خطبہ عید الاضحی

الله اكبر، الله أكبر، لا اله الله والله أكبر، الله اكبر ولله الحمد. الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا، وسبحان الله بكرة واصيلا.
ان الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور انفسنا ومن سيئات اعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له واشهدان لا اله الا الله وحده لا شريك له، واشهدان محمداً عبده ورسوله . اما بعد فان خير الحديث كتاب الله، وخير الهدي هدى محمد وشر الأمور محدثاتها، وكل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار .
اما بعد فاعوذ بالله من الشيطان الرجيم .
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ﴾ (المائده:3)
اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا، دین اسلام یقینًا ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کی شان و عظمت کا اندازہ لگائیے کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس نعمت کو بطور احسان ذکر فرمایا ہے، فرمایا:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ؕ﴾ (المائده: (۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿إِنَّ اللهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ﴾ (البقره:132)
’’اللہ نے تمہارے لیے دین کو ، دین اسلام کو پسند فرمایا، لہذا مرتے دم تک تم مسلمان ہی رہنا۔‘‘
تو دین اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اور عطا کر وہ دین ہے اور دین کا مطلب ہے، نظام زندگی، وہ آئین ، قانون اور نظام کہ جس کے مطابق انسان اپنی دنیا کی یہ زندگی گزارتا ہے۔ دین اسلام کے نعمت عظمی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، یہ ایک ایسا دین ہے، جو فطرت کے عین مطابق ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے اور ہر دور کے لیے یکساں طور پر قابل عمل ہے۔
اور دین اسلام ہی میں یہ خوبی اور صلاحیت ہے کہ وہ تمام طبقات انسانی کو ایک ہی صف میں کھڑا کر سکتا ہے اور بھائی بھائی بنا سکتا ہے۔
دین اسلامی سراسر رحمت ہے، حتی کہ جانوروں کے لیے بھی رحمت ہے اسلام جانوروں کے ساتھ رحمت ، شفقت اور نرمی کے ساتھ پیش آنے کا بھی سبق دیتا ہے۔
حدیث میں ہے کہ:
((مَرَّ رَسُولُ اللهِ ﷺ بَعِيرٍ قَدْ لَحِقَ ظَهْرُهُ بِبَطْنِهِ))
’’آپﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی ۔‘‘ یعنی شدید بھوکا اور پیاسا نظر آ رہا تھا۔
فقال: تو فرمایا:
((اتَّقُوا اللهَ فِي هَذِهِ الْبَهَائِمِ المُعْجَمَةِ))
فرمایا: ’’ان گونگے جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔‘‘
((فَارْكَبُوهَا صَالِحةً، وَاتْرُكُوهَا صَالِحةً)) (سنن ابی داود:2548)
’’جب تک سواری کے قابل رہیں سواری کرو اور ان کو چھوڑو کہ سواری کے قابل رہیں ۔‘‘
یعنی جب تک اُن میں ہمت اور قوت و طاقت ہو تو سواری کرتے رہو اور جب تھک جائیں تو چھوڑ دو تا کہ آئندہ بھی سواری کے قابل رہیں۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے، فرمایا:
﴿اِرْكَبُوا هَذِهِ الدَّوَّابٌ سَالِمَةً، وَاِیْتَدِعُوهَا سَالِمَةً، وَلا تَتَّخِذُوهَا كِرَاسِيَّ)) (مسند احمد:15639)
’’ان جانوروں پر سواری کرو جب تک یہ صحیح سالم ہوں اور انہیں چھوڑ دو کہ صحیح سالم رہیں اور انہیں کر سیاں نہ بناؤ۔‘‘
یعنی باتیں کرتے وقت کرسیوں کی طرح ان پر بیٹھے نہ رہیں بلکہ ان سے اتر جائیں، اللہ نے انہیں تمہارے سفر کے لیے اور سامان اٹھانے کے لیے مسخر کر رکھا ہے، کرسیوں کی طرح استعمال نہ کریں اور اسی طرح اس ضمن میں دیگر متعدد احادیث ہیں۔
تو اسلام صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بھی رحمت ہے۔ دین اسلام کے نعمت عظمی ہونے کے حوالے سے قرآن وحدیث میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اسلام کے ایک عظیم نعمت ہونے کا احساس اور اقرار و اعتراف دشمنان اسلام کو بھی ہے، جو زبان سے اگر چہ نہ بھی کرتے ہوں مگر ان کے عمل سے ان کا واضح ثبوت ملتا ہے، اسلام کی مخالفت اور مخالفت برائے مخالفت اس کی واضح دلیل ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ تمام ادیان عالم اسلام کی مخالفت میں متفق و متحد ہیں اور وہ بھی بغیر سی سبب کے، وہ آپس میں مذہبی رواداری اور آزادی مذہب کے قائل اور متفق ، مگر اسلام کے خلاف صرف مخالفت کی حد تک ہی نہیں رہے بلکہ مذہبی آزادی پر قدغن لگانا، پابندیاں لگانا۔ ان کے خلاف نئے نئے قوانین بنانا ، ان پر حملے کرنا اور حکومتی سطح پر پراپیگنڈہ کرنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے، اور صرف اور صرف حسد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یوں تو تمام مذاہب والے ہی اسلام سے حسد کرتے ہیں مگر اسلام سے حسد کرنے میں سرفہرست یہود ہیں ، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ))
’’یہودی لوگ بہت ہی حاسد ؟ ہیں ۔‘‘
((وَهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلٰى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلَامِ و على آِمْين)) (السلسلة الصحيحة:691، ابن خزيمة:551)
’’ وہ ہم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا سلام پر اور آمین پر حسد کرتے ہیں۔ ‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ: ((وَهُمْ قَوْمٌ حُسَّدٌ)) ’’وہ بہت حسد کرنے والی قوم ہے۔‘‘
((وَلَمْ يَحْسُدُوا الْمُسْلِمِين عَلَى أَفْضَلَ مِنْ ثَلَاثٍ))
’’وہ مسلمانوں سے تین چیزوں سے زیادہ کسی چیز پر حسد نہیں کرتے ۔‘‘
((رَدِّ السَّلَامِ))
’’سلام کا جواب دینے پر۔‘‘
((وَإِقَامَةِ الصُّفُوفِ))
’’نماز میں صفیں سیدھی کرنے پر ۔‘‘
((وقولهم خلف إمامهم في المكتوبة آمين)) (مجمع الزوائد: 2/115)
’’اور ان کے فرض نمازوں میں اپنے امام کے پیچھے آمین کہنے پر ‘‘
تو دین اسلام ہر لحاظ سے ایک کامل اور مکمل دین ہے، اس کی بہت سی خصوصیات اور امتیازات ہیں، جو کسی اور دین و مذہب میں نہیں ہیں اور اسلام کی اس فضیلت کو اور حسن و خوبی کو اغیار خوب پہچانتے اور سمجھتے ہیں، بلکہ حسد کرتے ہیں اور یہ کتنی تعجب اور ستم ظریفی کی بات ہے کہ دنیا ہم سے اس بات پر حسد کرے کہ ہم دین اسلام کے ماننے والے ہیں، مگر ہمیں اسلام کی قدر ہی نہ ہو، حالانکہ ہم سے مطلوب یہ ہے کہ ہم اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
﴿ وَلِتُكْبَرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدٰكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (البقرة:185)
’’ اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جس ہدایت سے اُس نے تمہیں سرفراز کیا ہے اُس پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور شکر بجا لاؤ۔‘‘
بالخصوص ان دو خوشی کے تہواروں پر (عید الفطر اور عیدالانی) کے موقعوں پر اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور اس کا ذکر کرنے کا حکم ہے۔
﴿وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوْدٰتٍ﴾ (البقرة:203)
’’ان گنتی کے چند دنوں میں اللہ کا ذکر کرو‘‘
اور ایسے ہی ایام التشریق کے بارے میں بھی فرمایا:
((إِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))
’’عید الاضحی کے بعد کے تین دن جو کہ ایام التشریق کہلاتے ہیں یہ بھی کھانے پینے اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں ۔‘‘
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت اور ہدایت پر اللہ تعالی کا شکر بجالا میں ، اس کی کبریائی بیان کریں اور کثرت سے اس کا ذکر کریں تسبیح و تحمید و تکبیر و تہلیل بیان کریں۔
الله اكبر ، الله اكبر لا إله الا الله والله اكبر، الله أكبر، ولله الحمد الله اكبر كبيرا، والحمد لله كثيرا وسبحان الله
بكرة وأصيلا. اقول قولي هذا واستغفر الله العظيم لي ولكم ولسائر المسلمين من كل ذنب انه هو الغفور الرحيم .
…………………