لڑکیوں کا حق وراثت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَاء نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيْباً مَّفْرُوْضًا﴾ (سوره النساء، آیت:7)
ترجمہ: والدین اور قرابت داروں کی چھوڑی ہوئی جائداد میں سے مردوں کا حصہ ہے اور والدین اور قرابت داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں سے عورتوں کا (بھی) حصہ ہے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، اور وہ حصہ متعین ہے۔
عَنِ النُّعْمَانِ بن بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَى أَبِي ببَعْضِ مَالِهِ، فَقَالَتْ أُمِّى عمرة بنت رواحة: لَا أَرْضٰى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ الله ، فَاْنَطَلَقَ أَبِي إِلٰى النبيﷺ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ
رَسُولُ اللهِ ﷺ أَفَعَلْتَ هٰذَا بِوَلَدِىْ كُلِّهِمْ ؟ قَالَ : لَا ، قَالَ : اتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُم، فَرَجَعَ أبي فَرَذَ تِلْكَ الصَّدَقَةَ . (متفق عليه) .
وَفِي رَاوَيَةٍ: إِنِّي لَا أَشْهَدُ عَلَى جُورٍ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: أَيَسُرُّكَ أَن يَّكُوْنُوْا إِلَيْكَ فِي الْبِرِّ سِوِاءٌ؟ قَالَ: بَلَى، فَلَا إِذًا.
(صحیح بخاری: كتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب الاشهاد في الهبة، صحيح مسلم: كتاب الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة)
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے اپنے مال میں سے میرے اوپر کچھ صدقہ (عبہ) کیا تو میری ماں (عمرہ بنت رواحہ) نے کہا میں اس پر راضی نہیں ہوں یہاں تک کہ اللہ کے رسول ﷺ اس پر گواہ ہو جا ئیں تو میرے والد نبیﷺ کے پاس گئے تا کہ آپ نے میرے صدقے پر گواہ ہو جا ئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے لڑکوں کے لئے ایسا ہی کیا ہے، تو کہا نہیں، تو آپ ﷺ نے کہا اللہ سے ڈرو اور اولاد کے مابین عدل رکھو، میرے والد گھر لوٹے اور صدقہ لوٹا دیا۔ ایک روایت کے اندر ہے کہ میں قلم پر گواہی نہیں دیتا ہوں۔ ایک دوسری روایت کے اندر ہے کہ کیا تم اس سے خوش ہو گے کہ تمہاری ساری اولا د تم سے اچھا سلوک کرے تو کہا: ہاں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر ایسا مت کرو یعنی ایک کو دو دوسرے کو محروم کر دو ۔
تشریح:
آج معاشرے میں لڑکیوں کے حق وراثت کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جبکہ ان کا یہ حق ہے کہ انہیں بھی لڑکوں کی طرح حق وراثت میں شامل کیا جائے۔ ابن العربی احکام القرآن میں رقمطراز ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ سے ایک عورت نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول! میرے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے پیچھے مجھے چھوڑا ہے۔ نیز ایک بیٹی ہے لیکن ہمیں وراثت میں کچھ نہیں ملا تو لڑکی کے چچا نے کہا یا رسول اللہ یہ نہ گھوڑے پر سوار ہوتی ہیں نہ بوجھ اٹھاتی ہیں اور نہ دشمنوں سے جنگ کرتی ہیں (پھر یہ کیسے وارث ہوگی) اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَاء نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيْباً مَّفْرُوْضًا﴾ اتار کر ظلم پر مبنی اس روایت کا خاتمہ کر دیا اور بتادیا کہ بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی ماں باپ کے چھوڑے ہوئے مال میں حصہ ہے۔ لیکن افسوس آج کے مسلمانوں نے بیٹیوں کو یکٹر حصہ سے محروم کر کے جاہلیت کی یاد کو تازہ کر دی حالانکہ اسلام نے سختی کے ساتھ بیٹیوں کو حصہ دینے کی تاکید کی ہے اور بچوں کے درمیان نا انصافی کرنے سے سختی سے منع کیا بچنا نچہ جب رسول اکرم لے کے پاس بشیر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور نعمان کو دیئے ہوئے مال پر اللہ کے رسول کے کو گواہ بنانا چاہا تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تمام اولا دکو دیا ہے؟ تو انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ اور ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ ہ ظلم ہے اور میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا، یہ تھوڑا سا عطیہ تھا یہاں تو باپ یا بھائی اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو تو بالکلیہ وراثت سے محروم کر دیتے ہیں اگر آج آپ ﷺ ہوتے تو کس قدر ناراضگی کا اظہار فرماتے؟
اکثر و بیشتر باپ اور بھائی یہ نا معقول جواب دیتے ہیں کہ ان کی شادی بیاہ کر دی اب ان کا حصہ کہاں بچا تو کیا لڑکوں کی شادی پر پیسہ خرچ نہیں ہوتا اگر ایسا ہے تو لڑکوں کو بھی حق وراثت سے محروم کر دینا چاہنے مگر یہاں معیار دو سر ابن جاتا ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ باپ بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں میں اتنا فرق رکھتا ہے حالانکہ اس کا خون پانی اس کی لڑکی کے جسم میں بھی دوڑ رہا ہے پھر لڑکوں اور لڑکیوں میں اتنا فرق کیوں ؟ اگر ہر شخص اپنی بہن بیٹی کا حصہ دے دے تو گھوم کر اس کا مال اس کے پاس آجائے گا اور شریعت کے اہم حکم پر عمل بھی ہو جائے گا مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باند ھے۔ ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں بے شک مرد یا عورت اللہ کی عبادت میں ساٹھ سال گزارتے ہیں پھر انہیں موت آجاتی ہے اور وہ غلط وصیت کر کے مستحقین کو تکلیف دیتے ہیں پس ان کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن ترندمی و ابن ماجہ) ۔
کہیں آپ بھی اس حدیث کے مستحق تو نہیں ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو روزہ نماز کسی کام میں نہیں آئے گا اور جہنم کی آگ کی درد ناک سزا ہی آپ کا مقدر ہوگی۔ اس لئے خبردار ہو جائے اور وراثت کو حقدار تک پہنچانے کی کوشش کیجئے۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی زندگی کے تمام گوشوں میں پابند شریعت بنائے ۔ آمین
فوائد:
٭ لڑکیوں کا حق وراثت ثابت ہے۔
٭ اولاد کے درمیان عدل و انصاف ضروری ہے۔
٭٭٭٭