لوگوں کے عروج وزوال اور ان کا حل

﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ؕ﴾(الرعد: 11)
’’بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے دلوں کی حالت کو نہ بدل لیں ۔‘‘
تاریخ انسانی کی ادنی سی واقفیت رکھنے والا انسان بھی یہ جانتا ہے کہ قوموں کی زندگی میں اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز اور عروج و زوال آتے رہتے ہیں، فتح و کامرانی سے ہمکنار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوتے رہتے ہیں، خوشحالی سے بدحالی اور بدحالی سے خوشحالی میں حالات بدلتے رہتے ہیں، اور یہ اللہ تعالی کا نظام ہے کہ
﴿وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾ (ال عمران:140)
’’اور ہم یہ ایام لوگوں میں ادل بدل کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اگر چہ اصل میں تو اہل ایمان کو احد کی صورت حال پر تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر آپ کو جنگ احد میں کچھ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے تو کوئی بات نہیں، جنگ بدر میں تمہارے مخالفین کو بھی تو نقصان اٹھانا پڑا تھا، اور یہ اللہ تعالی کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو زمانے کے نشیب و فراز سے گزارتا رہتا ہے، کبھی غالب کو مغلوب اور بھی مغلوب کو غالب کر دیتا ہے، اس میں یقینًا بہت سی حکمتیں پنہاں ہیں۔
تو جہاں اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو تسلی دی جا رہی ہے وہاں اسے اک عالمگیر حقیقت کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، ورنہ ایک طرف انبیاء علیہم السلام اور ان پر ایمان لانے والے ہوں اور دوسری طرف منکرین حق ہوں تو اہل ایمان کو ہر حال میں غالب ہونا چاہیے ہر ہونا تھا، مگر تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء علیہم السلام قتل کیے گئے، کچھ کو طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں سہنا پڑیں۔ اگر چہ انجام کار اہل حق ہی کامیاب قرار پاتے ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
تو قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز اور عروج وزوال آتے رہتے ہیں، مگر یہ سب کچھ بے سبب نہیں ہوتا، اس کےیقینًا اسباب ہوتے ہیں، اور وہ اسباب قوموں کا طرز عمل ، ان کی کر تو میں ان کے عقائد و نظریات اور اخلاق و کردار ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم:41)
’’ خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، ان کے اپنے عملوں اور اپنی کرتوتوں کی وجہ سے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ۝﴾ (الشورى:30)
’’تم پر جو بھی مصیبت آئی ہے تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے تو وہ ویسے ہی درگزر کر جاتا ہے۔‘‘
تو اس اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کےیقینًا کچھ اسباب ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑا سبب قوموں کے عروج وزوال کا تقوی و پرہیزگاری اور عدل و انصاف یا ظلم و ستم رہا ہے۔ اگر طرز عمل اچھا ہو تو عروج، خوشحالی و خوشگوار زندگی اور حیات طیبہ عطا کی جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا

﴿وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ﴾ (الاعراف:96)
’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرمایا:
﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۝۹۷﴾(النحل:96)
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ دو مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے ایران کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے ۔‘‘
یہ تو تھا اچھے طرز عمل کا نتیجہ اور انعام۔ لیکن اگر ظلم و نا انصافی ہوگی تو پھر زوال و انحطاط ، ذلت و رسوائی، تنگ زندگی اور نعمتوں کے چھن جانے کی صورت میں انجام ہوگا ، جیسا کہ فرمایا:
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ۝﴾(الانفال:53)
’’اللہ تعالی کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرز عمل کو نہیں بدل دیتی ۔‘‘
یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح ان نعمتوں کے لیے نا اہل اور غیر مستحق نہیں بتا دیتی ، اللہ تعالی ان سے وہ نعمت سلب نہیں کرتا۔
تو اللہ تعالی کے یہ قوانین قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے ہیں، دنیا میں اللہ تعالی کے جزاء اور سزا کے قانون کی تو بہت تفصیل ہے جو کہ ساری تو اس وقت بیان نہیں ہو سکتی، البتہ مختصر یہ ہے کہ اول تو اللہ تعالی تمام لوگوں کے تمام گناہوں کی سزا نہیں دیتے ، جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ﴾ (الفاطر:45)
’’اگر اللہ تعالی لوگوں کو ان کی کرتوں پر پکڑتا تو روئے زمین پر کوئی ایک متنفس بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ وقت تک کے لیے مہلت دے رہا ہے ۔‘‘
اور دوسری بات کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو جو ان کے بعض گناہوں کی سزا دیتا ہے تو اس لیے کہ ﴿لَعَلَّهُمْ يَرْجِعون﴾
’’ تا کہ شاید کہ وہ باز آ جائیں ۔‘‘
اور یوں وہ سزا بھی سراسر رحمت ہوئی، کیونکہ آدمی جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اور اس پر اس کی گرفت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے برائی کے راستے کھلتے جاتے ہیں، اور آسان ہوتے جاتے ہیں تو اس کے دل میں تو بہ کا خیال تک نہیں گزرتا بلکہ گناہ کے لیے اس کی ہمت اور شوق بڑھتا جاتا ہے، پھر جب تھوڑی سی گرفت ہوتی ہے تو ﴿فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ۝﴾
’’ پھر وہ لمبی چوڑی دعا ئیں کرتا ہے۔‘‘
تو اس طرح گرفت کی اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ کسی گناہ پر فوراً گرفت ہونے اور سزا ملنے یا مہلت دیے جانے میں کیا کیا حکمتیں ہیں، یہ تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کسی گناہ پر فورا گرفت کرنی ہے اور کیوں کرتی ہے، اور کس گناہ پر مہات دیتی ہے اور کیوں دیتی ہے۔ بھی انسان کے لیے گرفت بہتر ہوتی ہے اور کبھی مہات، اور کبھی مہات گرفت کے لیے ہوتی ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے،
آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ ، حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ))( بخاری:4686، مسلم:2583)
’’اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتا ہے، پھر جب اس کی گرفت کرتا ہے تو پھر اسے بھاگنے نہیں دیتا۔‘‘
اسی طرح فوری گرفت ہے، فوری گرفت کا ایک مطلب تو ہے کہ گناہ کے ارتکاب کے فورا بعد، یا گناہ کرتے وقت پکڑے جاتا ، اور ایک فوری گرفت کا مطلب ہے کہ آخرت سے پہلے پہلے اس دنیا میں گرفت کرنا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا))
’’اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے اس دنیا میں ہی جلدی سزا دے دیتے ہیں۔‘‘
((وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِعَبْدِهِ الشَّرِّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتّٰى يُوَافِي بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ))(ترمذی:2396)
’’اور جب کسی بندے کے ساتھ شر کا ارادہ کرتا ہے (جو کہ یقینًا اس کی بداعمالیوں کے نتیجے میں ہوتا ہے ) تو اس کے گناہ کو سزا سے روک لیتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے روز پھر پورا پورا حساب ہوتا ہے۔‘‘
تاہم مسلمان کو پہنچنے والی تکلیفیں ہمیشہ سزائیں ہی نہیں ہوتیں بلکہ کبھی کفارہ سیئات اور رفع درجات کے لیے بھی ہوتی ہیں، بالخصوص کسی نیک آدمی کے لیے، جیسا کہ حدیث میں ہے، آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ الصَّالِحِينَ يُشَدَّدُ عَلَيْهِمْ)) ’’نیک لوگوں پر زیادہ سختیاں آتی ہیں ۔‘‘
((وَانَّهُ لَا يُصِيبُ مُؤْمِنًا نَكَبَةٌ مِنْ شَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَّا حطَّتْ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ وَرُفِعَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ)) (الجامع الصغیر:2033)
’’یقینًا کسی مسلمان کو کسی کانٹے کی جو تکلیف اور مصیبت پہنچتی ہے یا اس سے زیادہ تو اس سے اس کا ایک گناہ مٹتا ہے اور اس سے اس کا ایک درجہ بلند ہوتا ہے۔‘‘
اور ایک حدیث میں ہے کہ:
((إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ مَنْزِلَةٌ لَمْ يَبْلُغُهَا بِعَمَلِهِ، ابتلاه اللهُ فِي جَسَدِهِ أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ، ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذٰلِكَ حَتّٰى يُبَلِّغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللهِ تَعَالَى)) (سنن ابو داؤد:3090)
’’جب بندے کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی (بلند ) مقام متعین ہوتا ہے اور وہ اپنے عملوں سے وہاں تک نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالی اس کے جسم میں ، اس کے مال میں یا اس کی اولاد میں اس پر کوئی آزمائش اور مصیبت ڈال دیتا ہے اور پھر اس پر اسے صبر کرنے کی توفیق دیتا ہے، حتی کہ اسے اس مقام تک پہنچا دیتا ہے جو اس کا اللہ تعالی نے مقر کر رکھا ہوتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی فوری گرفت اور مہلت اور ڈھیل کی کہ کبھی گناہ پر فوری گرفت انسان کے لیے بہتر ہوتی ہے اور بھی مہلت۔ مگر صرف اللہ تعالی کو ہی معلوم ہے کہ کیا کس کے لیے بہتر ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک چڑیا حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے نبی! بتائیں کہ اللہ تعالی فوراً گرفت کرتے ہیں یا ڈھیل اور مہلت دیتے ہیں؟
تو سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے اللہ ! اس کو کیا جواب دوں تو اللہ تعالی نے فرمایا: اس کو کہہ دو کہ میں فوراً گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہوں۔
چڑیا نے ایک جگہ دیکھا کہ کچھ لوگ Bar BQ کر رہے ہیں، ان کے پاس گوشت پڑا ہوا ہے تو وہ وہاں سے ایک ٹکڑا لے اڑی، مگر اس کی نظر نہ پڑی اس چنگاری پر جو اس سے چپک گئی تھی ، اس نے گوشت کا وہ ٹکڑا جا کے گھونسلے میں رکھا ، جس سے گھونسلہ بھی جل گیا اور بچے بھی مر گئے ۔وہ واپس سلیمان علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا کہ آپ نے تو بتایا تھا کہ اللہ تعالی مہلت سے کام لیتے ہیں، مگر یہاں تو فورًا ہی گرفت ہوگئی، تو جواب آیا کہ فوراً گرفت نہیں ہوئی بلکہ یہ ایک پرانا حساب تھا۔
تو دنیا میں اللہ تعالی کا جزاء وسزا کا نظام بڑا ہی نرالا اور انوکھا ہے، عدل و انصاف پر مبنی ہے اور اس میں رحمت کا پہلو غالب ہے۔ لیکن جب کوئی قوم حد سے گزر جاتی ہے ظلم وستم کی انتہاء کر دیتی ہے، بداخلاقیوں اور بدکرداریوں میں ایک مثال بن جاتی ہے، تکبر اور غرور میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر اس کا سرے سے قلع قمع کر دیا جاتا ہے، اسے نیست و نابود کر دیا جاتا ہے جیسا کہ بہت سی قوموں کے ساتھ ہوا، قرآن پاک میں اس کا جابجا ذ کر ملتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتے ہیں:
﴿ وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍ ؕ وَ كَفٰی بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا۝۱۷﴾(الاسراء:17)
’’اور کتنی ہی نسلیں ہیں جو نوح علیہ السلام کے بعد سے ہم تباہ و بر باد اور ہلاک کر چکے ہیں، تیرا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے اور سب کچھ دیکھ رہا ہے۔‘‘
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿ اَلَمْ یَاْتِهِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ ۙ۬ وَ قَوْمِ اِبْرٰهِیْمَ وَ اَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَ الْمُؤْتَفِكٰتِ ؕ اَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ﴾
’’کیا انہیں اپنے سے پہلے لوگوں کی خبریں نہیں پہنچیں، قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور اہل مدین اور اہل مؤتفکات کی ، ان کے پاس ان کے پیغمبر دلیلیں اور کھلی نشانیاں لے کر آئے، پھر اللہ تعالی ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔“
اس ایک آیت کریمہ میں چھ قوموں کا ذکر کیا گیا ہے جن کا مسکن ملک شام رہا ہے، پھر ان کا ذکر دوسری آیات میں مستقل اور ذرا تفصیل سے بھی کیا گیا ہے۔
قوم نوح طوفان میں غرق کر دی گئی، قوم عاد قوت و طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود بادِ تند سے ہلاک کر دی گئی، قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا، قوم ابراہیم جس کے بادشاہ نمرود کو مچھر سے مروایا گیا، اصحاب مدین، حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم جنہیں چیخ ، زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کیا گیا اور اہل مؤتفکات کہ جن سے مراد قوم لوط ہے ان پر ایک تو آسمان سے پتھر برسائے گئے اور دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا ، جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی۔
اسی طرح سابقہ بہت سی قوموں کو ان کے تکبر و غرور اور ان کی حد سے تجاوز کر جانے والی من حیث القوم بد اعمالیوں کے سبب تباہ و بر باد اور ہلاک کر دیا گیا۔
دنیا میں بڑی بڑی زبردست قو میں آئیں، اور بڑی بڑی طاقتور حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں، مگر آج ان کا نام ونشان تک نہیں ہے، البتہ ان کے کھنڈرات عبرت کا نشان ضرور بنے ہوئے ہیں وہ کیسی کیسی زبردست تو میں تھیں؟ وہ ایسی ایسی زبردست قو میں تھیں کہ ان کے اپنے اپنے دور میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
﴿ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۪ۙ۝۷الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُهَا فِی الْبِلَادِ۪ۙ۝۸﴾(الفجر:7-8)
’’وہ ارم کہ جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی۔‘‘
﴿ وَ ثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ۪ۙ۝﴾(الفجر:9)
’’اور ثمود کہ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں ۔‘‘
﴿ وَ فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ۪ۙ۝﴾ (الفجر:10)
’’اور فرعون میخوں والے‘‘
﴿ وَ فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ۪ۙ۝۱۰ الَّذِیْنَ طَغَوْا فِی الْبِلَادِ۪ۙ۝۱۱﴾(الفجر:11-12)
’’جنہوں نے دنیا میں بڑی سرکشی کر رکھی تھی، اور بہت فساد پھیلا رکھا تھا۔‘‘
﴿ فَصَبَّ عَلَیْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍۚۙ۝﴾ (الفجر:13)
’’آخرکار تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔‘‘
تو وہ ایسی ایسی زبردست اور طاقت ورقو میں کہ دو جسمانی لحاظ سے، کوئی افرادی قوت و طاقت کے لحاظ سے اور علوم وفنون کے لحاظ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ وہ کیوں تباہ و برباد ہوگئیں؟ وہ معاشی عدم استحکام اور اقتصادی کمزوریوں کی وجہ سے ہلاک نہیں ہوئیں بلکہ اپنی بدکرداریوں اور بداعمالیوں کے سبب نیست و نابود ہو گئیں۔ (البتہ بعض قوموں کو قحط سالی کے عذاب سے ضرور ہلاک کیا گیا ہے ) آج ہمارے لیڈران ووٹ مانگنے کے لیے قوم کے پاس کیا ایجنڈا لے کر جاتے ہیں۔
ہم سڑکوں کا جال بچھا دیں گے، ہم درخت لگادیں گے، ہم اقتصادی حالت بہتر بنادیں گے۔ کوئی نہیں کہتا کہ ہم ملک سے بے حیائی ختم کر دیں گے، ہم میڈیا پر پھیلائی جانے والی فحاشی ختم کر دیں گے، ہم ملک کو صحیح اسلامی سلطنت بنا دیں گے۔ ہم نے سابقہ قوموں کی تباہی و بربادی سے کیا سبق سیکھا ؟ کچھ بھی نہیں۔ ہم معاذ اللہ اسلام کو تو مسائل کا حل سمجھتے ہی نہیں ہم کامیابی کے لیے قرآن پاک کے مقرر کردہ اصولوں کو تو درخور اعتنا سمجھتے ہی نہیں ۔ کامیاب قوم بننے کے لیے ہم نمونہ امریکا اور یورپ کو سمجھتے ہیں۔ گزشتہ قو میں جن بد اعمالیوں کے سبب تباہ و برباد ہو ئیں آج وہ اس دور کے لوگوں میں تقریبا ہو بہو پائی جاتی ہیں بلکہ بعض بد اعمالیوں میں شاید ان سے بھی آگے ہوں۔ لیکن اس امت پر عذاب نہیں آتا، اس لیے کہ اس امت کو ، امت محمدیہ (على صاحبها الصلاة والسلام) کو ایک استثناء حاصل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، آپﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا))
’’بے شک اللہ تعالی نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔‘‘
((وَإِن أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا رُوِى لِي مِنْهَا))
’’اور جہاں تک میرے لیے زمین لپیٹ دی گئی ہے وہاں تک میری امت کی حکومت پہنچے گی‘‘
((وَأُعْطَيْتُ الكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ))
’’اور مجھے سرخ اور سفید دونوں خزانے دیے گئے ہیں۔‘‘
((وَإِنِّي سَئَلْتُ رَبِّي لِاُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ))
’’اور میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے سوال کیا کہ وہ اسے عام قحط سالی سے ہلاک نہ کرے۔‘‘
((وَأَن لَّا يُسلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ))
’’اور ان کے علاووان پر کوئی دشمن مسلط نہ کرے۔‘‘
((فَيَسْتَبِيْحَ بَيْضَتَهُمْ))
’’جو مجموعی طور پر ان سب کی جانوں کو روا کر لے۔‘‘
((وَإِنَّ رَبِّي قَالَ: يَا مُحَمَّدًا إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءَ فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ))
’’اوریقینًا میرے رب نے فرمایا: اے محمد! بلا شبہ جب میں کسی کام کا فیصلہ کرلوں تو ردنہیں ہوتا۔‘‘
((وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِاُمَتِكَ أَنْ لَا أَهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ))
’’اور بے شک میں نے آپ کی امت کے لیے یہ بات آپ کو عطا کر دی کہ میں انھیں عام قحط سالی سے بلاک نہیں کروں گا۔‘‘
((وَأَنْ لَا أُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهُم يَسْتَبِيحُ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا))
’’اور ان پران کے علاوہ سے کسی اور دشمن کو مسلط نہ کروں گا جو ان سب کی جانوں کو جائز قرار دے لے، اگر چہ ان کے خلاف ان کے اطراف والے جمع ہو جا ئیں۔‘‘
((حَتّٰى يَكُوْنُ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيسْبِى بَعْضُهُمْ بَعْضًا)).(صحیح مسلم:2889)
’’یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کو بلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قیدی بنا ئیں گے۔‘‘
یعنی نیست و نابود نہیں ہوں گے، البتہ جزوی عذاب آتے رہیں گے جیسا کہ احادیث میں ہے۔
……………….