتا ہے ۔
(( اَللّٰہُمَّ إنِّیْ عَبْدُ کَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ،عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ،أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ،أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِیْ کِتَابِکَ،أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہٖ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ،وَنُوْرَ صَدْرِیْ،وَجَلَائَ حُزْنِیْ وَذَہَابَ ہَمِّیْ )) (أحمد:3712 وصححہ الشیخ احمد شاکر:266/2،والألبانی فی الصحیحۃ:199)
’’ اے اللہ ! بے شک میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندے اور تیری بندی کا بیٹا ہوں ۔ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ۔ میرے بارے میں تیرا حکم جاری ہے ۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ مبنی برعدل ہے ۔ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تونے اپنے لئے منتخب کیا ہے، یا تو نے اسے اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلایا یا اسے اپنی کسی کتاب میں اتارا ، یا تو نے اسے اپنے پاس علمِ غیب میں خاص رکھا کہ تو قرآن مجید کومیرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے غم کو دور کرنے والا اور میری پریشانی کو ختم کرنے والا بنا دے۔ ‘‘
چھٹا اصول : ذکر الٰہی
جو لوگ دنیاوی تکالیف ومصائب کی وجہ سے ہر وقت غمگین رہتے ہوں اور غموں اور صدموں نے ان کی خوشیاں چھین لی ہوں ان کی طبیعت کو سکون پہنچانے اور اطمینانِ قلب کیلئے چھٹا اصول ’’ ذکر الٰہی ‘‘ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ﴾ (الرعد13:28)
’’ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو ! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں ۔ ‘‘
سب سے افضل ذکر ( لا إلہ إلا اللہ ) ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی تلاوت کہ جس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ پھر ( سبحان اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر) کہ جنھیں جنت کے پودے قراردیا گیا ہے ۔ اور پھر ( لا حول ولا قوۃ إلا باللہ ) کہ جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ پھر ( سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم ) کہ جو اللہ تعالیٰ کو بے حد محبوب اور میزان میں بڑے وزنی ہیں ۔
قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمیں بحیثیت مومن اس بات پر یقین کامل ہونا چاہئے کہ ذکر الہی سے ہی دلوں کو تازگی ملتی ہے ، حقیقی سکون نصیب ہوتا ہے اور پریشانیوں اور غموں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کل بہت سارے مسلمان اپنے غموں کا بوجھ ہلکا کرنے اور دل بہلانے کیلئے گانے سنتے اور فلمیں دیکھتے ہیں حالانکہ اس سے غم ہلکا ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو تا ہے کیونکہ گانے سننا اور فلمیں دیکھنا حرام ہے اور حرام کام سے سوائے غم اور پریشانی کے اور کچھ نہیں ملتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَیَکُوْنَنَّ مِنْ أُمَّتِیْ أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحِرَ ، وَالْحَرِیْرَ ، وَالْخَمْرَ ، وَالْمَعَازِفَ)) (صحیح البخاری :5590)
’’ میری امت میں ایسے لوگ ضرور آئیں گے جو زنا کاری ، ریشم کا لباس ، شراب نوشی اور موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے ۔ ‘‘
ان چار چیزوں کو حلال سمجھنے سے مراد یہ ہے کہ حقیقت میں یہ حرام ہیں لیکن لوگ انہیں حلال تصور کر لیں گے گویا یہ حرام نہیں ! موسیقی کس قدر بری چیز ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زنا کاری اور شراب نوشی جیسے بڑے ہی بھیانک گناہوں کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
اور جو لوگ فلم بینی کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ذہن میں رکھنا چاہئے :
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾ (النور24:30 )
’’ مسلمان مردوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہی ان کیلئے پاکیزگی ہے ۔ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے با خبر ہے ۔ ‘‘
ذکر الہی کے فوائد بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ کسی مجمع میں مجھے یاد کرے تو میں اس کا ذکر ایسی جماعت میں کرتا ہوں جو اس کی جماعت سے بہتر ہے ۔ اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں ۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا ( دونوں ہاتھ پھیلانے کی مقدار ) اس کے قریب ہوتا ہوں ۔ اور اگروہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ ‘‘ (صحیح البخاری،التوحید باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ :7405 )
ساتواں اصول : شکر
کامیاب وخوشحال زندگی کے حصول اور پریشانیوں سے نجات کا ساتواں اصول ہے اللہ تعالیٰ کی بے شمار وان گنت نعمتوں پر شکر گذار ہونا کیونکہ جب ہم اس کی نعمتوں پر شکر بجا لائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اور زیادہ نعمتوں سے نوازے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (إبراہیم14:7)
’’اور یاد رکھو ! تمھارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گذار بنو گے تو میں تمھیں اور زیادہ نوازوں گا ۔ اور اگر ناشکری کروگے تو پھر میری سزا بھی بہت سخت ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گذار بندوں کو اور زیادہ نعمتوں سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر موجودہ نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا جائے اور انہیں اس کی اطاعت میں کھپایا جائے تو نہ صرف وہ نعمتیں بحال رہتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ مزید نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے شکرگذار بندوں کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ناشکری کرنے والوں کو سخت تنبیہ بھی کی ہے کہ وہ ان کی ناشکری کی بناء پر ان سے موجودہ نعمتوں کو چھین کر انہیں مصائب وآفات میں بھی مبتلا کر سکتا ہے ۔ والعیاذ باللہ
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکاَنَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا﴾ (النساء4 :147)
’’اگر تم لوگ ( اللہ کا ) شکر ادا کرو اور ( خلوص نیت سے ) ایمان لے آؤ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمھیں عذاب دے ؟ جبکہ اللہ تو بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندہ اگر سچا مومن اور اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہو تو اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اسے آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا ۔ بلکہ وہ تو قدر دان ہے اور اپنے بندوں کے جذباتِ تشکرکو دیکھ کر انہیں اور زیادہ عطا کرتا ہے ۔
یادر ہے کہ شکر دل اور زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی بجا لانا ضروری ہے ۔ اور سچا شاکر وہ ہوتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ احسانات کرتا ہے تو وہ اس کی اور زیادہ اطاعت وفرمانبرداری کرتا ہے ۔ اور وہ جتنا اسے اپنے فضل سے نوازتا ہے اتنا ہی اس کے جذباتِ محبت واطاعت اور جوش میں آتے ہیں اور وہ ہر طرح سے ان کے شکر کا اظہار کرنے لگتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اتنا لمبا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا ۔ اور جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھاکہ اے اللہ کے رسول ! آپ کی تو اللہ تعالیٰ نے اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دی ہیں ، پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا )) (صحیح البخاری :4837،صحیح مسلم:2820)
’’ کیا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گذار بندہ بنوں ؟ ‘‘
آٹھواں اصول : صبر
دنیا میں سعادتمندی اور خوشحالی کے حصول کا آٹھواں اصول ہے : صبر ۔ یعنی کسی بندہ ٔ مومن کو جب کوئی
پریشانی یا تکلیف پہنچے تو وہ اسے برداشت کرے ، اس پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے ، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اپنی رضامندی کا اظہار کرے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کا طالب ہو۔ یوں اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو گا اور اس کے گناہوں کو مٹا کر اسے اطمینانِ قلب نصیب کرے گا ۔
دنیا میں ہر مومن کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی آزمائش لکھ رکھی ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ٭ أُوْلٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ2:157-155)
’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف و ہراس اور بھوک سے اور مال وجان اور پھلوں میں کمی سے اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !)صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں:ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ ان پر اس کی نوازشیں ہوتی ہیں اور وہ رحمتِ الٰہی کے مستحق ہوتے ہیں ۔ گویا صبر وہ چیز ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ صبر کرنے والے کی زندگی کو خوشحال بنا دیتا ہے اور اسے اپنے فضل وکرم سے نوازتا ہے ۔
آزمائش کوئی بھی ہو ، چھوٹی ہو یا بڑی ، جسمانی ہو یا ذہنی ، ہر قسم کی آزمائش مومن کیلئے باعث ِ خیر ہی ہوتی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا أَذیً وَلاَ غَمٍّ،حَتّٰی الشَّوْکَۃُ الَّتِیْ یُشَاکُہَا إِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطَایَاہُ )) (صحیح البخاری :5642،صحیح مسلم:2573)
’’مسلمان کو جب تھکاوٹ یا بیماری لاحق ہوتی ہے ، یا وہ حزن وملال اور تکلیف سے دوچار ہوتاہے حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسکے گناہوں کو مٹا دیتاہے ۔ ‘‘
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ أَذیً إِلَّا حَاتَّ اللّٰہُ عَنْہُ خَطَایَاہُ کَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ)) (صحیح البخاری:5647،صحیح مسلم:2571)
’’ جب کسی مسلمان کو کوئی اذیت ( تکلیف ) پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتا ہے جس طرح درخت کے پتے گرتے ہیں ۔ ‘‘
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف اور ادنی ترین آزمائش پر حتی کہ ایک کانٹا چبھنے پر بھی اللہ تعالیٰ بندہ ٔ مومن کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ۔ بشرطیکہ وہ صبر وتحمل کا دامن نہ چھوڑے اور ہر آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہو جائے ۔
کسی بندہ ٔ مومن میں جب یہ دونوں صفات ( صبر و شکر ) جمع ہو جائیں تو وہ یقین کر لے کہ اسے خیر ِ کثیر نصیب ہو گئی ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ،إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ،وَلَیْسَ ذَلِکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ: إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ،وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَّہُ )) (صحیح مسلم:2999)
’’ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے اور اس کا ہر معاملہ یقینا اس کیلئے خیر کا باعث ہوتا ہے ۔ یہ خوبی سوائے مومن کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوتی ۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچے تو وہ شکر ادا کرتا ہے ، اس طرح وہ اس کیلئے خیر کا باعث بن جاتی ہے ۔ اور اگر اسے کوئی غمی پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے اور یوں وہ بھی اس کیلئے باعث ِ خیر بن جاتی ہے ۔‘‘
نواں اصول : توکل
وہ لوگ جن پر دشمن کی شرارتوں ، سازشوں اور ان کے ہتھکنڈوں کا خوف طاری رہتا ہو اور اس کی وجہ سے وہ سخت بے چین رہتے ہوں ان کی خوشحالی کیلئے خصوصا اور باقی تمام لوگوں کیلئے عموما نواں اصول یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر توکل ( بھروسہ ) کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر شر سے بچانے والا ہے اور اس کے حکم کے بغیر بڑے سے بڑا طاقت ور بھی کسی کو کوئی نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ قُلْ لَّنْ یُصِیْبَنَا إِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلَانَا وَعَلیَ اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (التوبۃ9 :51)
’’ آپ کہہ دیجئے کہ ہم پر کوئی مصیبت نہیں آ سکتی سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کر رکھی ہے ۔ وہی ہمارا سرپرست ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہئے ۔ ‘‘
اور فرمایا :﴿ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ ﴾ (الطلاق65 :3)
’’ اور جو شخص اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اسے کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے ۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ پر توکل
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کرتے تھے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نجد کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگ کیلئے نکلے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات اُس مقام پر ہوئی جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے اپنی سواری سے اترے اور اپنی تلوار اس کی ایک ٹہنی سے لٹکا کر سو گئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اِدھر اُدھر بکھر گئے اور جہاں جس کو سایہ ملا وہ وہیں آرام کرنے لگا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان فرمایا کہ
(( إِنَّ رَجُلاً أَتَانِیْ وَأَنَا نَائِمٌ ،فَأَخَذَ السَّیْفَ،فَاسْتَیْقَظْتُ وَہُوَ قَائِمٌ عَلٰی رَأْسِیْ،فَلَمْ أَشْعُرْ إِلَّا وَالسَّیْفُ صَلْتًا فِیْ یَدِہٖ،فَقَالَ لِیْ:مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ؟ قُلْتُ:اللّٰہُ،ثُمَّ قَالَ فِی الثَّانِیَۃِ:مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ؟ قُلْتُ:اللّٰہُ،قَالَ:فَشَامَ السَّیْفَ ،فَہَا ہُوَ ذَا جَالِسٌ)) ثُمَّ لَمْ یَعْرِضْ لَہُ رَسُو لُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم ۔ (صحیح البخاری :2910،2913،4139۔ صحیح مسلم :843 واللفظ لہ)
’’ میں جب سویا ہوا تھا تو ایک آدمی میرے پاس آیا ۔ اس نے میری تلوار اٹھائی تو میں بیدار ہو گیا۔میں اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ننگی تلوار سونتے ہوئے میرے سر پر کھڑا ہے ۔ اس نے مجھ سے کہا :
(( مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ ؟)) یعنی آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟
میں نے کہا : اللہ تعالیٰ بچائے گا ۔
اس نے پھر کہا :(( مَنْ یَّمْنَعُکَ مِنِّیْ؟)) یعنی آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟
میں نے پھر بھی یہی کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی بچائے گا۔ پھر اس نے تلوار نیام میں کر لی ۔ اور دیکھو ! یہ ہے وہ شخص جو بیٹھا ہوا ہے ۔ ‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہ کہا ۔
اس واقعہ سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتنے مضبوط ایمان کے مالک تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ پر کس قدر اعتماد اور بھروسہ تھا کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک دشمن کو تلوار بے نیام کئے ہوئے اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر مطمئن رہے اور کسی خوف کا اظہار نہیں فرمایا ۔ اور جب اس نے پوچھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے ۔
اسی طرح وہ لوگ جو بے روزگار ہوں یا مالی وکاروباری مشکلات سے دوچار ہوں ، انہیں بھی اللہ ہی پر توکل کرکے رزق حلال کے حصول کیلئے جدو جہد کرنی چاہئے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ ان کیلئے رزقِ وافر کے دروازے کھول دے گا اور مالیاتی پریشانیوں سے نکال کر انہیں خوشحال بنا دے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( لَوْ أنَّکُمْ تَوَکَّلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ حَقَّ تَوَکُّلِہٖ لَرَزَقَکُمْ کَمَا یَرْزُقُ الطَّیْرَ،تَغْدُوْ خِمَاصًا وَتَرُوْحُ بِطَانًا)) (أحمد والترمذی وابن ماجہ ۔ بحوالہ صحیح الجامع للألبانی:5254)
’’ اگر تم اللہ پر اس طرح بھروسہ کرو جس طرح بھروسہ کرنے کا حق ہے تو وہ تمھیں ایسے ہی رزق دے گا جیسے وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے جو صبح کے وقت خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کے وقت پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘
دسواں اصول : قناعت
کامیاب وخوشگوار زندگی کا دسواں اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کسی کو جتنا رزق عطا کیا ہو وہ اس پر قناعت کرے اور ہرحال میں اس کا شکر ادا کرتا رہے ۔ اور بڑے بڑے مالداروں کو حسرت سے دیکھنے کے بجائے اپنے سے کم مال والے لوگوں کو اپنے مد نظر رکھے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اسے حقیقی چین وسکون نصیب کرے گا ۔ اور اگر وہ کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے پریشان رہتا ہو تو بھی اسے ان لوگوں کی طرف دیکھنا چاہئے جو اس سے زیادہ مہلک اور موذی مرض میں مبتلا ہو کرہسپتالوں میں زیرِ علاج ہوں یا اپنے گھروں میں صاحبِ فراش ہوں۔ جب وہ اپنے سے کم مال والے لوگوں کی حالت اور اسی طرح اپنے سے بڑے مریضوں کی حالت کو دیکھے گا تو یقینا وہ اپنی حالت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اسے سکونِ قلب جیسی عظیم دولت سے نوازے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( اُنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْکُمْ،وَلاَ تَنْظُرُوْا إِلیٰ مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ،فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَن لَّا تَزْدَرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ )) (صحیح مسلم ۔ الزہد والرقائق:2963)
’’ تم اس شحص کی طرف دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے کم تر ہو ۔ اور اس شخص کی طرف مت دیکھو جو ( دنیاوی اعتبار سے ) تم سے بڑا ہو کیونکہ اس طرح تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھو گے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی نسبت کم تر انسان کی طرف دیکھنے سے انسان اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہیں سمجھے گا جو اس نے اسے عطا کررکھی ہیں ۔ اور ان میں تین نعمتیں ایسی ہیں جو کسی کے پاس موجود ہوں تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے پوری دنیا جمع کردی ہے اور وہ ہیں : صحت ، امن اور ایک دن کی خوراک ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ مُعَافیً فِیْ جَسَدِہٖ،آمِنًا فِیْ سِرْبِہٖ،عِنْدَہُ قُوْتُ یَوْمِہٖ فَکَأَنَّمَا حِیْزَتْ لَہُ الدُّنْیَا )) (سنن الترمذی :2346، سنن ابن ماجہ : 4141 ، وحسنہ الألبانی)
’’ جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ تندرست ہو ، اپنے آپ میں پر امن ہو اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک موجود ہو تو گویا اس کیلئے پوری دنیا کو جمع کردیا گیا ۔ ‘‘
دوسرا خطبہ
گیارہواں اصول: فارغ اوقات میں علومِ نافعہ کا مطالعہ
ناخوشگوار اور دکھ بھری زندگی کے اسباب میں سے ایک اہم سبب زندگی کے فارغ اوقات کو بے مقصد بلکہ نقصان دہ چیزوں میں ضائع کرنا ہے ۔ مثلا ڈائجسٹوں میں عشق ومحبت کی جھوٹی داستانوں یا جاسوسی کی من گھڑت کہانیوں کے پڑھنے ، تاش اور شطرنج وغیرہ کھیلنے اور دن بھر میچ دیکھتے رہنے اور اس طرح کی دیگرفضولیات میں وقت ضائع کرنے سے یقینی طور پر دل مردہ ہوتا ہے اور ناخوشگواری میں اور اضافہ ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کی بجائے مفید کتابوں مثلا تفسیر قرآن ، کتبِ حدیث ، کتبِ سیرت نبویہ وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے اور جھوٹی کہانیوں کی بجائے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین عظام رحمہ اللہ کی سوانح حیات کے سچے واقعات کو پڑھا جائے ۔ اور قرآن مجید کی تلاوت اورفائدہ مند تقاریر ولیکچرز کی کیسٹیں سنی جائیں تو اس سے یقینا اللہ تعالیٰ بندۂ مومن کی زندگی کو بابرکت بنادیتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات دیتا ہے ۔
فارغ وقت اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے جس کی قدرو منزلت سے بہت سارے لوگ غافل رہتے ہیں ۔ جیسا
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ فِیْہِمَا کَثِیْرٌ مِنَ النَّاسِ : اَلصِّحَّۃُ وَالْفَرَاغُ )) (صحیح البخاری،الرقاق باب الصحۃ والفراغ : 6412)
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سارے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں : تندرستی اور فارغ وقت ۔ ‘‘
یعنی جو لوگ فارغ اوقات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں نہیں کھپاتے وہ یقینا گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ اس لئے فارغ اوقات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انسان کو زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانی چاہیئیں ۔ ورنہ یہ بات یاد رہے کہ قیامت کے دن فارغ اوقات کے بارے میں بھی باز پرس ہو گی کہ انہیں اللہ کی اطاعت میں لگایا تھا یا اس کی نافرمانی میں ضائع کردیا تھا ؟ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( لَا تَزَالُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ : عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ؟وَعَنْ عِلْمِہٖ مَا فَعَلَ فِیْہِ؟ وَعَن مَّالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ ؟وَعَنْ جِسْمِہٖ فِیْمَ أَبْلَاہُ )) (سنن الترمذی ۔ بحوالہ صحیح الجامع للألبانی:7300)
’’ کسی بندے کے قدم اس وقت تک نہیں ہل سکیں گے جب تک اس سے چار سوالات نہیں کر لئے جائیں گے : اس نے اپنی عمر کو کس چیز میں ختم کیا ؟ اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا ؟ اور اس نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور کس چیز میں خرچ کیا ؟ اور اس نے اپنے جسم کو کس چیز میں بوسیدہ کیا ؟ ‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو تمام آزمائشوں سے نجات دے کر ہمیں خوشگوار زندگی نصیب فرمائے ۔
بارہواں اصول : مسلمانوں کی پریشانیاں دور کرنا
دنیا میں دکھوں اور پریشانیوں سے نجات پانے کیلئے بارہواں اصول یہ ہے کہ آپ اپنے مسلمان بھائیوں کی پریشانیاں دور کرنے میں ان کی مدد کریں ، اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیاں دور کرے گا اور آپ کو خوشحالی وسعادتمندی نصیب کرے گا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُہُ وَأَنْ تُکْشَفَ عَنْہُ کُرْبَتُہُ،فَلْیُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ)) (أحمد:23/2،وذکرہ الہیثمی فی مجمع الزوائد:133/4وقال:رواہ أحمد وأبو یعلی ورجال أحمد ثقات)
’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور اس کی پریشانی دور کی جائے تو و ہ تنگ دست کی پریشانی کو دور کرے ۔‘‘
یعنی ایک تنگ حال کی تنگی وپریشانی دور کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبولیت سے نوازتا ہے اور اس کی پریشانیاں دور کردیتا ہے ۔
برادران اسلام! ہم نے خطبہ کے آغاز میں دو سوال ذکر کئے تھے ، ایک یہ کہ خوشگوار زندگی کا حصول کیسے ممکن ہے اور کامیاب زندگی کے اصول کونسے ہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ دنیا میں پریشانیوں ، دکھوں اور مصائب وآلام سے نجات پانے کے اصول کیا ہیں؟ ہمیں امید ہے کہ ان دونوں سوالوں کے جوابات کافی حد تک دئیے جا چکے ہیں ۔ اگرچہ ان اصولوں میں سے بعض میں مزید تفصیل کی جا سکتی تھی لیکن اختصار کے پیش نظر فی الحال اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہم سب کو خوشگوار زندگی نصیب کرے ، ایمان وعمل کی سلامتی دے اور ہمیں تمام پریشانیوں، دکھوں اور صدموں سے محفوظ رکھے ۔ آمین ثم آمین