ماہ ِ شعبان فضائل واحکام
اہم عناصر خطبہ :
1۔کسی ایک رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا درست نہیں ہے
2۔ماہِ شعبان کے روزوں کے فضائل
3۔شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت
4۔ شبِ برات کے متعلق جھوٹی اور من گھڑت احادیث
5۔ شب ِ برات میں کیا کرنا چاہئے ؟
6۔کیا شعبان کی پندرھویں رات فیصلوں کی رات ہے ؟
پہلا خطبہ
برادران اسلام!اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیاہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾
’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ۔‘‘
لیکن عبادت کیلئے زندگی کا کوئی خاص زمانہ یا سال کا کوئی خاص مہینہ یا ہفتے کا کوئی خاص دن یا کوئی خاص رات متعین نہیں ہے کہ بس اسی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے اور باقی زمانہ عبادت سے غفلت میں گذار دیا جائے ۔بلکہ جب انسان کی خلقت کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو سنِ بلوغ سے لے کر زندگی کے آخری دم تک اسے ہر لمحہ عبادت میں گذارنا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿٩٨﴾ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾
’’ پس آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل رہیں اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ پر موت آ جائے ۔ ‘‘
اور کامیاب انسان بھی وہی ہے جو عبادت ہی کو اپنی زندگی کا اصل مقصد تصور کرے ورنہ وہ انسان جو اللہ کی عبادت سے غافل رہے اور دنیا کی ہر آسائش اپنے اور اپنے بال بچوں کیلئے مہیا کرنے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لے تو وہ قطعا کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
اِس وقت ایک تو مسلمانوں کی اکثریت اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہے اوراس پر ستم یہ کہ بعض لوگوں نے اِن کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح سے بٹھا رکھی ہے کہ سال میں دو تین بار شب بیداری کر لی جائے اور دو چار روزے رکھ لئے جائیں تو صرف یہی عبادت انسان کی نجات اور اس کی دنیوی واخروی فلاح کیلئے کافی ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک رات کو عبادت کیلئے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :
(( لَا تَخْتَصُّوْا لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِیَامٍ مِنْ بَیْنِ اللَّیَالِیْ،وَلَا تَخُصُّوْا یَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِیَامٍ مِنْ بَیْنِ الأَیَّامِ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ فِیْ صَوْمٍ یَصُوْمُہُ أَحَدُکُمْ ))
’’ راتوں میں سے صرف جمعہ کی رات کو قیام کیلئے اور دنوں میں سے صرف جمعہ کے دن کو روزہ کیلئے خاص نہ کرو ۔ہاں اگرجمعہ کا دن ان دنوں میں آ جائے جن میں تم میں سے کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو تو اس کا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔‘ ‘
لہٰذا اگر کسی ایک رات کو عبادت کیلئے خاص کرنا درست ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی رات کو اِس کیلئے خاص کرنے کی اجازت دے دیتے کیونکہ یومِ جمعہ ہفتہ کے تمام ایام میں سب سے افضل ہے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِس سے منع کرنا اِس بات کی واضح دلیل ہے کہ سال بھر میں کسی ایک یا دو راتوں میں عبادت کرنا اور باقی پورے سال میں اللہ کی عبادت سے غافل رہنا درست نہیں ہے ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ بھی یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سال بھر کی راتوں میں عبادت کرتے تھے بلکہ آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ ہی کی عبادت میں گذرتا تھا ۔ لہٰذا ہمیشہ اِس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی عبادت بن جائے اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب ہم ہر قدم اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اٹھائیں اور ہر کام اس کی رضا کیلئے کریں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ( اتنا طویل ) قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں مبارک پھٹنے لگتے ۔ میں عرض کرتی : اے اللہ کے رسول ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے :(( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا))
’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘
اور حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام فرمایا کہ آپ کے پاؤں مبارک پر ورم ہو گیا ۔ آپ سے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کردی ہیں ، پھر بھی آپ اتنا لمبا قیام کرتے ہیں! توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( اَفَلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا)) ’’ کیا میں شکر گذا ربندہ نہ بنوں ؟ ‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کا معمول تھا کہ آپ اتنا لمبا قیام کرتے کہ پاؤں مبارک پھٹنے لگتے یا ان پر ورم ہو جاتا ، یہ نہیں کہ بس سال میں دو یا تین مرتبہ ایسا کرتے اور زندگی گذارنے کا سب سے بہتر طریقہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہی ہے ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبۂ جمعہ میں یوں ارشاد فرماتے :
(( أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللّٰہِ،وَخَیْرَ الْہَدْیِ ہَدْیُ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ،وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا،وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ))
’’ حمد وثناء کے بعد تم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور کاموں میں سب سے برا کام وہ ہے جو ( دین میں ) نیا ایجاد کیا جائے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہی اصل دین ہیں اور جو کام کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر دین میں نیا ایجاد کیا جائے وہ سب سے برا کام ہے اگرچہ وہ لوگوں کی نظروں میں کتنا اچھا کیوں نہ ہو اور اِس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس کام کا ثبوت کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ملتاہو وہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور کوئی بدعت ایسی نہیں کہ جسے دین میں بدعت ِ حسنہ قرار دیا جائے ۔ بدعات سب کی سب گمراہی ہیں اور جو لوگ ان پر عمل کرتے ہیں انھیں گمراہ کرنے والی ہیں ۔
ماہِ شعبان کے روزوں کے فضائل
ماہِ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کو چھوڑ کر باقی سب مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ اِس مہینے میں نیک اعمال اوپر اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپر اٹھائے جائیں ۔
تاہم یہ درست نہیں کہ شعبان کا مہینہ اُن چار مہینوں میں شمار کیا جائے جو حرمت والے مہینے کہلاتے ہیں اور جن میں جنگ و جدل اور کشت وخون حرام ہو جاتا ہے۔ تمام مفسرین ومحدثین علماء کا اتفاق ہے کہ یہ چار مہینے ذو القعدہ، ذو الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے ہیں ۔ شعبان کو کسی مفسر نے اِن چار مہینوں میں شمار نہیں کیا۔ اِس پورے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عبادت کا خاص طور پر اہتمام کیا وہ ہے روزہ اور اِس کا اہتمام بھی پورے مہینے میں کیا ، کسی ایک دن کے ساتھ اِس کو خاص نہیں کیا اور نہ ہی اِس مہینے کے کسی ایک دن کے روزے کی کوئی فضیلت بیان کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزے نہیں چھوڑتے ۔ پھر روزہ چھوڑتے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ نہیں رکھتے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی مہینے کے مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے رمضان المبارک کے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ
(( کَانَ أَحَبَّ الشُّہُوْرِ إِلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم أَنْ یَّصُوْمَہُ شَعْبَانُ،ثُمَّ یَصِلُہُ بِرَمَضَانَ ))
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزوں کیلئے سب سے محبوب مہینہ شعبان تھا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد رمضان کے روزے رکھتے ۔ ‘‘
اسی طرح ان کا بیان ہے کہ (( مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي الله عليه وسلم فِیْ شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِیْ شَعْبَانَ،کَانَ یَصُوْمُہُ إَِّلا قَلِیْلاً،بَلْ کَانَ یَصُوْمُہُ کُلَّہُ))
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ اس میں روزے رکھتے تھے سوائے چند ایام کے ۔ بلکہ آپ پورے مہینے میں ہی روزے رکھتے تھے ۔‘‘
جبکہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ:
(( مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ شَہْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ إِّلا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ ))
’’ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو مہینے مسلسل روزے کھتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے شعبان ورمضان کے ۔‘‘
شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کی حکمتحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو کسی مہینے میں اتنے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ذَاكَ شَہْرٌ تَغْفَلُ النَّاسُ فِیْہِ عَنْہُ بَیْنَ رَجَبَ وَرَمَضَانَ ، وَہُوَ شَہْرٌ تُرْفَعُ فِیْہِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَأُحِبُّ أَنْ یُّرْفَعَ عَمَلِیْ وَأَنَا صَائِمٌ ))
’’ یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ رجب اور رمضان کے درمیان روزے سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ اس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اوپر کو اٹھائے جائیں ۔‘‘
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ اِس ماہ میں کثرت سے روزے رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔
شبِ برات کے بارے میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے ؟
ماہِ شعبان کے روزوں کے فضائل جاننے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اِس ماہ کی پندرھویں رات کی کیا اہمیت ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جن دو چار راتوں کی فضیلت خاص طور پر بیان کی جاتی ہے اور اُس میں صحیح اور غلط کی تمیز نہیں کی جاتی اُن میں سے ایک شعبان کی پندرھویں رات بھی ہے جسے عام طور پر شبِ برات کہا جاتا ہے۔ اِس رات کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صحیح سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ
(( یَطَّلِعُ اللّٰہُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی إِلٰی خَلْقِہِ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ،فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہِ إِلَّا لِمُشْرِكٍ أَوْ مُشَاحِنٍ))
’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں را ت کو اپنی پوری مخلوق کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھتا ہے ، پھر مشرک اور کینہ پرور کے سوا باقی ساری مخلوق کی بخشش کر دیتا ہے۔ ‘‘
محدث العصر شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
( وَجُمْلَةُ الْقَولِ أَنَّ الْحَدِیْثَ بِمَجْمُوعِ ہَذِہِ الطُّرُقِ صَحِیْحٌ بِلاَ رَیْبٍ )
’’خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ان تمام طرق کے ساتھ بلا شک صحیح ہے۔ ‘‘
جبکہ دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:(( إِنَّ اللّٰہَ یَطَّلِعُ عَلٰی عِبَادِہٖ فِیْ لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ،فَیَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَیُمْلِیْ لِلْکَافِرِیْنَ،وَیَدَعُ أَہْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِہِمْ حَتّٰی یَدَعُوْہُ ))
’’ بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو اپنے بندوں پررحمت کی نظر ڈالتا ہے ، پھر مومنوں کو معاف کردیتا اور کافروں کو ڈھیل دے دیتا ہے اور کینہ پرور لوگوں کو چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے دلوں کوکینہ سے پاک کر دیں ۔‘‘
عزیزان گرامی!یہی وہ حدیث ہے جو شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں صحیح سند کے ساتھ روایت کی گئی ہے، اِسکے علاوہ جتنی احادیث عام طور پر بیان کی جاتی ہیںاور جنھیں اخبارات اور محفلوں کی زینت بنایا جاتا ہے وہ سب کی سب سندا انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ایسی خرافات سے پاک ہے ۔
شبِ برات کی نسبت سے جو کمزور اور من گھڑت حدیثیں عام طور پر بیان کی جاتی ہیں اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:
(۱) (( شَعْبَانُ شَہْرِیْ وَرَمَضَانُ شَہْرُ اللّٰہِ))
’’ شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا ۔ ‘‘ اسے البانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا ہے ۔
(۲) بیان کیا جاتا ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تھے ،آپ اچانک وہاں سے نکلے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پیچھے گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ آپ بقیع میں ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا : ’’ کیا تمھیں اِس بات کا اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم تم پر ظلم کریں گے ؟ ‘‘
انھوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ شک ہوا تھا کہ شاید آپ کسی اور بیوی کے ہاں چلے گئے ہیں ۔
تو آپ نے فرمایا :(( إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا،فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ ))
’’ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ شعبان کی پندھوریں رات کو آسمانِ دنیا پر آتا ہے ، پھر بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت کرتا ہے ۔ ‘‘
دیگر ائمہ کے علاوہ خود امام ترمذی نے بھی اِس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے بلکہ انھوں نے امام بخاری سے بھی نقل کیا ہے کہ وہ اسے ضعیف کہتے تھے۔
واضح رہے کہ قصۂ عائشہ رضی اللہ عنہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بقیع میں جانے اور اہل ِ بقیع کیلئے دعاء کرنے کے متعلق ہے وہ صحیح ہے اور صحیح مسلم وغیرہ میں تفصیلا موجود ہے لیکن اس میں شعبان کی پندرھویں رات کا کوئی ذکر نہیں۔ وہ مکمل واقعہ کچھ یوں ہے :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے پاس تھے ، آپ نے جو چادر اوڑھ رکھی تھی اسے اور اپنے جوتوں کو اتارا اور انھیں اپنے سر کے قریب رکھ دیا اور جو چادر آپ نے پہن رکھی تھی اس کا ایک کونہ آپ نے اپنے بستر پر بچھایا اور اس پر لیٹ گئے ۔ ابھی کچھ ہی دیر گذری تھی جس میں آپ نے یہ سمجھا کہ میں سو گئی ہوں ، آپ نے آہستہ سے اپنی چادر کو اٹھایا ،جوتا پہنا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔ پھر دروازہ آہستہ سے بند کردیا۔ میں اٹھی ، اپنی زرہ سر پر پہن لی، دوپٹہ اوڑھا اور اپنی چادر لپیٹ کر میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چل دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں پہنچے ، کافی دیر تک کھڑے رہے اور اِس دوران تین مرتبہ آپ نے اپنے ہاتھ (دعا کیلئے) بلند کئے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے تو میں بھی واپس پلٹی ، آپ تیز چلے تو میں بھی تیز تیز چلنے لگی ، پھر آپ ہلکے ہلکے دوڑے تو میں بھی ہلکا ہلکا دوڑنے لگی ، پھر آپ تیز دوڑے تو میں بھی تیز دوڑنے لگی ۔ میں آپ سے پہلے گھر میں داخل ہوئی اور ابھی میں لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی پہنچ گئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ عائشہ ! تمھیں کیا ہو گیا ہے ، سانس کیوں پھولا ہوا ہے ؟ ‘‘
میں نے کہا : کچھ نہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(( لَتُخْبِرِیْنِیْ أَوْ لَیُخْبِرَنِّی اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ ))
’’ یا تو تم خود ہی مجھے بتا دو یا پھر مجھے وہ اللہ بتا دے گا جو بڑا باریک بین اور نہایت باخبر ہے ۔‘‘
میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ بتا دیا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اچھا وہ تمھارا سایہ تھا جو میں نے اپنے سامنے دیکھا تھا ؟ ‘‘
میں نے کہا : جی ہاں ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر اپنی ہتھیلی کو اس طرح مارا کہ مجھے اس سے تکلیف محسوس ہوئی ۔ اس کے
بعد آپ نے فرمایا : (( أَظَنَنْتِ أَنْ یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْكَ وَرَسُوْلُہُ ))
’’ تمھارا خیال تھاکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر ظلم کریں گے ؟ ‘‘
میں نے ( دل میں ) کہا : لوگ چاہے جتنا چھپائیں اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے۔ ہاں واقعتا اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( فَإِنَّ جِبْرِیْلَ أَتَانِی حِیْنَ رَأَیْتِ،فَنَادَانِی فَأَخْفَاہُ مِنْكَ ، فَأَجَبْتُہُ،فَأَخْفَیْتُہُ مِنْكَ،وَلَمْ یَکُنْ یَدْخُلُ عَلَیْكَ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِیَابَكَ وَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِّ فَکَرِہْتُ أَنْ أُوْقِظَكَ، وَخَشِیْتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِی،فَقَالَ:إِنَّ رَبَّكَ یَأْمُرُكَ أَنْ تَأْتِیَ أَہْلَ الْبَقِیْعِ فَتَسْتَغْفِرَ لَہُمْ))
’’ جب تم نے دیکھا تو اس وقت میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے ۔ انھوں نے تم سے چھپاتے ہوئے آہستہ سے مجھے پکارا ، تو میں نے بھی تم سے چھپاتے ہوئے انھیں آہستہ سے جواب دیا اور وہ اِس حال میں اندر نہیں آ سکتے تھے کہ تم نے اپنے ( اضافی ) کپڑے اتارے ہوئے تھے۔میں نے یہ سمجھا تھا کہ تم سو گئی ہو اسلئے میں نے تمھیں جگانا پسند نہ کیا اور مجھے یہ خوف بھی تھا کہ کہیں تم میرے بغیر خوف ووحشت میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا:آپ کے رب کا حکم ہے کہ آپ اہلِ بقیع کے پاس آئیں اور ان کیلئے مغفرت کی دعا کریں ۔‘‘
میں (عائشہ رضی اللہ عنہا )نے کہا : میں ان کیلئے کیسے دعا کروں ؟
تو آپ نے فرمایا : تم یوں کہا کرو :
(( اَلسَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ،وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِیْنَ،وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُوْنَ))
لہٰذا ثابت ہوا کہ قصۂ بقیع کا شعبان کی پندرھویں رات سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا صحیح حدیث میں ذکر ہے ۔ اس لئے ایک ضعیف حدیث کو حجت بنا کر یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں کہ اِس رات یا اس سے اگلے روز قبرستان میں جانا مسنون ہے ۔
(۳) (( إِذَا کَانَ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَتَہَا وَصُوْمُوْا یَوْمَہَا ، فَإِنَّ اللّٰہَ یَنْزِلُ فِیْہَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ:أَلَا مُسْتَغْفِرٌ فَأَغْفِرَ لَہُ،أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَہُ،أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَہُ،ألَا سَائِلٌ فَاُعْطِیَہُ،أَلا کَذَا أَلاَ کَذَا،حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ ))
’’ جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو تم اس میں قیام کیا کرو اور اگلے روز کا روزہ رکھا کرو ، کیونکہ اُس رات کی شام سے ہی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر آکر فرماتا ہے : کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو معاف کردوں ؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو رزق دوں ؟ کیا کوئی بیمار ہے کہ میں اسے عافیت دے دوں ؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے دوں ؟ کیا کوئی ۔۔۔کیا کوئی ۔۔۔۔یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جائے۔‘‘
یہ حدیث بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔ اس کی بجائے وہ صحیح حدیث ذکر کرنی چاہئے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے کہ(یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الآخِرُ،فَیَقُوْلُ:مَنْ یَّدْعُوْنِیْ فَأَسْتَجِیْبَ لَہُ؟مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ)وفی روایة لمسلم:(فَلَا یَزَالُ کَذٰلِكَ حَتّٰی یُضِیْئَ الْفَجْرُ )
’’ ہمارا رب جو بابرکت اور بلند وبالا ہے ہر رات کا جب آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے ، پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی دعا کوقبول کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اسے عطا کروں ؟ اور کون ہے جو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں اسے معاف کر دوں؟ ‘‘ مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ ’’ پھر وہ بدستور اسی طرح رہتا ہے یہاں تک کہ فجر روشن ہو جائے ۔‘‘
اِس صحیح حدیث کے مطابق یہ فضیلت ہر رات نصیب ہو سکتی ہے ۔ لہٰذا اسے شعبان کی پندرھویں رات کے ساتھ خاص کرنا یقینا غلط اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا جھوٹ ہے ۔
(۴) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں انھوں نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرھویں رات میں چودہ رکعات پڑھیں ، اس کے بعد کچھ سورتوں کی تلاوت کی ، پھر فرمایا : ’’ جو شخص اس طرح کرے جیسا کہ میں نے کیا ہے تو اسے بیس مقبول حجوںاور بیس سال کے مقبول روزوں کا ثواب ملتا ہے ۔ ‘‘
ابن الجوزی اس حدیث کو ’’الموضوعات ‘‘ میں روایت کرنے کے بعدکہتے ہیں :
’’یہ حدیث بھی من گھڑت ہے اور اس کی سند نہایت تاریک ہے ۔‘‘
امام سیوطی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ یہ موضوع ( من گھڑت ) ہو ۔
(۵) الصلاۃ الألفیۃ یعنی وہ نماز جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا کہ
’’ جو شخص اس رات میں سو رکعات نماز اِس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ الاخلاص دس بار پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر حاجت پوری کر دیتا ہے ، اگر وہ لوح محفوظ میں بد بخت لکھا گیا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا کر اسے خوش نصیب لکھ دیتا ہے …اور اس کے آئندہ ایک سال کے گناہ نہیں لکھے جاتے ۔‘‘
’’ الموضوعات ‘‘ میں ابن الجوزی اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں :
’’ اس حدیث کے موضوع ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اِس کے زیادہ تر راوی مجہول ہیں بلکہ ان میں سے بعض تو بالکل ضعیف ہیں اور اِس طرح کی حدیث کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہونا نا ممکن ہے اور ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو یہ نماز پڑھتے ہیں ،جب چھوٹی راتیں ہوتی ہیں تو وہ اِس کے بعد سو جاتے ہیں اور ان کی فجر کی نماز بھی فوت ہو جاتی ہے ۔ جبکہ جاہل ائمۂ مساجد نے اِس نماز کو اور اسی طرح ’’صلاۃ الرغائب‘‘ کو لوگوں کو جمع کرنے اور کسی بڑے منصب تک پہنچنے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قصہ گو لوگ اپنی مجالس میں اسی نماز کا تذکرہ کرتے ہیں حالانکہ یہ سب حق سے بہت دور ہیں ۔ ‘‘
امام نووی کہتے ہیں کہ ’’ وہ نماز جو صلاۃ الرغائب کے نام سے معروف ہے اور جس کی بارہ رکعات رجب کی پہلی رات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہیں ، و ہ اور اسی طرح شعبان کی پندرھویں رات کی سو رکعات نماز یہ دونوں نمازیں بہت بری بدعت ہیں ۔ لہٰذا ’قوت القلوب‘ اور ’ احیاء علوم الدین ‘ میں ان کے تذکرہ سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے اور نہ ہی ان کے بارے میں روایت کی گئی حدیث سے دھوکہ کھانا چاہئے کیونکہ وہ پوری کی پوری باطل ہے ۔‘‘
اور امام شوکانی کہتے ہیں کہ(ہُوَ مَوضُوعٌ،وَفِی أَلْفَاظِہِ الْمُصَرَّحَةِ بِمَا یَنَالُہُ فَاعِلُہَا مِنَ الثَّوَابِ مَا لاَ یَمْتَرِیْ إِنْسَانٌ لَہُ تَمْیِیْزٌ فِی وَضْعِہِ،وَرِجَالُہُ مَجْہُولُونَ )
’’ یہ موضوع ہے اور اس کے بعض الفاظ جن میں اِس کے پڑھنے والے کو جو ثواب ملتا ہے اسکی تصریح کی گئی ہے، ان کے من گھڑت ہونے کے بارے میں کوئی سمجھ دار انسان شک نہیں کر سکتا اور اسکے راوی مجہول ہیں ۔ ‘‘
وہ مزید کہتے ہیں:
(وَقَدِ اغْتَرَّ بِہَا جَمَاعَةٌ مِنَ الْفُقَہَاءِ کَصَاحِبِ الإِحْیَاءِ وَغَیْرِہٖ وَکَذَا مِنَ الْمُفَسِّرِیْنَ وَقَد ْ رُوِیَتْ صَلَاۃُ ہَذِہِ اللَّیْلَةِ أَعْنِی لَیلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ عَلیٰ أَنْحَاءٍ مُخْتَلِفَةٍ کُلُّہَا بَاطِلَةٌ مَوضُوعَةٌ )
’’ فقہاء اور مفسرین کی ایک جماعت مثلا صاحبِ احیاء وغیرہ کو اِس حدیث سے دھوکہ لگا ہے حالانکہ شعبان کی پندرھویں رات کی نماز کے بارے میں جو حدیث مختلف طرق سے روایت کی گئی ہے وہ اپنے تمام طرق کے ساتھ باطل اور من گھڑت ہے ۔ ‘‘
جبکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ(لَمْ یَأْتِ بِہَا خَبَرٌ وَلَا أَثَرٌ إِلَّا ضَعِیْفٌ أَوْ مَوضُوعٌ،وَلَا تَغْتَرَّ بِذِکْرِ صَاحِبِ الْقُوتِ وَالإِحْیَاءِ وَغَیْرِہِمَا)
’’ اس نماز کے بارے میں ضعیف یا موضوع احادیث کے علاوہ کچھ بھی وارد نہیں ۔ اس لئے آپ کو اِس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ اسے قوت القلوب اور إحیاء علوم الدین کے مولفین وغیرہم نے ذکر کیا ہے ۔ ‘‘
نیز ملا علی قاری نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہ بدعت نماز پہلی مرتبہ ۴۴۸ میں بیت المقدس میں ایجاد کی گئی جب بعض آگ کے پجاری لوگ اسلام میں داخل ہوئے ۔ وہ جب مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتے تو اپنے سامنے آگ جلا لیا کرتے تھے ۔ یوں وہ مسلمانوں کو بھی راضی کر لیتے تھے اور اپنے توہمات اور باطل عقائد پر بھی عمل کرلیتے تھے اور انہی لوگوں نے ہی الصلاۃ الألفیۃکو ایجاد کیا تھا ، چنانچہ جب شعبان کی پندرھویں رات آتی تو وہ یہ نماز پڑھتے اور اپنے سامنے آگ جلا لیتے تھے۔اِس سے ان کا مقصود یہ ہوتا کہ رات کو زیادہ دیر تک وہ آگ کے سامنے تعظیما کھڑے رہیں۔اس کے علاوہ وہ لوگ اِس آگ کی آڑ میں بہت سی برائیوں کا ارتکاب بھی کرتے تھے حتی کہ اُس وقت کے اولیائے کرام کو یہ خوف ہوا کہ کہیں انھیں زمین کے اندر دھنسا نہ دیا جائے ۔اِس لئے وہ ان علاقوں سے دور چلے جاتے تھے جن میں اس بدعت پر عمل کیا جاتا تھا اور اس کی آڑ میں کئی محرمات کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔
نہایت دکھ کی بات ہے کہ جو نماز آگ کے پجاریوں نے پانچویں صدی میں ایجاد کی اور اس کی فضیلت میں جھوٹی احادیث بھی گھڑ ڈالیں آج مسلمان اسی نماز کا شعبان کی پندرھویں رات کو خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور پورے زور شور سے ان جھوٹی احادیث کو بیان کرتے ہیں !!
یہ اور اس قسم کی دیگر احادیث بالاتفاق ضعیف اور من گھڑت ہیں ۔ ائمۂ کرام مثلا شوکانی ، ابن الجوزی ، ابن حبان ، قرطبی، سیوطی وغیرھم نے ان روایات کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے۔ تفصیلات کیلئے الفوائد المجموعۃ،الموضوعات الکبری،تفسیر القرطبی، اللآلئی المصنوعۃوغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں ۔لہٰذا میدانِ دعوت کے کارکنوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اُن روایات کو بیان کرنے اور ان کی نشرواشاعت سے پرہیز کریں جو سندکے اعتبار سے ثابت نہ ہوں۔یقینی طور پر یہ حدیثِ نبوی کی بہت بڑی خدمت ہو گی اگر وہ کسی حدیث کو بیان کرنے سے پہلے اُس کی سند کے متعلق تحقیق کر لیں ، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ
(( مَنْ یَّقُلْ عَلَیَّ مَا لَمْ أَقُلْ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ ))
’’جس نے میری طرف وہ بات منسوب کی جو میں نے نہیں کہی ‘ اُسے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لینا چاہئے۔ ‘‘
شبِ برات میں کیا کرنا چاہئے ؟
اب سوال یہ ہے کہ جو حدیث شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں صحیح سند کے ساتھ آئی ہے اور وہ ہے: (’’اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں را ت کو اپنی پوری مخلوق کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھتا ہے ، پھر مشرک اور کینہ پرور کے سوا باقی ساری مخلوق کی بخشش کر دیتا ہے۔ ‘‘ )
کیا اِس میں کسی محفل کے جمانے کا ذکر ہے یا کسی خاص عبادت کا ؟ یا اس حدیث میں چراغاں اور آتش بازی کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ؟ اِس سوال کا درست جواب ہر وہ شخص دے سکتا ہے جو خرافات اور من گھڑت روایات پر اعتماد کرنے کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاف ستھری شریعت پر ایمان رکھتا ہو۔ چنانچہ اِس حدیث کا اگر بنظرِ انصاف مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس میں کسی محفل کا ذکر کیا ہے نہ کسی خاص عبادت کااور نہ چراغاں کی بات کی گئی ہے نہ آتش بازی کی ، بلکہ جس چیز کا ذکرکیا گیا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی عام مغفرت جس کا مستحق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے شخص کو قرار دیا جس کے عقیدے میں شرک کی ملاوٹ نہ ہو اور اُس کے دل میں کسی مسلمان کے متعلق ذاتی دشمنی کی بناء پر بغض وکینہ نہ ہو ۔ لہٰذا اِس رات کو ہونے والی عام بخشش کا مستحق بننے کیلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اپنا عقیدہ درست کرے ۔ نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھے ، مشکل کشا بھی صرف اللہ تعالیٰ کو تصور کرے ، بھروسہ اللہ پر ہی کرے، اپنی تمام تر امیدوں کا مرکز درباروں اور مزاروں کی بجائے صرف اللہ کو بنائے، خوف پیروں بزرگوں کی بجائے صرف اللہ سے ہو، نذرو نیاز اللہ کیلئے مانے اور اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو مدد کیلئے مت پکارے ۔۔۔۔۔ اِس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے متعلق اپنا دل صاف رکھے اور کسی سے حسد ، بغض اور کینہ نہ رکھے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کی نجات کیلئے انتہائی ضروری ہیں ۔ رہی بات چراغاں اور آتش بازی کرنے کی تو یہ محض فضول خرچی ہے جس سے ہمارے دین میں منع کیا گیا ہے ، اس لئے اس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔
نہایت افسوس کی بات ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر بیان کی کہ اللہ تعالیٰ مشرک اور کینہ پرور کی مغفرت نہیں کرتا اور باقی سب لوگوں کی مغفرت کردیتا ہے تو آج بہت سے لوگ اِس رات کو بطورِ خاص مناتے ہیں ، شبِ برات کی نسبت سے محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور ان میں اِس رات کے حوالے سے جھوٹی اور من گھڑت احادیث بیان کرنے کے علاوہ نعت خوان اور مقررین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرتے ہیں اور آپ کو مدد کیلئے پکارتے ہیں ۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کھلم کھلا شرک بھی کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید بھی رکھی جاتی ہے ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث کا عملی طور پر مذاق بھی اڑایا جاتا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اِس رات میں مشرک کی مغفرت نہیں کی جاتی اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی لگائی جاتی ہے کہ آج رات جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جائے گا !
کیسی ستم ظریفی ہے کہ شرک سے مکمل طور پر براء ت اور توبہ کرنے کی بجائے اُس کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے اور لوگوں کو اُس کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔
شب ِ برات مغفرت کی رات ہے تو پھر عبادت کیوں نہ کی جائے ؟
کوئی شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ جب آپ نے خود یہ ثابت کردیا کہ یہ رات مغفرت کی رات ہے تو پھر اِس میں خصوصی طور پر عبادت کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش ِ قدم پہ چلیں اور ہر عمل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں ۔ نیز یہ دیکھیں کہ کس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کونسی عبادت کی ؟ چنانچہ جب ہم احادیث اور سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رات میں خصوصی طور پر کسی عبادت کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رات خود خصوصی طور پر منائی اور نہ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی ترغیب دلائی ، لہٰذا جب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کا اہتمام نہیں کیا تو ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے ۔ جب آپ نے یہ رات نہیں منائی تو ہمیں بھی نہیں منانی چاہئے ۔
حافظ ابن رجب کہتے ہیں :
(قِیَامُ لَیْلَةِ النِّصْفِ لَمْ یَثْبُتْ فِیْہِ شَیْئٌ عَنِ النَّبِیِّ صلي الله عليه وسلم وَلَا عَنْ أَصْحَابِہِ)
’’ شعبان کی پندرھویں رات کے قیام کی فضیلت میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے ۔‘‘
اور امام ابو بکر طرطوشی نے زید بن اسلم سے ( جو ایک تابعی ہیں ) نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا:
(مَا أَدْرَکْنَا أَحَدًا مِنْ مَشْیَخَتِنَا وَلاَ فُقَہَائِنَا یَلْتَفِتُونَ إِلَی النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ،وَلاَ یَلْتَفِتُونَ إِلٰی حَدِیثِ مَکْحُولٍ،وَلاَ یَرَوْنَ لَہَا فَضْلاً عَلٰی مَا سِوَاہَا،وَقِیلَ لاِبْنِ أَبِی مُلَیکَةَ:إِنَّ زِیَادًا یَقُولُ:إِنَّ أَجْرَ لَیلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ کَأَجْرِ لَیلَةِ الْقَدْرِ،فَقَالَ:لَوْ سَمِعْتُہُ وَبِیَدِیْ عَصًا لَضَرَبْتُہُ)
’’ ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو شعبان کی پندرھویں رات کی طرف اور نہ ہی حدیث ِمکحول کی طرف التفات کرتے ہوئے دیکھا اور نہ ہی وہ اس رات کی دوسری راتوں پر فضیلت کے قائل تھے اور جب ابن ابی ملیکہ کو بتایا گیا کہ زیاد جو ایک قصہ گو تھا وہ لوگوں سے کہتا ہے کہ اِس رات کا اجر لیلۃ القدر کے اجر کے برابر ہے تو انھوں نے کہا : اگر میں اس سے یہ بات سن لوں اور میرے ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو میں اسے سزا دوں ۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات کی عبادت کی فضیلت میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے اور جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ سب جھوٹ اور من گھڑت ہے ۔
پھر ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرھویں رات کی جو فضیلت بیان کی کہ اس میں اللہ تعالیٰ بطور خاص اپنے بندوں کی طرف دیکھتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ باقی تمام بندوں کی مغفرت کردیتا ہے تو یہ فضیلت صرف اسی رات کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ یہ تو ہر سوموار اور جمعرات کے بارے میں بھی ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :(( تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَیَوْمَ الْخَمِیْسِ،فَیُغْفَرُ لِکُلِّ عَبْدٍ لاَ یُشْرِكَ بِاللّٰہِ شَیْئًا إِلاَّ رَجُلاً کَانَتْ بَیْنَہُ وَبَیْنَ أَخِیْہِ شَحْنَاءُ فَیُقَالُ:أَنْظِرُوْا ہَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا،أَنْظِرُوْا ہَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا،أَنْظِرُوْا ہَذَیْنِ حَتّٰی یَصْطَلِحَا ))
’’ہر پیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں ، پھر ہر اس آدمی کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو ، سوائے اُس آدمی کے جو اپنے بھائی سے بغض وعداوت رکھتا ہو ، چنانچہ ان دونوں کے بارے میں تین مرتبہ کہا جاتا ہے:ان کو مہلت دے دو یہاں تک کہ یہ صلح کر لیں ۔‘‘
لہٰذا شعبان کی پندرھویں رات میں مغفرت والی حدیث کو اِس بات کیلئے دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ اِس رات کو بطور خاص منایا جائے ، محفلیں منعقد کی جائیں اور خصوصی عبادت کی جائے ۔ ورنہ اگر اُس کو اِس سب کیلئے دلیل بنایا جا سکتا ہے تو پھر سوموار اور جمعرات کو بھی یہی فضیلت حاصل ہوتی ہے ، تو کیا شب ِ برات منانے والے ان دو دنوں کو بھی بطور خاص منائیں گے اور ان میں بھی محفلیں منعقد کریں گے ؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کی مغفرت فرمائے ۔ ہمیں حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور باطل سے بچنے اور اس سے پرہیز کرنے کی توفیق دے۔ آمین
دوسرا خطبہ
کیا شعبان کی پندرھویں رات فیصلوں کی رات ہے ؟
شبِ برات منانے والے لوگوں کا نظریہ ہے کہ یہ رات فیصلوں کی رات ہے ۔ ان کی دلیل یہ آیات مبارکہ ہیں:﴿إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ ﴿٣﴾ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ﴾
’’ یقینا ہم نے اِسے با برکت رات میں اتارا ہے ۔ بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ۔اس رات میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان میں ’’ با برکت رات ‘‘ کا ذکر آیا ہے جس میں قرآن مجید کو اتارا گیا اور جس میں سال بھر میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔تو دیکھنا یہ ہے کہ اِس رات سے کونسی رات مراد ہے ؟
اگر ہم اپنی منشاء کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کے بجائے خود قرآن مجید میں ہی اس کی تفسیر تلاش کریںتو اِس سوال کا جواب ہمیں مل جاتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾
’’بے شک ہم نے اِسے لیلۃ القدر میں اتارا ۔ ‘‘یعنی ’’ با برکت رات ‘‘ سے مراد لیلۃ القدر ہے جو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے اور اسی میں انسان کی زندگی ، موت ، رزق اور دیگر تمام حادثات ووقائع کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے ۔
’’ با برکت رات ‘‘ کی یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، قتادہ ، مجاہد، حسن وغیرھم نے کی ہے اور اِسی تفسیر کو جمہور مفسرین نے درست قرار دیا ہے ۔
امام ابو بکر ابن العربی کہتے ہیں:
’’جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ اِس رات سے مراد لیلۃ القدر ہے ۔ جبکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے اوریہ باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ﴾ ’’ وہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن کو اتارا گیا ‘‘ پھر اس نے ماہِ رمضان کی ایک رات ﴿لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ﴾ کو متعین کردیا کہ اس میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا ۔ لہٰذا جو شخص یہ دعوی کرے کہ ’ با برکت رات ‘ سے مراد کوئی اور رات ہے تو وہ اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھتا ہے اور شعبان کی پندرھویں رات کی فضیلت میں یا یہ کہ یہ رات فیصلوں کی رات ہے اِس کے متعلق جتنی حدیثیں آئی ہیں وہ سب کمزور ہیں ،لہٰذا ان کی طرف مت دیکھو۔ ‘‘
اور امام ابن کثیر کہتے ہیں : ’’ اِس بابرکت رات ‘ اور ’ فیصلوں والی رات ‘ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد شعبان کی پندرھویں رات ہے جیسا کہ عکرمہ سے یہ بات روایت کی گئی ہے تو اس کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ خود نصِ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان کے مہینے میں آتی ہے۔ ‘‘
لہٰذا شعبان کی پندرھویں رات کو فیصلوں کی رات قرار دینا بالکل غلط ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اطاعت وفرمانبرداری پر قائم رہنے اور اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق دے اور ہمارا خاتمہ توحید اور عمل صالح پر فرمائے ۔ آمین