کسی کے بارے میں ’’عبدی‘‘ یعنی میرا بندہ کہنا نا جائز ہےکیونکہ سب اللہ کے بندے ہیں

658۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ((لَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ: أَطْعِمُ رَبَّكَ، وَفِي رَبَّكَ، اِسْقِ رَبَّكَ، وَلْيَقُلْ سَيِّدِي مَوْلَايَ. وَلَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي، أَمَتِي، وَلْيَقُلْ فَتَايَ وَفَتَانِ وَغُلَامِي)

’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے غلام یا کنیز سے) یہ نہ کہے: اپنے رب (مالک) کو کھانا کھلاؤ، اپنے رب کو وضو کراؤ، اپنے رب کو پانی پلاؤ، بلکہ یوں کہے: اے میرے سردار! اے میرے آقا! اور تم میں سے کوئی یوں نہ کہے: میرا بندہ، میری بندی، البتہ یوں کہے: میرا خادم، میری خادمہ، میرا لڑکا۔‘‘

اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:

((لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي، فَكُلُّكُمْ عَبِيدُ اللهِ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: فَتَايَ وَلَا يَقُلِ الْعَبْدُ: رَبِّي، وَلٰكِنْ لِيَقُلْ سَيْدِي))

’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے غلام کو) میرا بندو نہ کہے کیونکہ تم سب اللہ کے بندے ہو، البتہ یہ کہہ سکتا ہے: میرا جوان۔ اور نہ غلام یہ کہے: میرا رب ( پالنے والا)، البتہ میراسید ( آقا) کہ سکتا ہے۔‘‘

اور صحیح مسلم ہی کی) ایک دوسری روایت میں ہے:

((لَا يَقُوْلَنَّ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي وَأَمَتِي، كُلُّكُمْ عَبِيدُ اللهِ، وَكُلٌّ نِسَائِكُمْ إِمَاءُ اللهُ. وَلٰكِنْ لِّيَقُلْ: غُلَامِي وَجَارِيَتِي، وَفَتَايَ وَفَتَاتِي))  (أخرجه البخاري: 2552، ومُسْلِمٌ:2249)

’’تم میں سے کوئی شخص (کسی کو) میرا بندہ اور میری بندی نہ کہے۔ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمھاری تمام عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں، البتہ یوں کہہ سکتا ہے: میرا غلام، میری لونڈی، میرا خادم، میری خادمہ‘‘

 اور (صحیح مسلم ہی کی) ایک اور روایت میں ہے:

وَلَا يَقُلِ الْعِبْدُ لِسَيِّدِهِ: مَوْلايَ، فَإِنَّ مَوْلَا كُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ))

’’غلام اپنے آقا کو میرا مولا نہ کہے کیونکہ تمھارا مولا اللہ عزوجل ہے۔‘‘

659۔ سیدنا ابوہریرہ ہی ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا:

((لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي وَأَمَتِي وَلَا يَقُولَنَّ الْمَمْلُوكَ: رَبِّي وَرَبَّتِي وَلْيَقُلِ الْمَالِكِ: فَتَايَ وَفَتَاتِي، وَلْيَقْلِ الْمَمْلُوكُ سَيِّدِي وَسَيِّدَتِي، فَإِنَّكُمُ الْمَمْلُوكُونَ وَالرَّبُّ اللهُ تَعَالَى)) (أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ: 9451، 10368،  10603، 10604، وأبوداؤد:4975)

’’تم میں سے کوئی شخص اپنے غلام اور لونڈی کو ’’میرے بندے‘‘ یا ’’میری بندی‘‘ کے لفظ سے ہرگز نہ پکارے اور نہ کوئی غلام اپنے مالک کو ’’میرے رب‘‘ یا ’’میری ربہ‘‘ ہی کہے۔ مالک کو چاہیے کہ یوں پکارے: ’’اے میرے جوان!‘‘ ’’اے میری لڑکی‘‘ اور مملوک (غلام، لونڈی) کو چاہیے کہ کہے: ’’اے میرے سردار،‘‘ یقینًا تم سب مملوک اور غلام ہو اور رب اللہ تعالی ہی ہے۔‘‘

660۔ ابوملیح اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہذیل قبیلے کے ایک شخص نے غلام میں اپنے حصے کو آزاد کر دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((هُوَ حُرٌّ كُلَّهُ، لَيْسَ لِلهِ (تَبَارَكَ وَتَعَالَى شَرِيكٌ ..)) (أخرجه أحمد: 20710، وأبو داود:3933، والنسائي في الكبرى: 4970، والطحاوي في شرح معاني الآثار: 107/3، وفي شرح مشكل الآثار: 5381، 5382، والطبراني في الكبير: 507، والبيهقي: 273/10 والضياء في المختارة: 1408،  1410، 1411)

’’وہ سارے کا سارا آزاد ہے، اللہ (تبارک و تعالی) کا کوئی شریک نہیں۔

 توضیح و فوائد: مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آدھا غلام اللہ کا ہو اور آدھا کسی آدمی کا۔ اگر وہ آزاد ہو گا تو پھر مکمل ہی آزاد ہوگا۔