مصارف زکوة کا بیان

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ۝۶﴾ (سوره توبه، آیت: 60)۔
ترجمہ: صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ تعالی کی راہ اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ تعالی کی طرف سے، اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔
تشریح:
اس آیت میں صدقات سے مراد زکوۃ ہے اور اس کے مستحقین فقیر مسکین، زکوۃ وصول کرنے والے، تالیف قلب، گردن چھڑانے، قرض دار اللہ کے راستے میں نکلنے والے اور مسافر لوگ ہیں جن کا ذ کر مختصر نیچے آرہا ہے۔
فقراء فقیر کی جمع ہے اس سے مراد و د لوگ ہیں جن کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ اس سے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی ضروریات زندگی یعنی خوراک، پانی بالباس و غیره پوری کر سکیں۔
مساکین مسکین کی جمع ہے۔ یہ بھی فقیر ہی جیسا ہوتا ہے، اور فقیر سے کہیں زیادہ محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے لیکن اپنی عزت نفس اور خودداری کی وجہ سے مشکل سے مشکل حالات میں بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ پھلانا گوارا نہیں کرتا اور نہ فقیروں جیسا بھیس بنا کر رکھتا ہے کہ لوگ اسے عاجز اور مجبور سمجھ کر از خود اس کی مدد کریں۔ آپ ﷺ نے مسکین کی وضاحت ایک حدیث میں فرمائی ہے کہ مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقمے یا کھجور کے لئے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے اور نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔
فقراء و مساکین کی فہرست میں دو طلباء و اساتذہ بھی آجاتے ہیں جو اپنے گھر بار اور کاروبار کو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ترک کئے ہوئے ہیں اور دو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے ہیں ان کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دینی وعلمی کتا بیں زکوۃ کے فنڈ سے خرید کر دی جا سکتی ہیں اور ان پر زکوۃ کا مال خرچ کیا جا سکتا ہے۔ عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ز کوۃ وصول کرنے یا اس کا حساب لکھنے پڑھنے اور اسے تقسیم کرنے پر مامور ہوں۔
مولفت القلوب: ایک تو وہ کافر مراد ہے جو کچھ کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر یہ امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا، دوسرے وہ نو مسلم بھی مراد ہیں جو ابھی اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے ہیں تاکہ اسلام ان کے دلوں میں پختہ ہو جائے، تیسرے امید ہو کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے مفید ثابت وہ اصحاب قلم مراد ہیں جن سے ام ہوں گے ایسے افراد پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنی جائز ہے اگر چہ وہ مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔
گردن آزاد کرانے میں، اس سے مراد مسلمان نام ہے جسے زکوۃ کے مال سے خرید کر آزاد کرایا جا سکتا ہے، یہ صورت پہلے زمانے میں تھی اب اس وقت ایسی صورت تو نہیں ہے لیکن اگر اس سے ملتی جلتی کوئی صورت پیدا ہو جائے جیسے کوئی مسلمان کہیں گرفتار ہو جائے تو زکوۃ کے فنڈ سے اسے چھڑایا جاسکتا ہے۔
غارمین سے مراد وہ مقروض اشخاص ہیں جو اپنے اہل وعیال کے نان و نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہو گئے ہوں، اب اس کے پاس نہ تو نقد روپیہ پیسہ ہے اور نہ ہی ایسا سامان ہے کہ جسے فروخت کر کے ان کے قرضوں کو ادا کر سکے۔ نیز اس میں دو افراد بھی شامل ہیں جو ضامن بنے ہوں لیکن جس کی ضمانت لی ہے وہ اپنے وعدہ سے پھر جائے یا پیسہ دینے سے انکار کر دے، یا کاروبار میں نقصان ہو جائے، یا ان پر نا گہانی آفت آپڑے تو ایسی صورت میں زکوۃ کی مد اور اس کے فنڈ سے ان کی مدد کرنی جائز ہے۔
فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں، اس سے مراد جہاد ہے یعنی جو بھی شخص جہاد میں شریک ہو چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہو، اسے زکوۃ کی رقم دینا جائز ہے۔ ابن سبیل سے مراد مسافر ہے جو اپنے شہر سے دور ہو، اس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اسے زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے چاہے وہ اپنے شہر میں صاحب حیثیت ہی کیوں نہ ہو۔
فوائد:
.
٭ زکوۃ کے مذکورہ آٹھ مصارف پر برابر برابر خرچ کرنا واجب نہیں ہے بلکہ ان مصارف میں حسب ضرورت خرچ کرنا چاہئے۔
٭ زکوۃ کومستحقین تک پہنچانا ضروری ہے۔
٭ زکوۃ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ دار کو دینا چاہئے۔
٭ والدین، اولاد اور بیوی کو زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں ہے کیونکہ ان کی کفالت آپ پر واجب ہے۔
٭٭٭٭